- شمولیت
- جنوری 23، 2015
- پیغامات
- 63
- ری ایکشن اسکور
- 31
- پوائنٹ
- 79
السلام علیکم ورحمتہ اللہ۔
آجکل بعض جھّال محض اپنی بے بنیاد "علمیت" کی بنیاد پر احادیث رسول صلی ﷲ علیہ وسلم کے بطلان کا فتوی صادر فرمانے لگے ہیں۔
لہذا آئیے آج ہم ذرا اسی "علمیت"(علم) پر تھوڑی گفتگو کرتے ہیں۔
عام فہم الفاظ میں “جب ہم کسی بھی چیز کے متعلق جانتے ہیں تو ہم دراصل اس کے متعلق علم رکھتے ہیں ۔ تب ہم کہتے ہیں “مجھے فلاں چیز کا علم ہے , میں فلاں بات کا علم رکھتا ہوں ” ۔
کسی بھی چیز کے متعلق جاننا اس کا علم رکھنا کہلاتا ہے ۔ اگر آپ عالم دین ہیں تو آپ دین کا علم رکھتے ہیں , ریاضی دان ہیں تو ریاضی کا علم رکھتے ہیں , بائیولوجسٹ ہیں تو علم الاحیاء رکھتے ہیں ۔ حتی کہ بڑھئی , لکڑہارا , سنار اور لوہار بھی اہل علم ہیں ۔ کیونکہ وہ بھی اک مخصوص ہنر کا علم رکھتے ہیں۔
اسی طرح یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ علم کا ادراک فکرونظر کے ذریعہ کیا جاتا ہے اور وہی شخص کسی خاص میدانِ علم میں اپنی علمیت کی بنیاد پر تبصرہ یا "تنقید" کرسکتا ہے جو اس میدان کا "مکمل" اور "صحیح" عالم ہو ,بصورت دیگر اس "تنقید" یا "تبصرے" کو محض ایک "بڑ " قرار دیا جاتا ہے۔
وہ جیسے کہتے ہیں نا "نیم حکیم خطرہ جان"
یعنی اگر نامکمل حکماء علم طب میں اپنی شیخی بگھار نے لگ جائیں تو اس بات کی ضمانت دینے میں کوئی حرج نہیں کہ یقینا وہ اپنی اس "شیخی" کے ذریعہ مریض کو اللہ کا پیارا کروادینگے۔
بعینہ یہی حال ان منکرین حدیث کا ہوتا ہے ۔یہ لوگ بالکل "نیم حکیم خطرہ جان"کی جیتی جاگتی مثال اور "نیم ملا خطرہ ایمان" کے سوفیصد مصداق ہوتے ہیں۔
ارے میرے بھائی...
اگر آپ پر خود کو عالم کہلانے کا اتنا ہی بھوت سوار ہے تو آئیے ہم آپکو اس "درجہ علمیت" پر فائز ہونے کا ایک آسان سا طریقہ بتلاتے ہیں۔۔۔اور وہ یہ ہے کہ بس آپ اپنی "لاعلمی " ہی کے عالم بن جائیں اور بس, بن گئے آپ "نصف عالم".
کیونکہ
" میں_نهیں_جانتا " کہنا بھی دراصل نصف علم ہے۔
ابو درداء رضی الله عنه , عامر بن شرحبیل الشعبی رحمه الله اور دیگر كچھ اسلاف سے مروی هے كه عالم كا " لا ادری " كهنا نصف علم هے _____
جس كا انسان كو علم هے یا جس سے انسان لاعلم هے اس میں درج ذیل صورتیں هیں :
جس كا انسان كو علم هو اس كی دو صورتیں هیں :
١۔وه اپنے علم كا عالم هوگا
٢۔یا جاهل __
١۔ عالم هو تو یه نصف علم هے
٢۔جاهل هو تو لا علمی هے __یعنی جہالت۔
دراصل جہالت بھی دو قسم کی ہوتی ہیں:
١۔جھل بسیط: یہ کہ انسان سرے سے نرا جاہل ہو,یعنی کچھ بھی علم نہ ہو۔
٢۔جھل مرکب: یہ کہ علم ہو مگر غلط ۔
لہذا جس كا علم نهیں اس كی بھی دو صورتیں هیں :
یا تو اپنی لا علمی كا علم هے یا نهیں __
# اگر اپنی لا علمی كا علم هے تو یه نصف علم هے۔
اور اگر:
١ ۔ علم ہی نهیں تو یه جهل بسیط هے ___
٢۔ اور اگر انسان لاعلم ہے مگر خود کو عالم تصور کرتا ہے تو یہ کہلائیگا جھل مرکب ہے۔
مذکورہ بالا دونوں صورتوں میں انسان جاہل ہی کہلائیگا۔
کیونکہ جھل خواہ بسیط ہو خواہ مرکب۔۔۔۔ ہے جھل ہی۔
لیکن ہمارے اکثر احباب جھل مرکب کو بھی علم تصور کرتے ہیں اور خود کو "عالمِ اٹکل" ہونے پر فخر کرتے ہیں ۔(ابتسامہ)
بھلا اب انہیں یہ کون بتلائے کہ انکا اپنے "علمِ مبنی بر اغلاط و جہالت "پر فخر کرنا بھی حقیقتا جھل مرکب در جھل مرکب, یعنی کثافت بھرا جھل مرکب ہے۔(ابتسامہ)
©اخوکم عبداللہ بن عبدالرشید
اہل علم سے گزارش ہے کہ اگر بندے نے کچھ غلط کہ دیا ہو تو اصلاح فرمادیں۔ممنون ہونگا۔
آجکل بعض جھّال محض اپنی بے بنیاد "علمیت" کی بنیاد پر احادیث رسول صلی ﷲ علیہ وسلم کے بطلان کا فتوی صادر فرمانے لگے ہیں۔
لہذا آئیے آج ہم ذرا اسی "علمیت"(علم) پر تھوڑی گفتگو کرتے ہیں۔
عام فہم الفاظ میں “جب ہم کسی بھی چیز کے متعلق جانتے ہیں تو ہم دراصل اس کے متعلق علم رکھتے ہیں ۔ تب ہم کہتے ہیں “مجھے فلاں چیز کا علم ہے , میں فلاں بات کا علم رکھتا ہوں ” ۔
کسی بھی چیز کے متعلق جاننا اس کا علم رکھنا کہلاتا ہے ۔ اگر آپ عالم دین ہیں تو آپ دین کا علم رکھتے ہیں , ریاضی دان ہیں تو ریاضی کا علم رکھتے ہیں , بائیولوجسٹ ہیں تو علم الاحیاء رکھتے ہیں ۔ حتی کہ بڑھئی , لکڑہارا , سنار اور لوہار بھی اہل علم ہیں ۔ کیونکہ وہ بھی اک مخصوص ہنر کا علم رکھتے ہیں۔
اسی طرح یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ علم کا ادراک فکرونظر کے ذریعہ کیا جاتا ہے اور وہی شخص کسی خاص میدانِ علم میں اپنی علمیت کی بنیاد پر تبصرہ یا "تنقید" کرسکتا ہے جو اس میدان کا "مکمل" اور "صحیح" عالم ہو ,بصورت دیگر اس "تنقید" یا "تبصرے" کو محض ایک "بڑ " قرار دیا جاتا ہے۔
وہ جیسے کہتے ہیں نا "نیم حکیم خطرہ جان"
یعنی اگر نامکمل حکماء علم طب میں اپنی شیخی بگھار نے لگ جائیں تو اس بات کی ضمانت دینے میں کوئی حرج نہیں کہ یقینا وہ اپنی اس "شیخی" کے ذریعہ مریض کو اللہ کا پیارا کروادینگے۔
بعینہ یہی حال ان منکرین حدیث کا ہوتا ہے ۔یہ لوگ بالکل "نیم حکیم خطرہ جان"کی جیتی جاگتی مثال اور "نیم ملا خطرہ ایمان" کے سوفیصد مصداق ہوتے ہیں۔
ارے میرے بھائی...
اگر آپ پر خود کو عالم کہلانے کا اتنا ہی بھوت سوار ہے تو آئیے ہم آپکو اس "درجہ علمیت" پر فائز ہونے کا ایک آسان سا طریقہ بتلاتے ہیں۔۔۔اور وہ یہ ہے کہ بس آپ اپنی "لاعلمی " ہی کے عالم بن جائیں اور بس, بن گئے آپ "نصف عالم".
کیونکہ
" میں_نهیں_جانتا " کہنا بھی دراصل نصف علم ہے۔
ابو درداء رضی الله عنه , عامر بن شرحبیل الشعبی رحمه الله اور دیگر كچھ اسلاف سے مروی هے كه عالم كا " لا ادری " كهنا نصف علم هے _____
جس كا انسان كو علم هے یا جس سے انسان لاعلم هے اس میں درج ذیل صورتیں هیں :
جس كا انسان كو علم هو اس كی دو صورتیں هیں :
١۔وه اپنے علم كا عالم هوگا
٢۔یا جاهل __
١۔ عالم هو تو یه نصف علم هے
٢۔جاهل هو تو لا علمی هے __یعنی جہالت۔
دراصل جہالت بھی دو قسم کی ہوتی ہیں:
١۔جھل بسیط: یہ کہ انسان سرے سے نرا جاہل ہو,یعنی کچھ بھی علم نہ ہو۔
٢۔جھل مرکب: یہ کہ علم ہو مگر غلط ۔
لہذا جس كا علم نهیں اس كی بھی دو صورتیں هیں :
یا تو اپنی لا علمی كا علم هے یا نهیں __
# اگر اپنی لا علمی كا علم هے تو یه نصف علم هے۔
اور اگر:
١ ۔ علم ہی نهیں تو یه جهل بسیط هے ___
٢۔ اور اگر انسان لاعلم ہے مگر خود کو عالم تصور کرتا ہے تو یہ کہلائیگا جھل مرکب ہے۔
مذکورہ بالا دونوں صورتوں میں انسان جاہل ہی کہلائیگا۔
کیونکہ جھل خواہ بسیط ہو خواہ مرکب۔۔۔۔ ہے جھل ہی۔
لیکن ہمارے اکثر احباب جھل مرکب کو بھی علم تصور کرتے ہیں اور خود کو "عالمِ اٹکل" ہونے پر فخر کرتے ہیں ۔(ابتسامہ)
بھلا اب انہیں یہ کون بتلائے کہ انکا اپنے "علمِ مبنی بر اغلاط و جہالت "پر فخر کرنا بھی حقیقتا جھل مرکب در جھل مرکب, یعنی کثافت بھرا جھل مرکب ہے۔(ابتسامہ)
©اخوکم عبداللہ بن عبدالرشید
اہل علم سے گزارش ہے کہ اگر بندے نے کچھ غلط کہ دیا ہو تو اصلاح فرمادیں۔ممنون ہونگا۔