• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انکارِ حدیث حق یا باطل؟

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
معلوم ہے کہ اُموی خلفاء کے وقت شاہی درباروں میں عجمیوں کو وہ اقتدار حاصل نہ تھا جو عباسی درباروں میں برامکہ کوحاصل ہوا۔ لیکن اُن کا دامن دین کی خدمات سے بالکل خالی تھا۔ قرآن وسنت اور دینی علوم تو بڑی بات ہے، برامکہ سے تو عربی زبان کی بھی کوئی خدمت نہ ہوسکی۔
ہارون الرشید نے امام مالکؒ اور ان کے درس کی سرپرستی کی کوشش کی، لیکن امام مالک نے اسے بے اعتنائی سے مسترد کردیا، روپیہ دینے کی کوشش کی تو پورے استغنا سے واپس کردیا۔
سازش کا آخر یہ مقصد ہوسکتا تھا کہ شاہی دربار تک رسائی ہو، مال و دولت اور حکومت میں حصہ ملے، اب دربار خود درِ دولت پر حاضر ہوتا ہے، اپنی ساری بلندیاں چھوڑ کر پورے انکسار، انتہائی احترام سے خزانوں کے دروازے کھلتے ہیں۔ تھیلیاں باادب پیش ہوتی ہیں، اور ’سازشی‘ ہیں کہ نظر اُٹھا کر نہیں دیکھتے۔
بادشاہ عرض کرتے ہیں تشریف لے چلئے، آنکھیں فرشِ راہ ہوں گی، فارسی سازش کے سرغنہ یا فن حدیث کے سالارِ قافلہ فرماتے ہیں: ’’والمدينة خيرلهم لو کانوا يعلمون‘‘ مطلب یہ کہ اس بڑے دربار سے علیحدگی میرے لئے ناممکن ہے۔
پھر سازشیوں کا یہ پورا گروہ مختلف عجمی ممالک سے ہزاروں میل سفر طے کرکے مدینہ منورہ پہنچ کر امام کی خدمت میں تحصیل علم کے لئے پیش ہوتا ہے اور کوئی سوچتا نہیں کہ شیخ عرب ہے، یہ عجمی النسل کہیں پوری سازش کا راز فاش نہ کردے۔
عرب استاد کے عجمی شاگرد مدتوں استفادہ کرتے ہیں اور انہیں علوم کا درس ہوتا ہے۔ ساتھی ساتھی پر جرح کرتا ہے۔ایک دوسرے کی کمزوریوں کے کھلے بندوں تذکرے ہوتے ہیں۔ عرب محدثین عجمی علما پرتنقید کرتے ہیں، عجمی اہل عرب کے نقائص کی نشاندہی کرتے ہیں۔ لیکن اس سازش کا سراغ جس کے اختراع کا سہرا ’طلوعِ اسلام‘ کے دفتر پر ہے، نہ کسی عرب کو لگا، نہ کسی عجمی کو۔ نہ استا د نے اسے محسوس کیا نہ شاگرد نے نہ ساتھی نے!!
پھر تعجب یہ ہے کہ فارس کی فتح پہلی صدی کے اوائل میں ہوئی اور اس سازش کا منصوبہ تیسری صدی میں بنایا گیا۔ تقریبا پورے دو سو سال فارسی بے وقوف آرام کی نیند سوتے رہے۔ یعنی جب شکست کا درد اور کوفت تازہ تھی، اس وقت تو فارسیوں کو کوئی احساس نہ ہوا۔ لیکن تین سو سال کے بعد درد کی بے قراریاں انگڑئیاں لینے لگیں اور فارسی سازشیوں نے بخاری ؍مسلم اور کتب ِصحاح کی صورت اختیار کرلی۔ فيا للعقول وأربابها
پھر اتنی بڑی سازش جس نے اسلامی اور تعلیمی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، دنیا کے مسلم اور غیرمسلم مؤرخوں کی آنکھیں بے کار ہوگئیں، قلم ٹوٹ گئے اور زبانیں گنگ؟… ان کی ضخیم کتابیں اس عظیم الشان سازش کے تذکرے سے یکسر خالی ہیں۔ یہ راز سب سے پہلے یورپ کے ملحد مُکتشفین پرکھلا اور اس کے بعد دفتر طلوعِ اسلام کے دریوزہ گروں نے کچھ ہڈیاں مستعار لے لیں۔’’ فَوَيْلٌّ لَّهُمْ مِمَّا کَتَبَتْ اَيْدِيْهِمْ وَوَيْلٌ لَّهُمْ مِمَّا يَکْسِبُوْنَ ‘‘ (حدیث کی تشریعی اہمیت: ص ۴۲ تا ۴۹)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
ہماری ان گذارشات سے واضح ہوگیا کہ ایرانی سازش کا جو شاخسانہ آپ کے رہنماؤں نے چھوڑا ہے وہ کوئی ’ٹھوس حقیقت‘ نہیں بلکہ ایک ’بدبودار افسانہ‘ ہے۔ جس نے اسلام کے دانا دشمن یہودی مستشرق گولڈ زیہر اور اس کے رفقا کی کوکھ سے جنم لیا ہے اور حافظ اسلم، مسٹر پرویز اور پاکستان کے کچھ بے علم یا محدود العلم کلرکوں کی گود میں پل کر جوان ہوا ہے۔ اور اب آپ جیسے ’محقق‘ حضرات اسے عام مسلمانوں کے حلق میں ٹھونسنے کے لئے اپنے ’سرمایۂ تحقیقات‘ کی حیثیت سے اس کی نمائش کرتے پھر رہے ہیں۔
خیر جناب!
’سازشی ٹولے‘ نے پہلی صدی میں اپنی ’سازش‘کا آغاز کیا اور تیسری صدی کے اخیر تک مکمل کرلیا۔ کسی کوکانوں کان خبر نہ ہوئی۔ اب ہزار برس بعد یعنی اب سے کوئی اَسی برس پہلے آپ حضرات کے ہوش و حواس نے انگڑائی لی اور یہودی و صلیبی مستشرقین کی خرد بین لگا کر آپ حضرات نے یہ انکشاف کیا کہ یہ اُمت تو اپنے آغاز سے اب تک ’ایرانی سازش‘ کا شکار ہے۔ یہ انکشاف بڑی دیر سے ہوسکا۔اب یہ آؤٹ آف ڈیٹ ہوچکا ہے۔ اس کی حیثیت مشت بعد از جنگ کی ہے۔ اس لئے اسے شیخ سعدیؒ کے مشورہ کے مطابق آپ اپنے ہی کلے پر مار لیجئے۔ اتنی دیر کے بعد ایسے فوجداری مقدمات کی تفتیش نہیں ہوسکتی اور نہ کوئی دانشمند اس موضوع پر سوچنے کی کوشش کرسکتا ہے!!
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
روایتوں کے متفرق اور متضاد ہونے کی حقیقت
آپ نے روایتوں کو متفرق اور متضاد لکھا ہے۔
میں پوچھتا ہوں کہ اگر کوئی غیر مسلم آپ سے یہ سوال کربیٹھے کہ آپ کا قرآن ابتداء ً متفرق تھا یا مجتمع؟ اور اگر مجتمع تھا تو کس لوح پر، وہ لوح کہاںہے؟ اسے کس نے دیکھا ہے؟ اور اس بات کی شہادت کیا ہے کہ انہوں نے دیکھا ہے؟ پھر یہ شاہدین قابل اعتبار تھے بھی یا نہیں؟ انہوں نے اپنی شہادت کن کن لوگوں کے سامنے اَدا کی؟ پھر ان لوگوں کی حیثیت کیا تھی؟ وھلم جرّا، اگر آپ کے سامنے ایسے سوالات پیش کردیئے جائیں تو آپ کیا جواب دیں گے؟ حدیث تو خیر ’فلاں نے فلاں سے اور فلاں نے فلاں سے‘ کے واسطے سے حضور ﷺ تک پہنچ بھی جاتی ہے۔ مگر آپ لوحِ قرآن کے لئے تو اتنا بھی ثبوت فراہم نہیں کرسکتے۔
باقی رہا تضاد کا معاملہ تو یہ محض ایک ’ہوا‘ ہے جس کی کوئی اصلیت نہیں۔ صحیح احادیث میں کوئی تضاد نہیں۔ ظاہر بینی کے لحاظ سے اگر آپ حضرات نے کچھ مثالیں فراہم کرلی ہیں تو ایسی مثالیں قرآن کے نہ ماننے والوں نے خود قرآن سے فراہم کی ہیں تو کیا آپ تسلیم کرلیں گے کہ (نعوذ باللہ) قرآن میں بھی تضاد ہے؟ پھر آپ حضرات اپنی ’تدبر فی القرآن‘کی مخصوص صلاحیت کوبروے کارلاتے ہوئے قرآنی آیات کا جیسا کچھ مفہوم سمجھتے ہیں، ان کے لحاظ سے تو قرآن مجید تضاد سے بھرا نظر آئے گا۔ مثال دیکھنی ہو تو پچھلے اوراق پلٹ لیجئے (اور اگلے صفحات میں بھی ملاحظہ فرمایئے گا) ظن کی بحث میں آپ کی پیش کردہ جن قرآنی آیات پر ہم نے بحث کی ہے، وہ سب کی سب آپ کے بتلائے ہوئے مفہوم کے اعتبار سے خود قرآن ہی کی دوسری آیات سے ٹکرا رہی ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
روایات کی کتابت میں تاخیر
آپ کو اس کا بھی اِدعا ہے کہ روایتیں کتابت میں آنے سے پہلے زید، عمرو، بکر کی زبانوں پربے روک ٹوک گشت کررہی تھیں، اور قید ِکتابت میں آنے کے بعد اس پر ’صحیح‘ کا لیبل چسپاں کردیا گیا۔ ان کی حیثیت نیم تاریخی مواد کی ہے… وغیرہ
مجھے آپ لوگوں کی جرأت پر حیرت ہے۔ جن حوالوں کی بنیاد پر آپ قید ِکتابت کی تاریخ متعین کرتے یا کرسکتے ہیں، انہی حوالوں کی رو سے یہ بات بالکل صاف اور قطعی طور پر عیاں ہے کہ احادیث کے قید ِکتابت میں آنے سے پہلے صرف دو طبقے پائے جاتے ہیں: ایک صحابہ کرام کا طبقہ اور دوسرا تابعین عظام کا۔ پہلا طبقہ وہی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ’والذین معہ‘ سے تعبیر کیا ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جن کی عملی معیت کو شامل کرکے آپ دین کو مکمل مان رہے ہیں اور دوسرا طبقہ ان کے تربیت یافتگان کا ہے جسے قرآن نے ’’ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ ‘‘ (التوبہ: ۱۰۰) سے تعبیر کیا ہے۔ کیا قرآن کے یہ دونوں مقدس طبقے آپ کی نگاہ میں ایسے ہی ایرے غیرے، نتھو خیرے قسم کے ہیں کہ آپ انہیں زید عمر و بکر جیسی اہانت آمیز تعبیر کانشانہ بنائیں، اور اقوال و افعالِ رسولؐ کے متعلق ان کی روایت اور بیان کو ایک کافر کی بے سند تاریخی روایت کے برابر بھی نہ سمجھیں ؟
تفوبر تو اے چرخِ گرداں تفو!
یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ جن کتابوں اور حوالوں کی بنیاد پر آپ حضرات نے یہ شگوفہ چھوڑا ہے کہ جن حدیثوں پر ’صحیح‘ کا لیبل چسپاں کیا گیا ہے، وہ حدیثیں قید ِکتابت میں آنے سے پہلے زید، عمرو، بکر کی زبانوں پربے روک ٹوک گشت کرتی تھیں اور قصہ گویوں، داستان سراؤں اور واعظوں کی گھڑی ہوئی ہیں ان کتابوں اور حوالوں سے آپ حضرات اپنا دعویٰ قطعاً ثابت نہیں کرسکتے۔ ولو کان بعضهم لبعض ظهيرا
ان کتابوں اور حوالوں سے جو کچھ سمجھا جاسکتا ہے، وہ یہی ہے کہ اُسوۂ رسولؐ، صحابہ کرامؓ کے درمیان عملا ً بھی محفوظ تھا اور قولاً بھی ۔ اور اس کے بعد والے طبقوں تک منتقل ہوا۔ پھر تدوین حدیث کے زمانے میں کچھ لوگوں نے اپنے مختلف النوع اغراض کے لئے حدیثیں گھڑیں اور کوشش کی کہ اپنی گھڑی ہوئی احادیث کواُسوئہ رسول ﷺ یعنی صحیح احادیث کے ساتھ گڈمڈ کرکے اپنے دیرینہ مقاصد کو حاصل کرلیں۔ مگر وہ اس میں بری طرح ناکام ہوئے۔ شیعوں نے اہل بیت کے سیاسی تفوق کے لئے حدیثیں گھڑیں۔ اباحیت پسندوں نے اپنی راہ ہموار کرنے کے لئے اور عقلیت پسندوں نے اپنی عقلیت کو وجہ جواز فراہم کرنے کے لئے۔گھڑنے والوں نے اپنی جعلی احادیث کی ترویج کا طریقہ یہ سوچا کہ کچھ مشہور اصحاب حدیث کی صحیح اور قوی سندوں سے ان جعلی احادیث کو روایت کریں تاکہ کسی کو ان کی صحت میں شک نہ ہو۔ لیکن جوں ہی یہ روایتیں اہل علم کے سامنے آئیں ،گھڑنے والے پکڑے گئے۔ کیونکہ کسی بھی بڑے محدث کے ہزاروں شاگرد ہوا کرتے تھے۔ اب ممکن نہ تھا کہ کوئی شخص اس محدث سے ایسی حدیث روایت کرے جو ان ہزاروں شاگردوں میں سے کسی کو بھی معلوم نہ ہو اور وہ اس پر بھی اس کا اعتبار کرلیں۔ ایسے راوی پر فوراً جرح شروع ہوتی تھی۔ پچیسیوں تنقیحات ایسی تھیں کہ کسی جعلساز کے لئے نکل بھاگنے کی کوئی راہ باقی نہ بچتی۔ تھوڑی سی زد وخورد کے بعد اسے ہتھیار ڈال دینے پڑتے اور اپنی جعلسازی کا اقرار کرلینا پڑتا۔
محدثین نے حدیث کی صحت پرکھنے کے لئے ایسے سخت اصول و ضوابط بنائے اور ایسا کڑا معیار مقرر کیا کہ دنیا آج تک اس کی نظیر نہ لاسکی۔ کوئی دس لاکھ افراد کی زندگیاں کھنگال کر رکھ دیں۔ پھر جملہ افراد کو اس کسوٹی پر پرکھ کر کھرا کھوٹا الگ کردکھایا۔
تدوین ِحدیث کے تیسرے اور چوتھے دور میں ان جعلی احادیث کا ذخیرہ بھی تالیفی شکل میں باقاعدہ علیحدہ کردیا گیا، تاکہ راہِ حق کے راہرو کے لئے کسی بھی مرحلہ میں مشکل پیش نہ آسکے!!
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
یہ ہے کہ واقعہ کی اصل صورت جو ان کتابوں اور حوالوں سے مستفاد ہوتی ہے جن کی بنیاد پر آپ حضرات نے ’ایرانی سازش‘کا بدبودار افسانہ تیار کیا ہے۔ اگر آپ کا ایمان بالقرآن آپ کو صدق و دیانت کی اجازت دیتا ہے تو واقعہ کو اس کی حقیقی صورت میں پیش کیجئے اور قبول کیجئے، ورنہ اپنے دعویٰ کی دلیل لائیے…!!
آپ کے استدلال کی نوعیت بالکل وہی ہے کہ کسی گھر میں چور گھس جائے تو آپ گھر والے ہی کو چور کہنے لگیں اور جب آپ سے ثبوت مانگا جائے تو آپ فرمائیں کہ ثبوت یہ ہے کہ اس کے گھر میںچور گھسے تھے ، یا کوئی پولیس پارٹی ڈاکوؤں کو گرفتار کر لائے تو آپ پولیس پارٹی ہی کو ڈاکو کہیں اور ثبوت یہ پیش کریں کہ انہوں نے ڈاکوؤں کو گرفتار کیا ہے۔
جنابِ والا!
محدثین نے جعل سازوں سے کوئی حدیث روایت نہیں کی ہے اور نہ اپنے ذخیرے میں ان کی روایات کو دَر آنے دیا ہے؛ بلکہ ان کی جعل سازی پکڑ کر لوگوں کو بتلایا ہے کہ فلاں نے فلاں سے روایتیں گھڑی ہیں۔ اس فرض شناسی پر خود محدثین اور ان کی روایتیں آخر موردِ الزام کیسے ٹھہر گئیں۔
بسوخت عقل ز حیرت کہ ایں چہ بوا لعجبی ست
آپ نے ذرا آگے چل کر اسی سلسلے میں اناجیل اربعہ کی استنادی حیثیت کی کمزوری بھی بطورِ شہادت پیش کی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے ذہن پر یہ ضابطہ کابوس بن کر مسلط ہوچکا ہے کہ کوئی بھی واقعہ اسی وقت قابل قبول ہوسکتا ہے جب کہ وہ علیٰ الفور قید ِکتابت میں آچکا ہو۔ صرف چند برسوں کی تاخیر بھی اسے مشکوک بلکہ ناقابل قبول بنا دینے کے لئے کافی ہے، اگرچہ درمیان کے ناقلین اور رواۃ کتنے ہی زیادہ مستند اور قابل اعتماد کیوں نہ ہوں، بلکہ خود واقعہ کے عینی شاہد ہی نے اسے کیوں نہ قلم بند کیا ہو۔
میں آپ سے یہ عرض کروں گا کہ اگر آپ کا یہ ضابطہ تسلیم کرلیا جائے تو پھر
قرآن مجید کی استنادی حیثیت سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ قرآنِ مجید میں گذشتہ اقوام (قومِ نوح، قومِ عاد، قومِ ثمود، قومِ مدین واصحاب الایکہ، قومِ ابراہیم، قومِ لوط، قومِ سبا وغیرہ وغیرہ) کے واقعات ان کے وقوع کے ہزار ہا ہزار برس کے بعد قلم بند کئے گئے ہیں۔
پھر آپ کے مذکورہ بالا اُصول کی رو سے انہیں کیونکر مستند تسلیم کیا جاسکتا ہے؟ ایک دشمن ِاسلام بالکل آپ ہی کے لب و لہجہ اور اندازِ گفتگو میں کہہ سکتا ہے کہ یہ سارے واقعات عرب قصہ گو اور داستان سرا اپنی شبانہ محفلوں، قومی میلوں اور بازاری اجتماعات میں دارا و سکندر اور رستم و اسفند یار کے قصوں کی طرح گرمی ٔ محفل کے لئے بیان کیا کرتے تھے۔ یہ محض عرب کی دیو مالائی کہانیوں کا حصہ تھے، ان کی کوئی حیثیت و اہمیت نہ تھی۔ بلکہ یہ زید، عمرو، بکر کی زبان پربے روک ٹوک گشت کیا کرتے تھے، لیکن ہزاروں برس بعد جب قرآن نے انہی قصوں کو قانونِ قدرت کے تاریخی تسلسل کی شہادت کی حیثیت سے پیش کیا توکلامِ الٰہی بن گیا جس پر ایمان لانا واجب قرار پاگیا اور جس کا انکا رکرنا کفر ٹھہر گیا۔ بھلا ان قصوں کاکیوں کر اعتبار کیا جائے جو ہزارہا برس تک قصہ گویوں اور داستان سراؤں کا موضوعِ سخن بنے رہے، ہر کہ و مہ کی زبان پربے روک ٹوک گشت کرتے رہے اور جنہیں ان کے وقوع کے ہزارہا برس بعد ایک نبوت کے دعویدار نے قید ِکتابت میںلاکر وحی الٰہی اور دین و ایمان کا جزو قرار دے دیا۔
بتائیے!
اگر آپ کے سامنے دشمن اسلام یہ سوال پیش کردے تو آپ اپنے مذکورہ بالا اُصول پرقائم رہتے ہوئے کیا جواب دے سکتے ہیں؟ اور اگر قرآن کی استنادی حیثیت ماننے اور منوانے کے سلسلے میں آپ اس اُصول کے پابند نہیں توحدیث کی استنادی حیثیت کے معاملے میں اس اصول کی پابندی پر آپ کو اصرار کیوں ہے…؟
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
اصل حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز کو محفوظ، مستند اور قابل اعتماد قرار دینے کے لئے اس کا قید ِکتابت میں آیا ہوا ہونا ضروری نہیں ہے۔ یعنی یہ اُصول اور معیار ہی سرے سے غلط ہے کہ اگر کوئی بات اپنے وقوع کے وقت قید ِکتابت میں آگئی توقابل اعتماد ہوگی، ورنہ نہیں۔ اس لئے یہ خیال صحیح نہیں کہ قرآن اس لئے قابل اعتماد واِستناد ہے کہ وہ لکھوا لیا گیا تھا۔ اور احادیث اس لئے قابل اعتماد واستناد نہیںکہ وہ عہد ِرسالت اور عہد ِخلافت میں لکھوائی نہیں گئی تھیں۔ بلکہ اس سلسلہ میں معاملہ کی جو صحیح نوعیت ہے، اسے ذیل کے الفاظ میں سنئے:
’’اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ سمجھ لینی چاہئے کہ قرآن کو جس وجہ سے لکھوایا گیا، وہ یہ تھی کہ اس کے الفاظ اور معنی دونوں من جانب اللہ تھے۔ اس کے الفاظ کی ترتیب ہی نہیں، اس کی آیتوں کی ترتیب اور سورتوں کی ترتیب بھی اللہ کی طرف سے تھی۔اس کے الفاظ کو دوسرے الفاظ سے بدلنا بھی جائز نہ تھا۔ اور وہ اس لئے نازل ہوا تھا کہ لوگ انہی الفاظ میں اسی ترتیب کے ساتھ اس کی تلاوت کریں۔ اس کے مقابل میں سنت کی نوعیت بالکل مختلف تھی ، وہ محض لفظی نہ تھی بلکہ عملی بھی تھی، اور جو لفظی تھی، اس کے الفاظ قرآن کے الفاظ کی طرح بذریعہ وحی نازل نہیں ہو ئے تھے بلکہ حضور نے اس کو اپنی زبان میں ادا کیا تھا۔ پھر اس کا ایک بڑا حصہ ایسا تھا جسے حضور کے ہم عصروں نے اپنے الفاظ میں بیان کیا تھا۔ مثلاً یہ کہ حضور کے اخلاق ایسے تھے، حضور کی زندگی ایسی تھی، اور فلاں موقع پر حضورؐ نے یوں عمل کیا۔
حضورؐ کے اقوال و تقریریں نقل کرنے کے بارے میں بھی یہ پابندی نہ تھی کہ سننے والے انہیں لفظ بلفظ نقل کریں۔ بلکہ اہل زبان سامعین کے لئے یہ جائز تھا اور وہ اس پرقادر بھی تھے کہ آپ سے ایک بات سن کر معنی و مفہوم بدلے بغیر اسے اپنے الفاظ میں بیان کردیں۔ حضورؐ کے الفاظ کی تلاوت مقصود نہ تھی بلکہ اس تعلیم کی پیروی مقصود تھی جو آپ نے دی ہو۔ احادیث میں قرآن کی آیتوں اور سورتوں کی طرح یہ ترتیب محفوظ کرنا بھی ضروری نہ تھا کہ فلاں حدیث پہلے ہو اور فلاں اس کے بعد۔ اس بنا پراحادیث کے معاملے میں یہ بالکل کافی تھا کہ لوگ اسے یاد رکھیں اور دیانت کے ساتھ انہیں لوگوں تک پہنچائیں۔ ان کے معاملے میں کتابت کی وہ اہمیت نہ تھی جو قرآن کے معاملے میں تھی۔
دوسری بات جسے خوب سمجھ لینا چاہئے، یہ ہے کہ کسی چیز کے سند اور حجت ہونے کے لئے اس کا لکھا ہوا ہونا قطعاً ضروری نہیں ہے۔ اعتماد کی اصل بنیاد اس شخص یا ان اشخاص کا بھروسے کے قابل ہونا ہے جس کے یا جن کے ذریعہ سے کوئی بات دوسرے تک پہنچے، خواہ وہ مکتوب ہو یا غیر مکتوب۔ خود قرآن کو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے لکھوا کر نہیں بھیجا بلکہ نبی کی زبان سے اس کو بندوں تک پہنچایا۔ اللہ نے پورا انحصار اس بات پر کیا کہ جو لوگ نبی کو سچا مانیں گے، وہ نبی کے اعتماد پر قرآن کو ہمار ا کلام مان لیں گے۔ نبی ﷺ نے بھی قرآن کی جتنی تبلیغ و اشاعت کی، زبانی ہی کی۔ آپ کے جو صحابہ مختلف علاقوں میں جاکر تبلیغ کرتے تھے، وہ قرآن کی سورتیں لکھی ہوئی نہ لے جاتے تھے۔ لکھی ہوئی آیات اور سورتیں تو اس تھیلے میں پڑی رہتی تھیں جس کے اندر آپ ﷺ انہیں کاتبانِ وحی سے لکھوا کر ڈال دیا کرتے تھے۔ باقی ساری تبلیغ و اشاعت زبان سے ہوتی تھی اور ایمان لانے والے اس ایک صحابی کے اعتماد پریہ بات تسلیم کرتے تھے کہ جو کچھ وہ سنا رہا ہے، وہ اللہ کا کلام ہے یارسول اللہ ﷺ کا جو حکم وہ پہنچا رہا ہے، وہ حضور ہی کا حکم ہے۔
تیسرا اہم نکتہ اس سلسلے میں یہ ہے کہ لکھی ہوئی چیز بجائے خود کبھی قابل اعتماد نہیں ہوتی، جب تک کہ زندہ اور قابل اعتماد انسانوں کی شہادت اس کی توثیق نہ کرے۔ محض لکھی ہوئی کوئی چیز اگرہمیں ملے اور ہم اصل لکھنے والے کا خط نہ پہچانتے ہوں، یا لکھنے والا خود نہ بتائے کہ یہ اسی کی تحریر ہے ، یا ایسے شواہد موجود نہ ہوں جو اس امر کی تصدیق کردیں کہ یہ تحریر اسی کی ہے جس کی طرف منسوب کی گئی ہے تو ہمارے لئے محض وہ تحریر یقینی کیا معنی، ظنی حجت بھی نہیں ہوسکتی… یہ ایک اصولی حقیقت ہے جسے موجودہ زمانے کا قانونِ شہادت بھی تسلیم کرتاہے اور فاضل جج خود اپنی عدالت میں اس پر عمل فرماتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ قرآنِ مجید کے محفوظ ہونے پر ہم جو یقین رکھتے ہیں، کیا اس کی بنیاد یہی ہے کہ وہ لکھاگیاتھا؟ کاتبین ِوحی کے ہاتھ کے لکھے ہوئے صحیفے جو حضورؐ نے املا کرائے تھے، آج دنیا میں کہیں موجود نہیں۔ اگر موجود ہوتے تو بھی آج کون یہ تصدیق کرتا کہ یہ وہی صحیفے ہیںجو حضورؐ نے لکھوائے تھے۔ خود یہ بات بھی کہ حضور ؐاس قرآن کونزولِ وحی کے ساتھ ہی لکھوالیاکرتے تھے، زبانی روایات ہی سے معلوم ہوئی ہے، ورنہ اس کے جاننے کا کوئی دوسرا ذریعہ نہ تھا۔ پس قرآن کے محفوظ ہونے پر ہمارے یقین کی اصل وجہ اس کا لکھا ہوا ہونا نہیں ہے، بلکہ یہ ہے کہ زندہ انسان زندہ انسانوں سے مسلسل اس کو سنتے اور آگے زندہ انسانوں تک اسے پہنچاتے چلے آرہے ہیں۔ لہٰذا یہ خیال ذہن سے نکال دینا چاہئے کہ کسی چیز کے محفوظ ہونے کی واحد سبیل اس کا لکھا ہوا ہونا ہے۔
ان اُمور پر اگر فاضل جج اور ان کی طرح سوچنے والے حضرات غور فرمائیں تو انہیں یہ تسلیم کرنے میں ان شاء اللہ کوئی زحمت پیش نہ آئے گی کہ اگر معتبر ذرائع سے کوئی چیز پہنچے تو وہ سند بننے کی پوری قابلیت رکھتی ہے خواہ وہ لکھی نہ گئی ہو۔
تمام منکرین حدیث بار بار قرآن کے لکھے جانے اور حدیث کے نہ لکھے جانے پر اپنے دلائل کا دارومدار رکھتے ہیں۔ لیکن یہ بات کہ حضورؐ اپنے زمانے میں کاتبانِ وحی سے نازل شدہ وحی لکھوا لیتے تھے۔ اور اس تحریر سے نقل کرکے حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں قرآن کو مصحف کی شکل میں لکھا گیا، اور بعدمیں اسی کی نقلیں حضرت عثمان ؓ نے شائع کیں، یہ سب کچھ محض حدیث کی روایات ہی سے دنیا کو معلوم ہوا ہے، قرآن میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ نہ حدیث کی روایات کے سوا اس کی کوئی دوسری شہادت دنیا میں کہیں موجود ہے۔ اب اگر حدیث کی روایات سرے سے قابل اعتماد ہی نہیں تو پھر کس دلیل سے دنیا کو آپ یقین دلائیں گے کہ فی الواقع قرآن حضورؐ کے زمانے میں لکھا گیا تھا؟
کسی کا یہ کہنا کہ عہد ِنبوی کے رواجات، روایات، نظائر، فیصلوں، احکام اور ہدایات کا پورا ریکارڈ ہم کو ’ایک کتاب‘کی شکل میں مرتب شدہ ملنا چاہئے تھا، درحقیقت ایک خالص غیر عملی طرزِ فکر ہے اور وہی شخص یہ بات کہہ سکتا ہے جو خیالی دنیا میں رہتا ہو۔ آپ قدیم زمانے کے عرب کی حالت چھوڑ کر تھوڑی دیر کے لئے آج اس زمانے کی حالت کو لے لیجئے جب کہ احوال و وقائع کو ریکارڈ کرنے کے لئے ذرائع بے حد ترقی کرچکے ہیں۔ فرض کرلیجئے کہ اس زمانے میں کوئی لیڈر ایسا موجود ہے جو ۲۳ سال تک شب و روز کی مصروف زندگی میں ایک عظیم الشان تحریک برپا کرتا ہے۔ ہزاروں افراد کو اپنی تعلیم و تربیت سے تیار کرتا ہے۔ ان سے کام لے کر ایک پورے ملک کی فطری، اخلاقی، تمدنی اور معاشی زندگی میں انقلاب پیدا کرتا ہے۔ اپنی قیادت و رہنمائی میں ایک نیا معاشرہ اور ایک نئی ریاست وجود میں لاتا ہے۔ اس معاشرے میں اس کی ذات ہروقت ایک مستقل نمونہ ہدایت بنی رہتی ہے۔ ہر حالت میں لوگ اس کو دیکھ دیکھ کر یہ سبق لیتے ہیں کہ کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے۔ ہر طرح کے لوگ شب و روز اُس سے ملتے رہتے ہیں اور وہ ان کو عقائد و افکار، سیرت و اخلاق، عبادات و معاملات، غرض ہر شعبۂ زندگی کے متعلق اُصولی ہدایات بھی دیتا ہے اور جزئی اَحکام بھی۔ پھر اپنی قائم کردہ ریاست کا فرمانروا، قاضی، شارع، مدبر اور سپہ سالار بھی تنہا وہی ہے۔ اور دس سال تک اس مملکت کے تمام شعبوں کو وہ خود اپنے اُصولوں پرقائم کرتا اور اپنی رہنمائی میں چلاتا ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آج اس زمانے میں یہ سارا کام کسی ایک ملک میں ہو تو اس کا ریکارڈ ’ایک کتاب‘کی شکل میں مرتب ہوسکتا ہے؟
کیا ہر وقت اس لیڈر کے ساتھ ٹیپ ریکارڈ لگا رہ سکتا ہے؟ کیا ہر آن فلم کی مشین اس کی شبانہ روز نقل و حرکت ثبت کرنے میں لگی رہ سکتی ہے؟ اور اگر یہ نہ ہوسکے تو کیا آپ کہیں گے کہ وہ ٹھپا جو اس لیڈر نے ہزاروں لاکھوں افراد کی زندگی پر، پورے معاشرے کی ہیئت اور پوری ریاست کے نظام پر چھوڑا ہے، سرے سے کوئی شہادت ہی نہیں ہے جس کا اعتبار کیا جاسکے؟ کیا آپ یہ دعویٰ کریں گے کہ اس لیڈر کی تقریر سننے والے، اس کی زندگی دیکھنے والے، اس سے ربط و تعلق رکھنے والے بے شمار افراد کی رپورٹیں سب کی سب ناقابل اعتماد ہیں، کیونکہ خود اس لیڈر کے سامنے وہ ’ایک کتاب‘ کی شکل میں مرتب نہیں کی گئیں اور لیڈر نے ان پر اپنے ہاتھ سے مہر تصدیق ثبت نہیں کی؟ کیا آپ فرمائیں گے کہ اس کے عدالتی فیصلے اور اس کے انتظامی احکام، اس کے قانونی فرامین، اس کے صلح و جنگ کے معاملات کے متعلق جتنا مواد بھی بہت سی مختلف صورتوں میں موجود ہے، اس کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے۔ کیونکہ وہ ایک ’جامع و مانع کتاب‘کی شکل میں تو ہے ہی نہیں؟ ‘‘ (ترجمان القرآن: منصب ِرسالت نمبر ، ص۳۳، ۳۴،۱۶۳،۳۳۶ تا ۳۳۸)
اس وضاحت کے بعد یہ بھی عرض ہے کہ آپ ذخیرئہ حدیث کو فن تاریخ کے معیار پر پورا اُترتا ہوا تسلیم نہیں کرتے، اس لئے آپ کو چیلنج ہے کہ آپ دنیا کے کسی اعلیٰ سے اعلیٰ معیارِ تاریخ کو معیارِ حدیث کے ہم پلہ ہی ثابت کردیجئے، صرف بڑا بول بول دینا کوئی کمال نہیں!!
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
الزام تراشی اور نگاری کلامی کے الزام کی حقیقت
آپ نے منکرین حدیث کا اندازِ اِدّعا بلکہ اندازِ افترا اختیار کرتے ہوئے حدیث کے ایک اور ’تاریک پہلو‘ کی نشاندہی کی ہے جسے آپ کے بقول ’اسلامی تاریخ‘ کا ’المیہ‘ کہنا چاہئے کہ حدیث کے مجموعوں میں ایسی روایات بکثرت ملتی ہیں جو ’الزام تراشی‘، ’دروغ بافی‘ اور ’فحش نگاری‘ کامرقع ہیں۔
اور اس ’بکثرت‘کی مقدار خود آپ لوگوں کی نشاندہی کے مطابق ایک فیصدی بھی نہیں۔ کیااسی کو ’بکثرت‘ کہاجاتا ہے؟ پھر جہاں تک ’دروغ بافی‘ کا سوال ہے تو حقیقت کھل چکی ہے۔ جب تک آپ یہودی مستشرقین کی خردبین لگا کر دیکھیں گے، یرقان کے مریض کی طرح آپ کو ہر طرف دروغ ہی دروغ نظر آئے گاکیونکہ یہ مرض آپ کے رَگ و پے میں سرایت کرچکا ہے۔ اس کا واحد علاج یہ ہے کہ آپ حقیقت پسندی اختیار کریں۔ اور معاملہ کو اس کی صحیح اور اصل شکل میں ملاحظہ فرمائیں۔ ورنہ جب تک آپ گھر کے مالک اور محافظ کوچور اور پولیس پارٹی کو ڈاکو سمجھیں گے، آپ کو اس بیماری سے نجات نہیں مل سکتی۔
باقی رہا ’الزام تراشی‘ اور ’فحش نگاری‘ کا دعویٰ تو یہ بھی سراسر زبردستی ہی ہے۔ آپ کے اشارے یا تو ان روایات کی طرف ہیں جن کے جھوٹ ہونے کی قلعی خود محدثین نے کھول دی ہے۔ لیکن آپ کمال ڈھٹائی سے ان چوری پکڑنے والوں ہی کو چور کہہ رہے ہیں یا پھر آپ نے ایسی باتوں کو ’الزام تراشی‘ اور ’فحش نگاری‘ قرار دے دیا ہے جن کی نظیریں خود قرآن میںموجود ہیں۔ تو کیا (نعوذ باللہ) آپ قرآن میں ’الزام تراشی‘ اور ’فحش نگاری‘ تسلیم کریں گے؟ اگر نہیں تو پھر حدیث اور روایات کی ویسی ہی باتوں کو آپ ’الزام تراشی‘ اور ’فحش نگاری‘ قرار دینے پر کیوں تلے بیٹھے ہیں؟ آپ نے جن روایات کی طرف اشارہ کیا ہے، آئیے اُنہیں میں سے ایک آدھ سے اس کی توضیح کرتے ہیں:
آپ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام لیا ہے۔ ان کی بابت صحیح بخاری میں مذکو رہے کہ اُنہوں نے اپنی زندگی میں تین کذبات کا ارتکاب کیاہے۔کذب، جھوٹ، غلط اور خلافِ واقعہ بات کو کہتے ہیں۔ صحیح بخاری کی یہ روایت سنتے ہی آپ حضرات بھی ، اور قائلین حدیث میں سے بعض عقلیت پسند بھی سیخ پا ہوجاتے ہیں۔ لیکن آئیے ذرا سنجیدگی سے اس روایت پر غور کریں!!
اس روایت میں جن تین کذبات کا انتساب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف کیا گیا ہے، ان میں سے دو کی تفصیلات خود قرآن میں مذکور ہیں۔ قرآن میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی قوم سے باتیں کررہے تھے۔ اچانک انہوںنے تاروں پرایک نظر ڈالی اور کہا کہ میں بیمار ہوں۔ قوم چلی گئی اور حضرت ابراہیم نے جھٹ اُٹھ کر ان کے بتوں کو توڑ پھوڑ ڈالا۔ قوم نے واپس آکر معاملے کی تفتیش کی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ تمہاری حرکت ہے؟ انہوں نے کہا: بلکہ اس بڑے بت نے یہ حرکت کی ہے، اگر تمہارے یہ معبود بولتے ہیں تو ان سے پوچھ لو… الخ
اس میں دو باتیں قابل غور ہیں:
1۔ایک یہ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیماری کا عذر جس سیاق و سباق میں کیا تھا، اس کا منشا یا تو یہ تھا کہ میں تمہارے ساتھ چلنے کے لائق نہیں۔ یا یہ کہ بیماری کے سبب میرے لئے بات چیت کرنی مشکل ہے۔ لیکن جوں ہی قوم ہٹی، وہ جھٹ اُٹھے اور بتوں پر پل پڑے۔ اگر واقعتاً وہ ایسے ہی بیمار تھے جیسی بیماری کا اظہار فرمایا تھا تو کیا وہ بت خانے تک پہنچ سکتے تھے؟ اور بتوں کو توڑسکتے تھے؟
2۔دوسری بات یہ ہے کہ انہوں نے بت شکنی کا الزام بڑے بت پر عائد کیا۔ کیا واقعتاً اُسی نے باقی بتوں کو توڑا تھا؟ یقینا نہیں۔ ثابت ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دونوں باتیں خلافِ واقعہ کہی تھیں، جسے عربی زبان میں ’کذب‘ کہتے ہیں۔
تیسرے واقعہ کی تفصیل صحیح بخاری میں ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام اپنی بیوی سارہ کے ہمراہ ایک جابر حکمراں کے علاقے سے گزرے۔ وہ حکمراں خوبصورت عورتیں چھین لیتاتھا۔ اگر ساتھ میں شوہر ہوتا تو قتل کردیا جاتا تھا۔ حضرت سارہ کوبھی اس حکمران نے طلب کیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ تم مجھے اپنا بھائی ظاہر کرنا۔
متعدد مآخذ میں اس کی وضاحت بھی ہے کہ حضرت سارہ کچھ دور کے تعلق سے حضرت ابراہیم ؑ کی بہن ہوتی تھی؛ یوں بھی وہ دینی بہن تھیں۔ لیکن جس سیاق میں وہ اپنے آپ کو بہن کہتیں، اس سے سننے والا یہ سمجھتا کہ وہ حقیقی بہن ہیں۔ اس لئے یہ بات خلافِ واقعہ ہوئی۔
یہ تینوں معاملے ایک اور پہلو سے بھی قابل غور ہیں۔ پہلے اور دوسرے موقع پر خلافِ واقعہ بولے بغیر بھی مقصد حاصل ہوسکتا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کہہ سکتے تھے کہ آج مجھے معاف رکھیں، میں آپ حضرات کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ اسی طرح وہ بڑے بت کا نام لئے بغیر کہہ سکتے تھے کہ مجھ سے کیا پوچھتے ہو؟ اپنے ان معبودوں سے پوچھ لو، اگر بولتے ہوں۔ لیکن تیسرا موقع بڑانازک تھا۔ بیوی اور جان دونوں خطرے میں تھے۔ ایسی صورت میں قرآن نے ا رتکابِ کفر کی اجازت دی ہے: ’’ اِلاَّ مَنْ اُکْرِهَ وَقَلْبُهٗ مُطْمَئِنٌّ بِالْاِيْمَانِ ‘‘ اس لئے یہ تیسرا واقعہ بھی قرآن کی نگاہ میں معیوب نہیں۔
یہ ہے ان تین کذبات کا خلاصہ جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف منسوب ہیں۔ ان میں سے پہلے دو کی نسبت خود قرآن نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف کی ہے۔ صحیح بخاری میں ان کا صرف حوالہ دیا گیا ہے۔ البتہ تیسرا واقعہ صرف صحیح بخاری میں ہے۔اب ظاہر ہے کہ آپ اس نسبت کو ’الزام تراشی‘اور ’دروغ بافی‘ کامرقع قرار دے رہے ہیں تو آپ کے اس الزام کا صرف ۱؍۳ حصہ صحیح بخاری پر عائد ہوتا ہے جس کے جواز کا فتویٰ دینے میںخود قرآن بھی شریک ہے اور اس الزام کا باقی ۲؍۳ حصہ قرآن پر عائد ہوتا ہے۔ غور فرمائیے کہ آپ نے کس جسارت اور دلیری کے ساتھ حدیث دشمنی کے جوش میں قرآنِ مجید ہی کو ’الزام تراشی‘ اور ’دروغ بافی‘ کامرقع قرا ردے دیا۔ فنعوذ بالله من شرور أنفسنا
آپ نے حضرت یوسف علیہ السلام کا نام بھی لیا ہے۔ حالانکہ صحیح احادیث میں تو ان پر کوئی الزام نہیں۔ بلکہ انہیں کریم ابن کریم ابن کریم ابن کریم کہا گیا ہے اور قید خانے میں ان کی ثابت قدمی پر ان کی مدح و توصیف کی گئی ہے۔
البتہ قرآن میں یہ بتلایا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے حقیقی بھائی سے ساز باز کرکے ان کے غلے میں شاہی برتن رکھ دیا۔ پھر اپنے بھائیوں کے قافلے پر چوری کا الزام عائد کراکر ان کی تلاشی لی اور حقیقت چھپانے کے لئے پہلے دوسرے بھائیوں کی تلاشی لی، پھر اپنے حقیقی بھائی کے غلہ سے برتن نکال کر دوسرے بھائیوں سے لئے گئے اقرار کے مطابق اپنے حقیقی بھائی کو اپنے پاس روک لیا۔
غالباً آپ کے ذہن میں یہی واقعہ تھا۔ لیکن آپ کو یہ یاد نہیں رہا کہ اس کا ذکر بھی قرآن میں ہے۔ اسلئے آپ نے اسے شانِ انبیا کے خلاف سمجھ کر احادیث اور روایتوں پر ’الزام تراشی‘ کا الزام تراشنے میں اپنی چابک دستی کا مظاہرہ فرما دیا۔ لیکن آپ کی اس چابک دستی کی زَد حدیث کے بجائے قرآن پر آپڑی۔
قریب قریب یہی معاملہ ان بقیہ شخصیتوں کا ہے جن کے اسمائِ گرامی آپ نے ذکر کئے ہیں، اگر تفصیل میں آپ جانا چاہتے ہیں تو چلئے ہم بھی تیا رہیں

سمجھ کے رکھیو قدم دشت ِخار میں مجنوں
کہ اس نواح میں سودا برہنہ پا بھی ہے!

ہماری اس توضیح سے یہ حقیقت بھی سمجھ میں آگئی ہوگی کہ آیا امام بخاریؒ کا نام سن کر جماعت اہلحدیث پر ’سہم کا دورہ‘ پڑ جاتا ہے، یا آپ حضرات پرجوشِ مخالفت میں سرسامی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، جس کے بعد آپ حضرات کو ہوش ہی نہیں رہتا کہ آپ کیا بک رہے ہیں اور کس کے خلاف بک رہے ہیں۔
آپ نے حدیث پر ’مثلہ معہ‘کی پھبتی بھی چست فرمائی ہے۔ مگر بتائیے کہ جب قرآن مجید نے اُسوہ ٔ رسولؐ کو مدارِ نجات قرار دے کر اپنے بنیادی احکام تک کی تفصیلات اسی پر چھوڑ دی ہیں، اور اس اُسوۂ کو اس حد تک وسعت دی ہے کہ پیغمبروں کے خواب تک کو وحی الٰہی اور حکم الٰہی کا درجہ دے رکھا ہے اور جگہ جگہ ایسی وحی کے حوالے دیئے ہیں جن کا قرآن میں کہیں نام و نشان تک نہیں تو خود اس قرآن کے بارے میں کیا ارشاد ہوگا؟ حدیث سے پہلے آپ کی اس پھبتی کی زَد تو خود قرآن ہی پر پڑ رہی ہے۔اگر آپ اسے ماننے کے لئے تیار نہیں تو آئندہ ہم اس اجمال کی تفصیل بھی پیش کرسکتے ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
اَن گنت راویوں پر ایمان لانے کا معاملہ
آپ نے یہ بھی سوال اٹھایا ہے کہ قرآن پر ایمان لانے کے لئے رسولؐ کی رسالت پر ایمان لانا ضروری ہے۔ پس اسی طرح روایتوں کو حدیث ِرسولؐ ماننے کے لئے تمام راویوں پر ایمان لانا ضروری ہوگا۔ تو کیا ہمیں اللہ اور رسولؐ کی طرف سے اَن گنت راویوں پر ایمان لانے کی تکلیف دی گئی ہے؟
اولاً :
میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا آپ نے حضورؐ کو خود دیکھا ہے؟ اور حضورؐ پر قرآن کے نزول کا بذاتِ خود مشاہدہ کیا ہے؟ نہیں اور یقینا نہیں۔ بلکہ آپ تو چودھویں صدی میں پیداہوئے ہیں۔ اب آپ بتائیے کہ آپ کو اس بات کا علم کیسے ہوا کہ حضور پیغمبر تھے؟ اور آپ پر یہی قرآن نازل ہوا تھا جو اس وقت ہمارے ہاں متداول ہے؟ آپ یہی کہیں گے کہ اس امت کے اجتماعی نقل و تواتر سے یہ قرآن ہم تک پہنچا ہے، اس لئے ہم اس کی صحت کا یقین رکھتے ہیں۔
اب مجھے عرض کرنے دیجئے کہ آپ کے مقرر کئے ہوئے اُصول کے مطابق قرآن پر ایمان لانے کے لئے صرف حضورؐ کی رسالت پرایمان لانا کارآمد نہ ہوسکے گا،بلکہ اس چودہ سو برس کے دوران پیداہونے والے تمام مسلمان مردوں اور عورتوں پر (خواہ زاہد و متقی ہوں، خواہ فاسق و فاجر) ایمان لانا ہوگا تو کیا ہمیں اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے اس اُمت کے اَن گنت نیک و بدانسانوں پر ایمان لانے کی تکلیف دی گئی ہے؟ انا للہ
ثانیاً :
قرآن نے جو یہ حکم دیا ہے کہ اگر کوئی فاسق خبر لائے تو تحقیق کرلو، جس کا صاف تقاضا یہ ہے کہ اگر ’متقی‘ خبر لائے تو تحقیق کی بھی حاجت نہیں، یوں ہی مان لو۔ اب آپ ہی بتائیے کہ اگر
اُسوہ ٔ رسولؐ کے متعلق کوئی شخص کوئی خبر دے تو قرآن کے اس اصول اور حکم پر عمل کیا جائے یا نہ کیا جائے؟ اگر قرآن کے اس حکم پر عمل کیا گیا، اور اس کی بتائی ہوئی خبر قابل قبول ثابت ہوئی تو کیا اس خبر کو ماننے کیلئے اس شخص پر ایمان لانا پڑے گا؟
اگر ایمان لانا پڑے گا تو پھر ایسے جتنے بھی افراد پر ایمان لانا پڑے، لائیے؛ یہ تو عین حکم قرآنی کا اتباع ہوگا۔ اور اگر نہیں لانا پڑے گا تو پھر آپکے اس چیخ و پکار کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے کہ روایتوں کو قبول کرنے کا مطالبہ کرکے درحقیقت ہم سے اَن گنت راویوں پر ایمان لانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے؟
اللہ کے بندے! اپنے تفقہ فی الدین اور تدبر فی القرآن کی کچھ تو لاج رکھنی تھی۔ ہماری پچھلی گذارشات سے واضح ہوچکا ہے کہ آپ جس چیز کو ایک ’ٹھوس حقیقت‘ سمجھے بیٹھے ہیں وہ درحقیقت ایک پھسپھسا تخیل ہے جس کی حیثیت
’’ کَشَجَرَةٍ خَبِيْثَةِ نِ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الاَْرْضِ مَالَهَا مِنْ قَرَارٍ ‘‘ (ابراہیم: ۲۶)
سے زیادہ نہیں ہے۔
اگر کوئی ٹھوس حقیقت ہے تو صرف یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ اور اس کی کتاب پر ایمان لانافرض ہے، اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی رسالت پر ایمان لانا، آپ کی اطاعت کرنا، آپ کے فیصلوں کو دل کی تنگی و ناگواری کے بغیر تسلیم کرنا اور ان فیصلوں کے مقابل میں اپنے آپ کو خود مختار نہ سمجھنا، آپ کے اُسوے اور طریق عمل کی پیروی کو رضاے الٰہی اور نجاتِ آخرت کا مدار سمجھنا اور آپ کے اوامر و نواہی کی پابندی کرنا فرض ہے۔ یہ سارا فرض خود قرآن نے عائد کیا ہے، اس فرض کو عائد کرنے کے بعد اس نے دین کے بڑے اہم اہم اور بنیادی قسم کے مسائل میں خاموشی اختیار کرلی ہے۔ نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم سینکڑوں جگہ دیا ہے مگر ان کی تفصیلات سے خاموشی ہے۔ اسی طرح اس نے زندگی کے بے شمار مسائل میں صرف بعض بنیادی اُمور کی طرف اشارہ کرکے خاموشی اختیار کرلی ہے۔ کیونکہ اس نے باقی تفصیلات کا دارو مدار اُسوہ ٔ رسولؐ پر رکھ دیا ہے۔
اب جو لوگ یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ قرآن سے باہر اُسوۂ رسولؐ کہیں بھی محفوظ نہیں رہ گیا ہے، اور احادیث کے نام سے جو ذخائر اُمت کے ہاتھ میں متداول ہیں، ان کی کوئی حیثیت اور کوئی مقام نہیں، وہ درحقیقت قرآن کو ناقابل عمل اور اس کی رہنمائی کو سراپا لغو سمجھ رہے ہیں، اور انکارِ حدیث کا لبادہ اوڑھ کر قرآنی تعلیمات کو روندنے اور کچلنے کی کوشش کررہے ہیں۔
وہ لوگ اللہ تعالیٰ کو عاجز و درماندہ اور مجبور و بے بس سمجھ رہے ہیں کہ اس نے اُسوۂ رسولؐ کی پیروی کا حکم تو دے دیا اور اسے مدارِ نجات تو ٹھہرا دیا، لیکن چند ہی برس بعد جب چند ’ایرانی سازشیوں‘ نے اس اُسوۂ رسولؐ کے خلاف ’سازش‘کی تو اپنی تمام تر قوت و طاقت، ملک و جبروت اور حکمت و قہرمانی کے باوجود ان کی ’سازش‘ کو ناکام نہ بنا سکا، اُمت ِمرحومہ کی دستگیری نہ کرسکا اور ہمیشہ کے لئے گمراہی میں بھٹکتا ہوا چھوڑ دیا۔
وہ لوگ اپنے یہودی مستشرقین کی پلائی ہوئی شراب ’حقیقت پسندی‘ کے نشے میں بدمست ہوکر ساری اُمت کو بیوقوت سمجھ بیٹھے ہیں اور سول اللہ ﷺ کی بتائی ہوئی شاہراہِ ہدایت سے کٹ کر اور لوگوں کو کاٹ کر اپنی عقلی تک بندیوں کے خار زار پر دوڑانا چاہتے ہیں، جو سراسر بے انصافی اور انتہائی زیادتی ہے اور جس کے بارے میں ارشادِ الٰہی ہے:
’’ وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَاتَبَيَّنَ لَه الْهُدٰی وَ يَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤمِنِيْنَ نُوَلِّه مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِه جَهَنَّمَ وَسَاءَ تْ مَصِيْرًَا ‘‘ (النسائ:۱۱۵)
’’ جو شخص ہدایت واضح ہوجانے کے بعد رسول للہ ؐ کی مخالفت اختیار کرے گا، اور مؤمنین کی راہ سے الگ تھلگ اپنی راہ بنائے گا، ہم اسے اسی راہ پر ڈال دیں گے جسے اس نے اختیار کیاہے، اور اسے جہنم میں جلائیں گے اور وہ بدترین ٹھکانہ ہے۔‘‘
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
Top