نکاح ام حبیبہ رضی اللہ عنہا، صحیح مسلم کی ایک ضعیف روایت؟
تحریر: ابوالوفا محمد حماد اثری
امام مسلم رحمہ اللہ اپنی صحیح میں روایت لائے ہیں کہ
'' مسلمان سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھتے تک نہیں تھے، تو ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے نبی کریمﷺ سے عرض کیا ،یا نبی اللہﷺ!تین انعام مجھ پہ کیجئے، میری حسن و جمال کا مرقع دختر حبیبہ کو اپنےنکاح میں لے لیجئے، رسول اللہﷺ نے فرمایا : درست ، معاویہ رضی اللہ عنہ کو اپنا کاتب بنا لیجئے، فرمایا :جی ٹھیک ہے، عرض کیا ،مجھے امیر لشکر بنا دیجئےتاکہ میں کفار سے اسی طرح قتال کروں، جس طرح مسلمانوں سے کیا تھا۔فرمایا : درست ہے۔
(صحیح مسلم : 2501)
یہ روایت سند و متن کے لحاظ سے بالکل صحیح ہے، اسی لئے اما م رحمہ اللہ اسے اپنی صحیح میں لائے ہیں، بعض احباب کی طرف سے مگر اس کے متن پر چند حوالوں سے اعتراضات کئے گئے ہیں، مثلا تاریخی حقائق کے خلا ف ہے، دوسری احادیث کے خلاف ہے وغیرہ، انہیں کا جائزہ ذیل میں ہم لیں گے۔
تاریخ نکاح
پہلا اعتراض اس پر یہ ہے کہ سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا نکاح تو 6 ہجری میں ہوچکا تھا، تو ابو سفیان رضی اللہ نے جب کہ ام حبیبہ کا نکاح ہو چکا تھا، کیسے کہہ دیا کہ آپ اسے نکاح میں لے لیجئے ۔؟
یاد رکھئے کہ یہ اعتراض اولا ،حافظ ابن حزم رحمہ اللہ نے اٹھایا تھا اور اسی کو بنیاد بنا کر انہوں نے اس حدیث کو موضوع قرار دے دیا، بعد کے علماءبھی اتفاق سے اس اعتراض کو درست تسلم کر کے، اپنے تئیں اس کا جواب دیتے رہے ہیں، جیسے حافظ نووی و ابن صلاح نے کیا ہے۔ حالاں کہ یہ ابن حزم رحمہ اللہ کی واضح خطا تھی۔
بعد والے بعض علماء نے ابن حزم رحمہ اللہ سے اختلاف تو کیا مگر وہ ان کی اصل خطا کو سمجھ نہ پائے، اسی لئے کوئی اطمینان بخش جواب بھی دینے سے قاصر رہے۔( اللہ ان پر رحم فرمائے)
6 یا 7ہجری میں نکاح ؟
ہمارا کہنا ہے کہ اس حدیث پر اٹھایا جانے والا اعتراض کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا نکاح 6 یا 7ہجری میں ہو چکا تھا۔ہی خطا اور خطا در خطاہے۔
7 ہجری کا بیان ، ان دو ائمہ کی طرف منسوب ہے۔
(1)
عاصم بن عمر بن قتادہ، رحمہ اللہ (م: بعد 120ھ)
(الطبقات الکبری لابن سعد، 8/78)
اس کی سند ضعیف ہے، محمد بن عمر الواقدی مشہورمتروک راوی اس میں موجود ہے، لہذا اس کی سند پر اعتبار ممکن ہی نہیں۔
اگر کوئی بضد ہو کہ تاریخ میں ان جیسوں کی بات مان لی جاتی ہے تو یہ بھی مان لیجئے ، تفسیر ابن عباس رضی اللہ عنہما (ص، 467)جس کے راوی واقدی وغیرہ ہی ہیں، میں لکھا ہے۔
تزَوج النبى صلى الله عَلَيْهِ وَسلم عَام فتح مَكَّة أم حَبِيبَة بنت أبي سُفْيَان فَهَذَا كَانَ صلَة بَينهم وَبَين رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم '
'' رسول اللہ ﷺ نے سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فتح مکہ کے سال کیا۔''
(2)
عبد اللہ بن ابی بکر بن حزم(م:135ھ)کی طرف بھی یہی بات منسوب ہے، (حوالہ سابقہ)
اس میں بھی واقدی موجود ہے، لہذا اس پر اعتبا ر نہیں ہو سکتا۔
6 ہجری
امام ابن مندہ(م:470)
(المستَخرجُ من كُتب النَّاس للتَّذكرة والمستطرف من أحوال الرِّجال للمعرفة
،1/54)
ان کے ساتھ ساتھ ابن کثیر رحمہ اللہ نےخلیفہ ، ابوعبید اللہ معمر بن مثنی اور ابن البرقی کی طرف منسوب کیا ہے کہ انہوں نے یہ تاریخ بیان کی ہے۔
ہمارے کرم فرماوں کا کہنا ہے کہ مذکورہ ائمہ کی بتائی ہوئی نکاح کی یہ تاریخ ہی حتمی ہے، یہ تاریخی حقیقت ہے۔
گزارش فقیر :
لیکن ہم کہتے ہیں اس کے تاریخی حقیقت ہونے کا دعوی بہت بڑی خطا ہے،بعض ائمہ کا بیان تاریخی حقیقت کسی صورت بھی نہیں کہلا سکتا، خصوصا اس صورت میں جب اس کے مخالف آراء بھی موجود ہوں۔
فتحہ مکہ کے بعد نکاح والی تاریخی آراء
ذیل میں ہم ان تاریخی آراء کا ذکر کر رہے جن کے مطابق سیدہ کا نکاح فتحہ مکہ کے بعد ہوا ہے اور یہی درست ہے۔
امام مقاتل بن سلیمان(م:150ھ)
امام صاحب لکھتے ہیں :
فلما أسلم أهل مكة خالطهم المسلمون وناكحوهم، وتزوج النبي- صلى الله عليه وسلم- أم حبيبة بنت أبي سفيان فهذه المودة التي ذكر الله- تعالى
''جب اہل مکہ ایمان لاچکے ، ان کے دوسرے مسلمانوں سے نکاح ہونے لگے اور نبی کریمﷺ نے ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا۔
(تفسیر مقاتل بن سلیمان 4/302)
الوجيز للواحدي (ص: 1089)کے مطابق نبی کریمﷺ نے سیدہ ام حبیبہ سے نکاح فتحہ مکہ کے بعد کیا تھا۔
میں بھی مذکور ہے۔(5/ 416)کچھ ایسی ہی بات تفسیر سمعانی
معانی القرآن واعرابہ للزجاج (م:311)(5/157)
کا مفاد بھی یہی ہے کہ سیدہ سے نکاح نبی کریمﷺ کا فتحہ مکہ کے بعد ہوا۔
مورخ ابوجعفر بغدادی(م: 245ھ) لکھتے ہیں :
فبعث رسول الله صلى الله عليه عمرو بن أمية الضمري إلى الحبشة، فزوجه إياها. وكان ذلك حين افتتح مكة وقد كان نزل عليه «عَسَى الله أَنْ يَجْعَلَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ الَّذِينَ عادَيْتُمْ مِنْهُمْ مَوَدَّةً [1] » 60:
''رسول اللہﷺ نے عمرو بن امیہ ضمری کو حبشہ کی طرف بھیجا ، پھر سیدہ ام حبیبہ سے نکاح ہوا،یہ اس وقت کی بات ہے جب مکہ فتحہ ہو چکا تھا اور یہ آیت نازل ہوچکی تھی(«عَسَى الله أَنْ يَجْعَلَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ الَّذِينَ عادَيْتُمْ مِنْهُمْ مَوَدَّةً » 60:
مذکورہ بحث سے معلوم ہوا کہ جہاں نکاح میں 6یا 7 ہجری کی روایات موجود ہیں، وہیں فتحہ مکہ کے بعد کی روایات بھی موجود ہیں، تو بلا کسی دلیل کے 6یا 7 ہجری میں نکاح کو تاریخی حقیقت باور کروانا کہاں کی دانشمندی ہے؟
ایک اور اعتراض
بعض احبا ب اس پر ایک حدیث پیش کرتے ہیں، جس میں ہے کہ سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہ سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے ملنے آئے تو انہوں نے اپنے باپ کے نیچے سے بستر کھینچ لیا کہ وہ اسے مشرک جانتی تھیں۔
(الطبقات الکبری8/99)
لیکن اس کی سند ضعیف ہے :
1محمد بن عمر واقدی متروک ہے۔
2یہ حدیث مرسل ہے، یعنی اس کی سند سفیان ثوری تک ہے۔
لہذا یہ اعتراض بھی اپنے منطقی انجام (ناقابل قبول ہونا) کو پہنچا۔
اعتراض :
نبی کریمﷺ کو اور نکاح سے منع کر دیا گیا تھا؟
جواب :
پھر اجازت بھی دے دی گئی تھی، نبی کریمﷺ فوت ہوئے تو یہ اجازت موجود تھی(سنن النسائی :11351، وسندہ صحیح )
لہذا آپ کے اعتراض میں اور بہت سے جھول ہونے باوجود ہم اتنا ہی کہتے ہیں، کہ اگر ممانعت کے بعد ہوا ہے تو اس وقت ہوا ہے، جب آپﷺ کو دوبارہ اجازت مل چکی تھی۔
بعض اعتراضات ان احباب کے جذباتی نوعیت کے ہیں، لہذا ان کا جواب دینے کی کوئی خاص ضرورت ہم محسوس نہیں کرتے ۔
بات صاف ہے کہ اللہ نے نبی کریمﷺ اور ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے درمیان محبت کی تین تدبیریں کروائیں، نکاح ام حبیبہ رضی اللہ عنہا، امارت ابو سفیان رضی اللہ عنہ اور سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو کاتب بنانا۔
رہا راوی ابو زمیل کا بیان کہ سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ یہ بات نہ کرتے تو آپﷺ یہ سب کچھ نہ کرتے۔
تو یہ ابو زمیل کا ذاتی خیال ہے، اور ویسے بھی یہ بحث کرنا فضول ہے کہ اگر یوں ہوتا تو یوں ہوتا، ہم امر واقعہ سے بحث کرتے ہیں، وہ یہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ پہ یہ انعام کئے ہیں۔
اس میں گھرانہ ابو سفیان کی توہین نہیں بلکہ عظمت پر دلالت ہے، نبی کریمﷺ چاہتے تھے کہ لوگ ابو سفیان رضی اللہ عنہ سے محبت کرنے لگیں، اسی باعث تو یہ تین کام کئے آپ نے۔
ہم اپنے پیارے معترضین سے گزارش کریں گے کہ یا تو کوئی ایسی صحیح روایت لائیے جس سے ثابت ہو سکے کہ سیدہ کا نکاح 6 ہجری میں ہوا، ورنہ حدیث کو ٹھکرانے کی بجائے حدیث کو مان لینے کی روش اپنا لیجئے۔