- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
انس و جن سب پر جناب محمد رسول اللہ ﷺکی رسالت تسلیم کرنا فرض ہے
ہر شخص کے لئے جاننا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محمدﷺکو تمام انسانوں اور جنوں کی طرف مبعوث فرمایا ہے۔ اس لیے ہر انسان اور جن پر واجب ہے کہ وہ محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لائے اور ان کی پیروی کرے۔ جو باتیں وہ بتائیں، ان کو سچا سمجھے۔ ان کے حکم کی تابعداری کرے۔ جس شخص پر آپﷺکی رسالت سے حجت قائم ہوگئی اور اس نے آپ کو نہ مانا تو وہ کافر ہے خواہ وہ انسان ہو یا جن۔
مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ پیغمبر ثقلین ہیں۔ جنوں کے ایک گروہ نے قرآن سنا اور اپنی قوم کی طرف واپس جا کر اسے ڈرایا۔ یہ واقعہ وہ ہے جب کہ نبیﷺطائف سے واپس ہوئے اور اپنے اصحاب کے ہمراہ وادیٔ نخلہ میں نماز پڑھ رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کی خبر دی اور یہ آیت نازل فرمائی:
وَاِذْ صَرَفْنَآ اِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ ۰ۚ فَلَمَّا حَضَرُوْہُ قَالُوْٓا اَنْصِتُوْا ۰ۚ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا اِلٰى قَوْمِہِمْ مُّنْذِرِيْنَ ۲۹ قَالُوْا يٰقَوْمَنَآ اِنَّا سَمِعْنَا كِتٰبًا اُنْزِلَ مِنْۢ بَعْدِ مُوْسٰى مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْہِ يَہْدِيْٓ اِلَى الْحَـقِّ وَاِلٰى طَرِيْقٍ مُّسْـتَقِيْمٍ ۳۰ يٰقَوْمَنَآ اَجِيْبُوْا دَاعِيَ اللہِ وَاٰمِنُوْا بِہٖ يَغْفِرْ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ وَيُجِرْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ ۳۱ وَمَنْ لَّا يُجِبْ دَاعِيَ اللہِ فَلَيْسَ بِمُعْجِزٍ فِي الْاَرْضِ وَلَيْسَ لَہٗ مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِيَاۗءُ ۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ فِيْ ضَلٰـلٍ مُّبِيْنٍ ۳۲ (الاحقاف:۴۶/ ۲۹ تا ۳۲)
''اور اے پیغمبر! ان لوگوں سے اس واقعہ کا ذکر بھی کرو، جب ہم چند جنوں کو تمہاری طرف لے آئے کہ وہ قرآن سنیں پھر جب وہ اس موقع پر حاضر ہوئے تو ایک دوسرے سے بولے کہ چپ بیٹھے سنتے رہو۔ پھر جب قرآن پڑھنا تمام ہوا تو وہ اپنے لوگوں کی طرف لوٹ گئے کہ ان کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیں۔ کہنے لگے اے ہماری قوم! ہم ایک کتاب سن آئے ہیں، جو موسیٰ کے بعد نازل ہوئی ہے۔ اگلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے، دینِ حق بتاتی ہے اور سیدھا رستہ دکھاتی ہے۔ اے ہماری قوم! اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلانے والے کی بات مانو اور اس پر ایمان لائو، وہ تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور تم کو آخرت کے درد ناک عذاب سے اپنی پناہ میں رکھے گا اور جو شخص اللہ کی طرف بلانے والے کی دعوت کو نہ مانے گا وہ زمین میں اللہ کو عاجز نہیں کر سکے گا اور نہ اللہ کے سوا اس کے کوئی حمایتی ہیں۔ یہ لوگ صریح گمراہی میں پڑے ہیں۔''(الاحقاف: ۴۶؍۲۹ تا ۳۲)
اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں:
قُلْ اُوْحِيَ اِلَيَّ اَنَّہُ اسْتَـمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوْٓا اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَــبًا ۱ۙ يَّہْدِيْٓ اِلَى الرُّشْدِ فَاٰمَنَّا بِہٖ ۰ۭ وَلَنْ نُّشْرِكَ بِرَبِّنَآ اَحَدًا ۲ۙ وَّاَنَّہٗ تَعٰلٰى جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَۃً وَّلَا وَلَدًا ۳ۙ وَّاَنَّہٗ كَانَ يَقُوْلُ سَفِيْہُنَا عَلَي اللہِ شَطَطًا ۴ۙ وَّاَنَّا ظَنَنَّآ اَنْ لَّنْ تَقُوْلَ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَي اللہِ كَذِبًا ۵ۙ وَّاَنَّہٗ كَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ يَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوْہُمْ رَہَقًا ۶ۙ (الجن: ۷۲؍۱تا۶)
''اے پیغمبر! سب لوگوں کو جتا دو کہ میرے پاس (اللہ کی طرف سے) اس امر کی وحی آئی ہے کہ جنات میں سے ایک جماعت نے مجھے قرآن پڑھتے سنا اور اس کے بعد اپنے لوگوں سے جا کر کہا ہم نے عجیب طرح کا قرآن سنا۔ جو نیک راہ بتاتا ہے۔ سو ہم اس پر ایمان لے آئے اور ہم تو کسی کو اپنے پروردگار کا شریک ٹھہرائیں گے نہیں اور ہمارے پروردگار کی بڑی اونچی شان ہے، اس نے نہ تو کسی کو اپنی بیوی بنایا اور نہ کسی کو بیٹا بیٹی۔ اور ہم میں کچھ احمق ایسے بھی ہو گزرے ہیں جو اللہ کی نسبت بڑھ بڑھ کر باتیں بنایا کرتے تھے اور ہم تو ایسا سمجھتے تھے کہ کیا آدمی اور کیا جن ! کوئی بھی اللہ پرجھوٹ نہیں بول سکتا۔ اور آدمیوں میں سے کچھ لوگ جنات میں سے بعض لوگوں کی پناہ پکڑا کرتے تھے تو اس سے ان آدمیوں نے جنات کو اور بھی زیادہ مغرور کر دیا۔''
علمائے کے ظاہر ترین قول کے مطابق سَفِیْہُنَا سے اَلسَّفِیْہُ مِنَّا (ہم سے جو سفیہ ہے) مرادہے۔متعدد سلف کا قول ہے کہ انسان جب وادی میں اترتے تھے تو کہا کرتے تھے۔ ''میں اس وادی کے سردار کے پاس اس کی قوم کے سفیہوں کے شر سے پناہ پکڑتا ہوں۔'' جب انسانوں نے جنوں سے حاجتیں مانگنی شروع کر دیں تو جنوں کی سرکشی اور کفر میں اضافہ ہوگیا۔
(ابن کثیر بحوالہ ابن ابی حاتم تفسیر سورۃ الجن)
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَّاَنَّہٗ كَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ يَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوْہُمْ رَہَقًا ۶ۙ وَّاَنَّہُمْ ظَنُّوْا كَـمَا ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ يَّبْعَثَ اللہُ اَحَدًا ۷ۙ وَّاَنَّا لَمَسْـنَا السَّمَاۗءَ فَوَجَدْنٰہَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيْدًا وَّشُہُبًا ۸ۙ
(الجن: ۷۲؍۶تا۸)
''اور آدمیوں میں سے کچھ لوگ جنات میں سے بعض لوگوں کی پناہ پکڑا کرتے تھے تو اس سے ان آدمیوں نے جنات کو اور بھی زیادہ مغرور کر دیا اور جس طرح تم کو خیال تھا، بنی آدم کو بھی خیال ہوا کہ اللہ کسی کو ہرگز مبعوث نہیں فرمائے گا اور ہم نے آسمان کو بھی ٹٹولا تو پایا کہ بڑی مضبوط چوکیوں اور شہابوں سے بھرا پڑا ہے۔''
نزولِ قرآن سے پہلے بھی شیاطین پر شہاب پھینکے جاتے تھے لیکن کبھی کبھی کوئی شیطان شہاب کے پہنچنے سے پہلے پہلے چوری سے کچھ سن لیتا تھا۔ جب محمدﷺمبعوث ہوئے تو آسمان مضبوط چوکیوں اور شہابوں سے بھر گیا۔ اب ان کے سننے سے پہلے ہی شہاب تاک میں ہوتے ہیں۔
(بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ الجن، رقم: ۴۹۲۱۔)
چنانچہ انہوں نے کہا:
وَّاَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْہَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ ۰ۭ فَمَنْ يَّسْتَمِـــعِ الْاٰنَ يَجِدْ لَہٗ شِہَابًا رَّصَدًا ۹ۙ (الجن: ۷۲؍۹)
''اور پہلے آسمان میں بہت سے ٹھکانے تھے، جہاں ہم سننے کے لیے بیٹھا کرتے تھے لیکن جب اب کوئی سننے کا قصد کرے تو ایک شہاب کو اپنے لیے تاک لگائے تیار پائے گا۔''
دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَا تَنَزَّلَتْ بِہِ الشَّيٰطِيْنُ ۲۱۰ وَمَا يَنْۢبَغِيْ لَہُمْ وَمَا يَسْتَطِيْعُوْنَ ۲۱۱ۭ اِنَّہُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُوْلُوْنَ ۲۱۲ۭ
''اسے شیاطین نے نہیں اتارا، نہ یہ ان کے لائق ہے اور نہ ان سے یہ ہوسکتا ہے کیونکہ وہ سننے سے ہٹا دئیے گئے ہیں۔'' (الشعراء: ۲۶؍۲۱۰تا ۲۱۲)
اور جنوں نے کہا:
وَّاَنَّا لَا نَدْرِيْٓ اَشَرٌّ اُرِيْدَ بِمَنْ فِي الْاَرْضِ اَمْ اَرَادَ بِہِمْ رَبُّہُمْ رَشَدًا ۱۰ۙ وَّاَنَّا مِنَّا الصّٰلِحُوْنَ وَمِنَّا دُوْنَ ذٰلِكَ ۰ۭ كُنَّا طَرَاۗىِٕقَ قِدَدًا ۱۱ۙ
(الجن:۷۲؍۱۰،۱۱)
''اور ہم نہیں جانتے کہ اس انتظام سے زمین کے رہنے والوں کو کچھ نقصان پہنچانا منظور ہے یا ان کے پروردگار کا ارادہ ان کے حق میں بہتری کا ہے اور ہم میں سے کچھ تو نیک ہیں اور کچھ اور طرح کے ہیں، غرض ہمارے بھی مختلف فرقے ہیں۔''
طَرَآئِقَ قِدَدًا سے مراد مختلف مذاہب ہیں جیسا کہ علماء نے کہا ہے۔ ان میں مسلم، مشرک، یہودی، نصرانی، سنی اور بدعتی سب پائے جاتے ہیں۔
جنوں کے اس گروہ نے جو قرآن سن چکا تھا یہ بھی کہا:
وَّ اَنَّا ظَنَنَّآ اَنْ لَّنْ نُّعْجِزَ اللہَ فِي الْاَرْضِ وَ لَنْ نُّعْجِزَہٗ ہَرَبًا ۱۲ۙ(الجن:۷۲؍۱۲)
''اور اب ہم نے سمجھ لیا کہ ہم نہ تو زمین میں رہ کر اللہ کو ہرا سکتے ہیں اور نہ کسی طرف بھاگ کر اس کو ہرا سکتے ہیں۔''
انہوں نے اپنے بھائیوں کو بتایا کہ وہ اللہ کو ہرا نہیں سکتے۔ زمین میں رہیں تو بھی اور بھاگ جائیں تو بھی پھر کہا:
وَّاَنَّا لَمَّا سَمِعْنَا الْہُدٰٓى اٰمَنَّا بِہٖ ۰ۭ فَمَنْ يُّؤْمِنْۢ بِرَبِّہٖ فَلَا يَخَافُ بَخْسًا وَّلَا رَہَقًا ۱۳ۙ وَّاَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُوْنَ وَمِنَّا الْقٰسِطُوْنَ ۰ۭ فَمَنْ اَسْلَمَ فَاُولٰۗىِٕكَ تَحَرَّوْا رَشَدًا ۱۴ وَاَمَّا الْقٰسِطُوْنَ فَكَانُوْا لِجَہَنَّمَ حَطَبًا ۱۵ۙ وَّاَنْ لَّوِ اسْتَــقَامُوْا عَلَي الطَّرِيْقَۃِ لَاَسْقَيْنٰہُمْ مَّاۗءً غَدَقًا ۱۶ۙ لِّنَفْتِنَہُمْ فِيْہِ ۰ۭ وَمَنْ يُّعْرِضْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّہٖ يَسْلُكْہُ عَذَابًا صَعَدًا ۱۷ۙ وَّاَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلہِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللہِ اَحَدًا ۱۸ۙ وَّاَنَّہٗ لَمَّا قَامَ عَبْدُاللہِ يَدْعُوْہُ كَادُوْا يَكُوْنُوْنَ عَلَيْہِ لِبَدًا ۱۹ۭۧ قُلْ اِنَّمَآ اَدْعُوْا رَبِّيْ وَلَآ اُشْرِكُ بِہٖٓ اَحَدًا ۲۰ قُلْ اِنِّىْ لَآ اَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّلَا رَشَدًا ۲۱ قُلْ اِنِّىْ لَنْ يُّجِيْرَنِيْ مِنَ اللہِ اَحَدٌ ۰ۥۙ وَّلَنْ اَجِدَ مِنْ دُوْنِہٖ مُلْتَحَدًا ۲۲ۙ اِلَّا بَلٰـغًا مِّنَ اللہِ وَرِسٰلٰتِہٖ ۰ۭ وَمَنْ يَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَاِنَّ لَہٗ نَارَ جَہَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْہَآ اَبَدًا ۲۳ۭ حَتّٰٓي اِذَا رَاَوْا مَا يُوْعَدُوْنَ فَسَيَعْلَمُوْنَ مَنْ اَضْعَفُ نَاصِرًا وَّاَقَلُّ عَدَدًا ۲۴ (الجن: ۷۲؍۱۳ تا ۲۴)
''اور ہم نے جب ہدایت کی بات سنی تو ہم اس کو مان گئے، پس جو شخص اپنے پروردگار پر ایمان لائے گا، اس کو نہ کسی نقصان کا ڈر ہوگا اور نہ ظلم کا اور ہم میں سے بعض تو فرمانبردار ہیں اور بعض حکم سے سرتابی کرتے ہیں تو جنہوں نے فرمانبرداری اختیار کی انہوں نے سیدھا راستہ ڈھونڈ نکالا اور جنہوں نے سرتابی کی وہ آخر کار دوزخ کا ایندھن بن گئے اور یہ کہ اگر وہ سیدھے رستے پر قائم رہتے تو ہم ان کو پانی کی ریل پیل سے سیراب کرتے تاکہ اس نعمت میں ان کا امتحان کریں اور جو شخص اپنے پروردگار کی یاد سے رُوگردانی کرے گا تو وہ اس کو سخت عذاب میں لے جا داخل کرے گا اور مسجدیں تو اللہ ہی کے لیے ہیں تو اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔ جب اللہ کا بندہ۔ اللہ کی عبادت کرنے کھڑا ہوتا ہے تو لوگ اس کے گرد گھرے آتے ہیں اور قریب ہے کہ اس کو چمٹ جائیں۔ اے پیغمبر! ان سے کہو کہ میں تو صرف اپنے پروردگار کی عبادت کرتا ہوں اور کسی کو اس کا شریک نہیں گردانتا ۔ اے پیغمبر! کہو کہ تمہارا نقصان یا فائدہ میرے اختیار میں نہیں، اے پیغمبر! ان سے کہو کہ اللہ کے غضب سے کوئی بھی مجھ کو پناہ نہیں دے سکتا اور نہ اس کے سوا کہیں مجھے ٹھکانہ مل سکتا ہے۔ میرا بچائو تو اسی میں ہے کہ اللہ کی طرف سے جو حکم آیا ہے لوگوں کو پہنچا دوں اور اس کے پیغام سب کو سنا دوں اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا تو کچھ شک نہیں کہ آخر کار اس کے لیے دوزخ کی آگ ہے جس میں وہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے مگر کافر تو اس وقت تک ان باتوں کو ماننے والے نہیں جب تک اس عذاب کو نہ دیکھ لیں، جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے تو اس وقت ان کو معلوم ہوجائے گا کہ کس کے مددگار کمزور ہیں اور کس کا جتھا شمار میں کم ہے۔''
قَاسِطُوْنَ سے مراد ظالم لوگ ہیں۔ جب کوئی عدل کرے تو عرب والے کہتے ہیں {اَقْسَطَ} (انصاف کیا) اور جب ظلم و جور کا ارتکاب کرے تو کہتے ہیں قَسَطَ (ظلم کیا) مُلْتَحَدًا سے مراد ملجا و معاذ (جائے پناہ ) ہے۔
پھر جس وقت جنوں نے قرآن سنا تو نبیﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان پر ایمان لے آئے۔ یہ شہر نصیبین کے جن تھے۔ جیسا کہ صحیح میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے۔
(بخاری، کتاب الاذان، باب الجھر بقرأۃ صلاۃ الصبح، رقم: ۷۷۳، مسلم ، کتاب الصلاۃ، باب الجھر بالقراۃ فی الصبح، رقم: ۱۰۰۶۔)
اور روایت کی گئی ہے کہ ان کو سورۂ رحمن پڑھ کر سنائی گئی اور جب آپ ﷺ نے پڑھا:
فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ ۔ (رحمن: ۵۵؍۱۳)
''تو اے جنو اور آدمیو! تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت سے مکرو گے۔''
تو جن کہنے لگے:
وَلَا بِشَیْءٍ مِّنْ الٰاَئِکَ رَبَّنَا نُکَذِّبُ وَلَکَ الْحَمْدُ۔
(ترمذی، کتاب التفسیر، سورۃ الرحمن، رقم: ۳۲۹۱، مستدرک حاکم، ۲؍۴۷۳)
''اے ہمارے پروردگار! تیری کسی نعمت کو نہیں جھٹلاتے اور تیرے لیے ہی سب تعریف ہے۔''
جب وہ نبیﷺکے پاس اکٹھے ہوئے اور پوچھا کہ
ہم اور ہمارے مویشی کیا کھائیں تو فرمایا کہ جس جانور کے ذبح ہوتے وقت اللہ کا نام ذکر کیا جائے۔ اس کی ہڈی جہاں کہیں تمہیں ملے اس پر بہت زیادہ گوشت پائو گے وہ تمہاری خوراک ہے اور ہر قسم کی مینگنیاں تمہارے مویشی کا چارہ ہے۔
نبیﷺنے فرمایا:
فَلَا تَسْتَنْجُوْا بِھِمَا فَاِنَّھُمَا زَادٌلِاِخْوَانِکُمْ مِّنَ الْجَنِّ۔
(مسلم، کتاب الصلاۃ، باب الجھربالقراۃ فی الصبح ، رقم: ۱۰۰۶، ترمذی، تفسیر القرآن، الاحقاف، ۳۲۵۸۔)
''ان دو چیزوں کے ساتھ (یعنی ہڈی اور گوبر کے ساتھ) استنجا نہ کرو کیونکہ وہ تمہارے جن بھائیوں کی خوراک ہے۔''
یہ ممانعت کئی طرق سے ثابت ہے اور اسی سے علماء نے ان چیزوں کے ساتھ (جنہیں یا ان کےجانور کھاتے ہیں) استنجاء کرنے کی ممانعت پر استدلال کیا ہے اور کہا ہے کہ جب جنوں اور ان کے مویشی کی خوراک کے ساتھ استنجا کرنا منع ہے تو انسانوں اور ان کے مویشی کی خوراک اور چارے کا احترام بدرجہِ اولیٰ ضروری ہے۔