• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انس و جن سب پر جناب محمد رسول اللہ ﷺکی رسالت تسلیم کرنا فرض ہے

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
انس و جن سب پر جناب محمد رسول اللہ ﷺکی رسالت تسلیم کرنا فرض ہے

ہر شخص کے لئے جاننا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محمدﷺکو تمام انسانوں اور جنوں کی طرف مبعوث فرمایا ہے۔ اس لیے ہر انسان اور جن پر واجب ہے کہ وہ محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لائے اور ان کی پیروی کرے۔ جو باتیں وہ بتائیں، ان کو سچا سمجھے۔ ان کے حکم کی تابعداری کرے۔ جس شخص پر آپﷺکی رسالت سے حجت قائم ہوگئی اور اس نے آپ کو نہ مانا تو وہ کافر ہے خواہ وہ انسان ہو یا جن۔
مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ پیغمبر ثقلین ہیں۔ جنوں کے ایک گروہ نے قرآن سنا اور اپنی قوم کی طرف واپس جا کر اسے ڈرایا۔ یہ واقعہ وہ ہے جب کہ نبیﷺطائف سے واپس ہوئے اور اپنے اصحاب کے ہمراہ وادیٔ نخلہ میں نماز پڑھ رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کی خبر دی اور یہ آیت نازل فرمائی:
وَاِذْ صَرَفْنَآ اِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ ۰ۚ فَلَمَّا حَضَرُوْہُ قَالُوْٓا اَنْصِتُوْا ۰ۚ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا اِلٰى قَوْمِہِمْ مُّنْذِرِيْنَ ۲۹ قَالُوْا يٰقَوْمَنَآ اِنَّا سَمِعْنَا كِتٰبًا اُنْزِلَ مِنْۢ بَعْدِ مُوْسٰى مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْہِ يَہْدِيْٓ اِلَى الْحَـقِّ وَاِلٰى طَرِيْقٍ مُّسْـتَقِيْمٍ ۳۰ يٰقَوْمَنَآ اَجِيْبُوْا دَاعِيَ اللہِ وَاٰمِنُوْا بِہٖ يَغْفِرْ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ وَيُجِرْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ ۳۱ وَمَنْ لَّا يُجِبْ دَاعِيَ اللہِ فَلَيْسَ بِمُعْجِزٍ فِي الْاَرْضِ وَلَيْسَ لَہٗ مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِيَاۗءُ ۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ فِيْ ضَلٰـلٍ مُّبِيْنٍ ۳۲ (الاحقاف:۴۶/ ۲۹ تا ۳۲)
''اور اے پیغمبر! ان لوگوں سے اس واقعہ کا ذکر بھی کرو، جب ہم چند جنوں کو تمہاری طرف لے آئے کہ وہ قرآن سنیں پھر جب وہ اس موقع پر حاضر ہوئے تو ایک دوسرے سے بولے کہ چپ بیٹھے سنتے رہو۔ پھر جب قرآن پڑھنا تمام ہوا تو وہ اپنے لوگوں کی طرف لوٹ گئے کہ ان کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیں۔ کہنے لگے اے ہماری قوم! ہم ایک کتاب سن آئے ہیں، جو موسیٰ کے بعد نازل ہوئی ہے۔ اگلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے، دینِ حق بتاتی ہے اور سیدھا رستہ دکھاتی ہے۔ اے ہماری قوم! اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلانے والے کی بات مانو اور اس پر ایمان لائو، وہ تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور تم کو آخرت کے درد ناک عذاب سے اپنی پناہ میں رکھے گا اور جو شخص اللہ کی طرف بلانے والے کی دعوت کو نہ مانے گا وہ زمین میں اللہ کو عاجز نہیں کر سکے گا اور نہ اللہ کے سوا اس کے کوئی حمایتی ہیں۔ یہ لوگ صریح گمراہی میں پڑے ہیں۔''(الاحقاف: ۴۶؍۲۹ تا ۳۲)
اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں:
قُلْ اُوْحِيَ اِلَيَّ اَنَّہُ اسْتَـمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوْٓا اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَــبًا ۱ۙ يَّہْدِيْٓ اِلَى الرُّشْدِ فَاٰمَنَّا بِہٖ ۰ۭ وَلَنْ نُّشْرِكَ بِرَبِّنَآ اَحَدًا ۲ۙ وَّاَنَّہٗ تَعٰلٰى جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَۃً وَّلَا وَلَدًا ۳ۙ وَّاَنَّہٗ كَانَ يَقُوْلُ سَفِيْہُنَا عَلَي اللہِ شَطَطًا ۴ۙ وَّاَنَّا ظَنَنَّآ اَنْ لَّنْ تَقُوْلَ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَي اللہِ كَذِبًا ۵ۙ وَّاَنَّہٗ كَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ يَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوْہُمْ رَہَقًا ۶ۙ (الجن: ۷۲؍۱تا۶)
''اے پیغمبر! سب لوگوں کو جتا دو کہ میرے پاس (اللہ کی طرف سے) اس امر کی وحی آئی ہے کہ جنات میں سے ایک جماعت نے مجھے قرآن پڑھتے سنا اور اس کے بعد اپنے لوگوں سے جا کر کہا ہم نے عجیب طرح کا قرآن سنا۔ جو نیک راہ بتاتا ہے۔ سو ہم اس پر ایمان لے آئے اور ہم تو کسی کو اپنے پروردگار کا شریک ٹھہرائیں گے نہیں اور ہمارے پروردگار کی بڑی اونچی شان ہے، اس نے نہ تو کسی کو اپنی بیوی بنایا اور نہ کسی کو بیٹا بیٹی۔ اور ہم میں کچھ احمق ایسے بھی ہو گزرے ہیں جو اللہ کی نسبت بڑھ بڑھ کر باتیں بنایا کرتے تھے اور ہم تو ایسا سمجھتے تھے کہ کیا آدمی اور کیا جن ! کوئی بھی اللہ پرجھوٹ نہیں بول سکتا۔ اور آدمیوں میں سے کچھ لوگ جنات میں سے بعض لوگوں کی پناہ پکڑا کرتے تھے تو اس سے ان آدمیوں نے جنات کو اور بھی زیادہ مغرور کر دیا۔''
علمائے کے ظاہر ترین قول کے مطابق سَفِیْہُنَا سے اَلسَّفِیْہُ مِنَّا (ہم سے جو سفیہ ہے) مرادہے۔متعدد سلف کا قول ہے کہ انسان جب وادی میں اترتے تھے تو کہا کرتے تھے۔ ''میں اس وادی کے سردار کے پاس اس کی قوم کے سفیہوں کے شر سے پناہ پکڑتا ہوں۔'' جب انسانوں نے جنوں سے حاجتیں مانگنی شروع کر دیں تو جنوں کی سرکشی اور کفر میں اضافہ ہوگیا۔
(ابن کثیر بحوالہ ابن ابی حاتم تفسیر سورۃ الجن)
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَّاَنَّہٗ كَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ يَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوْہُمْ رَہَقًا ۶ۙ وَّاَنَّہُمْ ظَنُّوْا كَـمَا ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ يَّبْعَثَ اللہُ اَحَدًا ۷ۙ وَّاَنَّا لَمَسْـنَا السَّمَاۗءَ فَوَجَدْنٰہَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيْدًا وَّشُہُبًا ۸ۙ
(الجن: ۷۲؍۶تا۸)
''اور آدمیوں میں سے کچھ لوگ جنات میں سے بعض لوگوں کی پناہ پکڑا کرتے تھے تو اس سے ان آدمیوں نے جنات کو اور بھی زیادہ مغرور کر دیا اور جس طرح تم کو خیال تھا، بنی آدم کو بھی خیال ہوا کہ اللہ کسی کو ہرگز مبعوث نہیں فرمائے گا اور ہم نے آسمان کو بھی ٹٹولا تو پایا کہ بڑی مضبوط چوکیوں اور شہابوں سے بھرا پڑا ہے۔''
نزولِ قرآن سے پہلے بھی شیاطین پر شہاب پھینکے جاتے تھے لیکن کبھی کبھی کوئی شیطان شہاب کے پہنچنے سے پہلے پہلے چوری سے کچھ سن لیتا تھا۔ جب محمدﷺمبعوث ہوئے تو آسمان مضبوط چوکیوں اور شہابوں سے بھر گیا۔ اب ان کے سننے سے پہلے ہی شہاب تاک میں ہوتے ہیں۔
(بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ الجن، رقم: ۴۹۲۱۔)
چنانچہ انہوں نے کہا:
وَّاَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْہَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ ۰ۭ فَمَنْ يَّسْتَمِـــعِ الْاٰنَ يَجِدْ لَہٗ شِہَابًا رَّصَدًا ۹ۙ (الجن: ۷۲؍۹)
''اور پہلے آسمان میں بہت سے ٹھکانے تھے، جہاں ہم سننے کے لیے بیٹھا کرتے تھے لیکن جب اب کوئی سننے کا قصد کرے تو ایک شہاب کو اپنے لیے تاک لگائے تیار پائے گا۔''
دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَا تَنَزَّلَتْ بِہِ الشَّيٰطِيْنُ ۲۱۰ وَمَا يَنْۢبَغِيْ لَہُمْ وَمَا يَسْتَطِيْعُوْنَ ۲۱۱ۭ اِنَّہُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُوْلُوْنَ ۲۱۲ۭ
''اسے شیاطین نے نہیں اتارا، نہ یہ ان کے لائق ہے اور نہ ان سے یہ ہوسکتا ہے کیونکہ وہ سننے سے ہٹا دئیے گئے ہیں۔'' (الشعراء: ۲۶؍۲۱۰تا ۲۱۲)
اور جنوں نے کہا:
وَّاَنَّا لَا نَدْرِيْٓ اَشَرٌّ اُرِيْدَ بِمَنْ فِي الْاَرْضِ اَمْ اَرَادَ بِہِمْ رَبُّہُمْ رَشَدًا ۱۰ۙ وَّاَنَّا مِنَّا الصّٰلِحُوْنَ وَمِنَّا دُوْنَ ذٰلِكَ ۰ۭ كُنَّا طَرَاۗىِٕقَ قِدَدًا ۱۱ۙ
(الجن:۷۲؍۱۰،۱۱)
''اور ہم نہیں جانتے کہ اس انتظام سے زمین کے رہنے والوں کو کچھ نقصان پہنچانا منظور ہے یا ان کے پروردگار کا ارادہ ان کے حق میں بہتری کا ہے اور ہم میں سے کچھ تو نیک ہیں اور کچھ اور طرح کے ہیں، غرض ہمارے بھی مختلف فرقے ہیں۔''
طَرَآئِقَ قِدَدًا سے مراد مختلف مذاہب ہیں جیسا کہ علماء نے کہا ہے۔ ان میں مسلم، مشرک، یہودی، نصرانی، سنی اور بدعتی سب پائے جاتے ہیں۔
جنوں کے اس گروہ نے جو قرآن سن چکا تھا یہ بھی کہا:
وَّ اَنَّا ظَنَنَّآ اَنْ لَّنْ نُّعْجِزَ اللہَ فِي الْاَرْضِ وَ لَنْ نُّعْجِزَہٗ ہَرَبًا ۱۲ۙ(الجن:۷۲؍۱۲)
''اور اب ہم نے سمجھ لیا کہ ہم نہ تو زمین میں رہ کر اللہ کو ہرا سکتے ہیں اور نہ کسی طرف بھاگ کر اس کو ہرا سکتے ہیں۔''
انہوں نے اپنے بھائیوں کو بتایا کہ وہ اللہ کو ہرا نہیں سکتے۔ زمین میں رہیں تو بھی اور بھاگ جائیں تو بھی پھر کہا:
وَّاَنَّا لَمَّا سَمِعْنَا الْہُدٰٓى اٰمَنَّا بِہٖ ۰ۭ فَمَنْ يُّؤْمِنْۢ بِرَبِّہٖ فَلَا يَخَافُ بَخْسًا وَّلَا رَہَقًا ۱۳ۙ وَّاَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُوْنَ وَمِنَّا الْقٰسِطُوْنَ ۰ۭ فَمَنْ اَسْلَمَ فَاُولٰۗىِٕكَ تَحَرَّوْا رَشَدًا ۱۴ وَاَمَّا الْقٰسِطُوْنَ فَكَانُوْا لِجَہَنَّمَ حَطَبًا ۱۵ۙ وَّاَنْ لَّوِ اسْتَــقَامُوْا عَلَي الطَّرِيْقَۃِ لَاَسْقَيْنٰہُمْ مَّاۗءً غَدَقًا ۱۶ۙ لِّنَفْتِنَہُمْ فِيْہِ ۰ۭ وَمَنْ يُّعْرِضْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّہٖ يَسْلُكْہُ عَذَابًا صَعَدًا ۱۷ۙ وَّاَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلہِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللہِ اَحَدًا ۱۸ۙ وَّاَنَّہٗ لَمَّا قَامَ عَبْدُاللہِ يَدْعُوْہُ كَادُوْا يَكُوْنُوْنَ عَلَيْہِ لِبَدًا ۱۹ۭۧ قُلْ اِنَّمَآ اَدْعُوْا رَبِّيْ وَلَآ اُشْرِكُ بِہٖٓ اَحَدًا ۲۰ قُلْ اِنِّىْ لَآ اَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّلَا رَشَدًا ۲۱ قُلْ اِنِّىْ لَنْ يُّجِيْرَنِيْ مِنَ اللہِ اَحَدٌ ۰ۥۙ وَّلَنْ اَجِدَ مِنْ دُوْنِہٖ مُلْتَحَدًا ۲۲ۙ اِلَّا بَلٰـغًا مِّنَ اللہِ وَرِسٰلٰتِہٖ ۰ۭ وَمَنْ يَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَاِنَّ لَہٗ نَارَ جَہَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْہَآ اَبَدًا ۲۳ۭ حَتّٰٓي اِذَا رَاَوْا مَا يُوْعَدُوْنَ فَسَيَعْلَمُوْنَ مَنْ اَضْعَفُ نَاصِرًا وَّاَقَلُّ عَدَدًا ۲۴ (الجن: ۷۲؍۱۳ تا ۲۴)
''اور ہم نے جب ہدایت کی بات سنی تو ہم اس کو مان گئے، پس جو شخص اپنے پروردگار پر ایمان لائے گا، اس کو نہ کسی نقصان کا ڈر ہوگا اور نہ ظلم کا اور ہم میں سے بعض تو فرمانبردار ہیں اور بعض حکم سے سرتابی کرتے ہیں تو جنہوں نے فرمانبرداری اختیار کی انہوں نے سیدھا راستہ ڈھونڈ نکالا اور جنہوں نے سرتابی کی وہ آخر کار دوزخ کا ایندھن بن گئے اور یہ کہ اگر وہ سیدھے رستے پر قائم رہتے تو ہم ان کو پانی کی ریل پیل سے سیراب کرتے تاکہ اس نعمت میں ان کا امتحان کریں اور جو شخص اپنے پروردگار کی یاد سے رُوگردانی کرے گا تو وہ اس کو سخت عذاب میں لے جا داخل کرے گا اور مسجدیں تو اللہ ہی کے لیے ہیں تو اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔ جب اللہ کا بندہ۔ اللہ کی عبادت کرنے کھڑا ہوتا ہے تو لوگ اس کے گرد گھرے آتے ہیں اور قریب ہے کہ اس کو چمٹ جائیں۔ اے پیغمبر! ان سے کہو کہ میں تو صرف اپنے پروردگار کی عبادت کرتا ہوں اور کسی کو اس کا شریک نہیں گردانتا ۔ اے پیغمبر! کہو کہ تمہارا نقصان یا فائدہ میرے اختیار میں نہیں، اے پیغمبر! ان سے کہو کہ اللہ کے غضب سے کوئی بھی مجھ کو پناہ نہیں دے سکتا اور نہ اس کے سوا کہیں مجھے ٹھکانہ مل سکتا ہے۔ میرا بچائو تو اسی میں ہے کہ اللہ کی طرف سے جو حکم آیا ہے لوگوں کو پہنچا دوں اور اس کے پیغام سب کو سنا دوں اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا تو کچھ شک نہیں کہ آخر کار اس کے لیے دوزخ کی آگ ہے جس میں وہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے مگر کافر تو اس وقت تک ان باتوں کو ماننے والے نہیں جب تک اس عذاب کو نہ دیکھ لیں، جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے تو اس وقت ان کو معلوم ہوجائے گا کہ کس کے مددگار کمزور ہیں اور کس کا جتھا شمار میں کم ہے۔''
قَاسِطُوْنَ سے مراد ظالم لوگ ہیں۔ جب کوئی عدل کرے تو عرب والے کہتے ہیں {اَقْسَطَ} (انصاف کیا) اور جب ظلم و جور کا ارتکاب کرے تو کہتے ہیں قَسَطَ (ظلم کیا) مُلْتَحَدًا سے مراد ملجا و معاذ (جائے پناہ ) ہے۔
پھر جس وقت جنوں نے قرآن سنا تو نبیﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان پر ایمان لے آئے۔ یہ شہر نصیبین کے جن تھے۔ جیسا کہ صحیح میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے۔
(بخاری، کتاب الاذان، باب الجھر بقرأۃ صلاۃ الصبح، رقم: ۷۷۳، مسلم ، کتاب الصلاۃ، باب الجھر بالقراۃ فی الصبح، رقم: ۱۰۰۶۔)
اور روایت کی گئی ہے کہ ان کو سورۂ رحمن پڑھ کر سنائی گئی اور جب آپ ﷺ نے پڑھا:
فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ ۔ (رحمن: ۵۵؍۱۳)
''تو اے جنو اور آدمیو! تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت سے مکرو گے۔''
تو جن کہنے لگے:
وَلَا بِشَیْءٍ مِّنْ الٰاَئِکَ رَبَّنَا نُکَذِّبُ وَلَکَ الْحَمْدُ۔
(ترمذی، کتاب التفسیر، سورۃ الرحمن، رقم: ۳۲۹۱، مستدرک حاکم، ۲؍۴۷۳)
''اے ہمارے پروردگار! تیری کسی نعمت کو نہیں جھٹلاتے اور تیرے لیے ہی سب تعریف ہے۔''
جب وہ نبیﷺکے پاس اکٹھے ہوئے اور پوچھا کہ
ہم اور ہمارے مویشی کیا کھائیں تو فرمایا کہ جس جانور کے ذبح ہوتے وقت اللہ کا نام ذکر کیا جائے۔ اس کی ہڈی جہاں کہیں تمہیں ملے اس پر بہت زیادہ گوشت پائو گے وہ تمہاری خوراک ہے اور ہر قسم کی مینگنیاں تمہارے مویشی کا چارہ ہے۔
نبیﷺنے فرمایا:
فَلَا تَسْتَنْجُوْا بِھِمَا فَاِنَّھُمَا زَادٌلِاِخْوَانِکُمْ مِّنَ الْجَنِّ۔
(مسلم، کتاب الصلاۃ، باب الجھربالقراۃ فی الصبح ، رقم: ۱۰۰۶، ترمذی، تفسیر القرآن، الاحقاف، ۳۲۵۸۔)
''ان دو چیزوں کے ساتھ (یعنی ہڈی اور گوبر کے ساتھ) استنجا نہ کرو کیونکہ وہ تمہارے جن بھائیوں کی خوراک ہے۔''
یہ ممانعت کئی طرق سے ثابت ہے اور اسی سے علماء نے ان چیزوں کے ساتھ (جنہیں یا ان کےجانور کھاتے ہیں) استنجاء کرنے کی ممانعت پر استدلال کیا ہے اور کہا ہے کہ جب جنوں اور ان کے مویشی کی خوراک کے ساتھ استنجا کرنا منع ہے تو انسانوں اور ان کے مویشی کی خوراک اور چارے کا احترام بدرجہِ اولیٰ ضروری ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
جناب محمد رسول اللہ ﷺ تمام انسانوں اور جنوں کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ آپ ﷺکا جنوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا جانا اللہ تعالیٰ کے جناب محمد رسول اللہ منزلت کے اعتبار سے ان (جنوں) کے سیدناسلیمان علیہ السلام کے تابع ہونے سے بڑھ کر ہے، سلیمان علیہ السلام کا جنوں پر تصرف بحیثیت بادشاہ کے تھا اور محمد رسول اللہ ﷺ ان کی طرف اللہ کے احکام سنانے کے لیے اور بحیثیت رسول کے مبعوث ہوئے ہیں کیونکہ آپﷺاللہ کے بندے اور رسول ہیں اور بندہ رسول درجے میں بادشاہ نبی سے بلند تر ہوتا ہے۔
جنوں میں جو کفار ہیں۔ ان کے متعلق نص ا ور اجماع کا یہی فیصلہ ہے کہ وہ دوزخ میں جائیں گے اور جو مومن ہیں، ان کے متعلق جمہور کی رائے ہے کہ جنت میں داخل ہوں گے۔ جمہور علماء کا قول ہے کہ پیغمبر جنوں میں پیدا نہیں ہوئے۔ پیغمبرصرف انسانوں میں ہوئے ہیں البتہ جنوںمیں نذیر (ڈرانے والے) پیدا ہوئے ہیں۔ ان مسائل کی تفصیل کا مقام دوسرا ہے۔ یہاں صرف یہ کہنا مقصود ہے کہ جن انسانوں کے ساتھ کئی حال میں ہوتے ہیں۔ سو جب کوئی انسان جنوں کو اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق حکم دے۔ ایک اللہ کی عبادت اور اس کے نبی کی فرمانبرداری کی تلقین کرے اور انسانوں کو بھی ایسا ہی حکم دے تو وہ اللہ تعالیٰ کے افضل اولیاء میں سے ہے۔ اس حیثیت سے وہ رسول ﷺ کے خلیفوں اور اس کے نائبوں میں سے ہے۔
جو شخص جنوں سے مباح امور میں کام لے۔ وہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص انسانوں سے مباح امور میں کام لیتا ہے۔ وہ جب ان کو واجبات کا حکم دے اور حرام کاموں سے منع کرے اور ان امور میں ان سے کام لے جو کہ اس کے لیے مباح ہیں تو بمنزلہ ان بادشاہوں کے ہے جو ایسا کیا کرتے ہیں۔ یہ تب ہے کہ اسے اولیاء اللہ میں سے فرض کر لیا جائے تو زیادہ سے زیادہ وہ ولایت ِ عامہ کے درجے میں ہوسکتا ہے اور اس کے خواص اولیاء کے ساتھ بلحاظ مرتبہ وہی نسبت ہوتی ہے جیسی بادشاہ نبی کو بندہ رسول کے ساتھ۔ اور جیسی سیدنادائود سلیمان و یوسف علیہم السلام کو سیدناابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ علیہم السلام اور جناب محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہوسکتی ہے۔
جو شخص جنوں سے ان امور میں کام لے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺنے منع کر دئیے ہیں مثلاً شرک، قتل بے گناہ، یا تعدی ہو یعنی آدمی کو بیمار کر ڈالنا، یا اس کے علم پر نسیان غالب کر دینا، یا اس کے سوا کوئی اور ظلم کرنا، یا جو شخص جنوں سے بے حیائی کے کام میں مدد لے۔ مثلاً جس سے بے حیائی کا ارادہ ہو اس کو کھینچ لانا تو اس شخص نے اثم وعدوان پر مدد لی ہے، پھر اگر وہ کفر پر ان سے استعانت کرے تو وہ کافرہے اور اگر وہ ان سے معاصی میں استعانت کرے تو وہ عاصی ہے، یا فاسق ہے۔ یا غیر فاسق گناہ گار ہے۔
اگر وہ شریعت سے کامل طور پر واقف نہ ہو اور ان سے ان چیزوں میں مدد مانگے جنہیں وہ کرامات خیال کرتا ہے۔ مثلاً یہ کہ حج کے لیے مدد مانگے۔ یا یہ کہ سماع بدعی کے وقت وہ اسے اڑالے جائیں یا یہ کہ اسے اٹھا کر عرفات پر لے جائیں اور وہ شرعی حج نہ کرے۔ جس کا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے فرمایاہے۔ یا یہ کہ اسے ایک شہر سے دوسرے شہر تک اٹھا کر لے جائیں۔ وعلیٰ ہذا القیاس تو یہ شخص دھوکے میں ہے اور جن و شیاطین اس کے ساتھ مکر کرتے ہیں، ان لوگوں کو بسا اوقات یہ علم نہیں ہوتا کہ یہ جنوں کے کام ہیں، بلکہ یہ سن کر کہ اولیاء اللہ کو وہ کرامات حاصل ہوتی ہیں جو خوارقِ عادت ہوتی ہیں لیکن وہ علم قرآن و حقائق ایمان سے اس قدر بہرہ ور نہیں ہوتے کہ کرامات رحمانی اور تلبیسات شیطانی کے درمیان فرق کر سکیں۔ تو اس طرح کے فریب خوردہ آدمی کے ساتھ اس کے اعتقاد کے مطابق مکر کرتے ہیں۔ اگر ستاروں اور بتوں کا پوجنے والا مشرک ہو تو اسے یہ وہم دلاتے ہیں کہ اسے اس پوجا سے فائدہ پہنچتا ہے۔ اس کی نیت تو یہ ہوتی ہے کہ جس فرشتے یا نبی یا شیخ صالح کی صورت پر اس بت کی صورت بنائی گئی ہے۔ وہ اس کی سفارش کرے یا اس کا وسیلہ بنے اور اپنے خیال میں پوجا بھی اس نبی یا نیک آدمی کی کرتا ہے۔ لیکن حقیت میں وہ شیطان کا پجاری ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَيَوْمَ يَحْشُرُہُمْ جَمِيْعًا ثُمَّ يَقُوْلُ لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اَہٰٓؤُلَاۗءِ اِيَّاكُمْ كَانُوْا يَعْبُدُوْنَ ۴۰ قَالُوْا سُبْحٰنَكَ اَنْتَ وَلِيُّنَا مِنْ دُوْنِہِمْ ۰ۚ بَلْ كَانُوْا يَعْبُدُوْنَ الْجِنَّ ۰ۚ اَكْثَرُہُمْ بِہِمْ مُّؤْمِنُوْنَ ۴۱
''اور لوگو! اس دن کو پیش نظر رکھو۔ جب کہ اللہ تعالیٰ سب لوگوں کو جمع کرے گا اور جمع کرنے کے بعد فرشتوں سے پوچھے گا کہ کیا یہ آدم زاد تمہاری ہی پرستش کیا کرتے تھے؟ وہ عرض کریں گے کہ اے اللہ! تو پاک ہے تو ہمارا (دوست و کارساز ہے) نہ کہ یہ (ہماری نہیں) بلکہ یہ لوگ تو حقیقت میں شیاطین کی پرستش کیا کرتے تھے۔ ان میں سے اکثر ان ہی کے معتقد تھے۔''(سبا: ۳۴؍۴۰،۴۱)
اس لیے جو لوگ سورج چاند اور ستاروں کے آگے سجدہ کرتے تھے اور نیت ان کی انہیں کے آگے سجدہ کرنے کی ہوتی ہے لیکن سجدے کے وقت شیطان سورج کے ساتھ ہو جاتا ہے تاکہ ان کا سجدہ اس کے آگے ہو۔ اسی لیے شیطان اس شخص کی صورت اختیار کر لیتا ہے، جس سے مشرک حاجتیں مانگتے ہیں۔ اگر پجاری نصرانی ہو اور جر جس یا کسی اور سے حاجت مانگے، تو شیطان جرجس یا کسی اور کی صورت میں جس سے مدد مانگی گئی ہو ظاہر ہوتا ہے اور اگر پجاری نسبت کا مسلمان ہو اور وہ مسلمان شیوخ میں سے کسی شیخ سے جس کے متعلق اسے حسن ظن ہو حاجت مانگے تو شیطان اس شیخ کی صورت میں آتا ہے اور اگر پجاری ہند کے مشرکین میں سے ہو تو شیطان اس شخص کی صورت بنا کر آتا ہے، جس کی وہ مشرک تعظیم کرتا ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
پھر اگر وہ شیخ جس سے مدد مانگی جاتی ہے، شریعت کا واقف ہو تو شیطان اسے یہ خبر نہیں دیتا کہ وہ مدد مانگنے والوں کے پاس اس کی صورت اختیار کر کے گیا ہے اور اگر وہ شیخ شریعت سے بے خبر ہو تو شیطان ان کے اقوال کو اس کے ہاں نقل کرتا ہے اور اس کا جواب ان کے پاس لاتا ہے تو لوگ خیال کرتے ہیں کہ شیخ نے ان کی آواز دور سے سن کر ان کا جواب دیا ہے حالانکہ وہ شیطان کی وساطت سے ہوتا ہے۔
ایک شیخ نے بتایا جس کو اس قسم کے کشف اور جنوں سے مخاطبت کا سابقہ پڑتا تھا کہ بعض اوقات جن مجھے پانی اور شیشہ جیسی شفاف اور، آئینہ جیسی چمکدار چیز بنا کر دکھاتا ہے اور اس میں وہ ایسی چیز کی صورت بنا کر بیٹھتے ہیں جس سے خبریں پوچھی جاتی ہیں چنانچہ میں انہیں اس بنا پر ایسی خبریں دے دیتا ہوں۔ وہ میرے پاس میرے ان دوستوں کی باتیں لاتے ہیں، جو مجھ سے مدد مانگتے ہیں۔ میں ان کو جواب دیتا ہوں تو میرا جواب ان تک پہنچا دیتے ہیں۔
بہت سے اہل خوارق مشائخ کا یہ حال ہے کہ جب ان سے ناواقف شخص انہیں جھٹلا کر یہ کہہ دےکہ تم یہ سب کچھ بطریق حیلہ کرتے ہو۔ جس طرح ابرق سفید نارنگی کے چھلکوں اور مینڈکوں کے تیل وغیرہ حیل طبیعی سے بعض لوگ آگ میں داخل ہوجاتے ہیں اور وہ ان کو نہیں جلاتی۔ اس پر وہ مشائخ حیران ہو کر کہتے ہیں کہ واللہ ہمیں ان حیلوں کی کوئی خبر نہیں اور جب کوئی باخبر آدمی ان سے کہتا ہے کہ آپ لوگ اس معاملہ میں سچ کہتے ہیں لیکن یہ احوال شیطانی ہیں۔ اس پر ان شیوخ میں سے بعض اس کا اقرار کر لیتے ہیں اور جب ان پر حق واضح ہوجاتا ہے اور کئی وجوہ سے انہیں معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ حالات شیطانی ہیں اور وہ دیکھ بھی لیتے ہیں کہ ان کا تاروپود ہی شیطانی ہے اور جب ان پر یہ حقیقت بھی کھل جاتی کہ ان خوارق کے اسباب حصول بدعات ہیں جو شرعاً مذموم ہیں اور ان کے ظہور کا وقت وہ ہے جس میں گناہوں کا بازار گرم ہو، نہ کہ ان شرعی عبادتوں کا جو اللہ اور اس کے رسول کو پسند ہیں تو اس وقت انہیں یقین ہوجاتا ہے کہ یہ وہ مزین و ملمع چیزیں ہیں جو شیطان اپنے اولیاء کے لیے تیار کرتے ہیں۔ نہ کہ وہ کرامات جن سے اللہ رحمان اپنے اولیاء کو سرفراز فرماتا ہے اور جنہیں اللہ نے توفیق دی ہوتی ہے وہ تائب بھی ہوجاتے ہیں۔
وَاللہُ سُبْحٰنَہٗ وَتَعَالٰی اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ وَاِلَیْہِ الْمَرَجَعُ وَالْمَابُ۔ وَصَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّدٍ سَیِّدِ رُسُلِہٖ وَاَنْبِیَائَہٖ وَعَلَی اٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَاَنْصَارِہٖ وَاَشْیَاعِہٖ وَ خُلَفَائِہٖ صَلٰوۃً وَّسَلَامًا نَسْتَوْجِبُ بِھِمَا شَفَاعَتُہٗ۔ امین۔
ء......ء......ء​
الحمدللہ ، کتاب مکمل ہوئی۔​
 
Top