محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
ایک دیا اور بجھا
انا للہ وانا الیہ راجعون
استاذ القراء حضرت قاری ادریس عاصم صاحب بھی اللہ کے حضور پیش ہو گئے۔ آگ کے سبب شیخ محترم بری طرح جھلس گئے تھے، ایسی وفات شہادت شمار ہوتی ہے
️کالم - علامہ ابتسام الہی ظہیر
دنیا میں جو بھی آیا ہے اُس کو ایک دن یہاں سے کوچ کرنا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ قصص کی آیت نمبر 88میں ارشاد فرماتے ہیں:
''ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے مگر اُس کا چہرہ (یعنی ذات) اُسی کے لیے ہے حکم (فرمانروائی) اور اُسی کی طرف تم سب لوٹائے جاؤ گے‘‘۔
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سور ہ رحمن کی آیات 26 تا 27میں ارشاد فرمایا:
''ہر ایک جو اس (زمین) پر ہے فنا ہونے والا ہے اور باقی رہے گا آپ کے رب کا چہرہ (جو) صاحبِ جلال اور عزت والا ہے‘‘۔
ان آیاتِ مبارکہ پر غور کرنے کے بعد یہ بات مزید واضح ہو جاتی ہے کہ دنیا میں کسی کو بقا نہیں‘ ہر شخص نے ایک دن یہاں سے چلے جانا ہے؛ چنانچہ اگر ہم اپنے گردو پیش پر نگاہ ڈالیں تو ہمارے بزرگ رشتے داروں میں سے بہت سے آج اس دنیا میں نہیں رہے اور کئی گھروں میں جوا ن اموات بھی ہوتی رہتی ہیں۔ یہ دنیا دار الفنا ہے اور حقیقی زندگی آخرت کی زندگی ہے۔ جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ بڑی بڑی صلاحیت رکھنے والے نیک، مؤثر اور مفید لوگ بھی دنیا سے کوچ کر گئے۔ اسی طرح جبر، استبداد اور ظلم کے ذریعے لوگوں کے استحصال کرنے والے لوگ بھی اس دنیا میں نہیں رہے۔ جبر، استبداد اور ظلم وبربریت کی داستانوں کو رقم کرنے والے لوگ ہمیشہ کے لیے قصہ ٔ پارینہ بن گئے اور اچھے اعمال کرنے والے لوگ اپنے اعمال کی وجہ سے لوگوں کی عقیدت، احترام اور محبت کامرکز بنے رہے۔ تاریخ کے مطالعے نے ہمیں یہ سبق سکھلایا کہ انسان اپنی بدکرداری کے ذریعے ہمیشہ کے لیے تاریخ کے صفحات کو سیاہ کرتا اور لوگوں کے اذہان وقلوب پر منفی اثرات چھوڑتا ہے جبکہ مثبت کردار ادا کرنے والے لوگ ہمیشہ کے لیے امر ہوجاتے اور تاریخ کو اپنے کردار وعمل کے ساتھ روشن کر جاتے ہیں۔
بعض لوگوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے دین کی خدمت کے لیے چنا ہوتا ہے۔ ایسے لوگ یقینا زمین پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی نشانی کی حیثیت سے زندگی گزارتے ہیں۔ بہت سے لوگوں نے تاریخ کو اپنے کردار اور عمل سے اس انداز سے روشن کیا کہ ان کی جلائی ہوئی شمعوں سے لوگ مدتِ مدید تک فیض یاب ہوتے رہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام کا کردار اس اعتبار سے یقینالافانی ہے کہ انہوں نے تاریخ کو اپنے بے مثال کردار کے ذریعے زندہ وتابندہ کر دیا اور ایسی زندگیوں کو بسر کیاکہ جن کا تصور عام انسان اس دنیا میں رہتے ہوئے کر ہی نہیں سکتا۔ انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی اس اعتبار سے ایک بلند پایہ جمعیت کی حیثیت رکھتے ہیں کہ انہوں نے بھی اپنے کردار وعمل سے تاریخ انسانی کو ضیا بخشی اور بعد میں آنے والی نسلیں ان کے کردار وعمل سے رہنمائی حاصل کرتی رہیں۔ حضراتِ صحابہ کرامؓ کے بعد آئمہ دین اور محدثین نے بھی خدمتِ دین کے اعتبار سے اپنے آپ کو وقف کیے رکھا اور بہت سی ممتاز ہستیوں کے کردار وعمل کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس انداز میں شرف قبولیت عطا فرمایا کہ ان کا نام ہی خدمتِ دین کی علامت بن گیا۔
حضرت امام بخاریؒ کا نامِ نامی اس اعتبار سے ایک ممتاز مثال ہے کہ آپ نے خدمتِ حدیث کے لیے اپنے آپ کو وقف کیے رکھا اور نبی کریمﷺ کے فرمودات کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے غیر معمولی کردار ادا کیا۔ حضرت امام بخاریؒ کی جدوجہد اور کاوشوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس انداز میں شرف قبولیت سے نوازا اور دوام عطا کیا کہ آج دنیا بھر میں حضرت امام بخاریؒ کی کتاب ''صحیح بخاری‘‘ کو لوگ بڑے ہی عقیدت واحترام اور یقین کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ جو شخص بھی صحیح بخاری کا مطالعہ کرتا ہے اس کو اس حوالے سے شرحِ صدر حاصل ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسی کتاب کا مطالعہ کر رہا ہے جس میں کوئی بھی ضعیف حدیث موجود نہیں بلکہ اس میں صرف اور صرف نبی کریمﷺ کے ثقہ فرمودات مذکور ہیں۔ حضرت امام بخاریؒ کی اس کتاب کے ساتھ ساتھ صحیح مسلم اور صحا حِ ستہ کی دیگر کتابوں کو بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے شرفِ قبولیت سے نوازا اور لوگ ان کتب سے رسول اللہﷺ کے فرمودات کے حوالے سے آگاہی اور شعور کو حاصل کرتے رہے۔ ہر دور میں شیوخ الحدیث اور محدثین کی ایک کثیر تعداد کتبِ احادیث کی نشرواشاعت کا فریضہ انجام دیتی رہی اور دین کے طلبہ ان لوگوں کے سامنے زانوئے تلمذ کو تہ کرتے رہے۔ برصغیر میں بھی بہت بڑے بڑے محدثین گزرے جن میں حضرت شاہ ولی اللہؒ کا نامِ نامی سرفہرست ہے۔ آپؒ نے اللہ کے فضل وکرم سے خدمتِ حدیث کے حوالے سے غیر معمولی شہرت حاصل کی۔
آپؒ کے بعد سید نذیر حسین محدث دہلویؒ کو یہ اعزاز حاصل ہوا۔ آپؒ نے بھی خدمتِ حدیث کے حوالے سے اپنے آپ کو وقف کیے رکھا اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی شمع کو فروزاں فرماتے رہے۔ سید نذیر حسین محدث دہلویؒ کے تلامذہ برصغیر کے طول وعرض میں پھیلے اور انہوں نے خدمتِ دین اور خدمتِ حدیث کے فریضے کو غیر معمولی انداز میں انجام دیا۔ محدثین کرام کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بہت زیادہ شرفِ قبولیت سے نوازا اور ان کی فکری، ذہنی اور روحانی اعتبار سے اس انداز میں تائید فرمائی کہ وہ مثالی زندگی گزار کر اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے اور لوگ ان کی تعلیمات سے فیض یاب ہوتے رہے۔
برصغیر میں جن لوگوں نے خدمتِ حدیث کا فریضہ انجام دیا وہ تمام کے تمام لوگ یقینا ہر اعتبار سے قابلِ قدر ہیں اور ان لوگوں کی جتنی بھی تعریف کی جائے‘ کم ہے۔ انہی میں سے ایک عظیم شخصیت مفتی عبیداللہ عفیف صاحب کی تھی۔ مفتی عبید اللہ عفیفؒ مدتِ مدید تک حدیث شریف کے دروس دیتے رہے۔ آپؒ نے بلند پایہ اساتذہ سے درسِ حدیث حاصل کیا۔ آپؒ کے اساتذہ میں حافظ محمد گوندلویؒ کا نامِ نامی سرفہرست ہے‘ جن کو حدیث شریف کے ساتھ غیر معمولی شغف تھا۔ آپ نے 70 سال تک صحیح بخاری کی تدریس کی اور آپؒ کے شاگرد برصغیر کے طول وعرض میں پھیلے اور انہوں نے بھی خدمتِ حدیث کے فریضے کو انجام دیا۔
مفتی عبیداللہ عفیفؒ ایک بلند پایہ شیخ الحدیث تھے اور لوگ آپ سے علمِ حدیث حاصل کرنے کے لیے قرب وجوار سے تشریف لاتے۔ آپ پانچ عشروں تک درسِ حدیث دیتے رہے اور لوگ اس حوالے سے آپ سے رہنمائی حاصل کرتے رہے۔ مفتی عبیداللہ عفیف کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے دیگر بہت سی صلاحیتوں کے ساتھ بھی نوازا تھا۔ علم فقہ پر آپ کی غیر معمولی دسترس تھی اور لوگ آپ کے فتاویٰ سے رہنمائی حاصل کرتے اور اپنی علمی اور روحانی تشنگی کو دور کرتے۔ مجھے مفتی عبید اللہ عفیفؒ کو کافی قریب سے دیکھنے کاموقع ملا اور جمعیت اہل حدیث کے امیر ہونے کے ناتے آپ کی امارت میں بھی کام کرنے کا موقع ملا۔ میں نے مفتی صاحب کو ہر اعتبار سے باعمل اور غیرت مند انسان پایا۔ آپ جہاں علمِ حدیث کی نشرواشاعت کا فریضہ انجام دیتے‘ وہیں پاسداریٔ حق کا فریضہ انجام دینے سے بھی کبھی گریز نہ کرتے۔ جس بات کو حق سمجھتے‘ ببانگِ دہل کہہ دیا کرتے تھے۔ مجھ سے بے مثال محبت کیا کرتے تھے۔ آپ کی طبیعت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک خاص طرح کے جلال کو پیداکیا تھا اور بہت سے علماء کرام آپ کے جلال سے متاثر ہو جایا کرتے تھے۔ طبعی جلال کے باوجود آپ نے مجھ سے ہمیشہ پیار اور محبت والا معاملہ کیا۔ کئی مرتبہ جب آپ جلال میں ہوتے‘ میں آپ کے سامنے جاتا تو آپ کے چہرے پر تبسم آجایا کرتا تھا۔ مفتی عبیداللہ عفیف نے اپنے علمی قدوقامت سے جہاں تشنگانِ علم کو بہت زیادہ فائدہ پہنچایا‘ وہیں اس علم کے ذریعے مادیت کو حاصل کرنے سے بھی گریز کیا۔ آپ ہمیشہ خلوت میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے ذکر واذکار میں مصروف رہے۔ آپ کی زندگی اور لباس میں بہت زیادہ سادگی پائی جاتی تھی اور آپ للہیت کی ایک عظیم الشان تصویر تھے۔ آپ کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا کہ آپ اُن لوگوں میں شامل ہیں جن کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے دین کی خدمت کے لیے چن لیا ہو۔
مفتی عبید اللہ عفیف درس حدیث اور مسند ِفتاویٰ نشیں رہے اور پاسداریٔ حق کے فریضے کو نہایت احسن طریقے سے انجام دیتے رہے۔ مفتی صاحب کچھ عرصے سے علیل تھے۔ آپ کو مختلف طرح کے امراض لاحق تھے لیکن آپ ان تمام امراض اور علالت کو بڑی خندہ پیشانی سے برداشت کر رہے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو صبر و ہمت اور استقامت کے عظیم الشان اوصاف سے نوازا تھا۔ آپ نے بیماری کے دوران تکالیف کو بڑی توانائی اور صبر سے برداشت کیا اور گزشتہ بدھ اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ آپ کا اس دنیائے فانی سے کوچ کرنا یقیناایک بہت بڑا صدمے کا سبب تھا اور ہر شخص نے آپ کی رحلت پر زبردست دھچکے کو محسوس کیا۔ آپ کی نماز جنازہ شیخ الحدیث حافظ مسعود عالم صاحب نے پڑھائی جس میں ہزاروں کی تعداد میں دین سے محبت کرنے والے لوگ شریک ہوئے اور بعدازاں سمندری‘ جو آپ کا آبائی گاؤں ہے‘ وہا ں لے جا کر بھی آپ کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔ ان جنازوں میں مفتی عبیداللہ عفیف کے لیے دردِ دل سے ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعائیں کی گئیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ مفتی عبیداللہ عفیف کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات کو بلند فرمائے اور ان کے لواحقین اور چاہنے والوں کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ہم سب کو حدیث شریف سے محبت کرنے والے اس عظیم الشان بزرگ کی سیرت وکردار سے رہنمائی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین !
انا للہ وانا الیہ راجعون
استاذ القراء حضرت قاری ادریس عاصم صاحب بھی اللہ کے حضور پیش ہو گئے۔ آگ کے سبب شیخ محترم بری طرح جھلس گئے تھے، ایسی وفات شہادت شمار ہوتی ہے
️کالم - علامہ ابتسام الہی ظہیر
دنیا میں جو بھی آیا ہے اُس کو ایک دن یہاں سے کوچ کرنا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ قصص کی آیت نمبر 88میں ارشاد فرماتے ہیں:
''ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے مگر اُس کا چہرہ (یعنی ذات) اُسی کے لیے ہے حکم (فرمانروائی) اور اُسی کی طرف تم سب لوٹائے جاؤ گے‘‘۔
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سور ہ رحمن کی آیات 26 تا 27میں ارشاد فرمایا:
''ہر ایک جو اس (زمین) پر ہے فنا ہونے والا ہے اور باقی رہے گا آپ کے رب کا چہرہ (جو) صاحبِ جلال اور عزت والا ہے‘‘۔
ان آیاتِ مبارکہ پر غور کرنے کے بعد یہ بات مزید واضح ہو جاتی ہے کہ دنیا میں کسی کو بقا نہیں‘ ہر شخص نے ایک دن یہاں سے چلے جانا ہے؛ چنانچہ اگر ہم اپنے گردو پیش پر نگاہ ڈالیں تو ہمارے بزرگ رشتے داروں میں سے بہت سے آج اس دنیا میں نہیں رہے اور کئی گھروں میں جوا ن اموات بھی ہوتی رہتی ہیں۔ یہ دنیا دار الفنا ہے اور حقیقی زندگی آخرت کی زندگی ہے۔ جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ بڑی بڑی صلاحیت رکھنے والے نیک، مؤثر اور مفید لوگ بھی دنیا سے کوچ کر گئے۔ اسی طرح جبر، استبداد اور ظلم کے ذریعے لوگوں کے استحصال کرنے والے لوگ بھی اس دنیا میں نہیں رہے۔ جبر، استبداد اور ظلم وبربریت کی داستانوں کو رقم کرنے والے لوگ ہمیشہ کے لیے قصہ ٔ پارینہ بن گئے اور اچھے اعمال کرنے والے لوگ اپنے اعمال کی وجہ سے لوگوں کی عقیدت، احترام اور محبت کامرکز بنے رہے۔ تاریخ کے مطالعے نے ہمیں یہ سبق سکھلایا کہ انسان اپنی بدکرداری کے ذریعے ہمیشہ کے لیے تاریخ کے صفحات کو سیاہ کرتا اور لوگوں کے اذہان وقلوب پر منفی اثرات چھوڑتا ہے جبکہ مثبت کردار ادا کرنے والے لوگ ہمیشہ کے لیے امر ہوجاتے اور تاریخ کو اپنے کردار وعمل کے ساتھ روشن کر جاتے ہیں۔
بعض لوگوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے دین کی خدمت کے لیے چنا ہوتا ہے۔ ایسے لوگ یقینا زمین پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی نشانی کی حیثیت سے زندگی گزارتے ہیں۔ بہت سے لوگوں نے تاریخ کو اپنے کردار اور عمل سے اس انداز سے روشن کیا کہ ان کی جلائی ہوئی شمعوں سے لوگ مدتِ مدید تک فیض یاب ہوتے رہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام کا کردار اس اعتبار سے یقینالافانی ہے کہ انہوں نے تاریخ کو اپنے بے مثال کردار کے ذریعے زندہ وتابندہ کر دیا اور ایسی زندگیوں کو بسر کیاکہ جن کا تصور عام انسان اس دنیا میں رہتے ہوئے کر ہی نہیں سکتا۔ انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی اس اعتبار سے ایک بلند پایہ جمعیت کی حیثیت رکھتے ہیں کہ انہوں نے بھی اپنے کردار وعمل سے تاریخ انسانی کو ضیا بخشی اور بعد میں آنے والی نسلیں ان کے کردار وعمل سے رہنمائی حاصل کرتی رہیں۔ حضراتِ صحابہ کرامؓ کے بعد آئمہ دین اور محدثین نے بھی خدمتِ دین کے اعتبار سے اپنے آپ کو وقف کیے رکھا اور بہت سی ممتاز ہستیوں کے کردار وعمل کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس انداز میں شرف قبولیت عطا فرمایا کہ ان کا نام ہی خدمتِ دین کی علامت بن گیا۔
حضرت امام بخاریؒ کا نامِ نامی اس اعتبار سے ایک ممتاز مثال ہے کہ آپ نے خدمتِ حدیث کے لیے اپنے آپ کو وقف کیے رکھا اور نبی کریمﷺ کے فرمودات کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے غیر معمولی کردار ادا کیا۔ حضرت امام بخاریؒ کی جدوجہد اور کاوشوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس انداز میں شرف قبولیت سے نوازا اور دوام عطا کیا کہ آج دنیا بھر میں حضرت امام بخاریؒ کی کتاب ''صحیح بخاری‘‘ کو لوگ بڑے ہی عقیدت واحترام اور یقین کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ جو شخص بھی صحیح بخاری کا مطالعہ کرتا ہے اس کو اس حوالے سے شرحِ صدر حاصل ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسی کتاب کا مطالعہ کر رہا ہے جس میں کوئی بھی ضعیف حدیث موجود نہیں بلکہ اس میں صرف اور صرف نبی کریمﷺ کے ثقہ فرمودات مذکور ہیں۔ حضرت امام بخاریؒ کی اس کتاب کے ساتھ ساتھ صحیح مسلم اور صحا حِ ستہ کی دیگر کتابوں کو بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے شرفِ قبولیت سے نوازا اور لوگ ان کتب سے رسول اللہﷺ کے فرمودات کے حوالے سے آگاہی اور شعور کو حاصل کرتے رہے۔ ہر دور میں شیوخ الحدیث اور محدثین کی ایک کثیر تعداد کتبِ احادیث کی نشرواشاعت کا فریضہ انجام دیتی رہی اور دین کے طلبہ ان لوگوں کے سامنے زانوئے تلمذ کو تہ کرتے رہے۔ برصغیر میں بھی بہت بڑے بڑے محدثین گزرے جن میں حضرت شاہ ولی اللہؒ کا نامِ نامی سرفہرست ہے۔ آپؒ نے اللہ کے فضل وکرم سے خدمتِ حدیث کے حوالے سے غیر معمولی شہرت حاصل کی۔
آپؒ کے بعد سید نذیر حسین محدث دہلویؒ کو یہ اعزاز حاصل ہوا۔ آپؒ نے بھی خدمتِ حدیث کے حوالے سے اپنے آپ کو وقف کیے رکھا اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی شمع کو فروزاں فرماتے رہے۔ سید نذیر حسین محدث دہلویؒ کے تلامذہ برصغیر کے طول وعرض میں پھیلے اور انہوں نے خدمتِ دین اور خدمتِ حدیث کے فریضے کو غیر معمولی انداز میں انجام دیا۔ محدثین کرام کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بہت زیادہ شرفِ قبولیت سے نوازا اور ان کی فکری، ذہنی اور روحانی اعتبار سے اس انداز میں تائید فرمائی کہ وہ مثالی زندگی گزار کر اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے اور لوگ ان کی تعلیمات سے فیض یاب ہوتے رہے۔
برصغیر میں جن لوگوں نے خدمتِ حدیث کا فریضہ انجام دیا وہ تمام کے تمام لوگ یقینا ہر اعتبار سے قابلِ قدر ہیں اور ان لوگوں کی جتنی بھی تعریف کی جائے‘ کم ہے۔ انہی میں سے ایک عظیم شخصیت مفتی عبیداللہ عفیف صاحب کی تھی۔ مفتی عبید اللہ عفیفؒ مدتِ مدید تک حدیث شریف کے دروس دیتے رہے۔ آپؒ نے بلند پایہ اساتذہ سے درسِ حدیث حاصل کیا۔ آپؒ کے اساتذہ میں حافظ محمد گوندلویؒ کا نامِ نامی سرفہرست ہے‘ جن کو حدیث شریف کے ساتھ غیر معمولی شغف تھا۔ آپ نے 70 سال تک صحیح بخاری کی تدریس کی اور آپؒ کے شاگرد برصغیر کے طول وعرض میں پھیلے اور انہوں نے بھی خدمتِ حدیث کے فریضے کو انجام دیا۔
مفتی عبیداللہ عفیفؒ ایک بلند پایہ شیخ الحدیث تھے اور لوگ آپ سے علمِ حدیث حاصل کرنے کے لیے قرب وجوار سے تشریف لاتے۔ آپ پانچ عشروں تک درسِ حدیث دیتے رہے اور لوگ اس حوالے سے آپ سے رہنمائی حاصل کرتے رہے۔ مفتی عبیداللہ عفیف کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے دیگر بہت سی صلاحیتوں کے ساتھ بھی نوازا تھا۔ علم فقہ پر آپ کی غیر معمولی دسترس تھی اور لوگ آپ کے فتاویٰ سے رہنمائی حاصل کرتے اور اپنی علمی اور روحانی تشنگی کو دور کرتے۔ مجھے مفتی عبید اللہ عفیفؒ کو کافی قریب سے دیکھنے کاموقع ملا اور جمعیت اہل حدیث کے امیر ہونے کے ناتے آپ کی امارت میں بھی کام کرنے کا موقع ملا۔ میں نے مفتی صاحب کو ہر اعتبار سے باعمل اور غیرت مند انسان پایا۔ آپ جہاں علمِ حدیث کی نشرواشاعت کا فریضہ انجام دیتے‘ وہیں پاسداریٔ حق کا فریضہ انجام دینے سے بھی کبھی گریز نہ کرتے۔ جس بات کو حق سمجھتے‘ ببانگِ دہل کہہ دیا کرتے تھے۔ مجھ سے بے مثال محبت کیا کرتے تھے۔ آپ کی طبیعت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک خاص طرح کے جلال کو پیداکیا تھا اور بہت سے علماء کرام آپ کے جلال سے متاثر ہو جایا کرتے تھے۔ طبعی جلال کے باوجود آپ نے مجھ سے ہمیشہ پیار اور محبت والا معاملہ کیا۔ کئی مرتبہ جب آپ جلال میں ہوتے‘ میں آپ کے سامنے جاتا تو آپ کے چہرے پر تبسم آجایا کرتا تھا۔ مفتی عبیداللہ عفیف نے اپنے علمی قدوقامت سے جہاں تشنگانِ علم کو بہت زیادہ فائدہ پہنچایا‘ وہیں اس علم کے ذریعے مادیت کو حاصل کرنے سے بھی گریز کیا۔ آپ ہمیشہ خلوت میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے ذکر واذکار میں مصروف رہے۔ آپ کی زندگی اور لباس میں بہت زیادہ سادگی پائی جاتی تھی اور آپ للہیت کی ایک عظیم الشان تصویر تھے۔ آپ کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا کہ آپ اُن لوگوں میں شامل ہیں جن کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے دین کی خدمت کے لیے چن لیا ہو۔
مفتی عبید اللہ عفیف درس حدیث اور مسند ِفتاویٰ نشیں رہے اور پاسداریٔ حق کے فریضے کو نہایت احسن طریقے سے انجام دیتے رہے۔ مفتی صاحب کچھ عرصے سے علیل تھے۔ آپ کو مختلف طرح کے امراض لاحق تھے لیکن آپ ان تمام امراض اور علالت کو بڑی خندہ پیشانی سے برداشت کر رہے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو صبر و ہمت اور استقامت کے عظیم الشان اوصاف سے نوازا تھا۔ آپ نے بیماری کے دوران تکالیف کو بڑی توانائی اور صبر سے برداشت کیا اور گزشتہ بدھ اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ آپ کا اس دنیائے فانی سے کوچ کرنا یقیناایک بہت بڑا صدمے کا سبب تھا اور ہر شخص نے آپ کی رحلت پر زبردست دھچکے کو محسوس کیا۔ آپ کی نماز جنازہ شیخ الحدیث حافظ مسعود عالم صاحب نے پڑھائی جس میں ہزاروں کی تعداد میں دین سے محبت کرنے والے لوگ شریک ہوئے اور بعدازاں سمندری‘ جو آپ کا آبائی گاؤں ہے‘ وہا ں لے جا کر بھی آپ کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔ ان جنازوں میں مفتی عبیداللہ عفیف کے لیے دردِ دل سے ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعائیں کی گئیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ مفتی عبیداللہ عفیف کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات کو بلند فرمائے اور ان کے لواحقین اور چاہنے والوں کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ہم سب کو حدیث شریف سے محبت کرنے والے اس عظیم الشان بزرگ کی سیرت وکردار سے رہنمائی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین !
Last edited: