وزیرستان آپریشن کے متاثرین بے سروسامان
پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں فوج کی طرف سے باقاعدہ آپریشن کے آغاز کے بعد علاقے میں بدستور لاکھوں لوگ محصور ہیں جبکہ بے گھر افراد کے لیے تاحال کوئی باقاعدہ کیمپ بھی قائم نہیں کیا جا سکا ہے۔
شمالی وزیرستان سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق جمعہ کی شام سے علاقے میں کرفیو نافذ ہے جسکی وجہ سے لاکھوں افراد گھروں کے اندر محصور ہیں ۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے آپریشن کے اعلان کے ساتھ ہی مقامی باشندوں میں سخت تشویش کی لہر دوڑ گئی۔
شمالی وزیرستان میں گزشتہ ماہ ہونے والی فضائی کاروائیوں کے بعد مقامی لوگوں نے علاقے سے نقل مکانی کا سلسلہ شروع کیا تھا۔
بیشتر بے گھر افراد قبائلی علاقے سے متصل خیبر پختون خوا کے ضلع بنوں اور آس پاس کے شہروں کی طرف منتقل ہورہے ہیں۔
بنوں میں حکام کا کہنا ہے کہ اب تک کوئی ساٹھ ہزار کے لگ بھگ افراد گھر بار چھوڑ کر خواتین اور بچوں سمیت محفوظ مقامات پر پناہ لے چکے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ کشیدگی کے باعث کوئی چھ ہزار کے قریب افراد نے سرحد پار کر کے افغانستان کے صوبے خوست میں اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کے ہاں پناہ لی ہے تاہم لاکھوں افراد اب بھی علاقے میں پھنسے ہوئے ہیں۔
دوسری جانب حکومت کی طرف سے شمالی وزیرستان میں باقاعدہ فوجی کاروائی کا آغاز تو کر دیا گیا لیکن ابھی تک بے گھر ہونے والے افراد کے لیے کوئی باقاعدہ متاثرین کیمپ قائم نہیں کیا گیا ہے۔
علاقے کے مکینوں نے گذشتہ مہینے شروع ہونے والی بمباری کے بعد سے انخلا شروع کیا تھا۔
مقامی انتظامیہ کے مطابق ایف آر بکاخیل کے علاقے میں پناہ گزین کیمپ بنایا گیا ہے لیکن مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہاں بنیادی ضروریات کا شدید فقدان پایا جاتا ہے جسکی وجہ سے اس علاقے کی طرف ابھی تک ایک متاثرہ خاندان بھی نہیں جاسکا ہے۔
چند دن پہلے بنوں میں ایک اعلی سرکاری اہلکار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ فنڈر کی عدم دستیابی اور سہولیات کی کمی کے باعث متاثرین کیمپ میں کوئی نہیں جا رہا۔
اتوار کو فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں بھی دعویٰ کیا گیا کہ ایجنسی بھر سے لوگوں کی انخلاء کے لیے تمام تر انتظامات کر لیے گئے ہیں اور متاثرین کےلیے ایک کیمپ بھی بنایا گیا ہے۔ تاہم بیان میں یہ واضح نہیں کیا گیا ہے کہ کیمپ کس علاقے میں قائم کیا گیا ہے۔
اسی بھی اطلاعات ہیں کہ شمالی وزیرستان سے زیادہ تر غیر ملکی اور تحریک طالبان پاکستان کے جنگجو علاقہ چھوڑ کر پاک افغان سرحدی مقامات کی طرف منتقل ہو گئے ہیں۔
میرعلی سے بنوں پہنچنے والے متاثرین نے بی بی سی کو بتایا کہ بیشتر ازبک، چیچن، ترکمان اور اویغیر جنگجو ممکنہ آپریشن کے خوف سے علاقے سے نکل گئے ہیں۔
ان پناہ گزینوں کے لیے کسی قسم کے مناسب کیمپ کا انتظام ابھی تک نہیں کیا گیا ہے
انہوں نے بتایا کہ غیر ملکی شدت پسندوں گھروں کا تمام سامان مقامی لوگوں کو سستے داموں فروخت کر کے وہاں سے بیوی بچوں سمیت سرحدی علاقوں کی جانب منتقل ہو گئے ہیں۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حکومت کی طرف سے مقامی قبائل پر بھی دباؤ بڑھا جا رہا تھا کہ وہ غیر ملکی جنگجوؤں کو علاقے سے نکالنے کے لیے اپنا بھر پور کردار ادا کریں۔
تین سب ڈویژنوں اور نو چھوٹی چھوٹی تحصیلوں پر مشتمل شمالی وزیرستان کی کل آبادی پانچ سے سات لاکھ کے درمیان بتائی جاتی ہے۔
یہ علاقہ گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ سے ملکی اور غیر ملکی جنگجوؤں کا گڑھ رہا ہے اور شمالی وزیرستان میں 2000 سے غیر ملکی عسکریت پسندوں کا اثر رسوخ بڑھتا جا رہا ہے۔
اس ایجنسی میں اکثریتی عسکری تنطیمیں حکومت کی حامی رہی ہیں جنہیں عرفِ عام میں ’ اچھے’ طالبان کے نام سے جانا جاتا ہے۔
تاہم جنوبی وزیرستان میں چند سال پہلے ہونے والے فوجی آپریشن کے باعث زیادہ تر حکومت مخالف عسکریت پسند شمالی وزیرستان منتقل ہو گئے تھے جس کے بعد سے یہ گروپ مسلسل حکومت اور فوج کے لیے درد سر بنا رہا ہے۔
رفعت اللہ اورکزئی: پير 16 جون 2014