• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اولیاء اللہ اور اولیاء الشیطان میں تمیز

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
  • ویسے مشورہ یہ ہے کہ ذرا وقت نکال کر اس روایت پر ذرا محنت کرلیں ۔ ممکن ہے کہ یہ روایت قابل احتجاج ثابت ہوجائے ۔ اصل میں اس سے ایک اور اہم مسئلہ بھی متعلق ہے ۔ بعض صوفی قسم کے لوگ اپنی محافل میں ’’ رقص ‘‘ کرتے ہیں اور اس کے لیے دلیل اس طرح کی روایات سے لیتے ہیں ۔
جی میں انشاء اللہ دیکھتا ہوں مزید تفصیل سے۔
اس حدیث سے یہ دلیل پکڑنا صحیح ہے ہی نہیں۔ لیکن جو گمراہ ہو اسے صرف اللہ ہی ہدایت دے سکتا ہے۔ اور اگر کوئی اجتہادا یہ دلیل اس سے حاصل کرے اور وہ متبع شریعت بھی ہو تو اس کا اپنا اجتہاد ہے۔ اسی کے حق میں درست ہوگا۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
بسم اللہ ارحمان الرحیم

حدیث الحجل:۔

فَقَدْ أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِيٍّ الرُّوذْبَارِيُّ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ شَوْذَبٍ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ هَانِئِ بْنِ هَانِئٍ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: أَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَجَعْفَرٌ وَزَيْدٌ، فَقَالَ لِزَيْدٍ: «أَنْتَ أَخُونَا وَمَوْلَانَا» ، فَحَجَلَ. وَقَالَ لِجَعْفَرٍ: «أَشْبَهْتَ خَلْقِي وَخُلُقِي» ، فَحَجَلَ وَرَاءَ حَجَلِ زَيْدٍ. وَقَالَ لِي: «أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ» ، فَحَجَلْتُ وَرَاءَ حَجَلِ جَعْفَرٍ. قَالَ الشَّيْخُ أَحْمَدُ رَحِمَهُ اللَّهُ: وَالْحَجَلُ أَنْ يَرْفَعَ رِجْلًا وَيَقْفِزَ عَلَى الْأُخْرَى مِنَ الْفَرَحِ، فَإِذَا فَعَلَهُ إِنْسَانٌ فَرَحًا بِمَا أَتَاهُ اللَّهُ تَعَالَى مِنْ مَعْرِفَتِهِ أَوْ سَائِرِ نِعَمِهِ فَلَا بَأْسَ بِهِ. وَمَا كَانَ فِيهِ تَثَنٍّ وَتَكَسُّرٍ حَتَّى يُبَايِنَ أَخْلَاقَ الذُّكُورِ فَهُوَ مَكْرُوهٌ لِمَا فِيهِ مِنَ التَّشَبُّهِ بِالنِّسَاءِ
الآداب للبیھقی ۱۔۲۵۷، مؤسسة الكتب الثقافية


اس سند کے رواۃ یہ ہیں:۔
ابو علی الروذباری:۔
أبو علي الروذباري الحسين بن محمد بن محمد
الإمام، المسند، أبو علي الحسين بن محمد بن محمد بن علي بن حاتم الروذباري، الطوسي.
سمع: إسماعيل الصفار، وعبد الله بن عمر بن شوذب، وابن داسة، والحسين بن الحسن الطوسي، وطائفة.
وحدث بـ (سنن أبي داود) بنيسابور، وعقد له مجلس في الجامع، ثم مرض ورد إلى وطنه بالطابران، فتوفي في ربيع الأول سنة ثلاث وأربع مائة (2) .
قلت: حدث عنه: الحاكم وهو من أقرانه، وأبو بكر البيهقي، وأبو الفتح نصر بن علي الطوسي، وفاطمة بنت أبي على الدقاق، وعدد كثير نيف على الثمانين.
سیر اعلام النبلاء ۱۷۔۲۲۰، الرساله


ابو علی الروذباری امام حاکم اور بیھقی کے شیخ ہیں۔ ان کے بارے میں جرح کا کوئی قول مجھے نہیں ملا۔ جب کہ سیر میں ذھبی نے انہیں الامام کے نام سے ذکر کیا ہے۔
ان کا سماع عبد اللہ بن عمر بن شوذب سے ثابت ہے۔

ابو محمد بن شوذب:۔
عَبْد الله بْن عُمَر بْن أَحْمَد بن عَلِيّ بْن شَوْذبَ، أَبُو محمد الواسطيُّ المقرئ، المُحدِّث. [المتوفى: 342 هـ]
سَمِعَ: شُعيب بْن أيوّب الصَّريفيِنيّ، ومحمد بْن عَبْد الملك الدّقيقيّ، وصالح بْن الهيثم، وجعفر بْن محمد الواسطيين.
وكان مولده فِي سنة تسعٍ وأربعين ومائتين.
قَالَ أَبُو بَكْر أحمد بْن بيِريّ: ما رأيت أقرأ منه لكتاب اللَّه. قَالَ: وتوفي يوم الجمعة لإحدى عشرة بقيت من ربيع الآخر سنة اثنتين وأربعين وثلاث مائة.
قلت: روى عَنْهُ ابنه عُمَر، وأبو عَلِيّ منصور بْن عَبْد اللَّه الخالدي، وأبو بَكْر بْن لال الهَمَذانيّ، وابن مَنْدَه، وابن جُمَيْع فِي مُعْجمه، وأبو عَلِيّ الْحُسَيْن الرُّوذَبَارِيّ شيخ البَيْهقيّ.
تاريخ الإسلام وَوَفيات المشاهير وَالأعلام۔ ۷۔۷۸۱۔ دار الغرب الإسلامي


ان کے بارے میں بھی جرح کا کوئی قول نہیں ملا جب کہ ذھبی نے المقرئ المحدث کے الفاظ سے یاد کیا ہے۔
ان کا سماع شعیب بن ایوب الصریفینی سے ثابت ہے۔

شعیب بن ایوب:۔
شعيب بن أيوب بن رزيق بن معبد بن شيطا، أبو بكر الصريفيني، [الوفاة: 261 - 270 ه]
صريفين واسط لا صريفين بغداد.
كان فقيها، إماما، مقرئا، مجودا، محدثا، قاضيا، عالما.
سَمِعَ: يحيى ابن آدم، ويحيى بن سعيد القطان، وحسين بن علي الجعفي، وجماعة.
وَعَنْهُ: أبو داود حديثا واحدا، وعبدان الَأهْوازيّ، وإبراهيم نِفْطَويْه النَّحْويّ، وأبو بَكْر بْن أبي دَاوُد، والقاضي المَحَامِليّ، ومحمد بْن مَخْلَد، وعبد الله بن عمر بن شَوْذَب الواسطيّ، وطائفة.
وتصدَّر للإقراء، فقرأ عليه: يوسف بْن يعقوب الواسطيّ، وأبو بَكْر أَحْمَد بْن يوسف القافلاني، وأبو الْعَبَّاس أَحْمَد بْن سَعِيد الضّرير، وغيرهم. وعليه دارت قراءة أبي بَكْر، عن عاصم، أخذها عن يحيى بْن آدم، عَنْهُ. وكان محقّقًا لها.
قَالَ الدّارَقُطْنِيّ: ثقة.
قلت: تُوُفيّ بواسط سنة إحدى وستّين.
قَالَ أبو داود: إني لأخاف الله فِي الرواية عن شعيب بْن أيّوب.
قلت: له حديث مُنْكَر أورده أبو بكر الخطيب في ترجمته.
تاریخ الاسلام، ۶۔۳۴۱،


دار قطنی نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے۔ ابن حبان نے انہیں مدلس کہا ہے اور حافظ نے طبقات المدلسین میں انہیں طبقہ ثالثہ میں ذکر کیا ہے اور ابن حبان اور دارقطنی کا ان کے بارے میں تدلیس کا قول نقل کیا ہے۔ خود حافظ کے نزدیک یہ صدوق کے مرتبے پر ہیں۔ علامہ مغلطائی ان کے بارے میں حاکم کا قول ثقۃ مامون ذکر کرتے ہیں۔
زیر بحث حدیث تحدیث کے صریح الفاظ کے ساتھ ہے اس لیے ان کی تدلیس مضر نہیں ہے۔



عبید اللہ بن موسی:۔
عبيد الله بن مُوسَى باذام أَبُو مُحَمَّد الْعَبْسِي مَوْلَاهُم الْكُوفِي
الهداية والإرشاد في معرفة أهل الثقة والسداد، ۱۔۴۶۸، دار المعرفه
وروى عنه: البخاري في (صحيحه) ، ويعقوب الفسوي في (مشيخته) .
وثقه: ابن معين، وجماعة.
وحديثه في الكتب الستة.
قال أبو حاتم: ثقة، صدوق، حسن الحديث.
سیر اعلام النبلاء ۹۔۵۵۵، الرسالۃ



یه بخاری كے رواۃ میں سے هیں۔ ابن مَعین، ابو حاتم اور دیگر نے ان كی توثیق كی هے۔ ان پر تشیع کا الزام بھی ہے لیکن اس کے باوجود قابل احتجاج سمجھا گیا ہے۔
ان كا سماع اسرائیل بن یونس سے ثابت هے۔

اسرائیل:۔
إِسْرَائِيْلُ بنُ يُوْنُسَ بنِ أَبِي إِسْحَاقَ عَمْرِو بنِ عَبْدِ اللهِ الهَمْدَانِيُّ
الحَافِظُ، الإِمَامُ، الحُجَّةُ، أَبُو يُوْسُفَ الهَمْدَانِيُّ، السَّبِيْعِيُّ، الكُوْفِيُّ.
سیر، ۷۔۳۵۵، رساله


یہ بھی بخاری کے راوی ہیں۔ انہیں ابن مدینی نے غالبا ضعیف قرار دیا ہے لیکن حافظ اسے تسلیم نہیں کرتے۔ یہ ثقہ ہیں۔ ان کا سماع اپنے دادا ابو اسحاق سے ثابت ہے۔

ابو اسحاق:۔
أَبُو إِسْحَاقَ السَّبِيْعِيُّ عَمْرُو بنُ عَبْدِ اللهِ
ابْنِ ذِي يُحْمِدَ.
وَقِيْلَ: عَمْرُو بنُ عَبْدِ اللهِ بنِ عَلِيٍّ الهَمْدَانِيُّ، الكُوْفِيُّ، الحَافِظُ، شَيْخُ الكُوْفَةِ، وَعَالِمُهَا، وَمُحَدِّثُهَا،
سیر، ۵۔۳۹۲


ابو اسحاق بھی بخاری کے راوی ہیں لیکن ان کے بارے میں تدلیس کی جرح موجود ہیں۔ حافظ نے انہیں طبقہ ثالثہ کے مدلسین میں شمار کیا ہے اور یہ روایت عنعنہ ہے۔
میں کہتا ہوں: بخاری میں اسی روایت کو بغیر حجل کے ذکر کے ابو اسحاق نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے (باب عمرۃ القضا) اور وہ بھی عنعنہ ہے۔ جب ہم ان کا عنعنہ وہاں درست تسلیم کرتے ہیں تو یہاں بھی کرنا چاہیے۔ شیخ ابن عثیمین فرماتے ہیں کہ تدلیس اگر صحیحین کے کسی راوی پر ثابت ہو تو تو وہ روایت اس وجہ سے مقبول ہوگی کہ ان میں موجود روایات کے مقبول ہونے پر امت جمع ہے (مصطلح الحدیث)۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ صاحب صحیح کو لکھتے وقت اس کا علم نہیں تھا کہ امت میں ان روایات کو تلقی باقبول حاصل ہوگا۔ انہوں نے اپنی تحقیق کے مطابق ان کتب میں صحاح جمع کی ہیں۔ یہ راوی ثقہ تو ہیں ہی۔ ان کی عنعنہ کو روایت کرنے سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ عنعنہ مقبول ہوگی۔
اسی روایت کو ابو اسحاق نے سنن کبری میں ھانئ بن ھانئ اور ہبیرۃ بن یریم سے الفاظ تحدیث کے ساتھ بھی روایت کیا ہے۔
جب ھانئ بن ھانئ، ابو اسحاق کے براہ راست استاد ہیں، ان کا سماع ان سے ثابت ہے بلکہ بعض کے نزدیک تو ھانئ کی روایت صرف ابو اسحاق سے ہی مروی ہے اور دونوں کا علاقہ ایک ہی یعنی کوفہ ہے تو ایسی صورت میں ان کے درمیان کسی اور راوی ہونے کے بجائے راوی کا نہ ہونا زیادہ اظہر ہے۔

ھانئ بن ھانئ:۔
هانیء بن ھانیء۔ مستور عند ابن حجر۔ تقریب
هانئ بن هانئ [د، ت، ق] .
عن علي رضي الله عنه.
قال ابن المديني: مجهول.
وقال النسائي: ليس به بأس.
وذكره ابن حبان في الثقات.
میزان الاعتدال ۴۔۲۹۱، دار المعرفه


ھانئ بن ھانئ کے بارے میں میں حافظ ابن حجر اور بعض کا کہنا ہے کہ یہ مستور یا مجہول الحال راوی ہیں۔ اس کے مقابلے میں نسائی، ابن حبان اور عجلی ان کی توثیق کرتے ہیں۔ لہذا یہ ثقہ راوی ہیں۔ ان کا سماع علی رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے۔

علی بن ابی طالب:۔
مشہور صحابی رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔ اور اس حدیث کے راوی ہونے کے ساتھ ساتھ حدیث میں مذکور واقعہ بھی انہی کے ساتھ پیش آیا ہے۔

حجل کے ذکر والی دیگر روایات:۔
قال أبو إسحاق: وحدثني هانئ بن هانئ، وهبيرة بن يريم، عن علي بن أبي طالب، رضي الله عنه قال: فاتبعته ابنة حمزة تنادي: يا عم، يا عم. فتناولها علي رضي الله عنه فأخذ بيدها، وقال لفاطمة عليها السلام: دونك ابنة عمك. فحملتها، فاختصم فيها علي وزيد بن حارثة، وجعفر بن أبي طالب رضي الله عنهم، فقال علي رضي الله عنه: أنا أخذتها، وبنت عمي. وقال جعفر: بنت عمي، وخالتها عندي. وقال زيد: ابنة أخي. فقضى بها رسول الله صلى الله عليه وسلم لخالتها، وقال: " الخالة بمنزلة الأم " وقال لزيد: " أنت أخونا، ومولانا " فحجل، وقال لجعفر: " أنت أشبههم بي خلقا وخلقا " فحجل وراء حجل زيد ثم قال لي: " أنت مني، وأنا منك " فحجلت وراء حجل جعفر، قال: وقلت للنبي صلى الله عليه وسلم: ألا تتزوج بنت حمزة؟ قال: " إنها ابنة أخي من الرضاعة " ويحتمل أن تكون رواية أبي إسحاق عن البراء في قصة ابنة حمزة مختصرة كما روينا، ثم رواها عنهما عن علي رضي الله عنه أتم من ذلك كما روينا، فقصة الحجل في روايتهما دون رواية البراء والله أعلم، وروينا هذه القصة أيضا عن محمد بن نافع بن عجير، عن أبيه، عن علي بن أبي طالب رضي الله عنه
السنن الكبری، ۸۔۹، دار الكتب العلمیه


مزید روایات:۔
السنن الكبری ۱۰۔۳۸۲،
الأحاديث المختارة للمقدسی، ۲۔۳۹۲، دار الخضر
مسند احمد، ۲۔۲۱۳، الرساله
مسند البزار،۲۔۳۱۶، مكتبۃ العلوم و الحكم


یہ روایات عنعنہ ہیں اور پہلی والی تحدیث کے الفاظ سے ہے۔

حجل کے ذکر کے بغیر روایات:۔
مذکورہ بالا وہ احادیث ہیں جن میں حجل کا ذکر ہے۔ ان کے علاوہ کثیر احادیث ایسی ہیں جن میں حجل کا ذکر نہیں۔ ان کے بنیادی راوی دو ہیں۔ ایک ابو اسحاق مذکور اور دوسرے محمد بن نافع بن عجیر۔
ابو اسحاق کی روایت یہاں بھی عنعنہ ہے۔
اور محمد بن نافع بن عجیر کے بارے میں مجھے کوئی قول نہیں ملا۔ ایک مضمون نگار نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ محمد بن اسحاق بن یسار نے ان کی توثیق کی ہے لیکن مجھے نہیں ملی۔ خود محمد بن اسحاق بھی مختلف فیہ ہیں۔
اس حدیث کے رواۃ میں اضطراب ہے۔ بعض میں محمد بن نافع عن علی ہیں۔ بعض میں محمد بن نافع عن ابیہ عن علی ہیں اور بعض میں محمد بن ابراہیم عن نافع عن علی ہیں۔
لیکن اس کے باوجود بھی یہ حدیث صحیح ہے۔ البتہ ایسی حالت میں یہ حدیث ان روایات کے لیے کیسے مانع ہو سکتی ہے جن میں حجل کا ذکر ہے؟
پھر زیادتی وہ مردود ہے جو کسی ثقہ راوی کے مقابلے میں ہو اور اس کی روایت کے منافی ہو۔ اگر منافی نہ ہو تو مردود نہیں (ھذا ما قال الحافظ فی نزھۃ النظر)۔ یہاں اس حدیث میں زیادتی دوسری روایت کے معارض نہیں لہذا یہ مقبول ہے۔

حجل کا معنی:۔
حجل کے معنی ہیں کہ ایک ٹانگ اٹھا کر دوسری پر شدت فرح سے اچھلنا۔
اس سے اپنی جگہ کھڑے ہو کر سیدھا اچھلتے رہنا مراد نہیں ہو سکتا کیوں کہ شدت فرح میں یہ نہیں کیا جاتا اسی لیے اس سے علماء نے رقص کے معنی مستنبط کیے ہیں۔ البتہ یہ شہوانی رقص نہیں ہے جو آج کل عوام میں مروج ہے۔ اسی بات کو علامہ بیھقی نے ذکر کیا ہے اور سنن میں اسے رقص کے باب میں ذکر کیا ہے۔
واللہ اعلم

كوئی غلطی نظر ٓئے تو براه كرم مجهے مطلع كر دیں۔
كسی حدیث پر اس طرح مكمل تحقیق كرنے كا یہ میرا پہلا موقع ہے۔
جزاکم اللہ احسن الجزاء
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
ابو اسحاق بھی بخاری کے راوی ہیں لیکن ان کے بارے میں تدلیس کی جرح موجود ہیں۔ حافظ نے انہیں طبقہ ثالثہ کے مدلسین میں شمار کیا ہے اور یہ روایت عنعنہ ہے۔
میں کہتا ہوں: بخاری میں اسی روایت کو بغیر حجل کے ذکر کے ابو اسحاق نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے (باب عمرۃ القضا) اور وہ بھی عنعنہ ہے۔ جب ہم ان کا عنعنہ وہاں درست تسلیم کرتے ہیں تو یہاں بھی کرنا چاہیے۔ شیخ ابن عثیمین فرماتے ہیں کہ تدلیس اگر صحیحین کے کسی راوی پر ثابت ہو تو تو وہ روایت اس وجہ سے مقبول ہوگی کہ ان میں موجود روایات کے مقبول ہونے پر امت جمع ہے (مصطلح الحدیث)۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ صاحب صحیح کو لکھتے وقت اس کا علم نہیں تھا کہ امت میں ان روایات کو تلقی باقبول حاصل ہوگا۔ انہوں نے اپنی تحقیق کے مطابق ان کتب میں صحاح جمع کی ہیں۔ یہ راوی ثقہ تو ہیں ہی۔ ان کی عنعنہ کو روایت کرنے سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ عنعنہ مقبول ہوگی۔
اسی روایت کو ابو اسحاق نے سنن کبری میں ھانئ بن ھانئ اور ہبیرۃ بن یریم سے الفاظ تحدیث کے ساتھ بھی روایت کیا ہے۔
جب ھانئ بن ھانئ، ابو اسحاق کے براہ راست استاد ہیں، ان کا سماع ان سے ثابت ہے بلکہ بعض کے نزدیک تو ھانئ کی روایت صرف ابو اسحاق سے ہی مروی ہے اور دونوں کا علاقہ ایک ہی یعنی کوفہ ہے تو ایسی صورت میں ان کے درمیان کسی اور راوی ہونے کے بجائے راوی کا نہ ہونا زیادہ اظہر ہے۔
محترم بھائی اللہ آپ کو جزائے خیر عطافرمائےکہ آپ نے محنت کے ساتھ علمی انداز میں گفتگو کو آگے بڑھایا ۔
اس روایت پر میں نے عرض کی کہ تین علتیں ہیں :
1۔ ہانی بن ہانی کی جہالت ۔
2۔ حجل والے الفاظ کی نکارت یا شذوذ ۔
3۔ابو اسحاق السبیعی کا عنعنہ ۔
سبیعی کےعنعنعہ میں تدلیس کے احتمال کو آپ نے السنن الکبری للبیہقی کا حوالہ ( جس میں تصریح بالسماع بصغیہ تحدیث موجود ہے ) دے کر رفع فرمادیا ۔ مجھے آپ سے اتفاق ہے ۔
لیکن اس کے علاوہ جو کچھ آپ نے اس ضمن میں کہا ہے اس سے اختلاف ہے ۔ یہاں آپ کی بات دو نکات پر مشتمل ہے :
کسی راوی کا عنعنہ صحیحین میں قابل قبول ہے تو پھر غیر صحیحین میں بھی قبول ہونا چاہیے ۔ گویا آپ نے صحیحین میں ’’ قبول ‘‘ کو دلیل بنایا ہے غیر صحیحین میں ’’ قبول ‘‘ ہونےکی ۔
حقیقت حال یوں ہے کہ اس سلسلے میں علماء کا اختلاف ضرور ہے کہ صحیحین میں مدلس کا عنعنہ قابل قبول ہے کہ نہیں ؟ بعض کہتے ہیں کہ صحیحین میں مدلسین کی روایات کی قبولیت کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ صحیحین میں ہیں جبکہ بعض علماء کا موقف ہے کہ اصول ہر جگہ ایک ہی ہوتا ہے اگر خارج صحیحین عنعنہ تصریح بالسماع کے بغیر قابل قبول نہیں تو صحیحین میں بھی قابل قبول نہیں ۔ صرف یہی دو قول ہیں ۔ تفصیل کے لیے دیکھیں ( تدریب الروای اور النکت للحافظ ابن حجر )
گویا صحیحین میں ’’ عنعنۃ المدلس ‘‘ کے بارے میں اختلاف کرنے والے علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ غیر صحیحین میں مدلس کا عنعنہ تصریح بالسماع کے بغیر ناقابل قبول ہی ہے ۔
اس وضاحت کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ آپ نے غیر صحیحین میں موجود عنعنہ کو حجت قراردینے کے لیے صحیحین میں موجود عنعنہ کو دلیل بنایا ہے جو کہ درست نہیں ہے ۔
دوسرا آپ نے یہ کہا کہ تلقی بالقبول صحیحن کی روایات کی صحت کی دلیل نہیں بن سکتا کیونکہ جب انہوں نے یہ روایات درج کی تھیں تو اس وقت تلقی بالقبول نہیں ہوا تھا بلکہ یہ بعد میں ہوا تھا ۔ لہذا شیخین کا ان روایات کو درج کرنا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ن کے نزدیک یہ ’’ عنعنہ ‘‘ قابل قبول تھا ۔
یہاں دو باتیں ہیں :
اول : راجح قول کے مطابق تدلیس کرنے والے کی ہر روایت رد نہیں کی جائے گی بلکہ اگر تصریح بالسماع کا یقین ہو جائے تو روایت قبول کر لی جائے گی ۔ شیخین نے مدلسین کی تمام روایات کو درج نہیں کیا بلکہ انہیں روایات کو درج کیا جن پر انہیں یہ معلوم ہوا کہ اس میں تدلیس کا شائبہ نہیں ہے کیونکہ صحیح روایات کو درج کرنا یہ ان کی شرط تھی ۔ اور حافظ ابن حجر وغیرہ رحم اللہ الجمیع نے ہدی الساری کے اندر یہ بات بیان کی ہے کہ بخاری و مسلم نے ایسے راویوں سے جن کی روایات صحیح و ضعیف دونوں قسم پر ہیں ، صرف صحیح روایات لی ہیں ۔
ثانی : صحیحین کو امت کے تلقی بالقبول کے حوالے سے آپ نے جس انداز سےاعتراض کیا ہے اس طرح تو کسی بھی چیز کےبارے میں ’’ تلقی بالقبول ‘‘ کہنا بے سود ہوجاتا ہے ۔ حضرات احناف اور دیگر مذاہب کے نزدیک ’’ تلقی بالقبول ‘‘ ایک زبردست دلیل مانی جاتی ہے حتی کہ بعض کے نزدیک تو ضعیف روایت بھی تلقی بالقبول کیو جہ سے قابل عمل بن جاتی ہے ۔ حالانکہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ ’’ امت کی طرف سے تلقی بالقبول ‘‘ کا ہونا بہت بعد میں وجود میں آیا ۔ تو در اصل بات یہ ہے کہ صحیحین کی روایات صحت کے درجہ پر پہنچتی تھیں تو امت سے ان کو تلقی بالقبول حاصل ہوا نا ۔ اگر درجہ صحت کو نہ پہنچتیں تو لوگ اسی طرح تنقید کرتے جس طرح دیگر کتابوں پر تنقید کی جاتی ہے ۔ گویا تلقی بالقبول ہونا یہ بذات خود دلیل نہیں بلکہ اصل دلیل ان کا قواعد و ضوابط کے مطابق ہونا ہے جو کہ اس وقت کے لوگوں کو زمانہ قریب ہونے کی وجہ سے معلوم تھا اور بعد والے لوگ جن کا زمانہ بعید تھا ان کے لیے تلقی بالقبول اس کے قائم مقام دلیل بن گیا ۔
چنانچہ صحیحین کے اندر جتنی معنعن روایات موجود ہیں علماء نے ان کا دراسہ کیا اور ثابت کیا ہےکہ یا تو خود صحیحین کے اندر تصریح بالسماع موجود ہے یا دیگر کتب میں اس کی وضاحت مل جاتی ہے ۔ چنانچہ ہند و پاک میں اہل حدیث کے نامور محقق و محدث حافظ زبیر علی زئی صاحب رحمہ اللہ کا دعوی تھا کہ صحیحین کی کوئی بھی معنعن روایت ایسی نہیں ہےجس کی تصریح بالسماع نہ ملتی ہو ۔
خلاصہ : یہ ہے کہ غیر صحیحین کو صحیحین پر قیاس نہیں کیاجاسکتا کیونکہ وہ قرائن اور دلائل جن کی بنا پر صحیحین کو یہ رتبہ ملا ہے دیگر کتب ان قرائن اور خصوصیات سے خالی ہیں ۔ بلکہ اس طرح کے قیاس کو اصولیوں کی زبان میں ’’ قیاس مع الفارق ‘‘ بھی کہاجائے تو بعید نہ ہوگا۔
موضوع کی طرف آتے ہیں کہ تین علتوں میں سے دو علتیں تاحال باقی ہیں :
1۔ ہانی بن ہانی کی جہالت ۔ جیساکہ علی ابن المدینی وغیرہ سے آپ خود نقل کرچکے ہیں ۔ ابن حبان کا ثقات میں ذکر کرنا اس لیے معتبر نہیں کہ ان کا اصول ہے کہ وہ مجہول راویوں کو ثقات میں ذکر دیتے ہیں ۔ ہاں اگر ابن حبان نے اس کو صراحت کے ساتھ ’’ ثقۃ ‘‘ وغیرہ کہا تو الگ بات ہے جو محتاج دلیل ہے ۔
اسی طرح عجلی اور نسائی کی توثیق کا حوالہ بھی آپ سے مطلوب ہے ۔
اہم بات یہ ہے کہ مجہول الحال راوی کی جہالت کے رفع کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ اس سے روایت کرنے والے کم ازکم دو راوی ہونے چاہییں جبکہ ہانی سے ابو اسحاق کے سوا اور کوئی روایت کرنے والا نہیں ہے ۔
2۔ زیادتی ثقہ کے حوالے سے آپ نےجو کہا وہ بھی مطلقا درست نہیں ۔ وہ بھی اس صورت میں جب یہ زیادتی کرنے والے کو ثقہ مان لیا جائے ۔ فی الوقت تو ’’ ثقاہت ‘‘ ہی محل نظر ہے ۔ لہذا زیادۃ الثقۃ والی بحث کو مؤخر رکھتے ہیں ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
محترم بھائی اللہ آپ کو جزائے خیر عطافرمائےکہ آپ نے محنت کے ساتھ علمی انداز میں گفتگو کو آگے بڑھایا ۔


بھائی میں نے عرض کیا کہ میں اس معاملے میں نو آموز ہوں۔ آپ لوگوں کی اصلاح میرے لیے بہت اہم ہے۔ ابتدا میں بہت سی چیزیں دماغ میں حاضر نہیں ہوتیں، بیشتر سے انسان واقف نہیں ہوتا اور کچھ چیزیں ذہن میں شفاف نہیں ہوتیں۔ اللہ آپ کو اس تفصیلی جواب پر جزائے خیر عطا فرمائے۔
اس تفصیل کو دیکھتے ہوئے میرے پیش نظر یہ نہیں تھا کہ اس حدیث کو درست ثابت کرنا ہے اس لیے جو جیسا ملا اور سمجھا بیان کر دیا۔

سبیعی کےعنعنعہ میں تدلیس کے احتمال کو آپ نے السنن الکبری للبیہقی کا حوالہ ( جس میں تصریح بالسماع بصغیہ تحدیث موجود ہے ) دے کر رفع فرمادیا ۔
ایک ذرا سا ابہام ہے۔ بیھقی یہاں اس طرح ابتدا کرتے ہیں: قال ابو اسحاق۔ پیچھے سند ممکن ہے اس سے متصل پچھلی روایت کی ہو کیوں کہ وہ انہی کا عنعنہ ہے اسی روایت میں لیکن وہ سند کتاب الآداب للبیھقی سے ہٹ کر ہے۔ اس کی تحقیق باقی ہے۔ اس کا کیا حکم ہوگا؟

1۔ کسی راوی کا عنعنہ صحیحین میں قابل قبول ہے تو پھر غیر صحیحین میں بھی قبول ہونا چاہیے ۔ گویا آپ نے صحیحین میں '' قبول '' کو دلیل بنایا ہے غیر صحیحین میں '' قبول '' ہونےکی ۔
حقیقت حال یوں ہے کہ اس سلسلے میں علماء کا اختلاف ضرور ہے کہ صحیحین میں مدلس کا عنعنہ قابل قبول ہے کہ نہیں ؟ بعض کہتے ہیں کہ صحیحین میں مدلسین کی روایات کی قبولیت کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ صحیحین میں ہیں جبکہ بعض علماء کا موقف ہے کہ اصول ہر جگہ ایک ہی ہوتا ہے اگر خارج صحیحین عنعنہ تصریح بالسماع کے بغیر قابل قبول نہیں تو صحیحین میں بھی قابل قبول نہیں ۔ صرف یہی دو قول ہیں ۔ تفصیل کے لیے دیکھیں ( تدریب الروای اور النکت للحافظ ابن حجر )
گویا صحیحین میں '' عنعنۃ المدلس '' کے بارے میں اختلاف کرنے والے علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ غیر صحیحین میں مدلس کا عنعنہ تصریح بالسماع کے بغیر ناقابل قبول ہی ہے ۔
اس وضاحت کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ آپ نے غیر صحیحین میں موجود عنعنہ کو حجت قراردینے کے لیے صحیحین میں موجود عنعنہ کو دلیل بنایا ہے جو کہ درست نہیں ہے ۔

اس کو آپ میرا ذاتی خیال بھی کہہ سکتے ہیں۔ جب تحدیث کے الفاظ سے حدیث درست ثابت ہو گئی تو یہ صرف تائید کے لیے ہے۔ مجھے یہی دو قول مناسب محسوس ہوتے ہیں کہ یا تو غیر صحیحین میں بھی اس راوی کا اسی روایت میں عنعنہ قبول کیا جائے یا پھر صحیحین میں بھی قبول نہ کیا جائے۔ واللہ اعلم۔ میں تفصیل دیکھوں گا۔

2۔ دوسرا آپ نے یہ کہا کہ تلقی بالقبول صحیحن کی روایات کی صحت کی دلیل نہیں بن سکتا کیونکہ جب انہوں نے یہ روایات درج کی تھیں تو اس وقت تلقی بالقبول نہیں ہوا تھا بلکہ یہ بعد میں ہوا تھا ۔ لہذا شیخین کا ان روایات کو درج کرنا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ن کے نزدیک یہ '' عنعنہ '' قابل قبول تھا ۔
یہاں دو باتیں ہیں :
اول : راجح قول کے مطابق تدلیس کرنے والے کی ہر روایت رد نہیں کی جائے گی بلکہ اگر تصریح بالسماع کا یقین ہو جائے تو روایت قبول کر لی جائے گی ۔ شیخین نے مدلسین کی تمام روایات کو درج نہیں کیا بلکہ انہیں روایات کو درج کیا جن پر انہیں یہ معلوم ہوا کہ اس میں تدلیس کا شائبہ نہیں ہے کیونکہ صحیح روایات کو درج کرنا یہ ان کی شرط تھی ۔ اور حافظ ابن حجر وغیرہ رحم اللہ الجمیع نے ہدی الساری کے اندر یہ بات بیان کی ہے کہ بخاری و مسلم نے ایسے راویوں سے جن کی روایات صحیح و ضعیف دونوں قسم پر ہیں ، صرف صحیح روایات لی ہیں ۔

روایت دونوں جگہ ایک ہیں اور یہ قوی احتمال ہے کہ ایک جگہ مختصرا بیان کیا گیا ہو اور دوسری جگہ تفصیلا۔ بلکہ بیھقی رح نے تو اسے اختیار بھی کیا ہے۔
اگر ہم تصریح بالسماع کا یقین ایک روایت میں تسلیم کرتے ہیں تو دوسری میں کیوں نہیں؟

ثانی : صحیحین کو امت کے تلقی بالقبول کے حوالے سے آپ نے جس انداز سےاعتراض کیا ہے اس طرح تو کسی بھی چیز کےبارے میں '' تلقی بالقبول '' کہنا بے سود ہوجاتا ہے ۔ حضرات احناف اور دیگر مذاہب کے نزدیک '' تلقی بالقبول '' ایک زبردست دلیل مانی جاتی ہے حتی کہ بعض کے نزدیک تو ضعیف روایت بھی تلقی بالقبول کیو جہ سے قابل عمل بن جاتی ہے ۔ حالانکہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ '' امت کی طرف سے تلقی بالقبول '' کا ہونا بہت بعد میں وجود میں آیا ۔ تو در اصل بات یہ ہے کہ صحیحین کی روایات صحت کے درجہ پر پہنچتی تھیں تو امت سے ان کو تلقی بالقبول حاصل ہوا نا ۔ اگر درجہ صحت کو نہ پہنچتیں تو لوگ اسی طرح تنقید کرتے جس طرح دیگر کتابوں پر تنقید کی جاتی ہے ۔ گویا تلقی بالقبول ہونا یہ بذات خود دلیل نہیں بلکہ اصل دلیل ان کا قواعد و ضوابط کے مطابق ہونا ہے جو کہ اس وقت کے لوگوں کو زمانہ قریب ہونے کی وجہ سے معلوم تھا اور بعد والے لوگ جن کا زمانہ بعید تھا ان کے لیے تلقی بالقبول اس کے قائم مقام دلیل بن گیا ۔
چنانچہ صحیحین کے اندر جتنی معنعن روایات موجود ہیں علماء نے ان کا دراسہ کیا اور ثابت کیا ہےکہ یا تو خود صحیحین کے اندر تصریح بالسماع موجود ہے یا دیگر کتب میں اس کی وضاحت مل جاتی ہے ۔

میں تلقی بالقبول کا انکار نہیں کررہا۔ یہ کہہ رہا ہوں کہ اگر یہ حدیث معنعن ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے تو اس احتمال پر کہ آئیندہ لوگ ان کتب کی تمام احادیث کو درج کر لیں گے صاحب کتاب ہرگز نہ لکھتے۔
پہلی والی بات البتہ درست ہے کہ تصریح بالسماع کہیں اور ہوگا اور صحیح سند کے ساتھ۔ ہم اسے تلاش کر لیتے ہیں۔ اس کے لیے کوئی معاون کتاب ہو تو وہ بھی بتا دیجیے۔

1۔ ہانی بن ہانی کی جہالت ۔ جیساکہ علی ابن المدینی وغیرہ سے آپ خود نقل کرچکے ہیں ۔ ابن حبان کا ثقات میں ذکر کرنا اس لیے معتبر نہیں کہ ان کا اصول ہے کہ وہ مجہول راویوں کو ثقات میں ذکر دیتے ہیں ۔ ہاں اگر ابن حبان نے اس کو صراحت کے ساتھ '' ثقۃ '' وغیرہ کہا تو الگ بات ہے جو محتاج دلیل ہے ۔
اسی طرح عجلی اور نسائی کی توثیق کا حوالہ بھی آپ سے مطلوب ہے ۔

یہ تفصیل جو لنک آپ نے دیا ہے وہاں بھی مذکور ہے۔ علی ابن المدینی اور عجلی کی آراء میں نے وہیں سے لی ہیں۔ ابن حبان اور نسائی کا قول میزان الاعتدال میں ہے جس کا میں نے اوپر حوالہ بھی دیا ہے۔
الثقات کی طرف میں نے مراجعت کی ہے۔ ابن حبان نے ان کا صرف ذکر کیا ہے کتاب میں۔
ابن حبان کے اس اصول کا کوئی حوالہ مل جائے گا؟ کیوں کہ ابن حبان خود فرماتے ہیں:۔
وإنما أذكر في هذا الكتاب الشيخ بعد الشيخ وقد ضعفه بعض أئمتنا ووثقه بعضهم فمن صح عندي منهم أنه ثقة بالدلائل النيرة التي بينتها في كتاب الفصل بين النقلة أدخلته في هذا الكتاب لأنه يجوز الاحتجاج بخبره ومن صح عندي منهم أنه ضعيف بالبراهين الواضحة التي ذكرتها في كتاب الفصل بين النقلة لم أذكره في هذا الكتاب لكني أدخلته في كتاب الضعفاء بالعلل لأنه لا يجوز الاحتجاج بخبره فكل من ذكرته في كتابي هذا إذا تعرى خبره عن الخصال الخمس التي ذكرتها فهو عدل يجوز الاحتجاج بخبره
الثقات، 1۔13، دائرة المعارف العثمانية بحيدر آباد الدكن الهند
جب کوئی شخص خود کچھ کہے تو جب تک اس کے خلاف صراحت نہ کر دے ہم کیسے اس کے مخالف کہہ سکتے ہیں؟
ابن حبان نے آگے یہ کہا ہے کہ جس پر جرح نہیں ہے وہ بھی عادل ہے لیکن یہ نہیں کہا کہ جسے میں جانتا نہیں وہ بھی میرے نزدیک قابل احتجاج ہے۔

فی الوقت تو '' ثقاہت '' ہی محل نظر ہے ۔
یہاں میری کم علمی مانع ہے۔ کیا مدلس راوی ثقہ نہیں ہوتا؟

میں امید رکھتا ہوں کہ آپ سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا۔
ہمارے ہاں اکثر جگہوں میں یہ چیز کافی کم اور کہیں تو بالکل ہی نہیں سکھائی جاتی۔ موجودہ طرز تعلیم سے بہت سے علماء کو اختلاف ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
ایک ذرا سا ابہام ہے۔ بیھقی یہاں اس طرح ابتدا کرتے ہیں: قال ابو اسحاق۔ پیچھے سند ممکن ہے اس سے متصل پچھلی روایت کی ہو کیوں کہ وہ انہی کا عنعنہ ہے اسی روایت میں لیکن وہ سند کتاب الآداب للبیھقی سے ہٹ کر ہے۔ اس کی تحقیق باقی ہے۔ اس کا کیا حکم ہوگا؟

بیہقی نے اس حدیث کو اپنی مختلف تصانیف میں ذکر کیا ہے ۔ اور تصریح بالسماع کے لیے ضروری نہیں کہ اسی کتاب میں یا کسی خاص کتاب میں اس کا وجود ہو ۔ لہذا وہ روایت جس کو الآداب میں عنعنہ کے ساتھ بیان کیا ہے اسی روایت کو السنن الکبری میں صیغہ تحدیث کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ اور یہ بات آپ کی درست ہے کہ ’’ قال أبو إسحاق ‘‘ سے مراد تعلیق نہیں بلکہ پچھلی روایت پر عطف ہے کیونکہ ’’ السنن الکبری ‘‘ اس سے پہلی روایت بھی ابو إسحاق سے ہی ہے بلکہ اسی روایت کا شاہد اختصار کے ساتھ ہے ملاحظہ فرمائیں :
15769 - كما أخبرنا أبو الحسين بن بشران العدل، ببغداد، أنبأ أبو الحسن علي بن محمد المصري، ثنا عبد الله بن محمد بن أبي مريم، ثنا أسد بن موسى، ثنا يحيى بن زكريا بن أبي زائدة، حدثني أبي وغيره، عن أبي إسحاق، عن البراء، قال: أقام رسول الله صلى الله عليه وسلم: بمكة ثلاثة أيام في عمرة القضاء، فلما كان اليوم الثالث، قالوا لعلي بن أبي طالب رضي الله عنه: إن هذا آخر يوم من شرط صاحبك، فمره فليخرج، فحدثه بذلك، فقال: " نعم " فخرج
گویا اس سے اگلی سند جو ’’ قال أبو إسحاق ‘‘ سے شروع ہوتی ہے وہ اسی سند کا حصہ ہے ۔ لیکن اب ایک مشکل یہ کھڑی ہوگئی ہے کہ اس تصریح بالسماع والی سند بذات خود منتقد ہے وہ اس طرح کے اس میں أبو إسحاق کا شاگرد ’’ زکریا بن أبی زائدۃ ‘‘ ہے ۔ حافظ ابن حجر تقریب فرماتے ہیں :
ثقة و كان يدلس ، و سماعه من أبى إسحاق بأخرة
کہ اس کا سماع ’’ابو إسحاق ‘‘ سے ان کی آخری عمر میں تھا ۔ حافظ ابن حجر کو یہ وضاحت کی ضرورت کیوں پیش آئی کیونکہ ابو إسحاق کو آخری میں عمر میں اختلاط ہوگیا تھا ۔ اصول یہ ہے کہ اگر ثقہ راوی کو اختلاط ہو جائے تو جن رواۃ نے اس سے اختلاط سے پہلے پہلے روایت کیا ہے وہ قابل قبول ہے اور اختلاط سے بعد والی روایات درست نہیں ہوں گی ۔ گویا یہ تصریح بالسماع والی روایت اختلاط ابی اسحاق کی وجہ سے ’’ ضعیف ‘‘ ہے ۔ اور اس بات کی دلیل ہے کہ ابو اسحاق سے اختلاط کی وجہ سے ’’ عنعنہ ‘‘ ’’ تحدیث ‘‘ میں تبدیل ہوگیا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
ایک اور بات ہے کہ زکریا کے بیٹے یحیی نے اپنے باب سے روایت کرتے ہوئے یہ الفاظ استعمال کیے ہیں ’’ حدثنی أبی و غیرہ ‘‘ اب اگر یہ ’’ غیرہ ‘‘ کی وضاحت کسی جگہ مل جائے تو شاید کوئی کام بن سکے ۔ ورنہ یہ بھی جہالت اور ابہام کی وجہ سے مفید نہیں ۔
اس کو آپ میرا ذاتی خیال بھی کہہ سکتے ہیں۔ جب تحدیث کے الفاظ سے حدیث درست ثابت ہو گئی تو یہ صرف تائید کے لیے ہے۔ مجھے یہی دو قول مناسب محسوس ہوتے ہیں کہ یا تو غیر صحیحین میں بھی اس راوی کا اسی روایت میں عنعنہ قبول کیا جائے یا پھر صحیحین میں بھی قبول نہ کیا جائے۔ واللہ اعلم۔ میں تفصیل دیکھوں گا۔

میرا نظریہ اس سے ذرا مختلف ہے ویسے اس سلسلے میں آپ مطالعہ کرلیں بعد میں ان شاء اللہ کبھی گفتگو کرلیں گے کہ صحیحین سے ’’ لاڈلے بچوں ‘‘ والا سلوک کیوں کیا جاتا ہے ۔ عمومی مطالعہ کے لیے حافظ ابن حجر کی ’’ ہدی الساری ‘‘ کا مطالعہ کریں اور بالخصوص مدلسین کی روایات کے سلسلہ میں ایک رسالہ ہے ’’ روایات المدلسین فی صحیح البخاری للدکتور عواد الخلف ‘‘ اس کا مطالعہ مفید رہے گا ۔
روایت دونوں جگہ ایک ہیں اور یہ قوی احتمال ہے کہ ایک جگہ مختصرا بیان کیا گیا ہو اور دوسری جگہ تفصیلا۔ بلکہ بیھقی رح نے تو اسے اختیار بھی کیا ہے۔
اگر ہم تصریح بالسماع کا یقین ایک روایت میں تسلیم کرتے ہیں تو دوسری میں کیوں نہیں؟

بھائی بیہقی نے دونوں جگہ اسی روایت کو تفصیلا ہی بیان کیا ہے لہذا اس حوالے سے کوئی مشکل نہیں ۔ اصل مشکل وہ ہےجو میں نے اوپر واضح کی ہے تصریح بالسماع والی روایت میں ایک دوسری علت ہے جس کی وجہ سے تصریح بالسماع قابل قبول نہیں ۔
یہ تفصیل جو لنک آپ نے دیا ہے وہاں بھی مذکور ہے۔ علی ابن المدینی اور عجلی کی آراء میں نے وہیں سے لی ہیں۔ ابن حبان اور نسائی کا قول میزان الاعتدال میں ہے جس کا میں نے اوپر حوالہ بھی دیا ہے۔

عجلی کی توثیق تو مل گئی ہے الثقات ( ط عبد العلیم ) میں 1883 نمبر ترجمہ ہے ان کا ۔ لیکن اس پر اعتراض یہ ہے کہ عجلی متساہل ہیں اکیلے ان کی توثیق قابل اعتبار نہیں ۔ عجلی کے تساہل کے لیے ثقات العجلی جو دکتور عبد العلیم بستوی صاحب کی تحقیق سے مطبوع ہے کا مقدمہ دیکھ لیجیے ۔ اس سے بھی پہلے شیخ معلمی نے ’’ التنکیل ‘‘ میں اس بات کی وضاحت کی ہے ۔ البتہ حافظ زبیر علی زئی شیخ معلمی کی اس تحقیق سے اختلاف رکھتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ شیخ معلمی سے ’’ التنکیل ‘‘ صرف یہی ایک غلطی ہوئی ہے ۔ ( هكذا سمعت من فيه في المسجد النبوي سنة 1434 وهي آخرزيارته لمدينة رسول الله صلى الله عليه وسلم ومسجده ۔ )
الثقات کی طرف میں نے مراجعت کی ہے۔ ابن حبان نے ان کا صرف ذکر کیا ہے کتاب میں۔
ابن حبان کے اس اصول کا کوئی حوالہ مل جائے گا؟ کیوں کہ ابن حبان خود فرماتے ہیں:۔
وإنما أذكر في هذا الكتاب الشيخ بعد الشيخ وقد ضعفه بعض أئمتنا ووثقه بعضهم فمن صح عندي منهم أنه ثقة بالدلائل النيرة التي بينتها في كتاب الفصل بين النقلة أدخلته في هذا الكتاب لأنه يجوز الاحتجاج بخبره ومن صح عندي منهم أنه ضعيف بالبراهين الواضحة التي ذكرتها في كتاب الفصل بين النقلة لم أذكره في هذا الكتاب لكني أدخلته في كتاب الضعفاء بالعلل لأنه لا يجوز الاحتجاج بخبره فكل من ذكرته في كتابي هذا إذا تعرى خبره عن الخصال الخمس التي ذكرتها فهو عدل يجوز الاحتجاج بخبره
الثقات، 1۔13، دائرة المعارف العثمانية بحيدر آباد الدكن الهند
جب کوئی شخص خود کچھ کہے تو جب تک اس کے خلاف صراحت نہ کر دے ہم کیسے اس کے مخالف کہہ سکتے ہیں؟
ابن حبان نے آگے یہ کہا ہے کہ جس پر جرح نہیں ہے وہ بھی عادل ہے لیکن یہ نہیں کہا کہ جسے میں جانتا نہیں وہ بھی میرے نزدیک قابل احتجاج ہے۔

بھائی یہی تو بات ہے راویوں کی موٹی موٹی تین قسمیں ہیں 1۔ جن کی صراحت کے ساتھ تعدیل موجود ہے ۔ 2۔ جن پر صراحت کے ساتھ جرح موجود ہے ۔ 3۔ تیسری قسم وہ ہے جن کے بارے میں نہ جرح موجود ہے نہ تعدیل ۔ اس طرح کے راویوں کو مجہول کہتے ہیں ۔ اب دیگر محدثین کے نزدیک جہالت بذات خود ایک جرح ہے جبکہ ابن حبان کے نزدیک جس میں جرح و تعدیل نہ ملے وہ ان کے نزدیک ’’ عادل ‘‘ ہی ہے ۔ ان کی عبارت ملاحظہ فرمائیں :
لأن العدل من لم يعرف منه الجرح ضد التعديل فمن لم يعلم بجرح فهو عدل إذا لم يبين ضده ( مقدمۃ الثقات ص 13 )
اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن حبان کے نزدیک راوی دو قسم کے ہی ہیں یا ثقہ یا ضعیف ’’ مجہول ‘‘ کا تصور ان کے ہاں یہی ہے کہ چونکہ اس میں جرح ثابت نہیں ہے تو پھر عادل ہے ۔ لیکن علوم الحدیث کے ماہرین کے نزدیک یہ موقف درست نہیں ہے ۔
اسی لیے بہت سارے راوی ایسے مل جائیں گے جن کے بارے میں دیگر محدثین نے ’’ مجہول الحال ‘‘ وغیرہ کہا ہوگا لیکن ابن حبان نے ان کو ثقات میں ذکر کیا ہوگا ۔ اسی لیے علما نے ابن حبان کو متساہلین میں شمار کیا ہے ۔ حالانکہ اس کے سوا ان میں کوئی ایسی چیزنہیں ہے جس سے انہیں متساہل قرار دیا جاسکے بلکہ حافظ ذہبی ( میزان الاعتدال ج 2 ص 148 ت البجاوی ) وغیرہ نے جرح میں ان کو متشددین میں شمار کیا ہے ۔
مجہول راوی کے بارے میں حافظ ابن حبان کا موقف کیا ہے ؟ اور کیسا ہے ؟ تفصیل سے دیکھنے کے لیے لسان المیزان کے مقدمہ (ج 1 ص 14 ) کا مطالعہ کریں ۔
بس اتنا ذہن میں رکھیں کے جہالت راوی کے حوالے سے ابن حبان (وشیخہ ابن خزیمہ ) کا موقف دیگر آئمہ سے مختلف ہے اور مرجوح ہے ۔
یہاں میری کم علمی مانع ہے۔ کیا مدلس راوی ثقہ نہیں ہوتا؟

آپ بات سمجھے نہیں ۔ اعتراض ابو اسحاق پر نہیں اعتراض ہانی بن ہانی پر ہے جس کی ثقاہت ثابت نہیں ہورہی ۔
میں امید رکھتا ہوں کہ آپ سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا۔
میں تو آپ جیسا طالب علم ہوں آج بات اور کل اور ۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ یہاں ایک اور محترم و معزز رکن ہیں جن سے میں اور آپ سب بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں ۔ ان شاء اللہ چند ہی دنوں میں آپ ان کو ڈھونڈ لیں گے ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
لیکن اس پر اعتراض یہ ہے کہ عجلی متساہل ہیں اکیلے ان کی توثیق قابل اعتبار نہیں ۔
اکیلے کیسے بھائی؟ ان کی توثیق نسائی بھی تو کر رہے ہیں۔
اور ابن حبان کے بارے میں یہ احتمال ہے کہ انہوں نے مجہول الحال ہونے کی وجہ سے توثیق کی ہو اور یہ بھی کہ ان کے نزدیک ثقہ ہوں۔ جب عجلی (قطع نظر تساہل کے) اور نسائی توثیق کر رہے ہیں تو پھر ابن حبان کے نزدیک بھی ثقہ ہونے کا احتمال راجح نہیں ہوگا؟
ہم ایک ہی وقت میں دو ائمہ پر جرح کر رہے ہیں کہ عجلی نے تساہل سے کام لیا ہے اور ابن حبان نے مجہول ہونے کی وجہ سے ذکر کیا ہے۔ اس کے بجائے ہم یہ کیوں نہیں کہتے کہ ھانی ثقہ ہیں؟

ابن حبان کے نزدیک جس میں جرح و تعدیل نہ ملے وہ ان کے نزدیک '' عادل '' ہی ہے ۔
ھانی ان رواۃ میں آتے ہیں جن کے بارے میں شیخ نور الدین عتر کے مطابق ابو حنیفہ رح بھی اس وقت جب ان کے بارے میں جرح نہ ہو روایت کو قبول فرماتے ہیں۔
اور اس پر دلیل یہ دیتے ہیں کہ اس زمانے میں عدالت غالب تھی جس پر شاہد نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان خیر الناس قرنی۔۔۔۔۔ الحدیث ہے۔ (ہامش نزہۃ النظر)

مزید میں آپ کی بتائی ہوئی کتب کا مطالعہ کرتا ہوں ان شاء اللہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
اکیلے کیسے بھائی؟ ان کی توثیق نسائی بھی تو کر رہے ہیں۔
میں نے نسائی کی کتب دیکھی ہیں مثلا الضعفاء والمتروکین ، تسمیۃ من لم یرو عنہ غیر رجل واحد اور الطبقات وغیرہ سرے سے اس میں '' ہانی بن ہانی '' کا تذکرہ ہی نہیں ہے ۔آپ کی نظر میں نسائی کی کسی کتاب سے یا کسی دوسری کتاب میں باسند کوئی حوالہ ہے تو پیش فرمائیں ۔
اور ابن حبان کے بارے میں یہ احتمال ہے کہ انہوں نے مجہول الحال ہونے کی وجہ سے توثیق کی ہو اور یہ بھی کہ ان کے نزدیک ثقہ ہوں۔ جب عجلی (قطع نظر تساہل کے) اور نسائی توثیق کر رہے ہیں تو پھر ابن حبان کے نزدیک بھی ثقہ ہونے کا احتمال راجح نہیں ہوگا؟
ہم ایک ہی وقت میں دو ائمہ پر جرح کر رہے ہیں کہ عجلی نے تساہل سے کام لیا ہے اور ابن حبان نے مجہول ہونے کی وجہ سے ذکر کیا ہے۔ اس کے بجائے ہم یہ کیوں نہیں کہتے کہ ھانی ثقہ ہیں؟
بھائی ثقہ کیسے کہہ دیں ؟ رفع جہالت کے لیے جو بنیادی شرط ہے کہ اس سے روایت کرنے والے کم ازکم دو راوی ہونے چاہیں وہ بھی موجود نہیں ۔
آپ کہنا چاہ رہے ہیں ابن حبان نے اس کو جان پہچان کر ثقہ کہا ہے حالانکہ ابن حبان اور اس کے درمیان صدی سے زائد پر محیط زمانہ ہے ۔دوسری طرف ابن سعد ہیں جو کہ نسبتا اس سے قریب ہیں انہوں نے اس کو منکر الحدیث قرار دیا ہے( الطبقات رقم 2220 ط العلمیۃ ) ۔ یاد رہے ابن سعد کا شمار معتدل علمائے جرح و تعدیل میں ہوتاہے ۔
حافظ ذہبی نے دیوان الضعفاء میں قولا واحد اس راوی کو مجہول کہا ہے ۔
حافظ ابن حجر نے تقریب میں اس کو مستور ( مجہول الحال ) کہا ہے ۔
اب ان علماء سے آپ اختلاف کرنا چاہتے ہیں تو کسی دلیل سے کریں ۔
کسی معتدل امام سے اس کی توثیق ثابت کریں
اس سے روایت کرنے والے کم ازکم دو راوی تلاش کریں ۔
یاد رہے اگر بلاسند اقوال پر اعتماد کرنا ہے تو علی بن المدینی اور امام شافعی وغیرہ کی تجہیل کا جواب بھی تلاش کرنا پڑے گا ۔(تہذیب التہذیب میں اس راوی کا ترجمہ دیکھیں )
ھانی ان رواۃ میں آتے ہیں جن کے بارے میں شیخ نور الدین عتر کے مطابق ابو حنیفہ رح بھی اس وقت جب ان کے بارے میں جرح نہ ہو روایت کو قبول فرماتے ہیں۔
اور اس پر دلیل یہ دیتے ہیں کہ اس زمانے میں عدالت غالب تھی جس پر شاہد نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان خیر الناس قرنی۔۔۔۔۔ الحدیث ہے۔ (ہامش نزہۃ النظر)
بھائی جی اب اس طرح کے راوی اور اس طرح کی دلیلیں کم از کم اس جگہ نہیں چل سکتیں جہاں ثقہ اور ثبت راوی کچھ اور بیان کریں اور اس طرح کے راوی کچھ اور بیان کریں ۔
اسانید و متون میں اس طرح کے کمی و اضافہ کی وجہ سے تو ٹھیک ٹھاک ثقہ راویوں کی بات کو رد کردیا جاتا ہے یہ ہانی مذکور کس کھاتے میں آتے ہیں ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
بھائی ثقہ کیسے کہہ دیں ؟ رفع جہالت کے لیے جو بنیادی شرط ہے کہ اس سے روایت کرنے والے کم ازکم دو راوی ہونے چاہیں وہ بھی موجود نہیں ۔
جزاک اللہ میرا اشکال رفع ہو گیا۔ مزید میں اس موضوع کو دیکھتا رہوں گا کتب میں۔

رفع جہالت میں یہاں مراد مجہول العین ہے غالبا۔ یعنی اس کے لیے یہ شرط ہے کہ دو راوی ہونے چاہئیں یا پھر کسی ایک غیر راوی امام کی تعدیل (نزہۃ النظر)۔ یا اہل راوی اس کو ثقہ کہے۔ (لم یک ہذا واضحا لی)
لیکن ہمیں ان کی توثیق ہی نہیں ملی۔
 
Top