• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو برا کہنے والوں کو عمر بن عبدالعزیز نے کوڑے لگوائے یہ روایت ثابت ہے

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
أخبرتنا أم البهاء فاطمة بنت محمد قالت أنا أبو الفضل الرازي أنا جعفر بن عبد الله نا محمد بن هارون نا أبو كريب نا ابن المبارك عن محمد بن مسلم عن إبراهيم بن ميسرة قال ما رأيت عمر بن عبد العزيز ضرب إنسانا قط إلا إنسانا شتم معاوية فإنه ضربه أسواطا
تابعی ابراہیم بن میسرہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ عمربن عبدالعزیز نے کسی شخص کو مارا ھو سوائے ایک شخص کے جس نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو برابھلا کہا تو اس شخص کو عمر بن عبد العزيز رحمہ اللہ نے کوڑے مارے ۔ [ تاريخ دمشق ج ٥٩ ص ٢١١ ]

اس روایت کے ایک راوی محمد بن مسلم پر اعتراض کیا جاتا ہے ۔

محمد بن مسلم الطائفی حسن الحدیث راوی ہے

محمد بن مسلم الطائفی کی توثیق

1- امام یحیی ابن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ثقة
[ تاريخ يحيي بن معين رواية الدارمي رقم ٧٢١ ]

مزيد فرماتے ہیں : مُحَمَّد بن مُسلم الطَّائِفِي لم يكن بِهِ بَأْس
[ تاريخ يحيي بن معين رواية الدوري رقم ٣٠٤ ]

2- امام ابو داود رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ثقة
[ تهذيب التهذيب ج ٩ ص ٤٤٥ ]

مزید فرماتے ہیں : ليس بِهِ بأس
[ تهذيب الكمال ج ٢٦ ص ٤١٥ ]

3- امام عجلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ثقة
[ الثقات للعجلي رقم ١٥٠٣ ]

4- امام یعقوب بن سفیان الفسوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ثقة لا بأس به
[ المعرفة والتاريخ ج ١ ص ٤٣٥ ]

5- امام ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ الطَّائِفِيُّ وَمَيْسَرَةُ بْنُ عَمَّارٍ الْأَشْجَعِيُّ ثِقَتَانِ لَا بأس بهما جميعا
[ الاستذكار ج ٨ ص ٤٩٥ ]

6- امام بخاری نے اس راوی سے استشہاداً روایت لی ہے ۔ [ دیکھیں صحیح بخاری رقم ٢٧٣٨ ، ٣٨٦٩ ، ٧٢٣٩ ]

امام مزي رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
استشهد به البخاري
ان سے امام بخاری نے استشہاداً روایت لی ہے ۔ [ تهذيب الكمال ج ٢٦ ص ٤١٦ ]

عرض ہے کہ امام بخاری جس سے استشہاداً روایت لیں وہ راوی عام طور سے ثقہ ہوتا ہے ۔

امام محمد بن طاھر ابن القیسرانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
بل استشهد به في مواضع ليبين أنه ثقة
امام بخاری رحمہ اللہ نے ان سے ( حماد بن سلمہ سے ) صحیح بخاری میں کئی مقامات پر استشہاداً روایت کیا ہے یہ بتانے کے لئے کہ یہ ثقہ ہیں ۔ [ شروط الأئمة الستة ص ١٨ ]

7- امام ابن حبان رحمہ اللہ اس کو الثقات میں ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : كَانَ يخطىء
[ الثقات رقم ١٠٥٩٢ ]

عرض ہے کہ غلطیاں ثقہ رواة سے بھی ہوتی ہے اس لئے محض غلطی کرنے کی وجہ سے کسی کو ضعیف نہیں کہہ سکتے ۔ بلکہ ضعیف کہنے کے لئے ضروری ہے کہ راوی کی بکثرت غلطی ثابت ہو ۔

8- امام حاکم رحمہ اللہ کے نزدیک یہ راوی ثقہ ہے ۔ اس کی بیان کردہ ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں :
هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ
یہ حدیث کی سند صحیح ہے ۔ [ مستدرك حاكم رقم ٣٣١٨ ]
امام ذھبی اس کی تعلیق میں فرماتے ہیں : صحیح

9- امام ذھبی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ راوی حسن الحدیث ہے ، فرماتے ہیں :
فيه لين وقد وثق
یہ کمزور ہیں اور ان کی توثیق کی گئی ہے ۔ [ الكاشف رقم ٥١٥١ ]

اپنی دوسری کتاب من تكلم فيه وهو موثق میں فرماتے ہیں :
وثقه ابن معين وغيره وضعفه أحمد بن حنبل
[ من تكلم فيه وهو موثق رقم ٣١٥ ]

اسی کتاب کے مقدمہ میں امام ذھبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فهذا فصل نافع في معرفة ثقات الرواة الذين تكم فيهم بعض الأئمة بما لا يرد أخبارهم وفيهم بعض اللين وغيرهم أتقن منهم وأحفظ فهؤلاء حديثهم إن لم يكن في أعلى مراتب الصحيح فلا ينزل عن رتبة الحسن اللهم إلا أن يكون للرجل منهم أحاديث تستنكر عليه وهي التي تكلم فيه من أجلها فينبغي التوقف في هذه للأحاديث والله الموفق بمنه
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

"یہ ایک مفید بحث ہے، ثقہ رواة کی معرفت کے سلسلے میں جن کے متعلق بعض اماموں نے ایسا کلام(یعنی جرح) کیا ہے جس کی بنا پر ان سے مروی روایت رد نہیں کی جائیگی،اور ان میں بعض لیّن(کمزور) ہیں جبکہ کچھ کا حافظہ ان سے قوی ہے، تو یہ وہ لوگ ہیں جن کی روایت اگر صحت کے اعلی درجے تک نہیں پہنچ سکتی تو وہ حسن درجے سے کم بھی نہیں ہوسکتی، ہاں یہ اور بات ہے کہ ان میں سے بعض سے ایسی احادیث مروی ہوں جس سے ان پر نکارت کی جائے، تو یہی وہ مرویات ہیں جس کی وجہ سے لوگوں نے ان پر کلام کیا ہے، تو ان احادیث کے متعلق توقف اختیار کیا جائے گا.

10- امام دارقطنی رحمہ اللہ اس کی بیان کردہ ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں :
اسنادہ صالح ۔ [ اتهاف المهرة لابن حجر رقم ٣٠٢٣ ]

11 - امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وَهو صالح الحديث لا بأس به ولم أر له حديثا منكرا
اور وہ حدیث میں صالح ہے اس میں کوئی حرج نہیں تاہم میں نے اس کے حوالے سے کوئی منکر روایات نہیں دیکھی. [ الكامل ج ٧ ص ٢٩٦ ]

12- امام ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
صدوق يخطىء من حفظه [ تقريب التهذيب رقم ٦٢٩٣ ]

حفظ میں غلطی کرتا ہے اس کے باوجود امام ابن حجر رحمہ اللہ اس کو صدوق کہہ رہے ہیں ۔ معلوم ہوا ابن حجر کے نزدیک یہ راوی حسن الحدیث ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تحریر تقریب التھذیب کے مصنف شیخ بشار عواد معروف اور شیخ شعیب ارنؤوط رحمہ اللہ اس راوی کے بارے میں فرماتے ہیں :
صدوقٌ حسن الحديث
یہ صدوق اور حسن الحدیث راوی ہے ۔ [ تحرير تقريب التهذيب ج ٣ ص ٣١٧ ]

13- امام زکریا بن یحیی الساجی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
صدوق ، يهم في الحديث ، روى عن عمرو بن دينار حديثًا يحتج به
صدوق ہے ، حدیث میں وہم ہو جاتا ہے ، عمرو بن دینار سے روایت بیان کرتا ہے ، ان کی حدیث سے احتجاج کیا جائے گا ۔ [ تهذيب التهذيب ج ٩ ص ٤٤٥ ]

معلوم ہوا کہ امام یحیی الساجی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ راوی حسن الحدیث ہے ، اس کا وہم اتنا زیادہ نہیں تھا اسی لئے امام ساجی نے ثقہ کے درجہ سے گرا کر صدوق کے درجہ پر لا دیا اور فرمایا کہ ان کی حدیث سے احتجاج کیا جائے گا یہ اس بات کہ دلیل ہے کہ امام ساجی کے نزدیک یہ راوی حسن الحدیث ہے ۔

14- امام ابو عوانہ رحمہ اللہ محمد بن مسلم سے اپنی مستخرج میں روایت لی ہے ۔ [ مستخرج أبي عوانة رقم ٧٦٧ ، ٢٦٦٨ ، ٦٠٢٠ ]

15 - امام ابو نعیم الاصبھانی نے محمد بن مسلم الطائفی سے اپنی مستخرج میں روایت لی ہے ۔ [ المستخرج رقم ٨٢٣ ]

16- امام ضياء الدين المقدسى رحمہ اللہ نے محمد بن مسلم الطائفي سے اپنی مستخرج میں روایت لی ہے ۔ [ مستخرج رقم ٤٧ ، ٤٣ ، ٤٤ ]

عرض ہے کہ وہ محدثین جنھوں نے مستخرج لکھی ہے اس میں انھوں نے صحیح روایات درج کرنے کا اہتمام کیا ہے اس کتاب میں جو روایت بھی ہوگی وہ ان کے نزدیک صحیح ہوگی اور اس سے توثیق ضمنی اخذ ہوتی ہے۔

17- امام عبد الرحمن بن مھدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كتب محمد صحاح
محمد کی کتابیں صحیح ہیں ۔ [ تاريخ الكبير للبخاري رقم ۷۰۰ ]

18- امام علی بن مدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كان صالحا وسطا
نیک وسط تھا ۔ [ سؤالات ابن أبى شيبة رقم ١٧٤ ]

محمد بن مسلم الطائفي پر جرح

1- امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ليس بذلك القوي . [ سنن الكبري رقم ٥٩٦٧ ]

2- امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعیف [ المحلى ج ٨ ص ٣٤٣ ]

3- امام عقیلی رحمہ اللہ نے اس کو الضعفاء میں ذکر کیا ہے ۔ [ الضعفاء الكبير رقم ١٦٩٢ ]

4- امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
قال عبد الله بن أحمد : سمعت أبي يقول : محمد بن مسلم الطائفي ، ما أضعف حديثه ، وضعفه جدا.
وقال الميموني : ضعفه أحمد على كل حال ، من كتاب وغير كتاب . [ العلل ومعرفة الرجال عن أحمد ، رواية عبد الله ج ١ ص ١٨٩ ج ٢ ص ١٤٨ ]
[ الضعفاء الكبير رقم ١٦٩٢ ]

عرض ہے جمہور کی توثیق کے مقابلے میں یہ جرحیں نا قابل قبول ہیں ۔

محمد بن مسلم الطائفی پر امام یحیی بن معین رحمہ اللہ کے حوالے سے یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ جب حفظ سے روایت کرتا ہے تو غلطی کرتا ہے اور جب کتاب سے روایت کرے تو صحیح ہے ، لہذا یہ جرح مفسر ہے ۔امام یحیی بن معین رحمہ اللہ کے الفاظ ملاحظہ ہوں فرماتے ہیں :
إِذا حدث من حفظه يَقُول كَأَنَّهُ يخطىء وَكَانَ إِذا حدث من كِتَابه فَلَيْسَ بِهِ بَأْس ۔ [ تاريخ ابن معين رواية الدوري رقم ٣٠٤ ]

عرض ہے کہ امام یحیی بن معین رحمہ اللہ نے یہاں یہ نہیں کہا کہ حفظ سے روایت کرے تو ضعیف ہے بلکہ یہ کہا کہ "کانه یخطی " اس سے یہ بات قطعاً ثابت نہیں ہوتی کہ یہ راوی ضعیف ۔ کیونکہ حفظ پر کلام ابن حجر و زکریا بن یحیی الساجی رحمہم اللہ نے بھی کیا ہے ۔ (دیکھیں توثیق کے ضمن میں ) ۔۔ اس کے باوجود انھوں نے اس راوی کو حسن الحدیث مانا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ امام یحیی بن معین رحمہ اللہ اس راوی کے حفظ پر کلام کرنے کے باوجود فرماتے ہیں :
لم يكن بِهِ بَأْس
[ تاريخ يحيي بن معين رواية الدوري رقم ٣٠٤ ]

مزید فرماتے ہیں : ثقة
[ تاريخ يحيي بن معين رواية الدارمي رقم ٧٢١ ]

امام یحیی بن معین رحمہ اللہ کے اس قول سے بھی یہ بات روز و روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ ان کے نزدیک یہ راوی ثقہ حسن الحدیث ہے ، فرماتے ہیں :
سئل يحيى بن معين وأنا أسمع: أيما أثبت في عمرو بن دينار: ابن عيينة أو محمد بن مسلم؟ فقال: «ابن عيينة أثبت في عمرو من محمد بن مسلم، ومن داود العطار، ومن حماد بن زيد. وسفيان أكثر حديثاً منهم عن عمرو وأسند» ، قيل: فابن جريج؟ قال: «جميعاً ثقة» ، كأنه سوى بينهما في عمرو.
ابن معین سے پوچھا گیا : اور میں نے سنا : کون عمرو بن دینار سے بہتر روایت کرتا ہے۔ ابن عیینہ یا محمد بن مسلم ۔ تو ابن معين نے کہا : ابن عیینہ عمرو سے بہتر روایت کرتے ہیں محمد بن مسلم سے۔ اور داود عطار، حماد بن زید اور سفیان ان میں سے اکثر نے عمرو سے روایت کی ہوئی ہے ۔
کہا ابن جریج ؟ تو ابن معین نے کہا سارے ہی ثقہ ہیں ان میں عمرو کے حوالہ سے فرق نہیں کیا جا سکتا ۔ [ سؤالات ابن الجنيد رقم ١٧٠ ]

یہی وجہ ہے کہ کسی محدث نے امام یحیی بن معین رحمہ اللہ کے حوالے سے یہ نہیں کہا کہ امام یحیی بن معین رحمہ اللہ کے نزدیک اس راوی کی وہی روایت قبول ہے جو اس نے کتاب سے بیان کی ہے یا کسی نے امام يحيي کے حوالے سے یہ کہہ کر ان کی روایت ترک کی ہو کہ انھوں نے اپنے حفظ سے بیان کیا ہے اسی لئے یہ روایت قبول نہیں ۔ اگر کسی نے کہا ہے تو حوالہ درکار ہے ۔

مزید یہ کہ محدثین نے امام یحیی بن معین رحمہ اللہ کے حوالے سے بالجزم اس راوی کو ثقہ کہا ہے ۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ ابن معین کے نزدیک یہ راوی ضعیف ہے۔

امام ذھبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وثقه ابن معين . [ من تكلم فيه وهو موثق رقم ٣١٥ ]

امام ضیاء الدین مقدسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَقَدْ وَثَّقَهُ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ ۔ [ الأحاديث المختارة ج ١٠ ص ٥٤ ]

ثابت ہوا کہ یہ راوی حسن الحدیث ہے ۔ واللہ اعلم

 
Top