علامہ ابن کثیر رح نے یاجوج ماجوج والی حدیث کو رد کیا ہے- یعنی روایت کی سند صحیح ہے لیکن متن میں خرابی ہے- کیا یہ رد آپ کے خیال میں محدثین کے اصول و ضوابط کے تحت کیا گیا ہے یا "منکرین حدیث" کے اصول کے تحت اس روایت کا انکار کیا گیا ہے؟؟؟
محترم بھائی میں اوپر اسکا جواب دے چکا ہوں کہ یہ رد منکریں حدیث کے اصولوں کے مطابق نہیں کیا گیا کہ جس میں خدیث عقل کے متعارض ہو تو اسکو رد کر دیا جائے
محدثین نے بھی کبھی حدیث درست ہونے کے باوجود اسکا انکار کیا ہے مگر وہاں خواہشات کی بجائے اسکے مختلف الحدیث ہونے کا معملہ تھا اور محدثین کے اصول عقل اور نقل کے مطابق ہی بنائے گئے ہیں
یہاں یاد رکھیں کہ خواہشات کی اتباع اور عقل کی اتباع میں بھی فرق ہوتا ہے کبھی ایسے بھی ہوتا ہے کہ ہم خواہش کی اتباع کر رہے ہوتے ہیں اور اپنے دل کو اس پر مطمئن کروا رہے ہوتے ہیں کہ ہم عقل کی اتباع کر رہے ہیں مگر یہ سب شیطان کا دھوکا ہوتا ہے
شریعت ہمیں خواہشات کی اتباع سے روکتی ہے عقل کی اتباع سے نہیں روکتی بلکہ افلا یتکفرون یعقلون یشعرون وغیرہ جیسے الفظ سے عقل کے استعمال کی ترغیب دیتی ہے
لیکن یہ یاد رہے کہ اسلام میں ہر ترغیب کی بھی اپنی حدود و قیود ہوتی ہیں پس ایک مسلمان اس عقل کے استعمال کی ترغیب کا سہارا لے کر اس حد سے بھی نہیں گزر سکتا
مثال کے طور پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا گیا حرض المومنین علی القتال کہ مومنوں کو قتال پر ابھاریں تو اس ترغیب کو کوئی مطلق لے تو کیا معامہ ہو گا اسی طرح احادیث میں روزوں پر ابھارنے کو مطلق لیا جائے اور قتال کے دوران بھی اس ترغیب کو لاگو کیا جائے تو کیا حال ہو گا
شریعت میں عقل کے استعمال کی حدود
محترم بھائی میرے خیال میں شریعت میں عقل کے استعمال کے مندرجہ ذیل طریقے ہیں
1۔شریعت کے بنیادی اصولوں کو سمجھنے کے لئے عقل کی اجازت دی ہے اور کہا ہے کہ پہلے اپنی عقل سے یہ فیصلہ کر لو کہ دنیا میں زندگی گزارنے کا بہترین اصول کون سا ہو سکتا ہے اللہ کو ماننے میں عقلی دلائل ہیں یا نہ ماننے میں اسکے رسول کو ماننے میں دلائل ہیں یا نہ ماننے میں
2۔اسکے بعد جب عقل سےآپ یہ فیصلہ کر لیں کہ اللہ اور اسکے رسول کو ماننا ہے تو آگے پھر جب وہ رسول اور اسکی شریعت کے احکامات پر عمل کرنا ہے تو اس وقت عقل کا استعمال بالکل ممنوع تو نہیں مگر وہ نقل (قرآن و حدیث) کے تابع ہو گا کبھی تو ایسا ہو گا کہ صرف عقل سے ہی ہم احکام پر عمل کر سکتے ہیں جیسا کہ اوپر پوسٹ میں واعدو لھم --- کے تحت بم بنانے کا بتایا ہے اور کبھی یہ ہو گا کہ عقل اور نقل کو ساتھ لے کر چلنا پڑے گا مگر اس وقت عقل کو تابع کرنا پڑے گا
اسکی مثال پاکستان کی حکومت سے ہی لے لیتے ہیں کہ آپ کو حکومت کو منتخب کرنے کے لئے پہلے عقل استعمل کرنے کی اجازت ہوتی ہے مگر جب آپ اسکو تسلیم کر لیتے ہیں تو پھر آگے عقل کے تحت سوچ تو سکتے ہیں مگر پہلے سے منتخب کی گئی حکومت کے احکامات کی حد کو نہیں پھلانگ سکتے اسی طرح آپ فوج میں اجنے سے پہلے عقلی طور پر جو مرضی فیصلہ کر سکتے ہیں مگر بعد میں فوج میں جانے کا عقل سے فیصلہ کرنے کے بعد عقل کو افسر کے تابع کرنا پڑے گا
باقی محدثین کے اس سلسلے میں کیا اصول ہیں اور منکرین حدیث کیا کرتے ہیں یعنی مختلف الحدیث کے بارے میں ہمیں فیصلہ کیسے کرنا ہے اس پر اگلی پوسٹ میں ایک تصویر اپ لوڈ کرتا ہوں تو پھر اسکی وضاحت اگلی فرصت میں کروں گا ان شاءاللہ