کیا یہ ترجمہ ٹھیک ہے؟
«الْخُلُقُ الْحَسَنُ لَا يَنْزِعُ إِلَّا مِنْ وَلَدِ حَيْضَةٍ أَوْ وَلَدِ زِنْيَةٍ»
ترجمہ: اچھے اخلاق صرف حائضہ یا زانیہ عورت کی اولاد سے ہی ختم ہوتے ہیں( یعنی ان میں اچھے اخلاق نہیں ہوتے)۔
جی یہ ترجمہ صحیح ہے ۔
علامہ امیر یمانی ؒ ( التنویر ) میں لکھتے ہیں :
(الخلق الحسن لا ينزع إلا من ولد حيضة) أي ممن جامع زوجته في حال حيضها وعلقت به. (أو ولد زنية) بكسر الزاي، قال في الفردوس: ويقال زَنية بفتحها فإنه إذا تخلق من ماء حرام ساء خُلُقه لخبث أصله. (فر) (1) عن أبي هريرة) فيه بشر بن رافع، قال الذهبي (2): ضعيف باتفاق.
یعنی ( ولد حیضہ ) سے مراد یہ ہے کہ جس نے اپنی بیوی سے حالت حیض میں جماع کیا ، اوراس سے حمل ٹھہر گیا ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مَنْ أَعْطَى الذُّلَّ مِنْ نَفْسِهِ طَائِعًا غَيْرَ مُكْرَهٍ فَلَيْسَ مِنَّا»
جو اپنے آپ کو جان بوجھ کر بغیر کسی زبردستی کے ذلیل کرے وہ ہم میں سے نہیں۔
یہ ترجمہ تو صحیح ہے ۔
اور اس حدیث کا معنی ایک اور صحیح حدیث میں موجود ہے
عن حذيفة رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ( لا ينبغي للمؤمن أن يُذِلَّ نفسه ), قالوا: يا رسول الله, وكيف يُذلُّ نفسه؟ قال: ( يَتعرَّض من البلاء لِمَا لا يُطِيق )
رواه الترمذي 2254 ) ابن ماجة 4016
حذیفہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنے نفس کو ذلیل کرے“، صحابہ نے عرض کیا: اپنے نفس کو کیسے ذلیل کرے گا؟ آپ نے فرمایا: ”اپنے آپ کو ایسی مصیبت سے دو چار کرے جسے جھیلنے کی وہ طاقت نہ رکھتا ہو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (4016)