یعنی حقیر نطفہ سے پیدا ہونے والے اللہ رب العٰلمین رب العرش العظیم کو بتائیں گے کہ کیا کرنا ہے، کیسے کرناہے؟؟!! معجزہ دکھانا ہے تو ایسے نہیں بلکہ اس انداز سے دکھانا چاہئے؟؟!! والعیاذ باللہ!
اللہ تعالیٰ بالکل صحیح شکوہ فرمایا ہے:
﴿ فَلَا يَحْزُنكَ قَوْلُهُمْ ۘ إِنَّا نَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ ﴿٧٦﴾ أَوَلَمْ يَرَ الْإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِن نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ ﴿٧٧﴾ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِيَ خَلْقَهُ ﴾ ... سورة يس
کہ ’’پس آپ کو ان کی بات غمناک نہ کرے، ہم ان کی پوشیده اور علانیہ سب باتوں کو (بخوبی) جانتے ہیں (76) کیا انسان دیکھتا نہیں کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا ہے؟ پھر یکایک وہ صریح جھگڑالو بن بیٹھا (77) اور اس نے ہمارے لئے مثال بیان کی اور اپنی (اصل) پیدائش کو بھول گیا۔‘‘
کیا یہ عورتوں کی شرمگاہ کے پجاری (ہندو) اللہ تعالیٰ کی تصحیح کریں گے؟؟!!
قرآن كريم کی
بعض آیات میں اللہ تعالیٰ نے اجمالاً فرمایا ہے کہ ہم نے سیدہ مریم علیہا السلام میں اپنی روح پھونکی، جبکہ
بعض آیات میں ہے کہ ہم نے اس (فرج) میں اپنی روح پھونکی۔ اس اجمال کی تفصیل کہیں بیان نہیں کی کہ اللہ تعالیٰ نے بذاتِ خود عین فرج میں پھونک ماری تھی۔
حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ یہ روح اللہ تعالیٰ کے حکم سے سیدنا جبریل نے پھونکی تھی (جیسا کہ سورۂ مریم میں اس کی وضاحت موجود ہے) اور انہوں نے سیدہ مریم کے گریبان میں ماری تھی، جسے اللہ تعالیٰ نے ان کے رحم میں پہنچا دیا تھا، التفسیر المیسر میں اس آیت کریمہ کی تشریح میں ہے:
(فأمر الله تعالى جبريلأن ينفخ في جيب قميصها، فوصلت النفخة إلى رحمها، فحملت بعيسى عليه السلام) تو یہ اعتراض سراسر جہالت ہے اور کچھ نہیں۔
اگر انہیں اعتراض ہے تو پھر یہی صاحب بتا سکتے ہیں کہ معجزاتی طور پر حمل پیدا کرنے کیلئے کہاں پھونک مارنی چاہئے تھی؟! کان میں یا ناک میں؟؟!!
اس سے پہلے تو ان صاحب کو یہ اعتراض کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ مرد وزن کیوں بنائے، ویسے ہی اولاد کیوں نہیں پیدا کر دی؟!
یا پھر مرد وزن کے مخصوص اعضاء کیوں بنائے؟! اور پھر یہ کہ کہیں اور سے اولاد کیوں نہ پیدا کردی؟!
عالم ارواح میں سیدنا آدم کی پشت سے تمام اولاد کیوں نکالی؟ وغیرہ وغیرہ
اللہ تعالیٰ کو پتہ تھا کہ جاہل لوگ 21 ویں صدی میں فضول قسم کے اعتراضات کریں گے لہٰذا اللہ تعالیٰ نے پندرہ سو سال پہلے ہی یہ آیت کریمہ نازل فرما دی تھی:
﴿ فَسُبْحٰنَ اللَّـهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ (٢٢) لَا يُسْئَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْئَلُونَ (٢٣) ﴾ ... سورة الأنبياء
کہ ’’پس اللہ تعالیٰ عرش کا رب ہر اس وصف سے پاک ہے جو یہ مشرک بیان کرتے ہیں (22) وه اپنے کاموں کے لئے
(کسی کےآگے) جواب ده نہیں اور سب (اس کےآگے) جواب ده ہیں۔‘‘
واللہ تعالیٰ اعلم!