• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اولاد کی تعليم و تربیت

قاری مصطفی راسخ

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 07، 2012
پیغامات
679
ری ایکشن اسکور
743
پوائنٹ
301
قال اللہ تعالی :
( والذین یقولون ربنا ہب لنا من ازواجنا وذریٰتنا قرۃ اعین واجعلنا للمتقین اماما ) [الفرقان: ۷۴]
اور عباد الرحمن یہ دعا کرتے ہیں کہ:
اے ہمارے پروردگار توہمیں ہماری بیویوں اوراولاد سے آنکھوں کی ٹھندک عطا فر ما اور ہمیں پرہیز گاروں کا پیشوا بنا ۔
نیک اولاد اللہ رب العزت کی نعم عظمی میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہے ۔جس کو قرۃ العین (یعنی آنکھوں کی ٹھندک) سے تعبیر کیا گیا ہے ۔جن لوگوں کو اللہ تعالی نے اس نعمت عظمی سے نوازا ہے ۔ وہ خوشی سے پھولے نہیں سماتے ‘ اپنے آپ کو دنیا کا کامیاب ترین شخص تصور کرتے ہیں ‘ اور ارذل العمر میں اس نعمت کو بہترین سہارا سمجھتے ہیں ‘ اور جو لوگ اس نعمت عظمی سے محروم ہیں ‘ ان کے چہروں پر غم ‘ افسو س ‘ اور مایوسی کے گہرے بادل چھائے رہتے ہیں ‘ نہ چہرے پر مسرت نہ د ل میں خوشی ‘ نہ گھر میں چہل پہل نہ مجلسوں میں رونق اوپر سے شریکوں کے بے تیغ تیروں کے طعنے قلب کو چھلنی کر دیتے ہیں۔
اولادکی تمنا ہر شخص کو ہوتی ہے ۔حتی کہ انبیاء کرام نے بھی طلب اولاد کی دعا کی حضرت زکریاؑ نے بارگاہ الہی میں یہ دعا کی تھی
(رب ھب لی من لدنک ذریۃ طیبۃ انک سمیع الدعائ) [آل عمران :۳۸ ]
اے پرور دگار : تو اپنی طرف سے مجھے نیک اولاد عطا فرما ‘ بے شک تو ہی دعائوں کو سننے والا ہے۔
اسی طرح حضرت ابراہیمؑ نے اللہ تعالی سے یہ دعا مانگی تھی
(رب ھب لی من الصالحین ) [الصافات :۰۰ ۱ ]
ا ے اللہ: توہمیں نیک اولاد عطا فرما۔
اللہ رب العزت سے جب بھی دعا مانگی جا ئے توہمیشہ نیک اولاد ہی کی دعا مانگیں ۔کیونکہ نیک اولاد ہی حقیقتاآنکھوں کی ٹھندک ‘ بڑھاپے کا سہارا ‘ انسان کی قوت بازو اور باعث سعادت فی الدنیا والآ خرۃ ہے ‘ جبکہ نافرمان اولاد نہ صرف دنیا کو جہنم کدہ بنا دیتی ہے بلکہ آخرت میں بھی باعث شقاوت وبد بختی ہے ۔ لہذا ہر ذی شعور ‘ صاحب فہم وفراست و عقل ودانش پر ضروری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت اسلامی نہج کے مطابق کرے ‘ تاکہ اللہ تعالی کی عطا کردہ نعمت عظمی نہ صرف دنیا میں بہشت بریں بن جائے بلکہ آخرت میں بھی ہمارے لئے باعث سعادت مندی ہو اور ہم بارگاہ الہی میں کامیاب و کامران اور سرخرو ہوں ۔بچے خالی الذہن صاف ورق کی مانند ہوتے ہیں اور اپنے ماحول سے متأثر ہوتے رہتے ہیں ۔ان کے ذہنی ورق پر جو بھی رنگ چھاپ دیا جائے وہ اسی میں رنگ دئیے جاتے ہیں ‘ اچھی صحبت سے اچھے اور بری صحبت سے برے ہو جاتے ہیں ۔کیونکہ ہر بچہ فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے ۔اب اس کے والدین پر منحصر ہے کہ وہ اس کی کس رخ پر تربیت کرتے ہیں جیسا کہ
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ۔
(کل مولود یولد علی الفطرۃ فابواہ یھودانہ او ینصرانہ او یمجسانہ ) [بخاری ]
ہر بچہ فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے ‘ لیکن اس کے والدین اسکو یہودی عیسائی اور مجوسی بنا دیتے ہیں ۔
ہمیں چاہیئے کہ ہم ان نرم ونازک شاخوں اور کونپلوںکا رخ اطاعت اللہ اور اطاعت رسول ﷺ کی طرف موڑ دیں ‘ اور ان کے تناور ہونے کا انتظار نہ کریں تاکہ کل قیامت کو ہمارے لئے صدقہ جاریہ رہیں ۔جیسا کہ
اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا ۔
(اذا مات الانسان انقطع عنہ عملہ الا من ثلاثۃ الا من صد قۃ جاریۃ اوعلم ینتفع بہ اولدصالح یدعو لہ ) [مسلم]
جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس کے تمام اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے ‘ اور مرنے کے بعد ان کاموں کا ثواب مسلسل جاری نہیں رہتا ‘ مگر تین کاموں کا ثواب بند نہیں ہوتا ‘ بلکہ جاری رہتا ہے (۱) صدقہ جاریہ (۲) وہ علم جس سے نفع حاصل کیا جائے (۳)نیک اولادجوآدمی کے حق میں دعا کرتی ہےکیونکہ۔

گودیوں کے بنائے بگڑانہیں کرتے پوتڑوں کے بگڑے سنورانہیں کرتے۔
اولاد کی دینی تربیت کیلئے چند اہم امور

(۱)اذان اوراقامت :۔
بچے کی پیدا ئش کے وقت اس کو نہلا کرصاف ستھرا کر نے کے بعد سب سے پہلے اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں تکبیر کہی جائے ۔
جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔
(من ولد لہ مولود فاذن فی اذنہ الیمنی واقام فی الیسری لم تضرہ ام الصبیان )[ نیل الاوطار]
جس کے ہاں بچہ پیداہو پس اس بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنے سے اس کو ام الصبیان تکلیف نہیں دیتا ۔
(۲)تحنیک( یعنی گھٹی ):۔
اذان اور اقامت کے بعد کسی نیک اور بزرگ آدمی سے اس بچے کو گھٹی دی جائے۔ کوئی میٹھی چیز چبا کر اس بچے کے تالو سے لگا دی جائے ۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ
(یؤتی بالصبیان فیبرک علیھم ویحنکھم ) [بخاری ]:
رسول اللہ ﷺکے پاس بچوں کو لایاجاتا ۔آپ ان کے حق میں برکت کی دعا کرتے اور گٹھی دیتے ‘۔
حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو انہو ں نے اس بچہ کو رسول اللہﷺ کی گود مبارک میں دے دیا آپ نے کجھور چبا کر اس کے منہ میں لعاب مبارک ڈال دیا اور اس کے حق میں برکت کی دعا کی۔
(۳) لڑکا ہو یا لڑکی دونوں کی پیدائش پر یکساں خوشی کا اظہار کرنا:۔
عموما لڑکوں کی پیدائش پر لوگ خوش ہوتے ہیں اور لڑکیوں کی پیدائش پر پریشان ہو جاتے ہیں ‘یہ مشرکانہ اور جاہلانہ حماقت ہے ۔
قرآن مجید نے اس حماقت کو یوں بیان کیا ہے۔
(واذا بشر احدھم بالانثٰی ظل وجھہ مسودا وھو کظیم )[ النحل۵۸ ]:
اور جب ان میں سے کسی کے ہاں لڑکی پیدا ہونے کی خوش خبری دی جاتی ہے تو غم کی وجہ سے اس کا منہ کالا ہو جاتا ہے اور غصہ سے بھر جاتا ہے ۔یہ ان لوگوں کی نادانی ہے کیونکہ دونوں کا خالق اللہ ہے اور دونوںہی رحمت کا سبب بنتے ہیں ۔ممکن ہے جن لڑکوں کی پیدائش پرخوش ہوتے ہیں وہ ان کے حق میں برے ثابت ہوں ‘اور جن لڑکیوں کی پیدائش پر پریشان ہوتے ہیں وہ ان کے حق میں باعث خیروبرکت ہوں ۔
(۴) عقیقہ:۔
بچے کی پیدائش کے سا تویں دن بچے کی طرف سے اللہ کے نام جانور ذبح کیا جائے ۔
رسول اللہ ﷺنے فرمایا
(کل غلام رھین بعقیقتہ تذبح عنہ یوم سابعہ ویسمی فیہ ویحلق راسہ)[ابو داؤد ]
ہر بچہ اپنے عقیقہ کے بدلے میں گروی رکھا ہوا ہے۔ ساتویں دن اس کی طرف سے جانور ذبح کیا جائے ‘اور اسی دن اس کا نام رکھا جائے ‘اور اس کے بالوں کو مونڈ دیا جائے ‘ عقیقہ میں لڑکے کی طرف سے دو جانور جبکہ لڑکی کی طرف سے ایک جانور ذبح کیا جائے ‘ بچے کے مونڈے ہوئے بالوں کے ہم وزن چاندی صدقہ کرنا بھی مسنون ہے ۔
(۵) نام رکھنا :۔
ساتویں دن عقیقہ کے ساتھ ہی بچے کا اچھا سا اسلامی نام بھی رکھ دیا جائے۔ کیونکہ کل قیامت کو باپوں کے نام سے پکارا جائیگا اس لئے اچھاسا نام رکھنا چاہئے[ابو داؤد ‘ ترمذی ] اور رسول اللہﷺنے فرمایا کہا اللہ تعالی کو سب سے پسندیدہ نام ’’عبد اللہ‘‘ اور ’’عبد الرحمن ‘‘ہیں ۔اگر کسی کا نام اچھا نہ ہوتا تو اللہ کے نبی اس کا نام بدل کر اچھا نام رکھ دیتے ۔
(۶) ختنہ :۔
بچہ کا ختنہ کروانا بھی سنت نبوی ہے‘ اور اس سنت پر تمام انبیاء کرام کا اتفاق ہے ۔یہ مسلمان اور غیر مسلم کے درمیان حد فاصل ہے حضرت ابراہیمؑ نے ( ۸۰ ) اسی برس کی عمر میں اپنا ختنہ کیا تھا ۔ [بخاری)]
(۷)دودھ پلانا:۔
حضانت اور پرورش کا حق ماں کو ہی ہے اپنے بچے کی صحیح طور پر پرورش ماں ہی کر سکتی ہے ۔اللہ تعالی نے دودھ پلانے کی عمومی مدت دو سال مقرر کی ہے ۔
(ولوا لدات یرضعن اولادھن حولین کاملین لمن اراد ان یتم الرضاعۃ ) [بقرہ ۲۳۳]
مائیں اپنی اولادوں کو دو سال مکمل دودھ پلائیں جن کا ارادہ رضاعت کی مدت پوری کرنے کا ہو ۔
(۸) بچے کے کلام کر نے پر:۔
جب بچے میں کلام کرنے کی طاقت آجائے تو اس کو لفظ ’اللہ ‘ اللہ‘ سکھایا جائے اور جب بولنے لگے تو کلمہ ’’لاالہ الا اللہ ‘‘اس کوپڑھایا جائے ۔
رسول اللہﷺنے فرمایا :
(اذا افصح اولادکم فعلموا لاالہ الا اللہ واذا اثغروا فمروھم بالصلوۃ )
جب بچہ بولنے لگے تو لا الہ الا اللہ سکھلائیں اور جب دودھ کے دانت گر جائیں تو نماز کا حکم دیں اسی طرح جب بچہ کھانا کھانے لگے تو اس کو دا ئیں ہاتھ سے کھانے کی عادت ڈالئے اور سمجھ دار بچوں کے ہاتھ سے غریبوں ‘ سائلوں کو روپیہ ‘ پیسہ دلوائیں تاکہ ان کو بھی عادت پڑ جائے ‘اور وقتا فوقتا انکو جھوٹ ‘ چوری ‘ جھوٹی قسم ‘چغلی ‘ غیبت سے نفرت دلاتے رہیں ۔
(۹) اچھی صحبت :۔
بچپن میں بچوں کو کھیل کو د کابہت شوق ہوتا ہے اس میں ان کو آزاد چھوڑ دینا چاہئے۔ لیکن برے بچوں کے ساتھ کھیلنے سے روکنا چاہئے تاکہ برائی کا اثر نہ پڑے ‘کیونکہ صحبت انسان کی عادات پر بہت ہی گہرا اثر ڈالتی ہے ۔
(۱۰)نماز کا حکم :۔
جب بچے کی عمر سات برس ہو جائے تو اس کو نماز کی تاکید کی جائے اور جب اس کی عمر دس برس ہو جائے تو سختی سے نماز پر پابندی کروائی جائے ۔
رسول اللہﷺکا ارشاد گرامی ہے ۔
(مروا اولادکم بالصلوۃ وھم ابناء سبع سنین واضربواھم علیھا وھم ابناء عشر سنین وفرقوا بینھم فی المضاجع ) [ ابو داؤد] :
جب تمہارے بچے سات برس کے ہو جائیں توانہیں نماز کا حکم دو ‘ اور جب دس برس کے ہو جائیں تو نماز نہ پڑہنے پرمارو ‘ اور ان کے بستر جداجدا کر دو ۔
(۱۱)تعلیم:۔
بچوں کو قرآن مجید اور دینی کتب کی تعلیم دیں ‘ آداب و تہذیب کی باتیں سکھلائیں ‘ اچھا ادب سکھلانا صدقہ خیرات کرنے سے بھی بہتر ہے
رسول اللہ ﷺکا ارشاد گرامی ہے ۔
(لان یؤدب الرجل ولدہ خیر لہ من ان یتصدق بصاع ) [ترمذی] :
آدمی کا اپنی اولاد کو ادب سکھانا ایک صاع صدقہ کرنے سے بہتر ہے ‘ ایک دوسری حدیث میں اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا کہ اولاد کیلئے اچھی تربیت سے بڑھ کر کوئی عطیہ نہیں ۔ اولاد کو اچھی تعلیم دلانا والدین پر فرض ہے خواہ اس میں کتنی ہی تکلیف برداشت کرنی پڑے اورکتنی ہی رقم خرچ کرنا پڑے کیونکہ بچے ہی مستقبل کا سرمایہ ہیں ۔
(۱۲)برابری :۔
ظاہری حقوق میںلڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ برابر سلوک کیا جائے اور تمام بچوں کے حقوق کا خیا ل رکھا جائے۔ اگر ایک بچے کو کوئی عطیہ دیا ہے تو تمام کو دیا جائے ورنہ ایک کو بھی نہ دیا جائے ۔کیونکہ یہ ظلم ہے
رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے
(فاتقوا اللہ واعدلوا بین اولادکم ) [متفق علیہ] :
اللہ سے ڈرتے رہو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل و انصاف سے کام لو۔
ظاہری حقوق میں تمام برابر ہیں البتہ وراثت میں لڑکے کا حصہ ڈبل ہے قرآن مجید میں ہے
(یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین ) [نساء : ۱۱ ] :
اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصہ کے برابر ہے ۔
(۱۳) نگرانی:۔
ہر ذمہ دار اپنے ماتحت لوگوںکی اصلاح کا مسؤل ہے‘ خصوصا اولاد کی اصلاح بہت بڑی ذمہ داری ہے ۔کیونکہ آئندہ نسلوںکا بگاڑ اور سدھار موجودہ نسل کے بگاڑاور سدھار پر منحصر ہے ۔ لہذا والدین پر ضروری ہے کہ وہ بچوں کی کڑی نگرانی کریں اور ان کی اصلاح میں کسی قسم کی کو تاہی نہ کریں
رسول اللہ ﷺکا ارشاد گرامی ہے ۔
(الا کلکم راع وکلکم مسؤل عن رعیتہ) [متفق علیہ ] :
سنو ! تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور تم سے تمہاری ذمہ داری کی بابت سوال کیا جائے گا ۔
(۱۴) وسائل تعلیم :۔
بچوں کی دینی تربیت کیلئے ہر گھر میں چھوٹی سی لائبریری ہونی چاہئے جس میں علماء کی کیسٹس اور دینی کتب موجود ہوں اور بچے کو اس لائبریری کے ساتھ منسلک کر دیا جائے تا کہ بچے کو ہر وقت اچھی چیز ہی دیکھنے میں ملے۔
 
Top