محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قرآن مجید میں اس کا نام ’’ سبع مثانی‘‘ ہے۔ احادیث میں فاتحہ، کا فیہ، ام الکتاب اور کنز وغیرہ کے ناموں سے موسوم ہے ۔ اس لیے کہ نماز میں اسے بار بار پڑھا جاتا ہے ۔ ’’ سبع مثانی‘‘ ہے ۔ اس لیے کہ قرآن حکیم کی ابتدا اس سے ہوتی ہے ۔ ’’ فاتحہ‘‘ ہے۔ اس لیے کہ معارف کا گنج گراں مایہ اس میں پوشیدہ ہے ۔ ’’کنز‘‘ کہلاتی ہے۔ اس لیے کہ تمام اساسی وضروری اصول اس میں مذکور ہیںام الکتاب یا کافیہ کے نام سے یاد کی جاتی ہے۔یہ سارے قرآن ذی شان کا عطر سمجھیے۔ تمام باتیں بالاجمال اس میں آگئی ہیں:
(الف) رب کائنات کی حمد وستائش جس کی رحمتیں وسیع اور ہمہ گیر ہیںجو فیصلے کے دن کا تنہا مالک ہے۔
(ب) ایک خدا کی پرستش کا اعتراف اور ہرکام میں اسی سے استعانت کا اقرار۔
(ج) صراط مستقیم یا جادئہ ہدایت کی طلب جس پر چل کر تمام برگزیدہ لوگوں نے انعام حاصل کیے اور جس سے ہٹ کر چاہ غضب وضلالت میں گرگیے۔ اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺنے فرمایا: یہ قرآن میں عظیم ترین سورۃ ہے ۔
(د) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ جو حبرامت اور پہلے مفسر قرآن صحابی ہیں، فرماتے ہیں:’’ فاتحہ میں دوثلث تقریباً آجاتے ہیں۔ یعنی دو تہائی مضامین۔‘‘
۱؎ بسم اللہ سے قرآن کا آغاز ہوتا ہے اور یہ ہرنوع کے آغاز کے لیے اس درجہ موزوں ہے کہ بسم اللہ کے معنی ہی آغاز یا شروع کے ہوگیے ۔ حدیث شریف میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہکل امر ذی بال لم یبدأ باسم اللہ فھو ابتر۔ یعنی’’ ہرکام کا آغاز بسم اللہ سے ہو‘‘ ورنہ ناکامی ہوگی۔ اس کا فلسفہ یہ ہے کہ ہرکام میں مندرجہ ذیل امور کا خیال رکھاجائے جو بسم اللہ میں بتائے گیے ہیں۔ بسم اللہ ایک پیغام عمل ہے جسے غلطی سے ایک فسوں سمجھ لیا گیا ہے۔
(۱) کام کا مقصد نیک ہو اللہ کی رضا اس میں مستتر ہو۔(۲) خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے قانون کے ماتحت شروع کیاجائے یعنی بتدریج استقلال اور ر جاکو ہاتھ سے دیاجائے ۔(۳) مایوسی اور قنوط طبیعت پر نہ چھاجائے۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ رحمن ورحیم ہے وہ کسی طرح بھی ہمارے نیک اعمال ضائع ہونے نہیں دیتا۔ یہ سہ گانہ اصول ہیں جو بسم اللہ میں بتائے گیے۔ ظاہر ہے انھیں ہروقت ملحوظ رکھنا ہرکام میں کامیابی حاصل کرنے کے مترادف ہے ۔