محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,802
- پوائنٹ
- 1,069
اولاد کی تربیت !!!
اس یہ جاننا بے حد ضروری ہے کے اس جہنم کی آگ سے بچاؤ کیونکہ ہوگا۔۔۔ جب تک دین کی بنیادی تعلیم سے اگاہی اور اس پر عمل نہ ہو؟؟؟۔۔۔ توحید، رسالت، اور آخرت پر صحیح ایمان نہ ہو یا نماز روزہ سے اور روز مرہ زندگی میں احکام شریعت سے غفلت ہو؟؟؟۔۔۔ نار جہنم سے بچنے کی فکر جس طرح خود کو کرنی ہے اسی طرح والدین کی یہ اہم ذمہ داری ہے کے وہ اپنی والاد کی بچپن سے ایسی تربیت کریں کے ان میں دینی شعور پختہ ہو اور بڑے ہوکر وہ زندگی کے جسمیدان میں بھی رہیں ایمان وعمل صالح سے ان کا رشتہ نہ صرف قائم بلکہ مضبوط رہے آج والدین دنیاوی زندگی کی حدتک بچوں کے بہتر مستقبل کی خوب فکر اور کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ معاشرہ میں سرخرو رہیں اور آرام وراحت کی زندگی گزار سکیں لیکن دنیا کی چند روزہ زندگی کے بعد آخرت کی جولامحدود زندگی ہے وہاں کی سرخروئی اور سرفرازی سے خود بھی غافل ہیں اور بچوں کی تربیت میں بھی اس پہلو کو اہمیت نہیں دیتے۔۔۔اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل عیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں اس پر سخت اور طاقتور فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے انہیں جو حکم دیا جائے وہ کر گزرتے ہیں (التحریم ٦)۔۔۔
غور کیجئے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کے ذہن میں کس طرح دینی حقائق نقش فرمایا کرتے تھے۔۔۔ایک روز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا اے بچے (بیٹے) میں تمہیں چند باتیں سکھاتا ہوں تم اللہ کے حقوق اللہ کا خیال رکھو تو اللہ کو اپنے سامنے پاؤ گے اور جب مانگو تو اللہ ہی سے مانگو اور جب مدد طلب کرو تو اللہ ہی سے مدد طلب کرو اور اس بات کو جان لو کے اگر تمام مخلوق بھی تمہیں کچھ فائدہ پہنچانا چاہے تو تمہیں صرف وہی فائدہ پہنچاسکتی ہے جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے (ترمذی)۔۔۔
حضرت عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔۔۔عمروبن ابی سلمہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میں جب چھوٹا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانا تناول کرتے ہوئے میرا ہاتھ برتن میں ادھر اُدھر چلا جاتا تھا۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا اے لڑکے اللہ کا نام لو دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے قریب سے کھاؤ (رواہ مسلم)۔۔۔
غور کیجئے کے اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کو اُمید وآس دلا کر کچھ نہ دینے سے بھی منع فرمایا اور اسے جھوٹ قرار دیا اس کا ایک اہم نقصان یہ ہے کہ اس سے بچوں کی تربیت اور اُن کے اخلاق وکردار پر منفی اثرات پڑیں گے اور وہ بھی جھوٹ کے عادی ہوجائیں گے کیونکہ بچے اپنے بڑوں سے جس چیز کو دیکھتے یا سنتے ہیں اس کا اثر بہت جلد قبول کر لیتے ہیں اور بچپن کا یہ اثر نہایت مضبوط ومستحکم اور پائیدار ہوتا ہے آج بعض سرپرست بچوں سے بلاتکلف جھوٹ کہلواتے ہیں ہیں مثلا کوئی ملاقات کیلئے گھر پر دستک دے اور اس سے ملنے کا ارادہ نہ ہو تو بچوں کے کہلوا دیا جاتا ہے کے کہہ دو ابو گھر پر نہیں ہیں کیا اس طرح بچوں کے دل ودماغ میں جھوٹ سے نفرت پیدا ہوگی؟؟؟۔۔۔کیا وہ بڑے ہوکر جھوٹ جیسی بداخلاقی کو برا جانیں گے؟؟؟۔۔۔ جھوٹ کا گناہ وبال اور نقصان نیز بچوں کی غلط تربیت کے علاوہ کبھی باپ کو اس وقت نقدشرمندگی بھی اٹھانی پڑتی ہے جب بچے بھولے پن میں اس حقیقت سے پردہ اُٹھادیتے کے ابو نے کہا وہ گھر پر نہیں ہیں۔۔۔ایک روز اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف فرماتھے میری والدہ نے مجھے پکارا آؤ ایک چیز دوں گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے والدہ سے دریافت فرمایا کے تم نے اسے کیا دینا چاہا؟؟؟۔۔۔ والدہ نے عرض کیا کے کھجور دینا چاہتی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے والدہ سے ارشاد فرمایا۔۔۔ سنو اگر تم اسے کچھ نہ دیتیں تو تمہارے حق میں (نامہ اعمال میں) یہ ایک جھوٹ لکھا جاتا (رواہ ابوداؤد وبہیقی)۔۔۔
عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:{ اے ايمان والو اپنے آپ كو اور اپنے گھر والوں كو جہنم كى آگ سے بچاؤ جس كا ايندھن لوگ اور پتھر ہيں، اس پر سخت اور شديد فرشتے مقرر ہيں جو اللہ تعالى كى نافرمانى نہيں كرتے اور انہيں جو حكم ديا جاتا ہے اس پر عمل كرتے ہيں }التحريم ( 6 ).
آپ يہ جان ليں كہ نہ تو بچوں كى تربيت شدت اور سختى سے كى جا سكتى ہے اور نہ ہى اس ميں سستى و كوتاہى ہو سكتى ہے." تم سب ذمہ دار ہو، اور تم سب سے تمہارى ذمہ دارى اور رعايا كے بارہ ميں پوچھا جائيگا تم اس كے جوابدہ ہو، حكمران اپنى رعايا كا ذمہ دار ہے اور اس سے اس كى رعايا كے بارہ ميں پوچھا جائيگا وہ اس كا جوابدہ ہے، اور مرد اپنے گھر والوں كا ذمہ دار ہے اس سے اس كى ذمہ دارى كے بارہ ميں پوچھا جائيگا، اور عورت اپنے خاوند كے گھر كى ذمہ دار ہے اس سے اس كى رعايا اور ذمہ دارى كے بارہ ميں پوچھا جائيگا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 853 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1829 ).