• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اولیاء اللہ اور اولیاء الشیطان میں تمیز

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اولیاء اللہ کی صفات کامطالعہ کرنے سےایک بنیادی بات کا پتہ چلتا ہے کہ ولی ’’ خلاف شریعت ‘‘ کام نہیں کرتا ۔ یہاں ولی کی معصومیت کا دعوی نہیں لیکن یہ بات ضرور ہے کہ عوام الناس سے زیادہ پرہیز گار اور متبع سنت ہوتا ہے ۔ کوئی بھی ولی جان بوجھ کر ’’ خلاف شریعت و خلاف سنت ‘‘ کام کرے تو اس فعل کو کرامت کہنے کی بجائے اس کی ’’ ولایت ‘‘ پر ہی حرف آجاتا ہے ۔

اگر حالت ہوش میں ہو۔ اگر کسی وجہ سے آپے سے باہر ہو جیسا کہ جعفر رضی اللہ عنہ کے بارے میں رقص کی روایت کی گئی ہے تو اسے معذور کہیں گے۔ البتہ اس کا یہ عمل ہرگز حجت نہیں بنے گا۔
واللہ اعلم
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
فَقَدْ أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِيٍّ الرُّوذْبَارِيُّ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ شَوْذَبٍ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ هَانِئِ بْنِ هَانِئٍ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: أَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَجَعْفَرٌ وَزَيْدٌ، فَقَالَ لِزَيْدٍ: «أَنْتَ أَخُونَا وَمَوْلَانَا» ، فَحَجَلَ. وَقَالَ لِجَعْفَرٍ: «أَشْبَهْتَ خَلْقِي وَخُلُقِي» ، فَحَجَلَ وَرَاءَ حَجَلِ زَيْدٍ. وَقَالَ لِي: «أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ» ، فَحَجَلْتُ وَرَاءَ حَجَلِ جَعْفَرٍ. قَالَ الشَّيْخُ أَحْمَدُ رَحِمَهُ اللَّهُ: وَالْحَجَلُ أَنْ يَرْفَعَ رِجْلًا وَيَقْفِزَ عَلَى الْأُخْرَى مِنَ الْفَرَحِ، فَإِذَا فَعَلَهُ إِنْسَانٌ فَرَحًا بِمَا أَتَاهُ اللَّهُ تَعَالَى مِنْ مَعْرِفَتِهِ أَوْ سَائِرِ نِعَمِهِ فَلَا بَأْسَ بِهِ. وَمَا كَانَ فِيهِ تَثَنٍّ وَتَكَسُّرٍ حَتَّى يُبَايِنَ أَخْلَاقَ الذُّكُورِ فَهُوَ مَكْرُوهٌ لِمَا فِيهِ مِنَ التَّشَبُّهِ بِالنِّسَاءِ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
فَقَدْ أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِيٍّ الرُّوذْبَارِيُّ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ شَوْذَبٍ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ هَانِئِ بْنِ هَانِئٍ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: أَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَجَعْفَرٌ وَزَيْدٌ، فَقَالَ لِزَيْدٍ: «أَنْتَ أَخُونَا وَمَوْلَانَا» ، فَحَجَلَ. وَقَالَ لِجَعْفَرٍ: «أَشْبَهْتَ خَلْقِي وَخُلُقِي» ، فَحَجَلَ وَرَاءَ حَجَلِ زَيْدٍ. وَقَالَ لِي: «أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ» ، فَحَجَلْتُ وَرَاءَ حَجَلِ جَعْفَرٍ. قَالَ الشَّيْخُ أَحْمَدُ رَحِمَهُ اللَّهُ: وَالْحَجَلُ أَنْ يَرْفَعَ رِجْلًا وَيَقْفِزَ عَلَى الْأُخْرَى مِنَ الْفَرَحِ، فَإِذَا فَعَلَهُ إِنْسَانٌ فَرَحًا بِمَا أَتَاهُ اللَّهُ تَعَالَى مِنْ مَعْرِفَتِهِ أَوْ سَائِرِ نِعَمِهِ فَلَا بَأْسَ بِهِ. وَمَا كَانَ فِيهِ تَثَنٍّ وَتَكَسُّرٍ حَتَّى يُبَايِنَ أَخْلَاقَ الذُّكُورِ فَهُوَ مَكْرُوهٌ لِمَا فِيهِ مِنَ التَّشَبُّهِ بِالنِّسَاءِ
سر دست یہ پتہ چلا ہے
کہ اس کی سند میں ہانی بن ہانی راوی مجہول الحال ہے ۔ ( دیوان الضعفاء للذہبی رقم 4451 ) ابو إسحاق السبیعی کے علاوہ اس سے کسی اور نے روایت نہیں کی ۔
اس کے علاوہ سند میں اور بھی علتیں ہیں ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
سر دست یہ پتہ چلا ہے
کہ اس کی سند میں ہانی بن ہانی راوی مجہول الحال ہے ۔ ( دیوان الضعفاء للذہبی رقم 4451 ) ابو إسحاق السبیعی کے علاوہ اس سے کسی اور نے روایت نہیں کی ۔
اس کے علاوہ سند میں اور بھی علتیں ہیں ۔

خضر بھائی رات کو اس کے رواۃ پر تھوڑی تحقیق کی تھی تو ان کے بارے میں یہ سامنے آیا تھا


هانئ بن هانئ [د، ت، ق] .
عن علي رضي الله عنه.
قال ابن المديني: مجهول.
وقال النسائي: ليس به بأس.
وذكره ابن حبان في الثقات.
میزان الاعتدال ۴۔۲۹۱، دار المعرفه


اس کے علاوہ ابو اسحاق سبیعی اسے ہبیرہ بن یریم سے بھی روایت کرتے ہیں۔
السنن الكبری، ۸۔۹، دار الكتب العلمیه

ان کے بارے میں علامہ مزی، ذہبی اور ابن کثیر رحمہم اللہ کی آراء یہ ہیں:۔



قال أبو بكر الأثرم ، عَن أَحْمَد بْن حنبل: لا بأس بحديثه، هو أحسن استقامة من غيره يعني الذين روى عنهم أَبُو إسحاق، وتفرد بالرواية عنهم.
وَقَال عَبد اللَّهِ بْن أَحْمَد بن حنبل ، عَن أبيه: هبيرة بن يريم أحب إلينا من الحارث۔
وَقَال النَّسَائي: ليس بالقوي.
وذكره ابن حيان فِي كتاب "الثقات"
تہذیب الکمال 30۔151، الرسالہ

قال أحمد: لا بأس بحديثه، هو أحب إلينا من الحارث.
وقال النسائي: ليس بالقوي.
وقال ابن خراش: ضعيف، كان يجهز على قتلى صفين.
وقال أبو حاتم: شبيه بالمجهول.
وقال الجوزجاني: كان مختاريا يجهز على القتلى يوم الجازر.
میزان الاعتدال، 4۔293، دار المعرفہ

قال أحمد: لا بأس به، وهو أحسن استقامة من غيره، يعني ممن تفرد بالرواية عنهم: أبو إسحاق. وقال مَرَّةً: هو أحب إلينا من الحارث.
وقال عباس عن ابن معين: قال عيسى بن يونس: هو خال العالية بنت أيفع بن شراحيل بن ذي كِبَار، يعني زوجة أبي إسحاق السَّبِيعيِّ.
وقال النسائي: ليس بالقوي.
وقال أبو حاتم : لا يُحْتَجُّ به، هو شَبِيه بالمجهولين.
وقال ابن خِرَاش : ضعيف، كان يجهز على قتلى صفين.
وقال ابن عدي: أرجو أنه لا بأس به.
التَّكْميل في الجَرْح والتَّعْدِيل 1۔453، مركز النعمان للبحوث والدراسات الإسلامية وتحقيق التراث والترجمة
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اس کے علاوہ سند میں اور بھی علتیں ہیں ۔

اور علتوں کی وضاحت کیجیے گا۔ میں نے کل پہلی بار اس حدیث کی تخریج کی ہے۔

صوفیاء میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کے بارے میں جذب کا کہا گیا ہے۔ اور حالت جذب حالت جنون کے مشابہ ہوتی ہے۔ اس لیے یہ عقلی بات ہے کہ اس وقت انہیں معذور سمجھا جائے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اور علتوں کی وضاحت کیجیے گا۔ میں نے کل پہلی بار اس حدیث کی تخریج کی ہے۔

صوفیاء میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کے بارے میں جذب کا کہا گیا ہے۔ اور حالت جذب حالت جنون کے مشابہ ہوتی ہے۔ اس لیے یہ عقلی بات ہے کہ اس وقت انہیں معذور سمجھا جائے۔
معذور ہونے کے حوالےسے آپ نے جو بات کہی تھی مجھے اس سے اختلاف نہیں ۔
اس سند کی مزید دو علتیں :
1۔أبو اسحاق السبیعی مدلس راوی ہے اور عن کے ساتھ بیان کر رہا ہے ۔
2۔ اس میں ’’ حجل ‘‘ کے الفاظ شاذ یا منکر ہیں کیونکہ یہی واقعہ دیگر کتب مثلا صحیح بخاری وغیرہ میں موجود ہے لیکن ان میں اس کا ذکر نہیں ہے ۔
یہاں دیکھیں :
http://www.ahlalhdeeth.com/vb/showthread.php?p=1771692
یہاں کسی نے اس روایت پر بحث کی ہے اور اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ
  • ’’حجل ‘‘ کے الفاظ درست نہیں ۔
  • دوسرا ’’ حجل ‘‘ کا معنی ’’ رقص ‘‘ نہیں ہے ۔
    ویسے مشورہ یہ ہے کہ ذرا وقت نکال کر اس روایت پر ذرا محنت کرلیں ۔ ممکن ہے کہ یہ روایت قابل احتجاج ثابت ہوجائے ۔ اصل میں اس سے ایک اور اہم مسئلہ بھی متعلق ہے ۔ بعض صوفی قسم کے لوگ اپنی محافل میں ’’ رقص ‘‘ کرتے ہیں اور اس کے لیے دلیل اس طرح کی روایات سے لیتے ہیں ۔
 
Top