• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انکار حدیث کے حدود کا تعین

123456789

رکن
شمولیت
اپریل 17، 2014
پیغامات
215
ری ایکشن اسکور
88
پوائنٹ
43
محترم بھائی ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ محدثین کے اصولوں کی روشنی میں آپ جس حدیث کو رد کریں گے تو میرا خیال ہے کوئی آپ کی مخالفت نہیں کرے گا
دوسرا آپ کو یہ بھی بتانا ہے کہ اوپر آپ نے کہا کہ کوئی نہ کوئی دلیل رد کرنے کی ہوتی ہے تو اس پر یاد رکھیں کہ
جب حدیث صحیح ثابت ہو جائے تو اسکو اپنی عقل میں نہ آنے کی وجہ سے رد کرنا دلیل کے تحت رد نہیں کہلائے گا بلکہ اسی کو انکار حدیث کہا جائے گا اور اگر محدثین کے اصولوں کے تحت ہی رد کی گئی ہو تو پھر رد کرنے والے کو منکر حدیث نہیں کہا جائے گا اس پر پھر ان شاءاللہ بات ہو گی جزاکم اللہ خیرا
محترم عبدہ بھائی اقتباس بالا سے تاثر ہوتا ہے کہ ابھی آپکی بات جاری ہے لہٰذا بندہ بے وقت محل ہونے کی پیشگی معذرت کرتے ہوئے ایک سوال اٹھانے کی جسارت کر رہا ہے اس امید کے ساتھ کہ بندہ کے سوال پر غور فرمایا جائےگا اور وقت ملنے پر اس اشکال پر روشنی ڈالی جائے گی۔ انشاءاللہ
عبدہ بھائی نے امثال سے رہنمائی فرمائی ہے اس لئے انکے اسلوب کے مطابق سوال پیش خدمت ہے۔ اگر دو معتبر گواہ یہ گواہی دیں کہ زید کو بکر نے مارا ہے اور اسکے برعکس دو غیر معتبر گواہ یہ شہادت دیں کہ زید کی ہلاکت کینسر کے باعث ہوئی ہے اور بکر نے زید کو نہیں مارا۔ جبکہ میڈیکل رپورٹ سے بھی دو غیر ثقہ گواہوں کی تائید ہوتی ہو۔ تو ایسی صورت میں کن کی بات مانی جائے گی ؟
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
علامہ ابن کثیر رح نے یاجوج ماجوج والی حدیث کو رد کیا ہے- یعنی روایت کی سند صحیح ہے لیکن متن میں خرابی ہے- کیا یہ رد آپ کے خیال میں محدثین کے اصول و ضوابط کے تحت کیا گیا ہے یا "منکرین حدیث" کے اصول کے تحت اس روایت کا انکار کیا گیا ہے؟؟؟
محترم بھائی میں اوپر اسکا جواب دے چکا ہوں کہ یہ رد منکریں حدیث کے اصولوں کے مطابق نہیں کیا گیا کہ جس میں خدیث عقل کے متعارض ہو تو اسکو رد کر دیا جائے
محدثین نے بھی کبھی حدیث درست ہونے کے باوجود اسکا انکار کیا ہے مگر وہاں خواہشات کی بجائے اسکے مختلف الحدیث ہونے کا معملہ تھا اور محدثین کے اصول عقل اور نقل کے مطابق ہی بنائے گئے ہیں
یہاں یاد رکھیں کہ خواہشات کی اتباع اور عقل کی اتباع میں بھی فرق ہوتا ہے کبھی ایسے بھی ہوتا ہے کہ ہم خواہش کی اتباع کر رہے ہوتے ہیں اور اپنے دل کو اس پر مطمئن کروا رہے ہوتے ہیں کہ ہم عقل کی اتباع کر رہے ہیں مگر یہ سب شیطان کا دھوکا ہوتا ہے

شریعت ہمیں خواہشات کی اتباع سے روکتی ہے عقل کی اتباع سے نہیں روکتی بلکہ افلا یتکفرون یعقلون یشعرون وغیرہ جیسے الفظ سے عقل کے استعمال کی ترغیب دیتی ہے
لیکن یہ یاد رہے کہ اسلام میں ہر ترغیب کی بھی اپنی حدود و قیود ہوتی ہیں پس ایک مسلمان اس عقل کے استعمال کی ترغیب کا سہارا لے کر اس حد سے بھی نہیں گزر سکتا
مثال کے طور پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا گیا حرض المومنین علی القتال کہ مومنوں کو قتال پر ابھاریں تو اس ترغیب کو کوئی مطلق لے تو کیا معامہ ہو گا اسی طرح احادیث میں روزوں پر ابھارنے کو مطلق لیا جائے اور قتال کے دوران بھی اس ترغیب کو لاگو کیا جائے تو کیا حال ہو گا


شریعت میں عقل کے استعمال کی حدود
محترم بھائی میرے خیال میں شریعت میں عقل کے استعمال کے مندرجہ ذیل طریقے ہیں
1۔شریعت کے بنیادی اصولوں کو سمجھنے کے لئے عقل کی اجازت دی ہے اور کہا ہے کہ پہلے اپنی عقل سے یہ فیصلہ کر لو کہ دنیا میں زندگی گزارنے کا بہترین اصول کون سا ہو سکتا ہے اللہ کو ماننے میں عقلی دلائل ہیں یا نہ ماننے میں اسکے رسول کو ماننے میں دلائل ہیں یا نہ ماننے میں

2۔اسکے بعد جب عقل سےآپ یہ فیصلہ کر لیں کہ اللہ اور اسکے رسول کو ماننا ہے تو آگے پھر جب وہ رسول اور اسکی شریعت کے احکامات پر عمل کرنا ہے تو اس وقت عقل کا استعمال بالکل ممنوع تو نہیں مگر وہ نقل (قرآن و حدیث) کے تابع ہو گا کبھی تو ایسا ہو گا کہ صرف عقل سے ہی ہم احکام پر عمل کر سکتے ہیں جیسا کہ اوپر پوسٹ میں واعدو لھم --- کے تحت بم بنانے کا بتایا ہے اور کبھی یہ ہو گا کہ عقل اور نقل کو ساتھ لے کر چلنا پڑے گا مگر اس وقت عقل کو تابع کرنا پڑے گا
اسکی مثال پاکستان کی حکومت سے ہی لے لیتے ہیں کہ آپ کو حکومت کو منتخب کرنے کے لئے پہلے عقل استعمل کرنے کی اجازت ہوتی ہے مگر جب آپ اسکو تسلیم کر لیتے ہیں تو پھر آگے عقل کے تحت سوچ تو سکتے ہیں مگر پہلے سے منتخب کی گئی حکومت کے احکامات کی حد کو نہیں پھلانگ سکتے اسی طرح آپ فوج میں اجنے سے پہلے عقلی طور پر جو مرضی فیصلہ کر سکتے ہیں مگر بعد میں فوج میں جانے کا عقل سے فیصلہ کرنے کے بعد عقل کو افسر کے تابع کرنا پڑے گا

باقی محدثین کے اس سلسلے میں کیا اصول ہیں اور منکرین حدیث کیا کرتے ہیں یعنی مختلف الحدیث کے بارے میں ہمیں فیصلہ کیسے کرنا ہے اس پر اگلی پوسٹ میں ایک تصویر اپ لوڈ کرتا ہوں تو پھر اسکی وضاحت اگلی فرصت میں کروں گا ان شاءاللہ
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
بندہ بے وقت محل ہونے کی پیشگی معذرت کرتے ہوئے ایک سوال اٹھانے کی جسارت کر رہا ہے اس امید کے ساتھ کہ بندہ کے سوال پر غور فرمایا جائےگا اور وقت ملنے پر اس اشکال پر روشنی ڈالی جائے گی۔ انشاءاللہ
عبدہ بھائی نے امثال سے رہنمائی فرمائی ہے اس لئے انکے اسلوب کے مطابق سوال پیش خدمت ہے۔ اگر دو معتبر گواہ یہ گواہی دیں کہ زید کو بکر نے مارا ہے اور اسکے برعکس دو غیر معتبر گواہ یہ شہادت دیں کہ زید کی ہلاکت کینسر کے باعث ہوئی ہے اور بکر نے زید کو نہیں مارا۔ جبکہ میڈیکل رپورٹ سے بھی دو غیر ثقہ گواہوں کی تائید ہوتی ہو۔ تو ایسی صورت میں کن کی بات مانی جائے گی ؟
جی محترم بھائی اللہ آپ کا مدد گار ہو اسکا جواب بھی مثال سے دینے کی کوشش کروں گا
محترم بھائی آپ کی مثال میں کسی فیصلہ کرنے کے لئے دو قسم کی شہادتوں کا تذکری کیا گیا ہے
1۔کسی انسان کی کسی فیصلہ کے بارے میں گواہی یا شہادت
2۔کسی دوسرے آلات سے کسی چیز کے بارے گواہی

اب اس مثال کو میں تھوڑا تبدیل کر کے الٹا آپ سے سوال کرتا ہوں کہ ہمیں کیا فیصلہ کرنا چاہئے
فرض کریں دو معتبر گواہان نے عید کا چاند نظر آنے کی گواہی دی اور دو غیر معتبر گواہان نے ان دو معتبر گواہان کے چھوٹا ہونے کی گواہی دی اور ساتھ ہی ساتھ محکمہ موسمیات والوں نے اس دن چاند نظر نہ آنے کے بارے امکانات بتائے تو پھر آپ عمل معتبر گواہان کی بات پر کریں گے یا پھر غیر معتبر گواہان مع محکمہ موسمیات کی بات پر کریں گے شریعت اس بارے کیا کہتی ہے
پس محترم بھائی اس طرح کی مثالیں مطلق نہیں ہوتیں یعنی انکا اطلاق ہر جگہ نہیں کیا جا سکتا
پس یاد رکھیں کہ کسی کے زنا کے بارے اگر چار معتبر گواہ شہادت دے دیں اور میڈیکل رپورٹ سے اسکے خلاف بھی ثابت ہو جائے اور غیر معتبر گواہ چاہے جتنے ہوں حد کا نفاذ چار گواہوں کی بات کے تحت ہی ہو گا واللہ اعلم
پس محترم بھائی کسی کو گواہی کو کب رد کرنا ہے اس سلسلے میں جس طرح دنیاوی فیصلوں میں قاضی کے لئے یہ بتا دیا گیا ہے اسی طرح راویوں کی گواہی کو کب رد کرنا ہے اسکے بارے بھی محدثین نے بتا دیا ہے کہ کون کون سی شہادت یا دلیل ان گواہوں کی گواہی ختم کر سکتی ہے
اسی پر تو اصول فقہ مرتب ہوئی ہے اور اس سلسلے میں کچھ فقہی اختلافات بھی ہوئے ہیں مگر انکی ایک حد ہے
ان شاءاللہ نیچے مختلف الحدیث میں بات کرتے ہوئے مزید وضآحت کروں گا
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
شیخ ابن باز رحمہ اللہ "حجت حدیث" کے سلسلے میں فرماتے ہے :

والأصل الثاني من الأدلة سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقول رسول الله صلى الله عليه وسلم حجة، لدلالة المعجزة على صدقه، ولأمر الله بطاعته، وتحذيره من مخالفة أمره). انتهى المقصود، وقال الحافظ ابن كثير رحمه الله في تفسير قوله تعالى:

فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

أي: عن أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهو سبيله ومنهاجه وطريقته، وسنته وشريعته، فتوزن الأقوال والأعمال بأقواله وأعماله، فما وافق ذلك قبل، وما خالفه فهو مردود على قائله وفاعله كائنا من كان، كما ثبت في الصحيحين وغيرهما عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد أي: فليخش وليحذر من خالف شريعة الرسول باطنا وظاهرا


رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سنن و اقوال قطعی حجت ہیں۔ اس لئے کہ :

اولاً :

قرآن آپ کے صدق کی گواہی دیتا ہے ۔

ثانیاً:

اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ لہٰذا آپ کے حکم کی مخالفت سے لازمی طور پر اجتناب کرنا ہے۔


حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ آیت درج ذیل کے تحت فرماتے ہیں :

فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیئے کہ ان پر کوئی آفت نہ آ پڑے یا انہیں درد ناک عذاب نہ پہنچے

( سورة النور : 24 ، آیت : 63 )

یہاں امر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے مراد آپ کا رستہ ، منہج ، طریقہ ، سنت اور شریعت ہے ۔ ہر قسم کے ا قوال اور اعمال کو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اقوال و اعمال پر پیش کیا جائے گا اگر ان میں موافقت ہوئی تو اس کو قبول کیا جائے گا اور مخالفت ہوئی تو اسے کہنے اور کرنے والے ہی کی طرف لوٹا دیا جائے گا۔

اسی طرح صحیح بخاری و صحیح مسلم وغیرہ میں ہےکہ :

جس نے کوئی ایسا عمل کیا کہ جس پر ہمارا حکم موجود نہ ہو تو وہ مردود ہے۔

شریعت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ظاہر ی اور باطنی مخالفت کرنے والے کو ڈرنا چاہیئے۔

(مجموع الفتاویٰ ومقالات ، جلد:1، صفحہ:163)

شیخ ابن باز رحمہ اللہ مذید فرماتے ہیں کہ :

اعلموا رحمكم الله أن من أنكر أن كون حديث النبي صلى الله عليه وسلم قولا كان أو فعلا بشرطه المعروف في الأصول حجة كفر وخرج عن دائرة الإسلام وحشر مع اليهود والنصارى

جان لو کہ اللہ تم پر رحم کرے کہ جس شخص نے اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی کسی قولی یا فعلی حدیث کا انکار کیا تو وہ کافرہے اور وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے اور قیامت کے روز اس کو یہود و نصاریٰ کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔

(مجموع الفتاویٰ ومقالات ، جلد:1، صفحہ:220)
 
Last edited:
Top