انسان کو کیسے معلوم ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی توبہ قبول کر لی ہے ؟ ؟ ؟؟ ؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
توبہ
اللہ تعالیٰ کا بہت پسندیدہ عمل ہے ؛
قرآن کریم میں
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
(
إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)
یقیناً اللہ تعالی توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور پاکیزہ رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ [البقرة: 222]
اورصحیح حدیث میں جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ عَنْ رَسُولِ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم أَنَّهُ قَالَ قَالَ اﷲُ عَزَّوَجَلَّ أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي وَأَنَا مَعَهُ حَیْثُ یَذْکُرُنِي وَاﷲِ لَلَّهُ أَفْرَحُ بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ مِنْ أَحَدِکُمْ یَجِدُ ضَالَّتَهُ بِالْفَلَاةِ وَمَنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ إِلَیْهِ ذِرَاعًا وَمَنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَیْهِ. باعًا. وَاِذَا أَقْبَلَ اِلَیِّ یَمْشِي، أَقْبَلْتَ اِلَیْهِ أُهَدْوِلُ.
’’ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ عزوجل نے فرمایا: میرے بارے میں میرے بندے کا جو گمان ہو میں اس کے ساتھ (مطابق ہوتا) ہوں اور وہ مجھے جہاں (بھی) یاد کرے میں اس کے پاس ہوتا ہوں۔ اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر تم میں سے ایسے آدمی کی نسبت بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جسے چٹیل بیابان میں اپنی گم شدہ سواری (سامان سمیت واپس) مل جاتی ہے۔ (میرا) جو بندہ ایک بالشت میرے قریب آتا ہے، میں ایک ہاتھ اس کے قریب آ جاتا ہوں اور جو ایک ہاتھ میرے قریب ہوتا ہے، میں دونوں ہاتھوں کی پوری لمبائی کے برابر اس کے قریب ہو جاتا ہوں اور جو چلتا ہوا میری طرف آتا ہے، میں دوڑتا ہوا اس کے پاس آتا ہوں۔‘‘
(صحیح مسلم ،کتاب التوبۃ ،حدیث 6952 )
لیکن توبہ کا صرف زبان سے کرلینا کافی نہیں ۔ اس کے لئے درج ذیل شرائط کا پورا ہونا ضروری ہے۔
توبہ کی شرائط
قرآن و سنت سے توبہ کی درج ذیل شرائط سامنے آتی ہیں:
۱۔ گناہ یا خطا کا احساس یا علم ہونا
۲۔ اس پر ندامت کا احساس ہونا
۳۔احساس ہونے کے فوراً بعد اللہ سے مغفرت طلب کرنا
۴۔ آئندہ گناہ نہ کرنے کا مصمم ارادہ کرنا اور اس کے لئے ٹھوس اقدام کرنا
۵۔اگرغلطی کا ازالہ ممکن ہو توازالہ کرنا جیسے اگر کسی کا مال چرایا ہے تو وہ مال واپس کرنا یا کسی کا دل دکھایا ہے تو اس سے معافی مانگنا۔کسی کی حق تلفی کی ہو تو معاف کروانا ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالی بڑا کریم ہے اپنے بندوں کے ساتھ انتہائی نرمی والا معاملہ فرماتا ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کی رحمت ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص ظلم و زیادتی کرنے کے بعد توبہ کر لے تو اللہ تعالی اس کی توبہ قبول فرماتا ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
فَمَنْ تَابَ مِنْ بَعْدِ ظُلْمِهِ وَأَصْلَحَ فَإِنَّ اللَّهَ يَتُوبُ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ
تو جو شخص ایسا ظلم کرنے کے بعد توبہ کر لے اور اپنی اصلاح کر لے تو اللہ اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے وہ یقیناً بہت بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔ [المائدة: 39]
اللہ تعالی معاف کرنے والا اور نہایت کرم کرنے والا ہے اسی لیے تو اپنے تمام بندوں کو سچی توبہ کرنے کا حکم بھی دیتا ہے تا کہ رحمت الہی اور اللہ کی جنت حاصل کر کے کامیاب ہو جائیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ يُكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ )
اے ایمان والو ! اللہ کے حضور سچی توبہ کرو یقینی بات ہے کہ تمہارا پروردگار تم سے تمہاری برائیاں دور کر دے اور تمھیں ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ [التحريم: 8]
نیز توبہ کا دروازہ تمام بندوں کیلیے اس وقت تک کھلا ہے جب تک سورج مغرب سے طلوع نہیں ہو جاتا،
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے:
( إن الله عز وجل يبسط يده بالليل ليتوب مسيء النهار ويبسط يده بالنهار ليتوب مسيء الليل حتى تطلع الشمس من مغربها ) رواه مسلم برقم 2759. (بیشک اللہ عزوجل اپنے ہاتھ رات کے وقت پھیلاتا ہے تا کہ دن میں گناہ کرنے والا توبہ کر لے اور دن میں اللہ تعالی اپنے ہاتھ پھیلاتا ہے تا کہ رات میں گناہ کرنے والا توبہ کر لے، [یہ اس وقت تک ہوتا رہے گا] جب تک سورج مغرب کی سمت سے طلوع نہ ہو جائے) مسلم : (2759)
لیکن یاد رہے ۔: سچی توبہ محض زبانی جمع خرچ کا نام نہیں ہے ، بلکہ سچی توبہ کی قبولیت کیلیے شرط یہ ہے کہ انسان گناہ سے فوری طور پر باز آ جائے اور اپنے کئے پر ندامت کا اظہار کرے اور توبہ کردہ گناہ دوبارہ نہ کرنے کا پورا عزم کرے، نیز اگر کسی کے حقوق سلب کئے ہیں تو مستحقین کو ان کے حقوق لوٹا دے، نیز توبہ کیلیے یہ بھی شرط ہے کہ موت نظر آنے سے پہلے انسان توبہ کرے؛ اس بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:
إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللَّهِ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ يَتُوبُونَ مِنْ قَرِيبٍ فَأُولَئِكَ يَتُوبُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا (17) وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ حَتَّى إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ الْآنَ وَلَا الَّذِينَ يَمُوتُونَ وَهُمْ كُفَّارٌ أُولَئِكَ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا
ترجمہ :اللہ تعالی پر قبولیت توبہ کا حق صرف ایسے لوگوں کے لیے ہے جو نا دانستہ جب کوئی برا کام کر بیٹھتے ہیں پھر جلد ہی توبہ کر لیتے ہیں۔ اللہ ایسے ہی لوگوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے [17] توبہ ان لوگوں کے لیے نہیں ہے جو برے کام کرتے رہتے ہیں حتی کہ ان میں سے کسی کی موت جب آ جاتی ہے تو کہنے لگتا ہے کہ " میں اب توبہ کرتا ہوں " اور نہ ہی ان لوگوں کے لئے ہے جو کفر کی حالت میں ہی مر جاتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے ہم نے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے [النساء: 17، 18]
اللہ تعالی نہایت رحم کرنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے؛ اسی لیے گناہ گاروں کو اپنے گناہوں سے توبہ کرنے کی دعوت دیتا ہے تا کہ ان کی توبہ قبول کر کے انہیں معاف فرما دے، فرمانِ باری تعالی ہے:
كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوءًا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ ترجمہ :
تمہارے پروردگار نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کر لیا ہے۔ کہ تم میں سے کوئی شخص لاعلمی سے کوئی برا کام کر بیٹھے پھر اس کے بعد وہ توبہ کر لے اور اپنی اصلاح کر لے تو یقیناً وہ معاف کر دینے والا اور رحم کرنے والا ہے [الأنعام: 54]
اللہ تعالی اپنے بندوں کے ساتھ نہایت نرمی والا معاملہ فرماتا ہے ، اسی لیے توبہ کرنے والوں کو پسند بھی کرتا ہے، اور ان کی توبہ قبول بھی فرماتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
(وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُو عَنِ السَّيِّئَاتِ وَيَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ )
ترجمہ :
وہی تو ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور گناہوں کو معاف کرتا ہے اور وہ تم جو کچھ بھی کرتے ہو ہر چیز سے با خبر ہے۔[الشورى: 25]
ایک اور مقام پر اللہ تعالی کا فرمان ہے : (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)یقیناً اللہ تعالی توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور پاکیزہ رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ [البقرة: 222]
بلکہ اگر کوئی کافر مسلمان ہو جائے تو اللہ تعالی اس کے گناہوں کو بھی نیکیوں میں بدل دیتا ہے ، اس کے سابقہ تمام گناہ معاف فرما دیتا ہے، اس بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے: قُلْ لِلَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ يَنْتَهُوا يُغْفَرْ لَهُمْ مَا قَدْ سَلَفَ کفر کرنے والوں سے کہہ دو: اگر وہ باز آ جائیں تو ان کے گزشتہ سب گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔ [الأنفال: 38]
اللہ تعالی اتنا غفور و رحیم ہے کہ اپنے بندوں سے توبہ کے عمل کو پسند فرماتا ہے اور انہیں توبہ کرنے کا حکم بھی دیتا ہے تا کہ اللہ تعالی انہیں بخش دے، جبکہ انسانی اور جناتی شکل میں شیطان یہ چاہتے ہیں کہ لوگ حق سے بیزار ہو کر باطل کی طرف چلے جائیں ، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَاللَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَتُوبَ عَلَيْكُمْ وَيُرِيدُ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الشَّهَوَاتِ أَنْ تَمِيلُوا مَيْلًا عَظِيمًا
اور اللہ تعالی تو چاہتا ہے کہ تمہاری توبہ قبول کرے جبکہ شہوانیت کے رسیا یہ چاہتے ہیں کہ تم دور کی گمراہی میں چلے جاؤ۔ [النساء: 27]
اللہ کی رحمت ہر چیز سے وسیع ہے، انسان کے گناہ کتنے ہی زیادہ ہوں، انسان نے اپنی جان پر کتنا ہی ظلم ڈھایا ہو، کتنے ہی پاپ کئے ہوں، لیکن بعد میں توبہ کر لے تو اللہ تعالی اس کی توبہ قبول فرماتا ہے، اللہ تعالی اس کے تمام گناہ معاف فرما دیتا ہے چاہے ان کی مقدار کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو، اس کے بارے میں اللہ تعالی نے واضح طور پر فرمایا:
قُلْ يَاعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
آپ لوگوں سے کہہ دیجیے : اے میرے بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں [٧١] پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، اللہ یقیناً سارے ہی گناہ معاف کر دیتا ہے کیونکہ وہ غفور رحیم ہے [الزمر: 53]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی حدیث مبارکہ میں فرمایا:( ينزل ربنا تبارك وتعالى كل ليلة إلى السماء الدنيا , حين يبقى ثلث الليل الآخر , فيقول من يدعوني فأستجيب له , من يسألني فأعطيه ، من يستغفرني فأغفر له ) رواه البخاري (1077) ومسلم(758) .
(ہر رات جب رات کی آخری تہائی باقی رہ جاتی ہے تو ہمارا پروردگار آسمان دنیا تک نازل ہو کر فرماتا ہے: کون ہے جو مجھے پکارے تو میں اس کی دعا قبول کر لوں؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے تو میں اسے عطا کروں؟ کون ہے جو مجھ سے بخشش مانگے تو میں اسے بخش دوں؟) بخاری: (1077) مسلم: (758)
انسانی جان بسا اوقات گناہوں کے آگے بہت کمزور ثابت ہوتی ہے ، تاہم اگر گناہ ہو بھی جائے تو اسے چاہیے کہ فوری توبہ کر لے اور ہر وقت اللہ تعالی سے بخشش مانگے؛ کیونکہ اللہ تعالی نہایت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے، اللہ تعالی کا ہی فرمان ہے: وَمَنْ يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللَّهَ يَجِدِ اللَّهَ غَفُورًا رَحِيمًا اور جو بھی برا عمل کرے یا اپنی جان پر ظلم کر بیٹھے پھر اللہ سے اپنے گناہ کی بخشش چاہے تو وہ اللہ کو نہایت بخشنے والا اور بہت زیادہ رحم کرنے والا پائے گا۔[النساء: 110]
مسلمان سے غلطی کوتاہی ہوتی رہتی ہے، اس سے گناہ بھی ہو جاتے ہیں، اس لیے انسان کو ہر دم توبہ استغفار کرتے رہنا چاہیے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: ( "والله إني لأستغفر الله , وأتوب إليه في اليوم أكثر من سبعين مرة ) رواه البخاري برقم 6307. (اللہ کی قسم! میں اللہ تعالی سے ایک دن میں توبہ اور استغفار ستر بار سے بھی زیادہ مرتبہ مانگتا ہوں) صحیح بخاری: (6309)
اللہ تعالی توبہ پسند فرماتا ہے اور اسے شرف قبولیت سے بھی نوازتا ہے، بلکہ اللہ تعالی کو اپنے بندے کی توبہ کرنے پر خوشی بھی ہوتی ہے جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حدیث مبارکہ میں بتلایا کہ: لَلَّه أفرح بتوبة عبده من أحدكم , سقط على بعيره , وقد أضله في أرض فلاة ) متفق عليه أخرجه البخاري برقم 6309.
(اللہ تعالی کو اپنے بندے کے توبہ کرنے پر اس شخص سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے جس کا اونٹ ویران اور بیابان علاقے میں گم ہو نے کے بعد دوبارہ مل جائے)
متفق علیہ ،صحیح بخاری: (6309)
واللہ اعلم.
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
شریعت اسلامیہ میں توبہ کی قبولیت کی کوئی ظاہری علامات تو نہیں بتائی گئیں ؛
البتہ سچی اور خالص توبہ کرنے کاحکم دیا گیا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ يُكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّاتٍ (سورۃ التحریم )
ترجمہ :
اے ایمان والو! تم اللہ کے سامنے سچی خالص توبہ کرو ، کچھ بعید نہیں کہ تمہارا پروردگار تم سے تمہاری برائیاں دور کردے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خالص توبہ یہ ہے کہ، ١۔ جس گناہ سے توبہ کر رہا ہے، اسے ترک کر دے ٢۔ اس پر اللہ کی بارگاہ میں ندامت کا اظہار کرے، ٣۔ آئندہ اسے نہ کرنے کا عزم رکھے، ٤۔ اگر اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے تو جس کا حق غصب کیا ہے اس کا ازالہ کرے، جس کے ساتھ زیادتی کی ہے اس سے معافی مانگے، محض زبان سے توبہ توبہ کرلینا کوئی معنی نہیں رکھتا۔
توان شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے جو بھی سچی توبہ کرے گا ،اسے قبولیت کا یقین و ایمان رکھنا چاہیئے ؛ البتہ ایک داخلی تبدیلی توبہ کی قبولیت کی علامت بن سکتی ہے جو صرف توبہ کرنے والے کو محسوس ہوگی اور وہ یہ کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا أَذْنَبَ كَانَتْ نُكْتَةٌ سَوْدَاءُ فِي قَلْبِهِ، فَإِنْ تَابَ وَنَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ، صُقِلَ قَلْبُهُ، فَإِنْ زَادَ، زَادَتْ، فَذَلِكَ الرَّانُ الَّذِي ذَكَرَهُ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ: {كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ} [المطففين: 14] "
" سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مومن جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ دھبہ پڑجاتا ہے پھر اگر توبہ کرے وہ آئندہ کیلئے اس سے باز آئے اور استغفار کرے تو اس کا دل چمک کر صاف ہو جاتا ہے اور یہ دھبہ داغ دور ہو جاتا ہے اور اگر اور زیادہ گناہ کرے تو یہ سیاہ دھبہ بڑھتا جاتا ہے ،حتی کہ پورے دل کو سیاہ کردیتا ہے ، اور یہی لوگ مراد ہیں اس آیت میں (كَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ) المطففین : 14) ہر گز یہ بات نہیں بلکہ ان لوگوں کے دلوں پر ان کے برے اعمال کا زنگ لگ گیا ہے"۔(مسند احمدؒ ،حدیث 7952 ،السنن الکبری للنسائی 10179 )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ : گناہوں اور نافرمانی سے دل پر برا اثر پڑتا ہے ،اور دل اچھائی اور برائی کی تمیز نہیں کرسکتا کیونکہ گناہوں کے اثر سے اس کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے ، تو توبہ کے بعد اگر برائی سے نفرت ہو اور عملاً برائی سے دور ہوجائے ،اور نیکی اور خیر کی محبت و شوق دل میں بیدار ہوجائے تو سمجھو توبہ کے اثرات ہیں ، یعنی توبہ کے بعد انسان کی داخلی اور خارجی حالت توبہ سے پہلے والی حالت سے بہتر ہو جائے تو توبہ مؤثر ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔