• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انا للہ وانا الیہ راجعون استاذ القراء حضرت قاری ادریس عاصم صاحب بھی اللہ کے حضور پیش ہو گئے۔

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
ایک دیا اور بجھا
انا للہ وانا الیہ راجعون
استاذ القراء حضرت قاری ادریس عاصم صاحب بھی اللہ کے حضور پیش ہو گئے۔ آگ کے سبب شیخ محترم بری طرح جھلس گئے تھے، ایسی وفات شہادت شمار ہوتی ہے


️کالم - علامہ ابتسام الہی ظہیر

دنیا میں جو بھی آیا ہے اُس کو ایک دن یہاں سے کوچ کرنا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ قصص کی آیت نمبر 88میں ارشاد فرماتے ہیں:
''ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے مگر اُس کا چہرہ (یعنی ذات) اُسی کے لیے ہے حکم (فرمانروائی) اور اُسی کی طرف تم سب لوٹائے جاؤ گے‘‘۔

اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سور ہ رحمن کی آیات 26 تا 27میں ارشاد فرمایا:

''ہر ایک جو اس (زمین) پر ہے فنا ہونے والا ہے اور باقی رہے گا آپ کے رب کا چہرہ (جو) صاحبِ جلال اور عزت والا ہے‘‘۔

ان آیاتِ مبارکہ پر غور کرنے کے بعد یہ بات مزید واضح ہو جاتی ہے کہ دنیا میں کسی کو بقا نہیں‘ ہر شخص نے ایک دن یہاں سے چلے جانا ہے؛ چنانچہ اگر ہم اپنے گردو پیش پر نگاہ ڈالیں تو ہمارے بزرگ رشتے داروں میں سے بہت سے آج اس دنیا میں نہیں رہے اور کئی گھروں میں جوا ن اموات بھی ہوتی رہتی ہیں۔ یہ دنیا دار الفنا ہے اور حقیقی زندگی آخرت کی زندگی ہے۔ جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ بڑی بڑی صلاحیت رکھنے والے نیک، مؤثر اور مفید لوگ بھی دنیا سے کوچ کر گئے۔ اسی طرح جبر، استبداد اور ظلم کے ذریعے لوگوں کے استحصال کرنے والے لوگ بھی اس دنیا میں نہیں رہے۔ جبر، استبداد اور ظلم وبربریت کی داستانوں کو رقم کرنے والے لوگ ہمیشہ کے لیے قصہ ٔ پارینہ بن گئے اور اچھے اعمال کرنے والے لوگ اپنے اعمال کی وجہ سے لوگوں کی عقیدت، احترام اور محبت کامرکز بنے رہے۔ تاریخ کے مطالعے نے ہمیں یہ سبق سکھلایا کہ انسان اپنی بدکرداری کے ذریعے ہمیشہ کے لیے تاریخ کے صفحات کو سیاہ کرتا اور لوگوں کے اذہان وقلوب پر منفی اثرات چھوڑتا ہے جبکہ مثبت کردار ادا کرنے والے لوگ ہمیشہ کے لیے امر ہوجاتے اور تاریخ کو اپنے کردار وعمل کے ساتھ روشن کر جاتے ہیں۔

بعض لوگوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے دین کی خدمت کے لیے چنا ہوتا ہے۔ ایسے لوگ یقینا زمین پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی نشانی کی حیثیت سے زندگی گزارتے ہیں۔ بہت سے لوگوں نے تاریخ کو اپنے کردار اور عمل سے اس انداز سے روشن کیا کہ ان کی جلائی ہوئی شمعوں سے لوگ مدتِ مدید تک فیض یاب ہوتے رہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام کا کردار اس اعتبار سے یقینالافانی ہے کہ انہوں نے تاریخ کو اپنے بے مثال کردار کے ذریعے زندہ وتابندہ کر دیا اور ایسی زندگیوں کو بسر کیاکہ جن کا تصور عام انسان اس دنیا میں رہتے ہوئے کر ہی نہیں سکتا۔ انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی اس اعتبار سے ایک بلند پایہ جمعیت کی حیثیت رکھتے ہیں کہ انہوں نے بھی اپنے کردار وعمل سے تاریخ انسانی کو ضیا بخشی اور بعد میں آنے والی نسلیں ان کے کردار وعمل سے رہنمائی حاصل کرتی رہیں۔ حضراتِ صحابہ کرامؓ کے بعد آئمہ دین اور محدثین نے بھی خدمتِ دین کے اعتبار سے اپنے آپ کو وقف کیے رکھا اور بہت سی ممتاز ہستیوں کے کردار وعمل کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس انداز میں شرف قبولیت عطا فرمایا کہ ان کا نام ہی خدمتِ دین کی علامت بن گیا۔
حضرت امام بخاریؒ کا نامِ نامی اس اعتبار سے ایک ممتاز مثال ہے کہ آپ نے خدمتِ حدیث کے لیے اپنے آپ کو وقف کیے رکھا اور نبی کریمﷺ کے فرمودات کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے غیر معمولی کردار ادا کیا۔ حضرت امام بخاریؒ کی جدوجہد اور کاوشوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس انداز میں شرف قبولیت سے نوازا اور دوام عطا کیا کہ آج دنیا بھر میں حضرت امام بخاریؒ کی کتاب ''صحیح بخاری‘‘ کو لوگ بڑے ہی عقیدت واحترام اور یقین کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ جو شخص بھی صحیح بخاری کا مطالعہ کرتا ہے اس کو اس حوالے سے شرحِ صدر حاصل ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسی کتاب کا مطالعہ کر رہا ہے جس میں کوئی بھی ضعیف حدیث موجود نہیں بلکہ اس میں صرف اور صرف نبی کریمﷺ کے ثقہ فرمودات مذکور ہیں۔ حضرت امام بخاریؒ کی اس کتاب کے ساتھ ساتھ صحیح مسلم اور صحا حِ ستہ کی دیگر کتابوں کو بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے شرفِ قبولیت سے نوازا اور لوگ ان کتب سے رسول اللہﷺ کے فرمودات کے حوالے سے آگاہی اور شعور کو حاصل کرتے رہے۔ ہر دور میں شیوخ الحدیث اور محدثین کی ایک کثیر تعداد کتبِ احادیث کی نشرواشاعت کا فریضہ انجام دیتی رہی اور دین کے طلبہ ان لوگوں کے سامنے زانوئے تلمذ کو تہ کرتے رہے۔ برصغیر میں بھی بہت بڑے بڑے محدثین گزرے جن میں حضرت شاہ ولی اللہؒ کا نامِ نامی سرفہرست ہے۔ آپؒ نے اللہ کے فضل وکرم سے خدمتِ حدیث کے حوالے سے غیر معمولی شہرت حاصل کی۔
آپؒ کے بعد سید نذیر حسین محدث دہلویؒ کو یہ اعزاز حاصل ہوا۔ آپؒ نے بھی خدمتِ حدیث کے حوالے سے اپنے آپ کو وقف کیے رکھا اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی شمع کو فروزاں فرماتے رہے۔ سید نذیر حسین محدث دہلویؒ کے تلامذہ برصغیر کے طول وعرض میں پھیلے اور انہوں نے خدمتِ دین اور خدمتِ حدیث کے فریضے کو غیر معمولی انداز میں انجام دیا۔ محدثین کرام کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بہت زیادہ شرفِ قبولیت سے نوازا اور ان کی فکری، ذہنی اور روحانی اعتبار سے اس انداز میں تائید فرمائی کہ وہ مثالی زندگی گزار کر اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے اور لوگ ان کی تعلیمات سے فیض یاب ہوتے رہے۔

برصغیر میں جن لوگوں نے خدمتِ حدیث کا فریضہ انجام دیا وہ تمام کے تمام لوگ یقینا ہر اعتبار سے قابلِ قدر ہیں اور ان لوگوں کی جتنی بھی تعریف کی جائے‘ کم ہے۔ انہی میں سے ایک عظیم شخصیت مفتی عبیداللہ عفیف صاحب کی تھی۔ مفتی عبید اللہ عفیفؒ مدتِ مدید تک حدیث شریف کے دروس دیتے رہے۔ آپؒ نے بلند پایہ اساتذہ سے درسِ حدیث حاصل کیا۔ آپؒ کے اساتذہ میں حافظ محمد گوندلویؒ کا نامِ نامی سرفہرست ہے‘ جن کو حدیث شریف کے ساتھ غیر معمولی شغف تھا۔ آپ نے 70 سال تک صحیح بخاری کی تدریس کی اور آپؒ کے شاگرد برصغیر کے طول وعرض میں پھیلے اور انہوں نے بھی خدمتِ حدیث کے فریضے کو انجام دیا۔
مفتی عبیداللہ عفیفؒ ایک بلند پایہ شیخ الحدیث تھے اور لوگ آپ سے علمِ حدیث حاصل کرنے کے لیے قرب وجوار سے تشریف لاتے۔ آپ پانچ عشروں تک درسِ حدیث دیتے رہے اور لوگ اس حوالے سے آپ سے رہنمائی حاصل کرتے رہے۔ مفتی عبیداللہ عفیف کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے دیگر بہت سی صلاحیتوں کے ساتھ بھی نوازا تھا۔ علم فقہ پر آپ کی غیر معمولی دسترس تھی اور لوگ آپ کے فتاویٰ سے رہنمائی حاصل کرتے اور اپنی علمی اور روحانی تشنگی کو دور کرتے۔ مجھے مفتی عبید اللہ عفیفؒ کو کافی قریب سے دیکھنے کاموقع ملا اور جمعیت اہل حدیث کے امیر ہونے کے ناتے آپ کی امارت میں بھی کام کرنے کا موقع ملا۔ میں نے مفتی صاحب کو ہر اعتبار سے باعمل اور غیرت مند انسان پایا۔ آپ جہاں علمِ حدیث کی نشرواشاعت کا فریضہ انجام دیتے‘ وہیں پاسداریٔ حق کا فریضہ انجام دینے سے بھی کبھی گریز نہ کرتے۔ جس بات کو حق سمجھتے‘ ببانگِ دہل کہہ دیا کرتے تھے۔ مجھ سے بے مثال محبت کیا کرتے تھے۔ آپ کی طبیعت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک خاص طرح کے جلال کو پیداکیا تھا اور بہت سے علماء کرام آپ کے جلال سے متاثر ہو جایا کرتے تھے۔ طبعی جلال کے باوجود آپ نے مجھ سے ہمیشہ پیار اور محبت والا معاملہ کیا۔ کئی مرتبہ جب آپ جلال میں ہوتے‘ میں آپ کے سامنے جاتا تو آپ کے چہرے پر تبسم آجایا کرتا تھا۔ مفتی عبیداللہ عفیف نے اپنے علمی قدوقامت سے جہاں تشنگانِ علم کو بہت زیادہ فائدہ پہنچایا‘ وہیں اس علم کے ذریعے مادیت کو حاصل کرنے سے بھی گریز کیا۔ آپ ہمیشہ خلوت میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے ذکر واذکار میں مصروف رہے۔ آپ کی زندگی اور لباس میں بہت زیادہ سادگی پائی جاتی تھی اور آپ للہیت کی ایک عظیم الشان تصویر تھے۔ آپ کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا کہ آپ اُن لوگوں میں شامل ہیں جن کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے دین کی خدمت کے لیے چن لیا ہو۔
مفتی عبید اللہ عفیف درس حدیث اور مسند ِفتاویٰ نشیں رہے اور پاسداریٔ حق کے فریضے کو نہایت احسن طریقے سے انجام دیتے رہے۔ مفتی صاحب کچھ عرصے سے علیل تھے۔ آپ کو مختلف طرح کے امراض لاحق تھے لیکن آپ ان تمام امراض اور علالت کو بڑی خندہ پیشانی سے برداشت کر رہے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو صبر و ہمت اور استقامت کے عظیم الشان اوصاف سے نوازا تھا۔ آپ نے بیماری کے دوران تکالیف کو بڑی توانائی اور صبر سے برداشت کیا اور گزشتہ بدھ اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ آپ کا اس دنیائے فانی سے کوچ کرنا یقیناایک بہت بڑا صدمے کا سبب تھا اور ہر شخص نے آپ کی رحلت پر زبردست دھچکے کو محسوس کیا۔ آپ کی نماز جنازہ شیخ الحدیث حافظ مسعود عالم صاحب نے پڑھائی جس میں ہزاروں کی تعداد میں دین سے محبت کرنے والے لوگ شریک ہوئے اور بعدازاں سمندری‘ جو آپ کا آبائی گاؤں ہے‘ وہا ں لے جا کر بھی آپ کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔ ان جنازوں میں مفتی عبیداللہ عفیف کے لیے دردِ دل سے ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعائیں کی گئیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ مفتی عبیداللہ عفیف کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات کو بلند فرمائے اور ان کے لواحقین اور چاہنے والوں کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ہم سب کو حدیث شریف سے محبت کرنے والے اس عظیم الشان بزرگ کی سیرت وکردار سے رہنمائی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین !
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
*محبوب استاذ، امام القراء، قاری محمد ادریس العاصم رحمہ اللہ کی چند یادیں، چند باتیں*

تاثرات
ڈاکٹر عبیدالرحمن محسن


نرسری سے پی ایچ ڈی تک سینکڑوں اساتذہ سے کسب فیض کا موقع ملا، لیکن جن اساتذہ نے سب سے زیادہ متاثر کیا، جو دل میں اتر گئے، جن سے بار بار ملاقات کو جی چاہا، ان میں سے ایک نمایاں نام تھا، ہمارے ممدوح شیخ رحمہ اللہ کا.
استاد کیا استاد گر تھے،

آج ایک شخص نہیں ایک عہد رخصت ہوا، ایک فرد نہیں، خدمت قرآن کی ایک جماعت سے ہم محروم ہوئے، ایک استاد نہیں، استاد گر سے ہم تہی دامن ہوئے

*ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا
آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا*

اللهم اغفر له وارحمه وأدخله جنة الفردوس.

جب سے خبر ملی، دل اچاٹ سا ہے، دل چاہا کہ غم کے ان لمحوں میں ان کی کچھ یادیں اور کچھ باتیں تازہ کرلیں.

آج سے کم وبیش بیس برس قبل مجھے ان سے شرف تلمذ حاصل رہا، شیخ اس وقت مجھے اپنے گھر عشاء کے بعد ساتھ لے جاتے، اور رات گئے احادیث کی تخریج، حوالہ جات کی تلاش وغیرہ میں مصروف رہتے، کہیں کہیں کوئی حدیث مبارک ڈھونڈنے کا حکم فرماتے، اور شیخ صبح آٹھ بجے تازہ دم کلاس میں تشریف فرما ہوتے، اور میں اکثر حیران ہوجاتا کہ شیخ مکرم، بغیر کسی وقفہ کے مسلسل ظہر تک سبق سنتے رہتے، بلکہ میں نے متعدد بار غور کیا کہ شیخ ظہر کی نماز بھی اسی وضو سے ادا فرماتے. قرآن مجید سے محبت میں اپنی مثال آپ تھے.

کلاس میں رعب، وقار اور متانت سے لبریز اور چھٹی کے اوقات میں شفقت، محبت اور پیار کا استعارہ تھے، ہمارے پیارے شیخ رحمہ اللہ،
تواضع ایسی کہ جس دور میں ان کے پاس تھا، وہ ان کے عروج اور اوج کمال کا دور تھا، اس عہد میں بھی بعض عام لوگوں کو گھر کی لائبریری میں ابتدائی قاعدہ پڑھاتے تھے.

....................
ہمارے شیخ 1949 میں پیدا ہوئے، مسجد چینیاں والی سے حفظ قرآن مجید کی سعادت حاصل کی، اس دوران بعض اساتذہ کی مار پیٹ کو صبر اور حوصلے سے برداشت کیا، اس سلسلے میں ان کے ساتھ کیا بیتی، ان ہی کی زبانی سماعت کیجیے ماہنامہ رشد کے ایک انٹرویو میں فرماتے ہیں :

«میری والدہ مرحومہ مجھ سے کہنے لگیں کہ تمہارے جسم پر خشکی بہت ہورہی ہے۔پہلے جسم پر تیل ملو اوراچھی طرح نہا کے پھر جمعہ پڑھنے جاؤ۔والدہ نے جب قمیض اتاری تو میرے دونوں کندھے کالے تھے۔ میری دادی مرحومہ نے دیکھاتوکہنے لگیں: ’’منڈے دی اے جگہ کیوں کالی اے‘‘ میں نے کہا کوئی نہیں کالی۔ والدہ مرحومہ کہنے لگیں تم نے ضرور قاری صاحب کو سبق نہیں سنایا ہوگا ۔ تم سبق کیوں نہیں یاد کرتے ہو۔ حالانکہ اس میں میری غلطی کم تھی استاد جی کا مزاج ہی کچھ اس طرح کا تھا۔ «
دینی تعلیم جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ سے حاصل کی، مدینہ یونیورسٹی سے فراغت کا اعزاز بھی انہیں حاصل ہوا.
دارالحدیث الجامعۃ الکمالیہ راجووال کو یہ شرف حاصل ہے کہ شیخ نے والد گرامی مولانا محمد یوسف رحمہ اللہ کے دور میں یہاں دورہ تفسیر کیا، اور اباجی کے ساتھ ایک لازوال تعلق استوار ہوا،
"اذان تو بس تم ہی پڑھو گے" اباجی رحمہ اللہ انہیں فرماتے،
پھر شیخ مکرم اپنی خوب صورت آواز میں مسحور کن اذان کہتے اور اکثر و بیشتر انعام بھی ملتا، گویا بچپن ہی سے دینداری مزاج میں غالب تھی.
والد گرامی رحمہ اللہ نے اپنے متعدد شاگردوں اور چاہنے والوں سے کہ رکھا تھا، میرے جنازے میں ضرور شرکت کرنا، کوئی مجبوری ہو تو دو رکعت پڑھ کر دعاء مغفرت کردینا، وہ کہتے ہوتے تھے دو رکعت پڑھ کر کسی کا نام لے کر غائبانہ دعا کرنا ہی خصوصی دعا ہوتی ہے.

جب والد گرامی فوت ہوئے شیخ محترم رحمہ اللہ عمرے پر تھے، شیخ کو اطلاع ملی تو شیخ نے مدینہ یونیورسٹی کے چند طلبہ کو مسجد نبوی میں جمع کرکے والد گرامی رحمہ اللہ کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی، اللہ اللہ کیسے وفادار تھے، ہمارے شیخ رحمہ اللہ
مسند تدریس سنبھالی تو ایسی کہ ساری زندگی ایک ہی ادارے میں گزار دی.ہمارے اسلاف کچھ ایسے ہی تھے.
"استاد جی ہمیں کوئی اچھے قاری صاحب کی ضرورت ہے"
میں نے ان سے عرض کی.
"تم مجھے اپنے شاگرد دو میں تمہیں اچھی قاری بنا کر واپس کروں گا" شیخ مرحوم مجھے فرمانے لگے، تب سے اب تک یہ سلسلہ جاری ہے.
اکثر امتحان کے لیے انہیں زحمت دیتا، خندہ پیشانی سے قبول فرماتے، اس دوران ان کی خدمت میں وقتا فوقتاً چکر لگاتا، اور نصیحت کے لئے عرض کرتا.
فرماتے قرآن مجید کی تعلیم پر خاص توجہ دو، جو دینی مدرسہ قرآن مجید کی آواز بند کردیتا ہے وہاں سے برکت اٹھ جاتی ہے.
ان کا مطلب یہ ہوتا کہ شعبہ حفظ کو معمولی نہ سمجھا جائے،
شیخ مکرم ،امام التجويد رحمہ اللہ نے اپنی زندگی خدمت قرآن مجید کے لیے وقف کر رکھی تھی. اور ان کی خدمت کثیر الجہات تھیں، اس عجالہ میں احاطہ ممکن نہیں، تاہم کچھ پہلو اجاگر کرنے کی کوشش کرتا ہوں.

............

*تدریسی خدمات* .

المدرسہ العالیہ، تجوید القرآن، لسوڑیوالی مسجد ،شیراں والا گیٹ کی ہمیں تو پہچان ہی شیخ کی وجہ سے ہے. شیخ نے کم و بیش اڑتالیس سال یہاں گزارے.

یہاں ان کی زندگی میں خدمت قرآن مجید کاسب سے اہم پہلو، تجوید اور قراءات کی تدریس تھی. اس بارے میں شیخ کا ایک اپنا وژن تھا، درس نظامی کے ساتھ ساتھ تجوید کی بجائے درس نظامی سے فراغت کے بعد یکسو ہو کر کل وقتی تجوید و قراءت کے لیے وقف ہونا وہ زیادہ بہتر اور زیادہ مفید سمجھتے تھے، اور بعض دفعہ اظہار فرماتے تھے کہ درس نظامی کے ساتھ، تجوید پر معیاری محنت کی جائےتو درس نظامی میں کمزوری رہ جاتی ہے اور اگر درس نظامی پر زیادہ توجہ دی جائے تو تجوید مطلوبہ معیار کی نہیں رہتی، اسی وژن کے تحت شیخ محترم نے اپنے ادارے میں دوسالہ تجوید کلاس رکھی ہوئی تھی، اور اس کے بعد بعض شائقین کو قراءات پڑھاتے تھے،
بلاشبہ ان سے ہزاروں طلبہ نے علم تجوید وقرات سیکھا، جو آج اندرون و بیرون ملک تدریس قرآن مجید میں مصروف ہیں.

ان کے تلامذہ میں بعض بڑے بڑے نام ہیں، ان میں سے کچھ سعودی عرب، مصر سے بھی تعلق رکھتے ہیں، پاکستان میں ان کے تلامذہ ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے ہیں، بلکہ شیخ محترم رحمہ اللہ اپنے ادارے میں سالانہ قراءت کانفرنس رکھتے تھے، جس میں صرف انہی کے قراء تلامذہ تلاوتِ قرآن مجید پیش کرتے تھے،

ان میں سے اس وقت مجھے یہ نام یاد آرہے ہیں، برادر گرامی، الشیخ ڈاکٹر حمزہ مدنی حفظہ اللہ، جو بلاشبہ اس وقت تجوید وقرات کے علم میں ایک بڑا نام ہے، اور ان کا ادارہ تجوید کے حوالے سے( ام مدارس التجويد) ہے، اسی طرح ڈاکٹر أنس مدنی حفظہ اللہ ،فضیلۃ الشیخ المکرم ،المبجل قاری ابراہیم میر محمدی حفظہ اللہ کے چھوٹے بھائی برادرم جناب قاری سلمان صاحب میرمحمدی بھی شیخ کے ارشد وافاضل تلامذہ میں سے ہیں، سدیس پاکستان قاری عبدالودود عاصم حفظہ اللہ، برادر گرامی قاری محمد حیات صاحب حفظہ اللہ اور ان کے علاوہ دیگر بہت سی شخصیات نے شیخ مکرم سےاستفادہ کیا ہے.

. *تصنیفی خدمات*

تدریس کے ساتھ ساتھ شیخ محترم میدان تصنیف میں بھی ید طولیٰ رکھتے تھے اور شیخ محترم نے تصنیفی میدان کے لیے بھی قرآن مجید ہی کو اپنا بنیادی موضوع بنایا تھا.
قرآن مجید کی جمع و تدوین اور تلاوت سے متعلقہ اہم علوم پر شیخ نے قلم اٹھایا، اور زیادہ تر طلبئہ ِقرآن مجید اور قراء کرام کی نصابی وتعلیمی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کی راہ نمائی کے لیے لکھا اور بہت خوب لکھا.
غور کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی تعلیم کے لئے اس ایک عظیم شخصیت نے ایک بڑے پروجیکٹ اور مشروع کی طرح زندگی لگائی.
ناظرہ قرآن مجید کی درستی کے لیے سالہا سال کی محنتوں کا نچوڑ *قرآنی تجویدی قاعدہ* میں پیش کیا.
اگلے مرحلے کے لئے *حق التلاوة* تصنیف کی، اس سے ایڈوانس مرحلے کے لئے تمام قواعد تجوید کو مختصر ا، انتہائی منظم طریقے سے جامع انداز میں، *تحبیر التجويد* میں پیش کیا، تحبیر التجويد ہی کے اہم موضوعات کی مزید علمی تفصیلات اور بعض جدید مفصل مباحث *زینۃ المصحف* میں یکجا کردیں. اس سے اگلے مرحلے کے لیے علم تجوید پر معروف منظوم *مقدمہ جزریہ* کی شرح لکھی.
تجوید کے ساتھ ساتھ دیگر علوم قرآن پر بھی شیخ نے قلم اٹھایا علم الرسم پر، نفائس البیان، علم الوقف والابتداء پر الاھتداء اور قراءات پر طیبۃ النشر، جیسی یادگار تصنیفات لکھیں.

قراء کرام کی تعلیم وتربيت کے لیے اپنے تدریسی تجربات کا نچوڑ *تدریب المعلمین* میں سمو دیا.
رحم اللہ شیخنا رحمۃ واسعة.

*دعوتی وتبلیغی کاوشیں*
شیخ کا انداز خطابت بھی اچھوتا تھا، ایک دفعہ شیخ سے راجووال میں جمعہ کی درخواست کی، شیخ نے قبول فرمائی، ادب کے پیش نظر میں نے کہیں جمعہ پڑھانے کی بجائے شیخ کا خطبہ جمعہ سننا اپنے لیے شرف سمجھا، شیخ محترم نے عظمت قرآن اور تجوید کی اہمیت پرخطبہ جمعہ ارشاد فرمایا، خطبہ کے دوران مخصوص لہجے میں جب تلاوت کرتے تو قرآن گویا دل میں اترتا چلا جاتا.

اس کے علاوہ اپنے شاگردوں کو اندرون و بیرون ملک بڑی فراخ دلی، محبت اور شفقت کے ساتھ ایڈجسٹ کرتے.

مسجد اسحاق یوکے،سنٹر والے بھائیوں کو کہیں میرے بارے علم ہوا، تو شیخ محترم کو ساتھ لے کر ایک وفد کی صورت میں راجووال تشریف لائے اور والد گرامی سے میرے سارے خطبات جمعہ لاہور میں طے کرنے کے لیے بات کی، یہ غالبا 2006 کی بات ہے،

"بیٹا! آپ کے استاد جی تشریف لائے ہیں، انہیں خالی نہیں موڑا جاسکتا، آپ دو جمعے لاہور پڑھا دیا کریں"، اباجی رحمہ اللہ نے مجھے حکم دیا. اس سال سے آج تک یہ تعلق نبھا رہا ہوں، اللہ تعالیٰ استقامت عطا فرمائے اور قبول فرمائے.

مطلب یہ ہے کہ شیخ کی سادگی، تواضع اور عاجزی ملاحظہ کیجیے، مسجد اسحاق، شیخ محترم کی مسجد سے صرف پانچ منٹ کے پیدل فاصلے پر ہے، لیکن شیخ اس نئی بننے والی مسجد اور مسجد بلال کی آبادی کے لیے مخلصانہ طور پر فکر مند ہی دیکھے گئے، بلکہ جب میں نے نیا نیا جمعہ شروع کیا تو ایک دو دفعہ جمعے کے بعد مسجد اسحاق میں تشریف لائے اور حوصلہ افزائی فرمائی، یہ اخلاق، مخلص اہل قرآن ہی کے ہوسکتے ہیں،.

الوداع شیخنا

کورونا کی وبا کے دوران اور اس کے بعد ہمارے کتنے ہی مشایخ رب کریم کے پاس جا پہنچے، اللهم اغفر لهم وارحمهم برحمتك يا أرحم الراحمين
ابھی ان کے غم تازہ تھے کہ 8 فروری کو شیخ محترم کے گھر میں شارٹ سرکٹ کے باعث آگ لگنے کی دردناک خبر موصول ہوئی، وہ ہونٹ جو ساری زندگی تلاوت قرآن کریم میں مصروف رہے وہ، چہرہ جو نور قرآن سے منور تھا، اللہ تعالیٰ کو یہی منظور تھا کہ قرآن مجید کی لائبریری میں، تجوید وقراءت کی کتب کے عین وسط میں مرتبہ شہادت پر فائز ہو، شارٹ سرکٹ کی بنا پر شیخ محترم کے کچھ اعضاء شدید متاثر ہوئے، اور اس شدت تکلیف میں بھی شیخ اپنے بیٹے اویس سے کہتے رہے
اویس مجھے چھوڑو، کتابوں کی فکر کرو.
آج مؤرخہ، 16فروری،2022،شیخ ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے، ہمیں امید ہے کہ شیخ محترم کے بعض اعضاء کا جھلس جانا اور اس کے نتیجے میں ان کی موت یہ بھی شہادت کی ایک قسم ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

صاحب الحریق شہید، جل کر فوت ہونے والا بھی شہید ہے. (سنن ابی داؤد، 3111).

شیخ محترم کے بیٹے ماشآء اللہ دین اور علم سے وابستہ ہیں، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہمارے شیخ کا خیر خلف، لخير سلف کا مصداق بنائے، ان سب کی حفاظت فرمائے اور انہیں صبر جمیل عطا فرمائے آمین.

اللهم اغفر لشيخنا وخادم كتابك، وارفع درجته في المهديين واخلفه في عقبه في الغابرين ونور له في قبره ووسع له فيه واغفر لنا وله يا رب العالمين.

القلب يحزن والعين تدمع وإنا بفراقك يا شيخنا الحبيب لمحزونون. ولا نقول إلا ما يرضي ربنا، إنا لله وإنا إليه راجعون.
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.
" اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ، وَارْحَمْهُ وَعَافِهِ، وَاعْفُ عَنْهُ، وَأَكْرِمْ نُزُلَهُ ، وَأَوْسِعْ مُدْخَلَهُ، وَاغْسِلْهُ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ ، وَنَقِّهِ مِنَ الْخَطَايَا، كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ ".
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
ایک عظیم اُستاد

️کالم علامہ ابتسام الہی ظہیر

دنیا میں ہر طرح کے انسان اپنی زندگی گزارتے اور اس کے بعد اس دنیائے فانی سے رخصت ہو جاتے ہیں۔اچھا انسان مرنے کے بعد بھی اپنے کردارو عمل کے ذریعے زندہ رہتا ہے۔ جو لوگ صحیح طریقے سے زندگی گزارنے کے بجائے برے افعال میں اپنے آپ کو مبتلا کیے رکھتے ہیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ ذمہ داریوں اور انسانوں کے حقوق کو ادا نہیں کرتے‘ وہ یا تو قصۂ پارینہ بن جاتے ہیں یا مرنے کے بعد بھی برے الفاظ سے یاد کیے جاتے ہیں۔ بعض لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کے لیے اپنے آپ کو وقف رکھنے کی وجہ سے تاریخ کو ایک نیا رنگ عطا کر دیتے ہیں۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی آخری کتاب کو نبی کریمﷺ کے قلبِ اطہر پر نازل فرمایا۔ یہ کتاب رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے ہدایت کی ایک عظیم دستاویز ہے۔ اس کتاب میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے عقائد، عبادات، معاملات، سیاسیات اور زندگی کے تمام شعبوں سے متعلق انسانوں کی کامل رہنمائی کی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید کو انسانوں کے لیے دستور العمل بنایا اور کتابِ حمید کے ساتھ وابستگی کو انسانوں کے لیے باعثِ فلاح و نجات قرار دیا ہے۔ کتاب اللہ کے ہم پر مختلف حقوق ہیں‘ جن کی آگاہی حاصل کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ جو شخص کتاب اللہ کے حوالے سے عائد کردہ ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے یقینا وہ ہر اعتبار سے لائقِ تحسین ہے۔ کتاب اللہ کا ہم پر پہلا حق یہ ہے کہ ہمارا اس پر پختہ یقین اور ایمان ہونا چاہیے۔ جو شخص کتاب اللہ پر پختہ یقین اور ایمان رکھتا ہے‘ اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے معاملات کو سنوار دیتے ہیں۔

اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ محمد کی آیت نمبر 2میں ارشاد فرماتے ہیں:

''اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے اور وہ ایمان لائے اس (قرآن) پر جو نازل کیا گیا محمد ﷺ پر‘ اور وہی حق ہے ان کے رب کی طرف سے‘ (اللہ نے) دور کردیں ان سے ان کی برائیاں اور ان کے حال کی اصلاح کر دی‘‘۔

کتاب اللہ کا دوسرا حق یہ ہے کہ ہم اس کی تلاوت کریں اور اس کا التزام زندگی کے ماہ وسال میں کریں۔ بالعموم ایک مسلمان رمضان المبارک میں قرآنِ کریم کی تلاوت کرتا اور باقی سال قرآنِ مجید کی تلاوت سے غافل رہتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرمایا کہ جو لوگ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں‘ درحقیقت وہی اس پر ایمان لاتے ہیں۔

سورہ بقرہ کی آیت نمبر 121میں ارشاد ہوا:

''وہ لوگ‘ جنہیں ہم نے دی کتاب تورات یا انجیل‘ وہ اس کی تلاوت کرتے ہیں‘ جو اس کی تلاوت کرنے کا حق ہے (یقینا) وہی لوگ ایمان لاتے ہیں اس قرآن پر۔ اور جو انکار کرتا ہے اس (قرآن ) کا ‘تو وہی لوگ نقصان اُٹھانے والے ہیں‘‘ ۔

کتاب اللہ کا تیسرا حق ہم پر یہ ہے کہ ہم اس پر عمل کریں۔جو صحیح معنوں میں کتاب اللہ پر عمل کرتے ہیں وہ لوگ ہر اعتبار سے قابلِ قدر ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں علمائے یہود کا ذکر کیا جو تورات کو پڑھنے کے بعد اس کے پیغامات کو فراموش کر دیا کرتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایسے علماء کو گدھے کی مانند قرار دیا ہے۔

اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ جمعہ کی آیت نمبر 5میں ارشاد فرماتے ہیں:

''مثال (اُن لوگوں کی) جو تورات کا بوجھ ڈالے گئے‘ پھر انہوں نے اس (کی تعمیل) کے بوجھ کو نہ اُٹھایا‘ گدھے کی مثال کی طرح ہے۔ (جو بڑی بڑی) کتابیں اُٹھائے ہوئے ہو‘ بُری ہے مثال ان لوگوں کی جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا اور اللہ (زبردستی) ہدایت نہیں دیتا ظالم لوگوں کو‘‘۔

قرآنِ مجید کا ہمارے اوپر یہ بھی حق ہے کہ ہم اس پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی تبلیغ کریں۔ جو لوگ قرآنِ مجیدکے پیغام کی تبلیغ کرتے ہیں وہ بہت خوش نصیب ہیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے انبیاء کرام علیہم السلام اور حضرت رسول اللہﷺ کی تعلیمات کے وارث کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السلام کے ذمہ ابلاغ کی ذمہ داری لگائی تھی؛ چنانچہ وہ لوگ جو قرآنِ مجید کا ابلاغ کرتے ہیں‘ درحقیقت وہ انبیاء کرام علیہم السلام کی پیروی کرتے ہوئے کتاب اللہ کے حق کو ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ کتاب اللہ کے ابلاغ کے ساتھ ساتھ اس کے قیام کی جستجو کرنا بھی ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ مائدہ میں اس بات کا ذکر کیا کہ جو لوگ تورات، انجیل اور اس کے بعد نازل ہونے والی کتاب کے قیام کی کوشش کریں گے‘ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کو اوپر سے بھی رزق دے گا اور ان کے نیچے سے بھی رزق دے گا۔

اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ مائدہ کی آیت نمبر 66میں ارشاد فرماتے ہیں:

''اور اگر بے شک وہ قائم رکھتے تورات اور انجیل کو اور جو نازل کیا گیا اُن کی طرف اُن کے رب کی طرف سے‘ (تو) ضرور وہ کھاتے (اللہ کا رزق) اپنے اوپر سے اور اپنے پاؤں کے نیچے سے، ان میں سے ایک گروہ میانہ رو ہے اور بہت سے ان میں (ایسے ہیں کہ) بُرا ہے جو وہ عمل کرتے ہیں‘‘۔

ان تمام کے تمام حقوق کی ادائیگی کو یقینی بنانے کے لیے جہاں انسان کا کتاب اللہ کے ساتھ تمسک اختیار کرنا انتہائی ضروری ہے‘ وہیں ایسے اساتذہ کا ہونا بھی معاشرے کے لیے انتہائی ضروری ہے جو قرآنِ مجید کی تعلیم دینے والے ہوں۔

نبی کریمﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ

''تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن مجید کو سیکھتا اور سکھلاتا ہے‘‘۔

قرآنِ مجید کو سیکھنے اور سکھلانے والے لوگ معاشرے کے لیے یقینا باعثِ رحمت اور سکینت ہیں اور قرآنِ پاک کی تعلیم اور تعلم کے لیے وقف ہونا یقینا ہر اعتبار سے لائقِ تحسین ہیں۔ قرآنِ مجید کی تعلیم دینے والے کسی شخص کا دنیا میں رہنا یقینا دنیا والوں کے لیے فائدہ مند ہے اورایسے شخص کا دنیا سے رخصت ہو جانا بھی یقینا ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔

قاری ادریس العاصم کا شمار بھی ان نیک بخت لوگوں میں ہوتا تھا جنہوں نے اپنی پوری زندگی قرآنِ مجید کی تعلیم اور اس کے فروغ اور نشرواشاعت کے لیے وقف کیے رکھی۔ آپ علوم القرآن پر دسترس رکھنے والے ایک مایہ ناز استاد تھے۔ کئی عشروں تک آپ سے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے قرآنِ مجید سے متعلق علوم وفنون کو سیکھا اور لوگوں کو سکھلایا۔ قاری ادریس العاصم طویل مدت تک لسوڑے والی مسجد شیرانوالہ کے ساتھ ملحق مدرسے میں تجوید، قرأت اور علومِ قرآن کی نشر واشاعت کا فریضہ سرانجام دیتے رہے۔ مجھے بھی قاری ادریس العاصم کے پاس بیٹھنے ‘ اُٹھنے کا موقع ملا۔ میں نے ایف ایس سی کی چھٹیوں کے بعد اپنے حفظِ قرآن کی ابتدائی تعلیم جامعہ لسوڑے والی سے ہی حاصل کی تھی۔ وہیں نمازوں کی ادائیگی کے دوران قاری ادریس العاصم کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کا موقع ملتا رہا۔ میں نے قاری صاحب کو ہمیشہ قرآنِ مجید سے وابستہ دیکھا۔ وہ فجر کی نماز سے لے کر عصر کی نماز تک جامعہ لسوڑے والی میں براجمان رہا کرتے تھے اور آپ سے بیسیوں طلبہ قرآنِ مجید سے متعلق علوم وفنون کو سیکھا کرتے تھے۔

قاری ادریس العاصم کی طبیعت میں دھیما پن تھا‘ چہرے پر ہر وقت ایک تبسم کی کیفیت رہا کرتی تھی اور آپ اپنے شاگردوں کے ساتھ غیر معمولی شفقت کیا کرتے تھے۔ قاری ادریس یقینا ایک بلند پایہ استاد ہونے کے ساتھ ساتھ ذکر‘ اذکار اور تلاوتِ قرآنِ مجید میں منہمک رہنے والے باعمل انسان بھی تھے۔ آپ کی عملی کیفیت کو دیکھ کر بھی انسان کے دل میں قرآنِ مجید کی محبت پیدا ہوجاتی۔ مجھے قاری صاحب کے ساتھ علم وعمل کی وجہ سے والہانہ وابستگی تھی۔ جب بھی میں آپ سے ملتا‘ اپنے دل میں فرحت اور انبساط کو محسوس کرتا۔ قاری ادریس العاصم کچھ روز قبل بجلی کے شارٹ سرکٹ کی وجہ سے شدیدمتاثر ہوئے اور چند روز بعد اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ اپنی وفات سے چند روز قبل آپ میرے غریب خانے پر تشریف لائے تھے اور ماضی کی بہت سی یادوں کو تازہ کرنے موقع ملا تھا۔ قاری ادریس کی اچانک دنیا سے رحلت نے جہاں ان کے شاگردوں اور حلقۂ احباب پر گہرے اثرات مرتب کیے‘ وہیں اس عظیم انسان کی رحلت کو میں نے بھی اپنے دل ودماغ میں بڑے گہرے طریقے سے محسوس کیا۔ قاری ادریس العاصم کی نمازِ جنازہ مینارِ پاکستان گراؤنڈ میں ادا کی گئی جس کی امامت حافظ مسعود عالم نے کرائی۔ حافظ مسعود عالم کی امامت میں ہونے والے اس جنازے میں قاری صاحب سے وابستہ ہزاروں شاگرد، طلبہ اور قرآنِ مجید سے محبت کرنے والے لوگ شریک ہوئے اور سب نے خلوص دل سے قاری صاحب کے لیے دعائے مغفرت کی۔

قاری صاحب کے دنیا سے چلے جانے کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا زمین پر کچھ پہاڑ کم رہ گئے ہیں‘ یا زمین کا سینہ سمٹ کر رہ گیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ قاری ادریس العاصم پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے اور جو شمع انہوں نے جلائی تھی‘ اسے فروزاں رکھنے کی توفیق دے، آمین!
 
Last edited:
Top