• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انکارِ حدیث حق یا باطل؟

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
ان ’تحقیقاتِ عالیہ‘ اور ’فرموداتِ طیبہ‘ کے بعد مدھو پوری ’محقق‘ صاحب ایک ’ٹھوس حقیقت‘ کا عنوان لگا کر مزید ارشاد فرماتے ہیں:
’’ہم مکلف ہیں ایمان لانے کے اللہ اور اس کے رسولؐ پر۔ اور اللہ و رسولؐ پر ایمان لانے کے معنی ہیں اللہ کو حق جاننا اور محمدؐ (رسول اللہ) پرنازل شدہ کتاب (قرآن) کو ماننا۔ بخلاف اس کے محض سنی سنائی باتیں جو صدہا سال تک ہر کہ ومہ کی زبان پر بے روک ٹوک گشت کرتی رہی ہوں اور بالآخر انہیں محدثین نے بالکل غیر ذمہ دارانہ ذرائع سے معلوم کرکے اپنے بیاض میں نقل کیا ہو، ایسی غیر مستند اور غیر یقینی روایتوں کو اس صادق و مصدوق کی طرف منسوب کرکے انہیں ’سنت‘ کا نام دینا اور ان پر ایمان لانے کے لئے مسلمانوں کو مجبور کرنا سراسر بے انصافی اور انتہائی زیادتی ہے۔
مروّجہ انجیل کا نسخہ جسے خود حضرت عیسیٰ ؑ کے حواریوں نے قلم بند کیا تھا (جو سفر و حضر ہر حال میں آپؑ کے رفیق وہم جلیس رہ چکے تھے) اگر محض اس لئے قابل اعتنا نہیں سمجھا جاسکتا کہ یہ کام حضرت مسیح کی موجودگی میں نہیں بلکہ واقعہ رفع کے چالیس سال بعد انجام پایا تھا تو یہ روایتیں جنہیں نہ خود حضورؐ نے قلمبند کروایا نہ ہی آپ کے اصحاب میں سے کسی نے اس کی ضرورت سمجھی۔ بلکہ حضور کے سینکڑوں سال بعد بعض عجمیوں نے زید، عمروو بکر سے پوچھ پوچھ کر لکھ لیا ہو، انہیں منزل من اللہ ماننے اور جزوِ دین قرار دینے کے لئے وجہ جواز کیا ہوسکتی ہے؟ اور یہ تدوین و ترتیب کے دوران تقویٰ و طہارت کا اہتمام یعنی ایک ایک روایت کو قلم بند کرنے سے پہلے تازہ غسل و وضو اور دو رکعت نفل ادا کرنے کا شاخسانہ نفسیاتی اعتبار سے ذہنوں میں روایتوں کی تقدیس و تکریم کا جذبہ خواہ کتنا ہی پیدا کرے لیکن نفس روایات کا جہاں تک تعلق ہے، یہ حقیقت ہے کہ اگر انہیں آبِ زمزم سے بھی غسل و وضو کرکے لکھا گیا ہوتا تو بھی اس عمل سے ان کی صحت و سقم میں کوئی فرق نہیں آتا۔‘‘
قرآن اللہ کا کلام ہے، اس کا یقین کرنے کے لئے ہمیں رسول ؐ کی رسالت پر ایمان لانا ہوگا، بغیر آپ پر ایمان لائے قرآن کے کلام اللہ ہونے پر ہمارا ایمان لانا کسی درجہ میں معتبر نہ ہوگا۔ بعینہٖ اسی طرح روایتوں کو حدیث ِرسولؐ ماننے کے لئے ایک ایک روایت کے راوی پر ایمان لانا ہمارے لئے ناگزیر ہوگا بلکہ ہر روایت کے ہر سلسلہ اسناد میں جتنے راوی ہوں گے ہرایک پر بلا استثنا ایمان لاناہوگا۔ کیا ہمیں اللہ و رسولؐ کی طرف سے اِن اَن گنت اصحابِ اسماء الرجال پر ایمان لانے کی تکلیف دی گئی ہے۔ اناللہ …‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
جواب
مدھو پوری ’محقق‘ صاحب کا ’سرمایۂ تحقیقات‘ ختم ہوا۔ اب آئیے اس پر ہمارا تبصرہ اور جائزہ ملاحظہ فرمائیے۔ ہم نے اس کے جواب میں انہیں لکھا تھا کہ
آپ کا دعویٰ ہے کہ دین میں حدیث کا کوئی مقام نہیں اور اس دعویٰ کی آپ نے اپنے خیال میں دو دلیلیں لکھی ہیں۔ دوسری دلیل پر تو ہم آگے گفتگو کریں گے۔پہلی دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ دین کی بنا علم و یقین پر ہے، احادیث ظنی ہیں۔
اس ضمن میں آپ نے وہ آیات نقل کی ہیں جن میں ظن کی مذمت کی گئی ہے۔ اور ظن سے بچنے کا حکم دیا گیاہے۔ آپ کی یہ حرکت دیکھ کر بے ساختہ کہنا پڑتا ہے کہ آپ حضرات نہ تو قرآن کو مانتے ہیں اور نہ اس کو سمجھنے کا سلیقہ ہی رکھتے ہیں!!
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
شریعت میں ظنّ اور ظنّیات کی حیثیت
جنابِ عالی! قرآنِ مجید میں صرف ظن کی مذمت ہی نہیں کی گئی ہے بلکہ اس کی تعریف بھی کی گئی ہے۔ اسے اختیار کرنے کا حکم بھی دیاگیا ہے اور اسے مدار نجات بھی قرار دیا گیا ہے۔ سنئے، فرمایا گیا ہے:
’’ لَوْلاَ إذْ سَمِعْتُمُوْہ ظَنَّ الْمُؤمِنُوْنَ وَالْمُؤمِنَاتُ بِاَنْفُسِهِمْ خَيْرًا وَقَالُوْا هٰذَا إفْکٌ مُّبِيْنٌ ‘‘ (النور:۱۲)
’’جب تم لوگوں نے حضرت عائشہؓ پر الزام کے واقعہ کو سنا تو مؤمن مردوں اور مؤمنہ عورتوں نے اپنے نفسوں کے ساتھ اچھا ظن کیوں نہ قائم کیا؟ اور کیوں نہ کہا کہ یہ کھلی ہوئی جھوٹی تہمت ہے۔ ‘‘
غور فرمائیے!
اس میں صرف ’ظن‘کو اختیار ہی کرنے کا مطالبہ نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد پر ایک معاملہ کے بارے میں فیصلہ کن رائے قائم کرنے کا بھی مطالبہ ہے۔ ایک جگہ فرمایا گیا:
’’ وَاسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ وَاِنَّهَا لَکَبِيْرَهٌ إلاَّ عَلَی الْخٰشِعِيْنَ اَلَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُلٰقُوْا رَبِّهِمْ وَاَنَّهُمْ اِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ ‘‘ (البقرۃ:۴۵،۴۶)
’’صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو اور بے شک یہ بھاری ہے مگر ان ڈرنے والوں پرجو یہ ’ظن‘ رکھتے ہیں کہ انہیں اپنے ربّ سے ملنا ہے اور یہ کہ وہ اسی کی طرف پلٹ کر جائیں گے۔‘‘
گویا قیامت کے وقوع اور اللہ سے ملاقات کا ’ظن‘ رکھنا ایمان کی علامت ہے۔ ایک اور مقام پرارشاد ہے :
’’ اَلاَ يَظُنُّ أوْلٰئِکَ أنَّهُمْ مَبْعُوْثُوْنَ، لِيَوْمٍ عَظِيْمٍ ‘‘ (المطفّفین:۴،۵)
’’کیا وہ لوگ ظن نہیں رکھتے کہ وہ ایک بڑے دن کے لئے اٹھائے جائیں گے؟‘‘
گویا بعث کا ظن نہ رکھنا عدمِ ایمان کی علامت ہے اور ڈنڈی مارنے جیسی برائیوں کا سبب ہے۔ ایک اور جگہ ارشاد ہے:
’’ فَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتٰبَه بِيَمِيْنِهِ فَيَقُوْلُ هٰآؤمُ اقْرَءُ وْا کِتٰبِيَه إنِّی ظَنَنْتُ أنِّیْ مُلٰقٍ حِسَابِيَه …الخ ‘‘ (الحاقہ: ۱۹ تا ۲۲)
’’ قیامت کے دن جس شخص کی کتاب اس کے دائیں ہاتھ میں دی جائے گی، وہ کہے گا: آؤ میری کتاب پڑھو۔ میںظن رکھتا تھا کہ میں اپنے حساب سے ملوں گا۔ پھر وہ پسندیدہ زندگی یعنی بلند وبالاجنت میں ہوگا۔‘‘
لیجئے جناب!
یہاں ایک ’ظنی‘ عقیدے پرجنت مل رہی ہے اور آپ ظن اور ظنیات کو جہنم میں دھکیلنے پرتلے بیٹھے ہیں۔ حضرت داوٗد علیہ السلام نے ظن کی بنیادپر توبہ و استغفار کیا تو ان کے اس عمل کو مدح وتعریف کے سیاق میں ذکر کیا گیا ہے، ارشاد ہے:
’’ وَظَنَّ دَاودُ اَنَّمَا فَتَنّٰه فَاسْتَغْفَرَ رَبَّه وَخَرَّ رَاکِعًا وَّأنَابَ ‘‘ ( ص ٓ: ۲۴)
’’داؤد نے یہ ظن کیا کہ ہم نے اسے آزمائش میں ڈال دیا ہے پس انہوں نے اپنے ربّ سے مغفرت مانگی اور رکوع کرتے ہوئے گر پڑے اور اللہ کی طرف جھک گئے۔‘‘
آپ ظنی چیزکا دین سے کوئی تعلق ہی نہیں سمجھتے اور قرآن ظن پر دین کے ایک حکم کادارو مدار رکھتا ہے، ارشاد ہے:
’’ فَإنْ طَلَّقَهَا فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا اَنْ يَتَرَاجَعَا إنْ ظَنَّا أنْ يُّقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ‘‘ (البقرۃ: ۲۳۰ )
یعنی ’’مطلقہ ثلاثہ کا دوسرا شوہر اگر طلاق دے دے تو (پہلے شوہر اور اس کی مطلقہ) ان دونوں پر کوئی حرج نہیںکہ آپس میں تراجع کرلیں (یعنی پھر بذریعہ نکاح اکٹھے ہوجائیں) اگر یہ ظن کریں کہ وہ دونوں اللہ کے حدود قائم کرسکیں گے۔‘‘
غزوئہ تبوک میں جو تین مؤمنین خالصین بلا عذر شریک نہ ہوئے تھے، ان کی توبہ بھی جس مرحلے کے بعد قبول کی گئی، اس کا ذکر قرآن میں ان الفاظ کے ساتھ آیا ہے:
’’ وَعَلَی الثَّلَاثَةِ الَّذِيْنَ خُلِّفُوْا حَتّٰی اِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الاَرْضُ بِمَا رَحُبَتَْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ اَنْفُسُهُمْ وَظَنُّوْا اَنْ لاَّ مَلْجَاَ مِنَ اللّٰهِ إلاَّ إلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوْبُوْا إنَّ اللّٰهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ ‘‘ (التوبہ:۱۱۸)
’’اور اللہ نے ان تین افراد کی توبہ بھی قبول کی جنہیں پیچھے چھوڑ دیا گیا تھا یہاںتک کہ جب ان پر زمین اپنی وسعت کے باوجود تنگ ہوگئی اور ان کی جان پر بن آئی اور انہوں نے یہ ظن قائم کرلیا کہ اللہ کے سوا کوئی جائے پناہ نہیں۔ پھر اللہ نے ان پر رجوع کیا تاکہ وہ توبہ کریں۔ بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا رحیم ہے۔‘‘
لیجئے جناب!
کتنی صاف بات ہے کہ جب ان پیچھے رہ جانے والوں نے حالات کی سختی کا مزا چکھ لیا اور یہ ’ظن‘ قائم کرلیا کہ اللہ کے علاوہ کوئی جائے پناہ نہیں تو اللہ نے ان کی توجہ قبول کرلی۔ یعنی انہیں اللہ کی رحمت و مغفرت ان کے اسی ظن کے نتیجہ میں حاصل ہوئی۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
یہ تو یہ؛ اسلام نے اسلامی عدالت کے تمام فیصلوں کی بنیاد صرف دو عادل گواہوں پر رکھی ہے، اس سے صرف زنا کا کیس مستثنیٰ ہے۔ لیکن ان دو عادل گواہوں کی عدالت و ثقاہت کس درجہ کی ہوگی، اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر وہ نماز کے بعد اللہ کی قسم اور اپنے ا خلاص کا واسطہ دے کر گواہی دے رہے ہوں، تب بھی قرآن نے ان کے بارے میں اس احتمال کو قبول کیا ہے کہ وہ جان بوجھ کر غلط بیانی سے کام لے سکتے ہیں۔ ملاحظہ ہو سورئہ مائدہ : ۱۰۶ تا ۱۰۸
بلکہ گواہی کے سلسلے میں مزید ایک قانونی شق یہ رکھی ہے کہ اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی کافی ہوگی ( البقرۃ:۲۸۳) …اور خو د ہی یہ بھی بتلا دیا ہے کہ عورتوں کی تعداد ایک کے بجائے دو اس لئے رکھی جارہی ہے کہ
’’ اَنْ تَضِلَّ اِحْدَاهُمَا فَتُذَکِّرَ إحْدَاهُمَا الاُخْرٰی‘‘ (البقرۃ: ۲۸۲) ’’اگر ایک عورت معاملہ کوبھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے۔‘‘
یعنی ایسی گواہی بھی قبول کی جائے گی جو خود گواہی دینے والے کو یاد نہیں ہے۔ بلکہ گواہی دینے والا انسان دوسرے کی یاد دہانی کی بنیاد پر گواہی دے رہا ہے۔
کہئے جنابِ عالی!
اس قسم کی گواہی ’یقینیات‘ کے کس درجہ سے تعلق رکھتی ہے؟ اور یہ ڈھیل تو رہی نظامِ عدالت کے سلسلے میں، باقی رہیں خبریں تو ان کے سلسلے میں اس سے بھی زیادہ وسعت اور گنجائش رکھی گئی ہے۔ حکم دیا گیا :
’’ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا إنْ جآءَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاءٍ فَتَبَيَّنُوْا ‘‘ (الحجرات: ۶) ’’اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق آدمی کوئی خبر لائے تو اس کی تحقیق کرلو… الخ‘‘
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی صاحب تقویٰ اور صالح آدمی خبر لائے تو تحقیق بھی کرنے کی ضرورت نہیں۔
جنابِ محترم!
جب قرآن میں نہ صرف ظن کی تعریف کی گئی ہو بلکہ اس پر دین کے بعض احکامات کا دارومدار رکھا گیا ہو، اسی پر پورے نظامِ عدالت کی بنیاد رکھی گئی ہو، اسی ظن کی بنیاد پر فیصلہ کن رائے اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہو، اسی ظن کے تحت توبہ و استغفار کرنے والوں کی بخشش کی گئی ہو حتیٰ کہ اسے آخرت میں نجات کا سبب قرار دیا گیا ہو تو آپ کو یہ بات کہاں تک زیب دیتی ہے کہ آپ احادیث پر ’ظنی‘ ہونے کی پھبتی چست کریں۔ آپ دوسروں کو تفقہ فی الدین اور تدبر فی القرآن سے محروم قرار دیتے ہیں، دراں حالے کہ اس محرومی کے شکار درحقیقت آپ خود ہیں۔ محترم کہنا پڑتا ہے کہ
ایاز قدر خود بشناش
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
شاید آپ اس موقع پر لغت کھول کر بیٹھ جائیں اور چیخنا چلانا شروع کردیں کہ دیکھو یہ شخص ’ظن‘ کے مختلف معانی کو ایک د وسرے کے ساتھ گڈ مڈ کررہا ہے۔اس لئے میں آپ کی اس چیخ پکار سے پہلے ہی یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ یہ کارِخیر میں نہیں، آپ انجام دے رہے ہیں۔ آخر اس سے بڑھ کر دھاندلی اور زبردستی کیا ہوسکتی ہے کہ آپ قرآن کی ان تمام آیات اور اسلام کے اس سارے نظام کو پس پشت ڈال دیں جن میں ’ظن‘ کو دین اسلام کا جزوِلاینفک قرار دیا گیا ہے اور قرآن کی دو تین آیتوں کو پیش کرکے لفظ ’ظن‘ کے مفہوم کو غلط رنگ دیتے ہوئے یہ فیصلہ ٹھونک دیں کہ ’ظن‘ کے لئے دین میں کوئی گنجائش نہیں۔ اس لئے ذخیرۂ احادیث جو یکسر ظنی اور غیر یقینی ہے، اس کا دین میں کوئی مقام نہیں۔ بتائیے ! ہم نے جو آیات پیش کی ہیں،ان کو ملحوظ رکھتے ہوئے آپ کے اس فیصلے پراس کے سوا کیا کہا جائے کہ
آں کس کہ نداندو بداند کہ بداند
درجہل مرکب ابدالدہر بماند
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
دین کے مکمل ہونے کا مطلب
حدیث کے بے حیثیت اور بے مقام ہونے کے سلسلے میں آپ کی دوسری دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ
دین عملاً محمد رسول اللہ والذین معہ کے ذریعہ مکمل ہوچکا ہے۔ اور قولاً لوحِ قرآن میں محفوظ ہوگیا ہے۔
غالباً آپ کے اس ’فنکارانہ‘ استدلال کا منشا یہ ہے کہ اگر آپ سے یہ سوال کردیا جائے کہ محمد رسول اللہ والذین معہ کے ذریعہ عملاً جو دین مکمل ہوچکا ہے، اس کی تفصیلات کہاں دستیاب ہوں گی تو آپ جھٹ کہہ دیں گے کہ قرآن میں۔ ممکن ہے آپ نہ کہیں لیکن آپ کے دوسرے ہم خیال حضرات یہی کہتے ہیں۔اس لئے میں آپ کی توجہ اپنے ان سوالات کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں جو اسی مضمون کے شروع میں درج ہیں۔ جن کا خلاصہ یہ ہے کہ
٭ قرآن میں جن جانوروں کو حرام اور جن کو حلال قرا ردیا گیا ہے، انکے علاوہ بقیہ جانور حلال ہیں یا حرام؟
٭ نماز کے متعلق قرآن میں جو چند چیزیں مذکور ہیں، ان کے علاوہ نماز کے بقیہ حصوں کی ترکیب کیا ہے؟
٭ زکوٰۃ کم از کم کتنے مال پر فرض ہے؟ کتنے فیصد فرض ہے؟ اور کب کب فرض ہے؟
٭ مال غنیمت کی تقسیم مجاہدین پر کس تناسب سے کی جائے؟
٭ چور کے دونوں ہاتھ کاٹے جائیں یا ایک ؟
٭ جمعہ کی نماز کے لئے کب اور کن الفاظ میں پکارا جائے؟ اور وہ نماز کیسے پڑھی جائے؟
ان سوالات کو ایک بار غور سے پڑھ لیجئے اور بتائیے کہ
اس سلسلے میں ’رسول اللہ ﷺ والذین معہ‘ کا عمل کیا تھا؟ اور اس عمل کی تفصیلات کہاں سے ملیں گی؟ اگر قرآن میں ملیں گی تو کس سورہ، کس پارے، کس رکوع اور کن آیات میں؟ اور اگر قرآن میں یہ تفصیلات نہیں ہیں۔ اور یقینا نہیں ہیں تو قرآن کے بعد وہ کون سی کتابیں ہیں جو آپ کے ’معیار‘ پر صحیح ہیں اور ان میں یہ تفصیلات بھی درج ہیں؟
قرآن تو بڑے زور شور سے کہتا ہے کہ جو اللہ سے اُمید رکھتا ہے اور آخرت میں کامیاب ہونا چاہتا ہے ، وہ رسول اللہ ﷺ کے نمونے پرچلے:
’’ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَهٌُ حَسَنَهٌ لِّمَنْ کَانَ يَرْجُوْا اللّٰهَ وَالْيَوْمَ الآخِرَ ‘‘ (الاحزاب: ۲۱)
اور یہاں یہ حال ہے کہ جو مسائل پیش آتے ہیں، ان میں رسول اللہ ﷺ کا اُسوہ ملتا ہی نہیں۔ اور اگر کہیں ملتا بھی ہے تو آپ اسے ’ایرانی سازش‘ کے تحت گھڑا گھڑایا افسانہ قرار دیتے ہیں جن پر تقدس کا خول چڑھا کر لوگوں کو بیوقوف بنایا گیا ہے، ورنہ دین میں ان کی کوئی حیثیت اور کوئی مقام نہیں۔ اب آپ ہی بتائیے کہ اللہ کی رضا اور آخرت کی کامیابی چاہنے والے بے چارے کریں تو کیا کریں؟ع خداوندا ! یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں…؟
اس سلسلے میں سوالات اس کثرت سے ہیں کہ انہیں درج کرتے ہوئے آپ کے ملولِ خاطر کا اندیشہ ہے، اس لئے اتنے پر اکتفا کرتا ہوں ؎

اند کے باتو بگفتم و بدل تر سیدم
کہ آزردۂ دل نہ شوی ورنہ سخن بسیار است
میری ان گذارشات سے یہ حقیقت دو ٹوک طور پر واشگاف ہوجاتی ہے کہ یہ ساری دشواریاں اور پیچیدگیاں اس لئے پیش آرہی ہیں کہ سورئہ مائدہ کی آیت ’’ اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ … الخ‘‘ اور سورئہ بروج کی آیت ’’ بَلْ هُوَ قُرْآنٌُ مَّجِيْدٌ… الخ ‘‘ کا مفہوم سمجھنے میں آپ کے تدبر فی القرآن اور تفقہ في الدین کا طائر پندار حقائق کی دنیا سے بہت دور پرواز کرگیا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
روایت بالمعنی
اب آئیے! آپ کے چند اور ’فرموداتِ عالیہ‘ پر گفتگو ہوجائے، آپ نے حدیثوں کی بابت لکھا ہے کہ
’’یہ سب کی سب یکسر ظنی، غیر یقینی اور روایت بالمعنی ہیں۔‘‘
یہ معلوم ہی ہے کہ ’غیریقینی‘ کا لفظ ’ظنی‘ کی تفسیر ہے اور ظن کے سلسلے میں میں اپنی گذارشات پیش کرچکا ہوں۔ رہا ’روایت بالمعنی‘ کا معاملہ تو سن لیجئے کہ روایت بالمعنی اگر کوئی جرم ہے تو اس جرم کا سب سے بڑا مجرم (نعوذ باللہ) خود قرآن ہے۔
حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی قوم کا مکالمہ، ہود ؑاور ان کی قوم کا مکالمہ، صالح ؑ اور قومِ ثمود ؑ کا مکالمہ، ابراہیم اور لوط علیہما السلام اور ان کی قوم کا مکالمہ، حضرت شعیب ؑ اور اہل مدین و اصحاب الایکہ کا مکالمہ، حضرت موسیٰ کا فرعون سے، بلکہ جادوگروں سے اور بنی اسرائیل سے مکالمہ، اور حضرت عیسیٰ کے مواعظ و مکالمے، کیا یہ سب انہی الفاظ اور عبارتوں میں تھے، جن الفاظ اور عبارتوں کے ساتھ قرآن میں درج ہیں؟
کیا آپ اس تاریخی حقیقت کا انکار کرسکتے ہیں کہ ان پیغمبروں اور ان کی قوموں کی زبان عربی نہیں تھی…!!؟
قرآن میں ایک ہی بات کہیں کچھ الفاظ و عبارت میں ادا کی گئی ہے تو کہیں دوسرے الفاظ و عبارت میں۔ کہیں مختصر ہے کہیں مطول، بلکہ کہیں ایک جز مذکور ہے تو کہیں دوسرا جز۔ پس اگر ایک بات کے بیان کرنے میں الفاظ و عبارت، اجمال و تفصیل اور اجزائِ گفتگو کے ذکر و عدمِ ذکر کا اختلاف اور روایت بالمعنی کوئی عیب ہے تو سب سے پہلے قرآن مجید کو اس عیب سے (نعوذ باللہ) پاک کیجئے۔ اور اگر نہیں تو پھر حدیث کے روایت بالمعنی ہونے پر آپ کو اعتراض کیا ہے؟
آخر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ قرآن تو روایت بالمعنی سے بھرا ہوا ہے، پھر بھی یقینی کا یقینی اور احادیث کے متعلق جوں ہی آپ کے کان میں یہ آواز پہنچے کہ اس میں کچھ احادیث روایت بالمعنی بھی ہیں، بس آپ شور مچانے لگیں کہ ہٹاؤ ان احادیث کو، یہ روایت بالمعنی کی گئی ہیں۔ ان کا کیا اعتبار، اور دین سے ان کا کیا تعلق…؟
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
ایرانی سازش کا بدبودار افسانہ
قرآنی آیات کو آپ نے اپنی مزعومہ خرافات کے گرد طواف کرنے کے بعد اس بڑے بول کا اظہار کیا جسے منکرین حدیث کے گرگانِ باراں دیدہ اپنے سردو گرم چشیدہ یہودی صلیبی مستشرق اساتذہ کی تقلید میں بولتے آئے ہیں اور جس کے متعلق ہرصاحب ِبصیرت بے کھٹک کہہ سکتا ہے کہ
’’ کَبُرَتْ کَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْ اِنْ يَّقُوْلُوْنَ اِلاَّ کَذِبًا ‘‘ (الکہف:۵) ’’بڑا بول ہے جوان کے منہ سے نکل رہا ہے، وہ سراپا جھوٹ بک رہے ہیں۔‘‘
اِن کے اِس بول کا خلاصہ یہ ہے کہ احادیث کا ذخیرہ درحقیقت ایرانیوں کی سازش اور قصہ گویوں، واعظوں اور داستان سراؤں کی من گھڑت حکایات کا مجموعہ ہے۔
آپ کے اس دعویٰ کا پردہ فاش کرنے سے پہلے میں آپ سے یہ پوچھتا ہوں کہ اس عجمی سازش اور داستان سراؤں کی گھڑنت کا پتہ آپ نے کس طرح لگایا؟ آپ کے ذرائع معلومات کیا ہیں؟ اور آپ کے پاس اس پر شور دعویٰ کی کیا دلیل ہے؟ کیونکہ دعویٰ بلا دلیل قبول خرد نہیں!
آپ لوگوں پر حیرت ہوتی ہے کہ دعویٰ تو کرتے ہیں اس قدر زوروشور سے، اور ایسے اونچے آہنگ کے ساتھ اور دلیل کے نام پر ایک حرف نہیں۔ کیا اسی کا نام تدبر فی القرآن ہے؟ اور اسی کو تفقہ فی الدین کہتے ہیں…؟
آپ فرماتے ہیں کہ
’’وفاتِ نبوی کے سینکڑوں برس بعد بعض ایرانیوں نے ادھر ادھر کی سنی سنائی اٹکل پچو باتوں کو جمع کرکے انہیں صحیح حدیث کا نام دے دیا۔‘‘
ملخصاً
میں کہتا ہوں کہ آئیے، سب سے پہلے یہی دیکھ لیں کہ ان مجموعہ ہائے احادیث کو جمع کرنے والے ایرانی ہیں بھی یا نہیں؟ سن وار ترتیب کے لحاظ سے دورِ اول کے رواۃِ حدیث میں سر فہرست ابن شہاب زہری، سعید بن مسیب، عروہ بن زبیر اور عمر بن عبدالعزیز رحمہم اللہ کے نامِ نامی آتے ہیں۔ یہ سب کے سب، سب سے معزز عربی خاندان قریش سے تعلق رکھتے ہیں اور آخر الذکر تو اسلامی تاریخ کے پانچویں خلیفہ راشد کی حیثیت سے معلوم و معروف ہیں۔
اسی طرح دورِ اوّل کے مدوّنین ِحدیث میں سرفہرست امام مالکؒ ہیں۔ پھر امام شافعیؒ اور ان کے بعد امام احمد بن حنبلؒ، ان تینوں ائمہ کے مجموعہ ہائے احادیث پوری اُمت میںمتداول اور مقبول ہیں۔ یہ تینوں خالص عربی النسل ہیں۔ امام مالکؒ قبیلہ ذی اَصبح سے، امام شافعی ؒقریش کی سب سے معزز شاخ بنوہاشم سے ، اور امام احمد ؒ قبیلہ شیبان سے۔
یہ بنو شیبان وہی ہیں جن کی شمشیر خاراشگاف نے خورشید ِاسلام کے طلوع ہونے سے پہلے ہی خسرو پرویز کی ایرانی فوج کو ’ذی فار‘ کی جنگ میں عبرتناک شکست دی تھی۔ اور جنہوں نے حضرت ابوبکر ؓ کے دور میں ایرانی سازش کے تحت برپا کئے گئے ہنگامہ ارتداد کے دوران نہ صرف ثابت قدمی کا ثبوت دیا تھا بلکہ مشرقی عرب سے اس فتنے کو کچلنے میں فیصلہ کن رول ادا کرکے عربی اسلامی خلافت کو نمایاں استحکام عطا کیا تھا۔ اور پھر جس کے شہپر و شہباز مثنیٰ بن حارثہ شیبانی کی شمشیر خارا شگاف نے کاروانِ حجاز کے لئے فتح ِایران کا دورازہ کھول دیا تھا۔
آخر آپ بتلا سکتے ہیں کہ یہ کیسی ایرانی سازش تھی جس کی باگ دوڑ عربوں کے ہاتھ میںتھی؟ جس کا سرپرست عربی خلیفہ تھا اور جس کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے ایسی ایسی نمایاں ترین عربی شخصیتوں نے اپنی زندگیاں کھپا دیں۔ جن میں سے بعض بعض افراد کے قبیلوں کی ایران دشمنی چار دانگ عالم میں معروف تھی؟ کیا کوئی انسان جس کا دماغی توازن صحیح ہو، ایک لمحہ کے لئے بھی ایسے بدبودار افسانہ کو ماننے کے لئے تیار ہوسکتا ہے؟
دو رِ اوّل کے بعدآئیے دورِ ثانی کے جامعین ِحدیث پر نگاہ ڈالیں۔ ان میں سرفہرست امام بخاری ہیں جن کا مسکن ’بخارا‘ تھا۔ بخارا ایران میں نہیں بلکہ ماوراء النہر (ترکستان) میں واقع ہے۔ دوسرے اور تیسرے بزرگ امام مسلم اور امام نسائی ہیں۔ان دونوں حضرات کا تعلق نیشا پور کے علاقے سے تھا اور نیشاپور ایران کا نہیں بلکہ خراسان کا جز تھا۔ اگر اس پر ایران کا اقتدار رہا بھی ہے تو اجنبی اقتدار کی حیثیت سے۔ چوتھے اور پانچویں بزرگ امام ابوداؤد اور امام ترمذی تھے۔ اول الذکر کا تعلق سجستان (خراسان) سے، ثانی الذکر کا تعلق ترمذ (ماوراء النہر، ترکستان) سے رہا ہے۔ چھٹے بزرگ کے بارے میں اختلاف ہے۔ ایک طبقہ ابن ماجہ کی سنن کو صحاحِ ستہ میںشمار کرکے انہیں استناد کا یہ مقام دیتا ہے، دوسرا طبقہ سنن دارمی یا مؤطا امام مالک کو صحاحِ ستہ میں شمار کرتا ہے۔ امام ابن ماجہ یقینا ایرانی ہیں لیکن ان کی تصنیف سب سے نیچے درجے کی ہیں۔ حتیٰ کہ ا کثر محدثین اسے لائق استناد ماننے کو تیا رنہیں۔ آخر الذکر دونوں حضرات عربی ہیں۔ امام مسلم، ترمذی، ابوداؤد اور نسائی بھی عربی ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
کیا محدثین عجمی تھے؟
یہ حقیقت اچھی طرح یاد رہے کہ جن محدثین نے احادیث کو کتابی شکل میں جمع کیا ہے، ان سب کو یا ان کی اکثریت کو عجمی قرار دینا محض فریب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج حدیث کی جو کتابیں اُمت میں رائج، مقبول اور متداول ہیں، چند ایک کے سوا، سب کے مصنّفین (مؤلفین) عرب تھے۔ ہم ذیل میں اس طرح کے عرب محدثین کی فہرست دے رہے ہیں تاکہ واقعی حقیقت دو ٹوک طور پر واشگاف ہوجائے :
عرب محدثین اور ان کے قبیلے کانام
  1. امام مالکؒ ۱۷۹ھ قبیلہ ذی اصبح
  2. امام شافعیؒ ۲۰۴ھ قبیلہ قریش
  3. امام حمیدیؒ ۲۱۹ھ قبیلہ قریش
  4. امام اسحق بن راہویہؒ ۲۳۸ھ قبیلہ بنوتمیم
  5. امام احمد بن حنبلؒ ۲۴۱ھ قبیلہ بنو شیبان
  6. امام دارمیؒ ۲۵۵ھ قبیلہ بنو تمیم
  7. امام مسلمؒ ۲۶۱ھ قبیلہ بنو قشیر
  8. امام ابوداودؒ ۲۷۵ھ قبیلہ بنواَزد
  9. امام ترمذیؒ ۲۷۹ھ قبیلہ بنوسلیم
  10. حارث بن ابی اسامہؒ ۲۸۲ھ قبیلہ بنوتمیم
  11. امام ابوبکر بزارؒ ۲۹۲ھ قبیلہ بنواَزد
  12. امام نسائی ؒ ۳۰۳ھ
  13. امام ابویعلیؒ ۳۰۷ھ قبیلہ بنوتمیم
  14. امام ابوجعفر طحاویؒ ۳۲۱ھ قبیلہ بنواَزد
  15. امام ابن حبانؒ ۳۵۴ھ قبیلہ بنوتمیم
  16. امام طبرانی ؒ ۳۶۰ھ قبیلہ لخم
  17. امام دارقطنیؒ ۳۸۵ھ
  18. امام حاکم ؒ ۴۰۵ھ قبیلہ بنوضبہ
اس فہرست سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جن محدثین کی کتابیں رائج اور مقبول ہیں ان میں ۱۸ عرب اور صرف ۴ عجمی ہیں۔ مولانا ضیاء الدین اصلاحی رفیق دارالمصنّفین،اعظم گڑھ نے پہلی صدی ہجری میں پیدا ہونے والے محدثین سے لے کر آٹھویں صدی کے آخر تک وفات پانے والے مشہور اور صاحب ِتصنیف محدثین کا تفصیلی ذکر ’تذکرۃ المحدثین‘ نامی کتاب کی دو جلدوں میں کیا ہے۔ ان محدثین کی کل تعداد ستر ہوتی ہے۔ جن میں سے صرف ۱۲ محدثین کے متعلق یہ صراحت ملتی ہے کہ وہ عجمی تھے، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حدیث کو عجمی یا ایرانی سازش قرار دینے میں کتنا وزن ہے اور یہ نعرہ کس قدر پرفریب ہے۔
اسی کے ساتھ اگر یہ بات بھی مدنظر رہے کہ کتب ِاحادیث کے لکھنے والوں میں پیشرو اور سرفہرست عرب محدثین ہیں۔ عجمی محدثین ان کے بعد ہیں۔ پھر ان عجمی محدثین نے اپنی کتابوں میں جو حدیثیں جمع کی ہیں، وہ وہی حدیثیں ہیںجنہیں ان کے پیشرو اور ہم عصر عربوں نے اپنی کتابوں میں جمع کیا ہے تو مذکورہ بالا حقیقت مزید اچھی طرح بے نقاب ہوجاتی ہے۔
اب آپ بتائیے کہ آخر عربوں کے خلاف یہ کیسی سازش تھی جس کے دورِ اول کے تمام بڑے بڑے لیڈر عربی تھے اور عربوں کے بعد ترکستانی اور خراسانی تھے جو نسلاً عربی تھے۔ اور اگر عربی نہ بھی تسلیم کریں تو پھر ایرانیوں سے کدور قابت رکھتے تھے اور انہوں نے سازش کا سارا مواد اپنے پیشرو عرب لیڈروں سے حاصل کیا تھا۔ اگر بدقسمتی سے اس دور کے ’سازشی ٹولے‘ میں ایک آدھ ایرانی نے شریک ہوکر ان کی کفش برداری اور خوشہ چینی کی بھی تو اس کوکوئی حیثیت حاصل نہ ہوسکی۔ یا تو اس کی تصنیف کو درجہ استناد ہی نہیں دیا گیا۔ یا دیا بھی گیا تو سب سے نچلے درجہ کا…؟
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
یہ بھی بتلا دیجئے کہ
آخر یہ کیسی ’ایرانی سازش‘ تھی کہ ’سازشی ٹولے‘ اور ان کے سیاسی آقاؤں کے درمیان برابر ٹھنی رہتی تھی؟ کسی کو شہر بدر کیاجارہا ہے، کسی پر شہر کے دروازے بند کئے جارہے ہیں، کسی کو حوالہ زنداں کیا جارہا ہے، کسی پر کوڑے برس رہے ہیں، کسی کی زخمی پیٹھ پر زہریلے پھائے لگائے جارہے ہیں،کسی پاؤں میں بیڑیاں پہنائی جارہی ہیں، کسی کے کندھے اُکھڑوا کر گدھے پر بٹھایا جارہا ہے اور شہر میں گشت کرایا جارہا ہے اور کسی کے ساتھ کچھ اور ہورہا ہے!!
پھر ’سازشی ٹولہ‘ بھی کیسا ہے کہ اپنے آقاؤں سے ذرا دبتا نہیں؟ ان کے مقابل میں اکڑا ہوا ہے۔ ان کے بچوں کے لئے سپیشل کلاس لگانے پر آمادہ نہیں۔ عام درس میں نمایاں اور مخصوص جگہ دینے کو تیار نہیں۔ ان کے ہدایا اور تحائف کو پوری بے نیازی کے ساتھ ٹھکرا دیتا ہے اور ان کے دربار میں بھول کر بھی حاضر نہیں ہوتا۔ اگر کبھی حاضری کے لئے مجبور بھی کیا جاتا ہے تو وہ کھری کھری سناتا ہے کہ بلائیں ٹوٹ پڑتی ہیں۔کیا یہی ’لچھن‘ ہوتے ہیں سازشیوں کے…؟
آخر یہ کیسا نادان ’سازشی ٹولہ‘ تھا کہ جن سیاسی مصالح کے حصول کے لئے اس نے اتنی خطرناک سازش رَچائی تھی، انہی سیاسی مصالح کے خلاف برسرپیکار رہا اورا س رستے میں جو جو مصیبتیں جھیلنی پڑیں نہایت ہی استقلال کے ساتھ جھیلتا رہا۔
اس ’ایرانی سازش‘کا ایک اور پہلو بھی خاصا دلچسپ ہے۔ اس سازشی ٹولے کی جمع کی ہوئی کتب احادیث میں ایسی احادیث بھی ہیں جن میں قبیلوں، قوموں اور ملکوں کے فضائل و مناقب یا خرابیاں اور کمزوریاں بھی بیان کی گئیں ہیں۔ اس قسم کی احادیث میں حجاز کو ’دین کی پناہ گاہ‘ کہا گیا ہے۔ (بخاری ومسلم وغیرہ)۔ یمن کو ’ایمان و حکمت کا مرکز‘ قرار دیا گیا ہے (ایضاً)… شام کو اسلام کی چوٹی کی ’شخصیتوں کامرکز‘،’ اللہ کی منتخب کی ہوئی زمین‘ اور ’اسلام کامستحکم قلعہ‘ کہا گیا ہے اور اس کے لئے دعائیں کی گئی ہیں۔ (بخاری، مسلم، ابوداوٗد، ترمذی، مسنداحمد)
آپ کو معلوم ہے کہ مشرق کو عموماً اور ایرانیوں کے مرکز ِاقتدار (عراق) کو خصوصاً، احادیث میں کیامقام عطا ہوا ہے؟ اسے فتنہ و فساد کا مرکز اور اُجڈوں اور اَکھڑوں کامسکن قرار دیا گیا ہے۔اس پر قدرتی آفات اور تباہیوں کی آمد کی پیشین گوئی کی گئی ہے اور اسے ابلیس کی قضائے حاجت کا مقام بتلایا گیا ہے۔ (بخاری، طبرانی وغیرہ)۔ اگر ایک آدھ حدیث میں اہل ایران سے متعلق کوئی فضیلت آبھی گئی ہے تو صرف چند افراد کے لئے رجال من ھولاء
بتائیے! آخر یہ کیسے ’بدھو‘ قسم کے ’سازشی‘ لوگ تھے کہ سارے فضائل و کمالات تو عطا کردیے اپنے عرب دشمنوں کو؟ اور ساری پستی اور خرابی منتخب کرلی، اپنے لئے اور اپنے آقاؤں کے لئے؟ کیاسازش اسی طرح کی جاتی ہے؟ اور کیا ایسی ہی اُلٹی سیدھی تدبیروں سے سیاسی بالادستی حاصل ہوتی ہے؟

بریں عقل و دانش بباید گریست​

آئیے آپ کو ایک اور حقیقت کی طرف متوجہ کروں۔ جسے مولانا محمد اسماعیل سلفی مرحوم ،گوجرانوالہ نے لکھا ہے ، لکھتے ہیں:
’’پھر آپ نے کبھی اس پر بھی غور فرمایا کہ اسلامی حکومت سرزمین حجاز سے شروع ہو کر اقطارِ عالم تک لاکھوں مربع میل زمین پر پھیلی ہوئی تھی۔ آپ یہ سوچیں آپ کو صلح سے کوئی ملک ملا۔ خود سرزمین حجاز میں قد قدم پر لڑائیاں لڑنی پڑیں۔ مکہ پر فوج کشی کی ضرورت ہوئی۔نجد لڑائی سے ملا۔ شام ، عراق، حبش، یمن کے بعض علاقوں پر لڑنا پڑا۔ سمندر کے ساحلی علاقوں پر جنگیں ہوئیں۔
آنحضرت ﷺ کو اپنی زندگی میں کم و بیش بیاسی جنگیں لڑنا پڑیں۔ پھر یہ جنگوں کا سلسلہ خلیفہ ثالث کی حکومت کے درمیانی ایام تک جاری رہا۔پھر خلیفہ ثالث کے آخری دور سے شروع ہوکر حضرت علیؓ کا پورا زمانہ قریب قریب باہمی آویزش کی نذر رہا۔ ۴۱ھ کے بعد جوں ہی ملک میں امن قائم ہوا، خلفاے بنی اُمیہ نے شخصی کمزوریوں کے باوجود جہاد فی سبیل اللہ کا سلسلہ شروع کردیا۔ ہندوستان، اندلس، بربر، الجزائر، تمام علاقے جنگ ہی سے اسلامی قلمرو میں شامل ہوئے۔
پھر آپ کے قلم اور دماغ نے سازش کا نزلہ صرف ’فارس‘ پرکیوں گرایا؟ محض ملک گیری اور فتوحات کی بنا پر بغاوتیں، سازشیں تصنیف کی جاسکتی ہیں تو حجازی سازش، ہندوستانی سازش، بربری اور اندلسی سازش کیوں نہیں بنائی گئی؟ کیا شام کے یہودی معصوم، عراق اور روم کے مشرک اور عیسائی فارسیوں سے زیادہ پاک باز تھے؟ ان کی حکومتیں مسلمانوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ نہیں اُتریں؟ مصر میں اسلامی فتوحات سے قبطی اور مصری قوموں کا وقار پامال نہیں ہوا۔ پھر آپ مصری سازش کے متعلق کیوں نہیں سوچتے؟
اگر عقل کا دیوالیہ نہیں دے دیا گیا تو اپنی فتوحات کی پوری تاریخ پر غور فرمائیے۔ چین کے سوا شاید ہی کوئی ملک ہے جہاں مسلمانوں کے خون نے زمین کو لالہ زار نہ کیا ہو۔ مغربی سمندر کے سواحل پر آپ کی فوجیں برسوں لنگر انداز رہیں۔ ان لوگوں پر آپ کو سازش کا شبہ کیوں نہیں؟ آپ اُلٹا خود ہی ان کی سازش کا شکار ہوگئے…!!
غزالی، ابن مکرم، ابن عربی ، ابن العربی، شاطبی، ابن حزم، یحییٰ بن یحییٰ مصمودی وغیرہم، قرطبہ اور اندلس کے علما کو سازشی نہیں کہا جاتا۔ اگر خراسان، بخارا، قزوین، ترمذ، نساء کے علما پرحدیث سازی کی تہمت اس لئے لگائی گئی ہے کہ ان بزرگوں نے سنت کے پرانے تذکروں، صحابہ اور تابعین کی بیاضوں اور سلف اُمت کے مسودات سے تدوین حدیث کے لئے راہیں ہموار کیں تو علمائے اندلس نے بھی سنت کی کچھ کم خدمت نہیں کی کہ شروحِ حدیث، فقہ الحدیث اور علومِ سنت کی خدمت میں ان بزرگوں نے لاکھوں صفحات لکھ ڈالے۔ ان خدمات کو کیوں سازش نہیںکہا گیا۔ منکرین سنت کے پورے خاندان میں کوئی عقلمند نہیں جو ان حقائق پر سنجیدگی سے غور کرے، کیا علومِ دینی اور فنونِ نبوت کی ساری داستان میں آپ کو صرف علمائے فارس ہی مجرم نظر آئے!!
من کان هذا القدر مبلغ علمه
فليستتر بالصمت والکتمان‘‘
(حدیث کی تشریعی اہمیت از مولانا محمد اسمٰعیل سلفی: ؒص ۶۹تا ۷۱)
آئیے اس’ایرانی سازش‘ کے متعلق مولانا موصوف کے بعض اور تبصرے ملاحظہ فرماتے چلئے۔ مولانا موصوف لکھتے ہیں :
’’آ ج سے تقریباً ایک صدی پہلے حکومت نہ انتخابی تھی؛ نہ جمہوری نمائندگی کی سند ان کو حاصل تھی۔ نہ وہ حکومتیں عوام کے سامنے جواب دہ ہوتی تھیں بلکہ اس وقت کی حکومتیں شخصی ہوتی تھیں یا زیادہ سے زیادہ کوئی قوم حاکم ہوجاتی، باقی لوگ محکوم ہوتے تھے۔ اقتدار میں عوام کی جوابدہی قطعاً ملحوظ نہیں رکھی جاتی تھی۔ نہ حکومت کسی آئین کی پابند ہوتی تھی۔ بادشاہ کی رائے اور بادشاہ کا قلم پورا آئین ہوتا تھا۔ یا وہ لوگ جو بادشاہ کی ہاں میں ہاں ملا کر حکومت کے منظورِ نظر ہوجائیں۔
ایسی حکومتوں کے ساتھ ہمدردی ذاتی ضرورتوں کی وجہ سے ہوتی تھی۔ یا بادشاہ کے ذاتی ا خلاق اور کریکٹر کی وجہ سے۔ اگر کوئی انقلاب ہوجائے تو انقلاب سے ملک متاثر تو ہوتا تھا لیکن اس کی وجہ بادشاہ یا اس کے خاندان کے ساتھ ہمدردی نہیں ہوتی تھی، بلکہ یہ تاثر آنے جانے والی حکومتوں کے مقاصد کی وجہ سے ہوتا۔
فارسی حکومت شخصی تھی۔ یزدگرد کی موت پراس کا خاتمہ ہوگیا۔یزدگرد کا خاندان یقینا اس انقلاب میں پامال ہوا ہوگا۔ لیکن تاریخ اس وقت کسی ایسی سازش کا پتہ نہیں دیتی جو اس خاندان کے ساتھ ہمدردی کے طور پر کی گئی ہو۔نوشیرواں کے بعد ویسے بھی کسریٰ کی حکومت روبہ انحطاط تھی، ان کے کردار میں عدل و انصاف کے بجائے استبداد روز بروز بڑھ رہا تھا۔ عوام کو حکومت کے ساتھ کوئی دلچسپی اور محبت نہیں تھی۔ پھر سازش کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
مذہبا ً فارسی حکومت آتش پرست تھی۔ اسلام نے توحید کے عقیدہ کی سادگی سے یہودیت اور عیسائیت تک کو متاثر کیا۔ بت پرستی ان کے سامنے نہ ٹھہر سکی، آتش پرستی کی وہاں کیا مجال تھی۔ اسلام کی تعلیمات اس مسئلہ میں نہایت مدلل اور واضح تھیں، ان میں کوئی چیز ڈھکی چھپی نہ تھی۔ اسلام کا موقف عقیدۂ توحید کے معاملے میںکھلی کتاب تھا۔ وہ دوسروں کے شبہات اور اعتراضات بڑی کشادہ دلی سے سنتا تھا۔ مخالفین کے شبہات کی تردید اور اصلاح میں کوئی کوتاہی نہیں کرتا تھا۔ نہ ہی اپنے نظریہ کو کسی پر جبراً ٹھونستا تھا، پھر اس کے خلاف کیوں سازش کی جائے… کون کرے؟ اور کس طرح کرے؟
فارسی حکومت کا چراغ خلیفہ ثانی کی حکومت میں گل ہوا۔ یزد گرد کو خود اس کی رعایا نے قتل کیا اور اس کے خاتمہ میں مسلم عساکر کی مدد کی۔ پھر سازش کی ضرورت کیسے ہوئی؟ فارس کی فتح کے بعد ہزاروں فارسی اپنے آبائی مذہب پر قائم رہے۔ جزیہ دیتے رہے، انہیں کسی نے بھی کچھ نہیں کہا۔ ان کے معبد (آتش کدے) مدتوں قائم رہے۔ جو لوگ ان سے اسلام کی طرف راغب ہوئے انہیں اسلام نے پوری ہمدردی کے ساتھ اپنی آغوش میں عزت کی جگہ دی۔
جہاں مذہب یوں آزاد ہو اور سیاست اس طرح بے اثر، ملک کے عوام مسلمانوں کی فتوحات پر خوشیاں مناتے ہوں، جب وہ جنگی مصالح کی بنا پر کسی مقام سے پیچھے ہٹنا پسند کریں تو اس علاقہ میں صف ماتم بچھ جائے۔ تعجب ہوتا ہے کہ ادارئہ طلوعِ اسلام اور جناب اسلم جیراجپوری نے سازش کے جراثیم کو کون سی عینک سے دیکھ لیا!!
تاریخ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی عدل گستری اور انصاف پسندی کی وجہ سے فارسی بالکل مطمئن ہوگئے تھے۔ فاتحین کی علم دوستی کے اثرات سے فارس کے تمام ذہین لوگ سیاست چھوڑ کر فوراً علم کی طرف متوجہ ہوگئے۔ اس راہ میں انہوں نے آخرت کی سربلندیوں کے علاوہ علمی دنیا میں بہت بڑا نام پیدا کیا، اور حکومت کے خلاف سازش کا ان کی زبان پر کبھی نام تک نہیں آیا۔یہ سازش کا پورا کیس مولانا جیراجپوری کے کاشانہ اور ادارۂ طلوع اسلام کے دفتر میں تیار ہوا ہے۔ واقعات کی روشنی میں اسے ثابت کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔
سازش کی یہ عجیب قسم ہے کہ سازشیوں نے فاتحین کا مذہب قبول کیا۔ پھر ان کے علوم کی اس قدر خدمت کی کہ فاتحین اپنے علوم کی حفاظت سے بے فکر اور کلی طور پر مطمئن ہوگئے۔ پھر فاتحین نے ان میں سے اکثر علوم اور علما کی سرپرستی کی۔ (مقدمہ ابن خلدون:۵۸)
 
Top