کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
ان ’تحقیقاتِ عالیہ‘ اور ’فرموداتِ طیبہ‘ کے بعد مدھو پوری ’محقق‘ صاحب ایک ’ٹھوس حقیقت‘ کا عنوان لگا کر مزید ارشاد فرماتے ہیں:
قرآن اللہ کا کلام ہے، اس کا یقین کرنے کے لئے ہمیں رسول ؐ کی رسالت پر ایمان لانا ہوگا، بغیر آپ پر ایمان لائے قرآن کے کلام اللہ ہونے پر ہمارا ایمان لانا کسی درجہ میں معتبر نہ ہوگا۔ بعینہٖ اسی طرح روایتوں کو حدیث ِرسولؐ ماننے کے لئے ایک ایک روایت کے راوی پر ایمان لانا ہمارے لئے ناگزیر ہوگا بلکہ ہر روایت کے ہر سلسلہ اسناد میں جتنے راوی ہوں گے ہرایک پر بلا استثنا ایمان لاناہوگا۔ کیا ہمیں اللہ و رسولؐ کی طرف سے اِن اَن گنت اصحابِ اسماء الرجال پر ایمان لانے کی تکلیف دی گئی ہے۔ اناللہ …‘‘’’ہم مکلف ہیں ایمان لانے کے اللہ اور اس کے رسولؐ پر۔ اور اللہ و رسولؐ پر ایمان لانے کے معنی ہیں اللہ کو حق جاننا اور محمدؐ (رسول اللہ) پرنازل شدہ کتاب (قرآن) کو ماننا۔ بخلاف اس کے محض سنی سنائی باتیں جو صدہا سال تک ہر کہ ومہ کی زبان پر بے روک ٹوک گشت کرتی رہی ہوں اور بالآخر انہیں محدثین نے بالکل غیر ذمہ دارانہ ذرائع سے معلوم کرکے اپنے بیاض میں نقل کیا ہو، ایسی غیر مستند اور غیر یقینی روایتوں کو اس صادق و مصدوق کی طرف منسوب کرکے انہیں ’سنت‘ کا نام دینا اور ان پر ایمان لانے کے لئے مسلمانوں کو مجبور کرنا سراسر بے انصافی اور انتہائی زیادتی ہے۔
مروّجہ انجیل کا نسخہ جسے خود حضرت عیسیٰ ؑ کے حواریوں نے قلم بند کیا تھا (جو سفر و حضر ہر حال میں آپؑ کے رفیق وہم جلیس رہ چکے تھے) اگر محض اس لئے قابل اعتنا نہیں سمجھا جاسکتا کہ یہ کام حضرت مسیح کی موجودگی میں نہیں بلکہ واقعہ رفع کے چالیس سال بعد انجام پایا تھا تو یہ روایتیں جنہیں نہ خود حضورؐ نے قلمبند کروایا نہ ہی آپ کے اصحاب میں سے کسی نے اس کی ضرورت سمجھی۔ بلکہ حضور کے سینکڑوں سال بعد بعض عجمیوں نے زید، عمروو بکر سے پوچھ پوچھ کر لکھ لیا ہو، انہیں منزل من اللہ ماننے اور جزوِ دین قرار دینے کے لئے وجہ جواز کیا ہوسکتی ہے؟ اور یہ تدوین و ترتیب کے دوران تقویٰ و طہارت کا اہتمام یعنی ایک ایک روایت کو قلم بند کرنے سے پہلے تازہ غسل و وضو اور دو رکعت نفل ادا کرنے کا شاخسانہ نفسیاتی اعتبار سے ذہنوں میں روایتوں کی تقدیس و تکریم کا جذبہ خواہ کتنا ہی پیدا کرے لیکن نفس روایات کا جہاں تک تعلق ہے، یہ حقیقت ہے کہ اگر انہیں آبِ زمزم سے بھی غسل و وضو کرکے لکھا گیا ہوتا تو بھی اس عمل سے ان کی صحت و سقم میں کوئی فرق نہیں آتا۔‘‘