وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ان سوالوں کے جواب کیلئے میری درخواست محترم شیخ
@محمد فیض الابرار صاحب
اور محترم شیخ
@عبدہ صاحب سے ہے کہ وہ قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں ، جزاکم اللہ تعالی خیراً
جزاکم اللہ خیرا یا شیخ
ویسے تو ہمارے شیخ محترم ڈاکٹر فیض الابرار بھائی وضاحت سے بتائیں گے میں اپنی رائے بتا دیتا ہوں شیوخ میری اصلاح کر دیں جزاکم اللہ خیرا
صحیح مسلم میں مروی ہے (من مات ولیس فی عنقہ بیعۃ مات میتۃ جاہلیۃ) ۔۔۔
تو ۱۔امام یعنی ولی امر کا ہونا ضروری ہے ۔اگر وہ نہیں ہوگا تو بیعت کس کی ہوگی۔
۲۔اور امام کا تعین بھی ضروری ہے تاکہ اس کی بیعت کی جائے کسی اور کی نہیں!
.
جی میری رائے میں امامت دو قسم کی ہوتی ہے ایک امامت کبری یعنی مسلمانوں کے ایک متفقہ خلیفہ کی امامت اور دوسری امامت صغری یعنی اسکے علاوہ کسی جہادی تنظیم یا سفر کے امیر وغیرہ کی امامت وغیرہ
یہاں ہمارا موضوع پہلی امارت ہے اور ویسے تو یہ امارت صرف خلیفۃ المسلمین کے لئے ہی ہے لیکن آج کل ایک خلیفہ تو ہے نہیں آج کل مسلمان ملکوں کے مسلمان حکمرانوں کو خلیفۃ المسلمین کے قائم مقام سمجھا جاتا ہے اور اسکی اسی طرح اطاعت کا کہا جاتا ہے
تو میرے خیال میں کچھ شرائط کے ساتھ مسلمان ملکوں کے مسلمان حکمرانوں کی اطاعت اسی طرح لازمی سمجھی جا سکتی ہے جس طرح خلیفۃ المسلمین کی اطاعت لازمی ہوتی ہے جیسا کہ خود صحابہ کے دور میں بھی مختلف علاقوں کے مختلف حکمران رہے ہیں
اس سلسلے میں شرائط کو بتانے سے پہلے ایک بات بتانا ضروری ہے کہ کسی ملک کا حقیقی حکمران کوئی ایک نام رکھنے والا بندہ نہیں ہوتا بلکہ حقیقی حکمران ایک پورا نظام ہوتا ہے جس کا اصل میں اس ملک میں حکم چلتا ہے مثلا پاکستان میں فرض کرتے ہیں کہ پاکستان میں وزیر اعظم کو پاکستان کا حکمران سمجھا جاتا ہے لیکن یہ درست بات نہیں ہے بلکہ پاکستان میں اصل حکمران وہ غالب نظام ہے کہ جس کے بغیر وزیر اعظم بھی کچھ نہیں کر سکتا مثلا ساجد میر صاحب کو نون لیگ والے وزیراعظم بنا دیتے ہیں تو میرا یہ سادہ سا سوال ہے کہ کیا ساجد میر صاحب وزیر اعظم بننے کے بعد کیا سعودیہ کی طرح تمام مزارات کو گرا سکتے ہیں کبھی بھی نہیں گرا سکتے کیونکہ اگر حکم دیں گے تو انکو الٹا اٹھا کر قید میں ڈال دیا جائے گا حالانکہ اگر کسی کو سلطہ حاصل ہو تو وہ ایسا کیوں نہیں کر سکتا اسکے معاشرے پہ اثرات اور مصلحت کی وجہ سے مزارات گرانے سے رکے رہنا علیحدہ بات ہے یہاں بات سلطہ کی ہو رہی ہے کہ کیا وزیر اعظم کے پاس سلطہ ہے کہ وہ کوئی حکم نافذ کر سکے پس ثابت ہوا کہ اصل حکمران کوئی ایک عہدہ نہیں ہوتا بلکہ مختلف اداروں کا مجموعہ ہوتا ہے اور یاد رکھیں کہ اطاعت بھی اسی غالب نظام کی ہی ہو گی کسی ایک وزیر اعظم کے عہدے کی نہیں ہو گی
اب ان شرائط کو دیکھتے ہیں کہ جن کی وجہ سے کسی مسلمان ملک کا مسلمان حکمران خلیفۃ المسلمین کی طرح واجب الاطاعت ہو سکتا ہے
اس میں پہلی شرط یہی ہے کہ وہ غالب نظام کہ جس کی اطاعت خلیفۃ المسلمین کے طرح واجب قرار دی جا رہی ہے وہ توحید کا رکھوالا ہو ورنہ وہ غالب نظام اسلامی نظام ہی نہیں ہو گا تو اسکی اطاعت کیسے واجب ہو گی
اس وقت میرے علم کے مطابق کچھ مسلمان ممالک ایسے ہیں جہاں ایسا غالب نظام موجود ہے جس کی سب سے پہلی اور بہترین مثال سعودی عرب ہے وہاں مشرکین چھپ چھپ کے اپنی محفلیں کر رہے ہوتے ہیں جیسے یہاں موحدین چھپ چھپ کے اپنی محفلیں کرتے ہیں
اب بھائی کے سوالوں کی طرف آتے ہین
صحیح مسلم میں مروی ہے (من مات ولیس فی عنقہ بیعۃ مات میتۃ جاہلیۃ) ۔۔۔
تو ۱۔امام یعنی ولی امر کا ہونا ضروری ہے ۔اگر وہ نہیں ہوگا تو بیعت کس کی ہوگی۔
۲۔اور امام کا تعین بھی ضروری ہے تاکہ اس کی بیعت کی جائے کسی اور کی نہیں!
جی جس ملک کا غالب نظام توحید کا رکھوالا ہے یا اسکا دعوی کرتا ہے تو اسکا تعین اس امام کے طور پہ کیا جا سکتا ہے کہ جس کا اوپر حدیث میں ذکر ہے
اب میرا سوال یہ ہے کہ
-آج کل مثلاً ایک پاکستانی ہے اور رہتا امریکہ میں ہے ۔اب اس کا امیر یا ولی الامر کون ہوگا؟
-ایک اور پاکستانی ہے وہ سعودی عرب یا ترکی میں رہتا ہے اب اس کا امیر کون ہوگا؟
شیخ
@اسحاق سلفی حفظک اللہ..
میری رائے اور فہم کے مطابق پاکستان کے غالب نظام کی اطاعت خلیفۃ المسلمین کی طرح نہیں ہے ہاں اسکی اطاعت سے انکار نہیں ہے لیکن اسکا درجہ خلیفۃ المسلمین کی طرح نہیں ہو سکتا پاکستان کے غالب نظام کی اطاعت کے اوپر شریعت کی ہی اور بہت سی نصوص موجود ہیں لیکن یہ خلیفۃ المسلمین والی نص میرے عقل میں نہیں آتی اگر کسی کو اس پہ شرح صدر ہو تو مجھے بھی دلیل سے سمجھا دے جزاکم اللہ خیرا
دوسری نصوص میں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالنا، اھون البلیتین یا اخف الضررین وغیرہ جیسے فقہی قواعد یا معاہدات کی پاسداری جیسے شرعی احکام یا جیسے نجاشی کی اطاعت کا معاملہ تھا وغیرہ
ہاں جو سعودیہ کا شہری ہے تو وہ کسی اور ملک جاتا ہے تو وہاں کا جب ویزہ لگتا ہے تو اس میں ایک قسم کا معاہدہ شامل ہوتا ہے یعنی جب سعودیہ والا ترکی جائے گا تو اسکو ترکی کے قوانین کی پاسداری کرنی ہو گی جہاں تک کوئی بات شریعت کے خلاف نہ ہو اس وقت امیر اسکا سعودیہ کا ہی حاکم ہو گا اور ترکی کے غالب نظام کے ساتھ تو صرف اسکا معاہدہ ہو گا وہ ترکی والا اسکے لئے خلیفۃ المسلمین کی جگہ پہ نہیں ہو گا واللہ اعلم بالصواب