کہنے کا حکم نبی صلی الله تعالی عليه وآله وسلم کو ہوا ہے یا آپ کو؟
الله عزوجل کے احکام کے میں حکمت ہوتی ان ہی احکام پر بغیر حکم بغیر حکمت سمجھے بشر بشر کی رٹ لگانا کہاں کی حماقت ہے؟
محترم،
یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہو کر امت کو ہی کہا گیا ہے لگتا ہے اپ قرآن کے عمومی اسلوب سے بھی واقف نہیں ہے۔
"قل" اے نبی فرمادیں:
یہ کس سے فرمانے کو کہا جا رہا ہے اور کس کو بتایا جا رہا ہے
اور اپ کے کیا کہنے کہ اللہ کے احکام کی حکمت اپ کو سمجھ آ رہی ہے اور جو "صحابہ کرام رضی اللہ عنہم" ہیں وہ بشر فرما رہے ہیں لوگوں کو بتا بھی رہے ہیں ان کو یہ حکمت سمجھ نہیں آ رہی ہے نعوذباللہ،
دوسری بات آپ ایک بات پہلے طے کر لیں تو بہتر ہوگا کس حد تک بشر کہنا لکھنا اور ماننا تذلیل اور رٹ میں شامل ہوتا ہے کیونکہ دو بار تو اپ بھی مان چکے اور لکھ چکے ہیں اور قرآن میں کئی مقامات پر کہا گیا ہے تو یہ کیا رٹ میں شمار ہوتا ہے بشر کہنا تھا تو ایک ہی جگہ کہنا کافی تھا۔ متعدد مقامات پر کہنے کی کیا وجہ ہے
یا تو ممکن ہے سوال اس طرز پر ہوا ہو جس سے سائل کو نبی صلی الله تعالی عليه وآله وسلم کی بشریت کے تعلق سے وہم ظاہر ہو اور حضرت عائشہ رضی الله تعالى عنه نے حضور اکرم صلی الله تعالی عليه وآله وسلم کی سادگی بتاتے ہوئے فرمایا ہو.
رسول الله کے معجزات کو دیکھتے ہوئے نو مسلموں یا غیر اسلامی لوگوں کے ذہن میں یہ خدشات آسانی سے پیدا ہوجاتے
ظاہر ہے کہ پوچھنے والا نبی کی ذات سے کو بشریت کے علاوہ گمان کرتا تھا اس لئے ایسا فرمایا گیا
یہ تمام اپ کے اپنے قیاسات ہیں جو دین میں نہ حجت ہیں اور نہ اس کا جواب دیا جانا ہی ضروری ہے روایت میں واضح موجود ہے کہ ایک شخص نے اماں عائشہ رضی اللہ عنھا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات کے بارے میں سوال کیا کہ"اپ گھر میں کیسے رہتےتھے وغیرہ" تو جواب دیا جا سکتا تھا کہ اپنے کپڑے خود صاف کرلیتے تھے وغیرہ" دین کے احکام چونکہ ابدی ہے اس لئے اماں عائشہ کی زبان اقدس سے ادا ہونے والے ان الفاظ کی حکمت یہی ہے کہ یہ بات قیامت تک کے لئے ان جیسے لوگوں کے لئے جاری و ساری ہو جائیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بشر کہنے کو رٹ لگانا اور تذلیل کرنا"نعوذ باللہ " سمجھتے ہیں ان کے لئے یہ برھان ہو جائے مگر"فی قلوبھم مرض" قسم کے افراد اس کو نہیں سمجھیں گے۔