• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انسان بُرا ہوتا ہے زمانہ نہیں

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
مجھے ایسا لگتا ہے کہ جب ہم اردو زبان میں کہتے ہیں کہ زمانہ خراب ہے یا اسی قسم کی کچھ باتیں تو وہاں ہماری مراد زمانہ کے لوگ ہی ہوتے ہیں ۔ باقی حدیث میں الدھر سے مراد شاید قدرتی معاملات ہیں جیسے سردی، گرمی اور برسات وغیرہ ۔ کیوں یہ چیزیں اللہ کے حکم کے تابع ہیں اس لیے ان کو برا بھلا کہنے سے منع فرمایا گیا ہے، ان معاملات میں بندے کو اللہ کے ساتھ حسن ظن رکھنا چاہیے ۔ اقلب اللیل و النہار کا لفظ بھی اس مفہوم کی تائید کرتا ہے ۔
ابوالحسن علوی اور انس نضر بھائی براہ کرم اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں۔
سرفراز فیضی بھائی ما شاء اللہ صاحب علم ہیں، درج بالا پوسٹ ان کی انکساری کو ظاہر کرتی ہے، اللہم زد فزد

میری ناقص رائے میں حدیث مبارکہ میں دہر (زمانے) کو گالی دینے سے مراد کسی مخصوص دن آزمائش، مصیبت اور کسی حادثہ وغیرہ ہونے پر اس دن کو برا بھلا اور منحوس کہنا ہے۔، ظاہر سی بات ہے کہ اس مصیبت وآزمائش کا باعث زمانہ خود نہیں ہے، کیونکہ زمانہ کسی تدبیر یا تصرّف کا اختیار نہیں رکھتا وہ دیگر مخلوقات کی طرح ایک مخلوق ہی ہے۔ یہ سب کچھ نعمتیں اور آزمائشیں اللہ کی طرف سے ہوتی ہیں، جن کیلئے زمانہ فقط ایک ظرف کی حیثیت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی زمانے کے بھی خالق ہیں، انہی کے ہاتھ میں تمام اختیارات ہیں وہی دن اور رات کو آگے پیچھے کرنے والے ہیں۔

زمانے کو برا کہنے کی صورتیں
زمانے کو برا بھلا کہنے کی تین صورتیں ہیں:

  1. بطورِ خبر زمانے کا شدت وحدت اور مشکل کا تذکرہ کیا جائے، اس سے مراد ملامت یا اعتراض نہ ہو۔ جیسے کوئی کہے آج کی سخت گرمی یا سردی نے تو مجھے تھکا مارا ہے۔ یہ جائز ہے، کیونکہ اعمال کا دار ومدار نیّت پر ہے، اس کی مراد ملامت نہیں، بلکہ موسم کی شدت کی خبر دینا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا لوط﷤ کے حوالے سے فرمایا ہے: ﴿وَلَمَّا جَاءَتْ رُ‌سُلُنَا لُوطًا سِيءَ بِهِمْ وَضَاقَ بِهِمْ ذَرْ‌عًا وَقَالَ هَـٰذَا يَوْمٌ عَصِيبٌ ٧٧ ﴾ ۔۔۔ سورة هود کہ جب ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے لوط کے پاس پہنچے تو وه ان کی وجہ سے بہت غمگین ہوگئے اور دل ہی دل میں کڑھنے لگے اور کہنے لگے کہ آج کا دن بڑی مصیبت کا دن ہے (77)
  2. مصیبت وآزمائش آنے پر زمانے کو اس نیت کے ساتھ برا بھلا کہا جائے کہ جیسے زمانہ ہی اس کا باعث ہے، تو یہ شرکِ اکبر ہے۔ کیونکہ یہ شخص اس کائنات میں اللہ کے علاوہ کسی کو بھی مدبّر اور تصرف کرنے والا سمجھ رہا ہے۔
  3. اگر وہ آزمائش و مصیبت کی وجہ سے زمانے کو برا کہتا ہے، لیکن اس کا اعتقاد یہ ہے کہ یہ نعمتیں اور آزمائشیں اللہ کی طرف سے ہوتی ہے، تو یہ فعل منافی صبر ہونے کی وجہ سے حرام اور ناجائز تو ہے لیکن کفر نہیں، کیونکہ اس نے براہِ راست اللہ تعالیٰ کو برا نہیں کہا۔
تفصیل کیلئے دیکھئے:
موقع الإسلام سؤال وجواب - ما معنى لا تسبوا الدهر فإن الله هو الدهر

اسی طرح کسی شخص یا قوم کے برے اعمال کے نتیجے میں کسی مخصوص دن ان پر آنے والے عذاب پر اس دن کو بطورِ خبر اس مخصوص قوم کیلئے برا یا منحوس کہا جا سکتا ہے۔ یہ بھی درج بالا تین صورتوں میں سے پہلی صورت ہوگی۔ گویا اس میں مطلقاً اس دن کو منحوس نہیں کہا جاتا بلکہ مخصوص قوم کیلئے اس مخصوص دن کو منحوس کہا گیا ہے، جیسے فرمانِ باری ہے:
﴿ فَأَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُ‌وا فِي الْأَرْ‌ضِ بِغَيْرِ‌ الْحَقِّ وَقَالُوا مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً ۖ أَوَلَمْ يَرَ‌وْا أَنَّ اللَّـهَ الَّذِي خَلَقَهُمْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةً ۖ وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ ١٥ فَأَرْ‌سَلْنَا عَلَيْهِمْ رِ‌يحًا صَرْ‌صَرً‌ا فِي أَيَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّنُذِيقَهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَعَذَابُ الْآخِرَ‌ةِ أَخْزَىٰ ۖ وَهُمْ لَا يُنصَرُ‌ونَ ١٦ ﴾ ۔۔۔ سورة فصّلت
اب عاد نے تو بے وجہ زمین میں سرکشی شروع کر دی اور کہنے لگے کہ ہم سے زور آور کون ہے؟ کیا انہیں یہ نظر نہ آیا کہ جس نے انہیں پیدا کیا ہے وه ان سے (بہت ہی) زیاده زور آور ہے، وه (آخر تک) ہماری آیتوں کا انکار ہی کرتے رہے (15) بالاخر ہم نے ان پر ایک تیز و تند آندھی منحوس دنوں میں بھیج دی کہ انہیں دنیاوی زندگی میں ذلت کے عذاب کامزه چکھا دیں، اور (یقین مانو) کہ آخرت کا عذاب اس سے بہت زیاده رسوائی والا ہے اور وه مدد نہیں کیے جائیں گے (16)

نیز فرمایا: ﴿ كَذَّبَتْ عَادٌ فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِي وَنُذُرِ‌ ١٨ إِنَّا أَرْ‌سَلْنَا عَلَيْهِمْ رِ‌يحًا صَرْ‌صَرً‌ا فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُّسْتَمِرٍّ‌ ١٩ ﴾ ۔۔۔ سورة القمر
قوم عاد نے بھی جھٹلایا پس کیسا ہوا میرا عذاب اور میری ڈرانے والی باتیں (18) ہم نے ان پر تیز وتند مسلسل چلنے والی ہوا، ایک پیہم منحوس دن میں بھیج دی (19)

اب یہی ایام (آٹھ دن اور سات راتیں) جو قومِ عاد کیلئے تو منحوس ثابت ہوئے، سیدنا ہود﷤ اور ان پر ایمان والوں کیلئے خوش بختی اور سعادت کے ایام ثابت ہوئے۔

امام ابن القیم﷫ فرماتے ہیں:
کوئی شک نہیں کہ جن ایام میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اور اپنے رسولوں کے دشمنوں پر عذاب بھیجے وہ ایام ان کیلئے منحوس تھے، کیونکہ انہیں ایام میں ان پر نحوست (عذاب کی صورت) پہنچی تھی۔ اگرچہ یہ دن اللہ کے ولیوں کیلئے خوشگوار تھے۔ تو یہ ایام مکذبین کیلئے منحوس تھے، مؤمنین کیلئے خوش بختی کے تھے۔ یہی معاملہ قیامت کا ہے کہ یہ کافروں کیلئے تو مشکل اور منحوس ثابت ہوگا جبکہ مؤمنوں کیلئے آسان اور سعادت والا ہوگا۔ امام مجاہد﷫ نے أيام نحسات سے مراد منحوس دن لیے ہیں۔ تو دنوں کی خوش بختی اور نحوست کا تعلّق، خوش بخت اعمال اور منحوس اعمال سے، اللہ کو راضی کرنے والے اور ناراض کرنے والے اعمال سے ہے۔ ایک ہی دن ایک قوم کیلئے سعاوت والا اور دوسری قوم کیلئے منحوس ہو سکتا ہے، جیسے یوم بدر مؤمنوں کیلئے سعاوت والا اور کافروں کیلئے منحوس تھا۔
مفتاح دار السعادة 2 / 194 .

تفصیل کیلئے دیکھئے:
موقع الإسلام سؤال وجواب - هل الدعاء بـ " اللهم أرنا فيهم يومًا أسوداً " من سب الدهر؟

واللہ تعالیٰ اعلم!
 
Top