انبیاء علیھم السلام کی امامت کے بریلوی دعوے!
احمد رضا خان بریلوی نے اس کے بعد کہا:’’ان کے انتقال کے دن مولوی سید امیر احمد صاحب مرحوم خواب میں زیارت اقدس حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرف ہوئے کہ گھوڑے پر تشریف لئے جاتے ہیں۔ عرض کی: یا رسول اللہ! حضور کہاں تشریف لے جاتے ہیں۔فرمایا برکات احمد کے جنازے کی نماز پڑھنے۔‘‘
’’الحمد للہ! یہ جنازہ مبارکہ میں نے پڑھایا۔‘‘
(ملفوظات،حصہ دوم ص۱۴۲،فرید بک سٹال لاہور)
اس سے معلوم ہوا کہ احمد رضا خان بریلوی کے نزدیک انہوں نے وہ جنازہ بھی پڑھا رکھا ہے جس کو پڑھنے کے لئے ان کے دعویٰ کے مطابق خودنبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تھے۔ جس نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی موجودگی میں بلا اجازت کوئی دوسرا نبی بھی امام نہیں بن سکتا، اس امام الانبیاء (صلی اللہ علیہ وسلم)کے امام بننے کا بھی شرف احمد رضا بریلوی کو حاصل ہوا۔(نعوذ باللہ من ذالک)
بریلوی’’ اعلیٰ حضرت‘‘ کے اس دعویٰ میں موجود گستاخی و توہین کا کوئی صاحبِ ایمان انکار نہیں کر سکتا، مگر اس کے باوجود بریلوی ’’حضرات ‘‘ اس گستاخانہ دعویٰ کی مختلف باطل تاویلات میں مشغول رہتے ہیں اور اپنے ’’اعلیٰ حضرت‘‘ کے غلط دفاع میں مزید گستاخی و توہین کے مرتکب بنتے ہیں، لہٰذاسب سے پہلے تو خود بریلوی حضرات کے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں امام بننے کا حکم ملاحظہ فرمائیں:
بریلویوں کے حکیم الامت احمد یار خان نعیمی نے لکھا:
’’اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی علیہا لصلوٰۃ والسلام کی موجودگی میں کسی کو بھی امام ہونے کا اختیار نہیں۔‘‘
(شان حبیب الرحمٰن ص۲۱۹، مکتبہ اسلامیہ لاہور)
گویا جو اختیار کسی کو نہیں وہ بریلویوں کے نزدیک ان کے ’’اعلیٰ حضرت‘‘ کو حاصل تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی امام بن بیٹھے۔ کچھ بریلوی یہاں چالاکی سے بعض صحابہ کرام ؓ سے ایسی امامت کا ثبوت دینے کی کوشش کر سکتے ہیں ۔مگر ان کے اس دھوکے کو خود ان کے ’’حکیم الامت ‘‘احمد یار خان نعیمی ان الفاظ میں مردود قرار دیتے ہیں:
(شان حبیب الرحمٰن ص۲۱۹)’’ہاں اگرحضور علیہ السلام ہی اجازت دے دیں کہ تم امام بنے رہوتو اب حضور علیہ السلام کی اجازت سے امام بنے رہنا جائز ہوا، جیسا کہ حضرت عبدالرحمٰن ا بن عوف پر گزرا۔‘‘
معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں صرف وہ امام بن سکتا ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود اجازت دے دیں ۔ لہٰذا احمد رضا خان بریلوی کا خود کو بلا اجازت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا امام بنا لینا سوائے گستاخی کے کچھ نہیں۔ کچھ بریلوی علماء نے اپنے ’’اعلیٰ حضرت‘‘ کی اس گستاخی و توہین کو محسوس کرتے ہوئے اس واضح حقیقت پرجھوٹ اورمتضاد و باطل تاویلات کے پردے ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
چنانچہ معروف بریلوی عالم کوکب نورانی اوکاڑوی نے لکھا:
’’یہ مفہوم کیسے اخذ کر لیا گیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ نماز جنازہ بھی ادا فرمائی؟ یا یہ کہ اعلیٰ حضرت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کی؟(معاذ اللہ)۔ بلاشبہ یہ اعلیٰ حضرت پر بہتان ہے۔ خواب اور اعلیٰ حضرت بریلوی کے بیان کی حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشق صادق کی وفات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی شفقت و رحمت کے سبب اپنے اس غلام کو نوازنے تشریف لائے اور اس عاشق صادق کے جنازہ کو ملاحظہ فرمایا۔‘‘
(سفید و سیاہ ص۱۷۹، ضیاء القرآن پبلی کیشنزلاہور)
اوکاڑوی بریلوی صاحب نے تو اپنی باطل تاویل سے قصہ ہی تمام کر دیا کہ یہ جنازہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا ہی نہیں بلکہ صرف ملاحظہ فرمایا۔کوئی ان بریلوی ماہرین تاویل کو سمجھاتا کیوں نہیں کہ بریلوی ’’اعلیٰ حضرت ‘‘کے ملفوظ میں صاف تصریح موجود ہے کہ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ) ’’فرمایا برکات احمد کے جنازے کی نماز پڑھنے۔‘‘ اس رضا خانی وضاحت کے باوجودصریح جھوٹ بول کر احمد رضا بریلوی کا دفاع کیوں کیا جا رہا ہے؟اس باطل تاویل کا سقم تو انتہائی واضح اور روشن ہے،اس لیے اپنے اعلیٰ حضرت کی اس گستاخانہ عبارت پر ایک اور انداز سے بھی بریلوی ماہرینِ تاویل نے اپنی فنکاری دکھانے کی کوشش کی ہے۔
چنانچہ بریلویوں کے ’’ترجمانِ مسلک اعلیٰ حضرت‘‘ حسن علی رضوی بریلوی اپنے ’’اعلیٰ حضرت‘‘ کے اس توہین آمیز ملفوظ کی من گھڑت وضاحت دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’عبارت کا صحیح مفہوم واضح ہوا کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نماز پڑھائی اور میں نے لوگوں کو نماز پڑھائی....‘‘
(برقِ آسمانی بر فتنہ شیطانی ص۶۴، البرہان پبلی کیشنز لاہور)
گویا ان کے نزدیک گستاخی والی کوئی بات نہیں کیونکہ ان کے ’’اعلیٰ حضرت‘‘ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی اور احمد رضا خان بریلوی نے باقی لوگوں کو نماز پڑھائی۔حالانکہ اس من گھڑت بات کا دور دور تک کوئی نام و نشان اس ملفوظ میں نہیں۔بہرحال ان بریلوی تاویلات سے یہ تو بالکل واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں بھی امام بنے رہنے پر اصرار کرنا یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کا دعویٰ کرناخود ان کے نزدیک بھی توہین و گستاخی ہے۔اس تمام تفصیل کے بعد عرض ہے کہ اس گستاخی و توہین سے بریلوی علماء جھوٹ و من گھڑت تاویلات کے سہارے جان نہیں چھڑا سکتے۔بریلویوں کی تسلیم شدہ اس گستاخی و توہین کا اقرار کرتے ہوئے غلام نصیر الدین سیالوی بریلوی نے اپنے ’’اعلیٰ حضرت‘‘ کے متعلق لکھا:
(عبارات اکابر کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ،حصہ اول ص۳۲۴)’’ان کو پہلے تو پتا نہیں تھا کہ حضور علیہ السلام جنازہ میں شامل ہیں بعد میں جب پتا چلا تو اللہ کا شکر ادا کیا کہ سرکار ﷺ نے میرے پیچھے نماز پڑھی۔۔۔‘‘
معلوم ہوا کہ بریلوی دعوے کے مطابق اس جنازے کی نماز بطور امام، احمد رضا خان بریلوی نے ہی پڑھائی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بریلوی اعلیٰ حضرت کے پیچھے یہ نماز پڑھی تھی(نعوذ باللہ) اور اس بات کا گستاخی و توہین ہونا خود بریلوی علماء و اکابرین کی اوپر پیش کی گئی تاویلات و عبارات سے ثابت ہے۔
دوسرا یہ کہ جو بریلوی یہ من گھڑت تاویل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے اعلیٰ حضرت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی اور خان صاحب بریلوی نے باقی لوگوں کو نماز پڑھائی،شاید یہ نہیں جانتے کہ اس صورت میں تو بریلویوں کے نزدیک نماز ہوتی ہی نہیں۔
چنانچہ غلام نصیر الدین سیالوی بریلوی لکھتے ہیں:
’’دوسری عرض یہ ہے کہ حضور علیہ السلام پر نماز اب فرض نہیں ہے۔آپ علیہ السلام کی نماز نفلی ہوتی ہے اور حنفی مذہب میں مفترض (فرض پڑھنے والا) متنفل(نفل پڑھنے والے)کی اقتدا نہیں کر سکتا۔لہٰذا حنفی مذہب رکھنے والوں کو یہ اعتراض زیب نہیں دیتا کہ نبی الانبیاء علیہم السلام کی موجودگی اور حاضر و ناظر ہونے کے باوجود تم خود امام کیوں بن جاتے ہو۔‘‘
(عبارات اکابر کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ،حصہ اول ص۳۲۴۔۳۲۵)
اس صاف وضاحت کے باوجود لوگوں کا بریلویوں پریہ اعتراض کرنا کس قدر غلط ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو موجود اور حاضر و ناظر ماننے کے باوجود خود امام کیوں بنتے ہیں؟ بھئی! وہ تو صاف صاف اعلان کر رہے ہیں کہ اگر چہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر و ناظر اور موجودمانتے ہیں مگرچونکہ حنفی مذہب میں فرض پڑھنے والا، نفل پڑھنے والے کی اقتداء نہیں کر سکتااور نہ ایسے کی نماز ہوتی ہے۔ لہٰذامسئلہ مذکورہ کے پیشِ نظر ان کی نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہوتی ہی نہیںکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اب نفلی ہے۔چنانچہ احمد رضا خان بریلوی بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے امام اسی لیے بنے کہ ان کی نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نہیں ہوتی تھی اور آج رضا خانی امت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر و ناظر ماننے کے باوجود امام بنتی ہے تواس کی ایک وجہ بھی یہی ہے کہ ان کی نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نہیں ہوتی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون