- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,763
- پوائنٹ
- 1,207
انبیاء علیہم السلام اور اولیاء رحمہم اللہ میں فرق
اُمت کے تمام سلف صالحین اور ائمہ کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ بجز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے باقی کوئی شخص بھی کیوں نہ ہو۔ اس کے بعض قول قبول کیے جاسکتے ہیں اور بعض ترک کیے جاسکتے ہیں اور یہ انبیاء اور غیر انبیاء کا فرق ہے۔ انبیاء صلوات اللہ علیہم اللہ عزوجل کی طرف سے جو خبر دیں، ان سب پر ایمان لانا ضروری اور ان کے حکم کی اطاعت واجب ہے لیکن اولیاء رحمہم اللہ کے ہر حکم کی اطاعت واجب نہیں ہے اور نہ ان کی ہر خبر پر ایمان لانا ضروری ہے بلکہ ان کا حکم اور ان کی خبر کتاب و سنت کے سامنے پیش کی جائے گی، جو کتاب و سنت کے موافق نکلا وہ مان لیا جائے گا اور جو کتاب و سنت کے مخالف ہوا وہ ردّ کر دیا جائے گا۔ اگرچہ کتاب و سنت کے خلاف بات کہنے والا اولیاء اللہ ہی میں سے کیوں نہ ہو اور وہ مجتہد ہی کیوں نہ ہو۔ جو اپنے قول میں معذور ہے اور اسے اجتہاد کا اجر بھی دے دیا گیا ہو؟ لیکن جب اس کا قول کتاب و سنت کے مخالف ہوگا تو اس میں وہ خطا کار سمجھا جائے گا اور جو شخص حسبِ استطاعت اللہ سے ڈرتا رہے ۔ اس کی خطا معاف ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴿١٦﴾ تغابن
اور یہ تفسیر ہے اللہ کے اس کی قول کی۔’’جہاں تک ہوسکے اللہ سے ڈرتے رہو۔‘‘
يَا أَيُّهَا الَّذِينَآمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ ﴿١٠٢﴾ آل عمران
ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ایسا ڈرو جیسا اس سے ڈرنا چاہیے۔‘‘
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:اس سے ڈرنے کا حق یہ ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے اور اس کی نافرمانی نہ کی جائے۔ اس کو یاد رکھا جائے اور اس کو فراموش نہ کیا جائے۔ اس کا شکر کیا جائے اور ناشکری نہ کی جائے اور یہ سب کچھ حسب ِ استطاعت ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔
لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَهَا مَاكَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ﴿٢٨٦﴾ البقرہ
اور فرمایا:’’اللہ تعالیٰ کسی نفس کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا جو کام وہ کرے گا اس کا ثواب ہوگا تو اسی کے لیے اور عذاب ہوگا تو اسی کو ہوگا۔‘‘
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِلَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۖ هُمْفِيهَا خَالِدُونَ ﴿٤٢﴾ الاعراف
اور فرمایا:’’اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے مقدور بھر نیک عمل بھی کیے اور ہم تو کسی شخص پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ ڈالا ہی نہیں کرتے یہی لوگ جنتی ہوں گے کہ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘
وَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِۖ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۖ﴿١٥٢﴾ الانعام
اللہ تعالیٰ نے کئی جگہ اس کا ذکر فرمایا ہے کہ انبیاء جو کچھ لائے اس پر ایمان لانا ضروری ہے۔’’انصاف کے ساتھ پوری پوری ماپ کرو اور پوری پوری تول ۔ ہم کسی شخص پر اس کی وسعت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتے۔‘‘
چنانچہ فرمایا:
قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنزِلَإِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَوَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَىٰ وَعِيسَىٰ وَمَا أُوتِيَالنَّبِيُّونَ مِن رَّبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُمُسْلِمُونَ ﴿١٣٦﴾ البقرہ
اور فرمایا:’’مسلمانو! تم یہودو نصاریٰ کو یہ جواب دو کہ ہم تو اللہ پر ایمان لائے ہیں اور جو ہم پر اترا اس پر اور جو ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام اور یعقوب علیہ السلام اور اولادِ یعقوب علیہ السلام پراترا۔اس پر اور موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کو جو دیا گیا اس پر اور جو دوسرے پیغمبروں کو ان کے پروردگار سے ملا، اس پر ہم ان پیغمبروں میں سے کسی ایک میں بھی کسی طرح کا فرق نہیں سمجھتے اور ہم اسی ایک اللہ کے فرمانبردار ہیں۔‘‘
الم ﴿١﴾ ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ﴿٢﴾ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَالصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿٣﴾ وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَاأُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ ﴿٤﴾أُولَٰئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿٥﴾ البقرہ
اور فرمایا:’’الم، یہ وہ کتاب ہے جس کے کلام الٰہی ہونے میں کچھ بھی شک نہیں۔ پرہیز گاروں کی راہنما ہے جو غیب پر ایمان لاتے ہیںاور نماز پڑھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دے رکھا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں اور اے پیغمبر! جو کتاب تم پر اتری اور جو تم سے پہلے اتریں۔ ان سب پر ایمان لاتے اور وہ آخرت کا بھی یقین رکھتے ہیں، یہی لوگ اپنے پروردگار کے سیدھے راستے پر ہیں اور یہی آخرت میں من مانی مرادیں پائیں گے۔‘‘
لَّيْسَ الْبِرَّ أَنتُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْآمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِوَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰوَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَالصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا ۖوَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ۗ أُولَٰئِكَالَّذِينَ صَدَقُوا ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ﴿١٧٧﴾ البقرہ
یہ سب کچھ میں نے ذکر کیا ہے کہ اولیاء اللہ کے لیے کتاب و سنت کی پابندی لازمی ہے اور اولیاء اللہ میں کوئی ایسا معصوم نہیں ہوسکتا جس کے لیے یا کسی اور کے لیے روا ہو کہ کتاب و سنت کو ملحوظ رکھے بغیرہر اس بات کو جو اس کے دل میں القا ہو واجب الاتباع سمجھ لے یا کوئی اور اس کی پیروی کرے۔ اس پر اولیاء اللہ کا اتفاق ہے، جو شخص اس کا خلاف کرے وہ ان اولیاء اللہ سے نہیں ہے۔ جن کی اتباع کا حکم اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے بلکہ ایسا شخص یا تو کافر ہوگا یا حد سے زیادہ جاہل ہوگا۔’’نیکی یہی نہیں کہ نماز میں اپنا منہ مشرق کی طرف کر لو۔ یا مغرب کی طرف کر لو بلکہ اصل نیکی تو ان کی ہے جو اللہ اور روزِ آخرت اور فرشتوں اور آسمانی کتابوں اور پیغمبروں پر ایمان لائے اور مالِ عزیز اللہ کی حب پر رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں اور مانگنے والوں کو دیا اور غلامی وغیرہ کی قید سے لوگوں کی گردنوں کے چھڑانے میں دیا اور نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے رہے۔ جب کسی بات کا اقرار کر لیا تو اپنے قول کے پورے اور تنگدستی اور سختی اور جنگ کے وقت میں ثابت قدم رہے۔ یہی لوگ ہیں جو دعویٰ اسلام میں سچے نکلے اور یہی ہیں جن کو پرہیز گار کہنا چاہیے۔‘‘
الفرقان بین اولیاء الرحمان و اولیاء الشیطان- امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ