ابو اسحاق بھی بخاری کے راوی ہیں لیکن ان کے بارے میں تدلیس کی جرح موجود ہیں۔ حافظ نے انہیں طبقہ ثالثہ کے مدلسین میں شمار کیا ہے اور یہ روایت عنعنہ ہے۔
میں کہتا ہوں: بخاری میں اسی روایت کو بغیر حجل کے ذکر کے ابو اسحاق نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے (باب عمرۃ القضا) اور وہ بھی عنعنہ ہے۔ جب ہم ان کا عنعنہ وہاں درست تسلیم کرتے ہیں تو یہاں بھی کرنا چاہیے۔ شیخ ابن عثیمین فرماتے ہیں کہ تدلیس اگر صحیحین کے کسی راوی پر ثابت ہو تو تو وہ روایت اس وجہ سے مقبول ہوگی کہ ان میں موجود روایات کے مقبول ہونے پر امت جمع ہے (مصطلح الحدیث)۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ صاحب صحیح کو لکھتے وقت اس کا علم نہیں تھا کہ امت میں ان روایات کو تلقی باقبول حاصل ہوگا۔ انہوں نے اپنی تحقیق کے مطابق ان کتب میں صحاح جمع کی ہیں۔ یہ راوی ثقہ تو ہیں ہی۔ ان کی عنعنہ کو روایت کرنے سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ عنعنہ مقبول ہوگی۔
اسی روایت کو ابو اسحاق نے سنن کبری میں ھانئ بن ھانئ اور ہبیرۃ بن یریم سے الفاظ تحدیث کے ساتھ بھی روایت کیا ہے۔
جب ھانئ بن ھانئ، ابو اسحاق کے براہ راست استاد ہیں، ان کا سماع ان سے ثابت ہے بلکہ بعض کے نزدیک تو ھانئ کی روایت صرف ابو اسحاق سے ہی مروی ہے اور دونوں کا علاقہ ایک ہی یعنی کوفہ ہے تو ایسی صورت میں ان کے درمیان کسی اور راوی ہونے کے بجائے راوی کا نہ ہونا زیادہ اظہر ہے۔
محترم بھائی اللہ آپ کو جزائے خیر عطافرمائےکہ آپ نے محنت کے ساتھ علمی انداز میں گفتگو کو آگے بڑھایا ۔
اس روایت پر میں نے عرض کی کہ تین علتیں ہیں :
1۔ ہانی بن ہانی کی جہالت ۔
2۔ حجل والے الفاظ کی نکارت یا شذوذ ۔
3۔ابو اسحاق السبیعی کا عنعنہ ۔
سبیعی کےعنعنعہ میں تدلیس کے احتمال کو آپ نے السنن الکبری للبیہقی کا حوالہ ( جس میں تصریح بالسماع بصغیہ تحدیث موجود ہے ) دے کر رفع فرمادیا ۔ مجھے آپ سے اتفاق ہے ۔
لیکن اس کے علاوہ جو کچھ آپ نے اس ضمن میں کہا ہے اس سے اختلاف ہے ۔ یہاں آپ کی بات دو نکات پر مشتمل ہے :
1۔ کسی راوی کا عنعنہ صحیحین میں قابل قبول ہے تو پھر غیر صحیحین میں بھی قبول ہونا چاہیے ۔ گویا آپ نے صحیحین میں ’’ قبول ‘‘ کو دلیل بنایا ہے غیر صحیحین میں ’’ قبول ‘‘ ہونےکی ۔
حقیقت حال یوں ہے کہ اس سلسلے میں علماء کا اختلاف ضرور ہے کہ صحیحین میں مدلس کا عنعنہ قابل قبول ہے کہ نہیں ؟ بعض کہتے ہیں کہ صحیحین میں مدلسین کی روایات کی قبولیت کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ صحیحین میں ہیں جبکہ بعض علماء کا موقف ہے کہ اصول ہر جگہ ایک ہی ہوتا ہے اگر خارج صحیحین عنعنہ تصریح بالسماع کے بغیر قابل قبول نہیں تو صحیحین میں بھی قابل قبول نہیں ۔ صرف یہی دو قول ہیں ۔ تفصیل کے لیے دیکھیں ( تدریب الروای اور النکت للحافظ ابن حجر )
گویا صحیحین میں ’’ عنعنۃ المدلس ‘‘ کے بارے میں اختلاف کرنے والے علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ غیر صحیحین میں مدلس کا عنعنہ تصریح بالسماع کے بغیر ناقابل قبول ہی ہے ۔
اس وضاحت کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ آپ نے غیر صحیحین میں موجود عنعنہ کو حجت قراردینے کے لیے صحیحین میں موجود عنعنہ کو دلیل بنایا ہے جو کہ درست نہیں ہے ۔
2۔ دوسرا آپ نے یہ کہا کہ تلقی بالقبول صحیحن کی روایات کی صحت کی دلیل نہیں بن سکتا کیونکہ جب انہوں نے یہ روایات درج کی تھیں تو اس وقت تلقی بالقبول نہیں ہوا تھا بلکہ یہ بعد میں ہوا تھا ۔ لہذا شیخین کا ان روایات کو درج کرنا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ن کے نزدیک یہ ’’ عنعنہ ‘‘ قابل قبول تھا ۔
یہاں دو باتیں ہیں :
اول : راجح قول کے مطابق تدلیس کرنے والے کی ہر روایت رد نہیں کی جائے گی بلکہ اگر تصریح بالسماع کا یقین ہو جائے تو روایت قبول کر لی جائے گی ۔ شیخین نے مدلسین کی تمام روایات کو درج نہیں کیا بلکہ انہیں روایات کو درج کیا جن پر انہیں یہ معلوم ہوا کہ اس میں تدلیس کا شائبہ نہیں ہے کیونکہ صحیح روایات کو درج کرنا یہ ان کی شرط تھی ۔ اور حافظ ابن حجر وغیرہ رحم اللہ الجمیع نے ہدی الساری کے اندر یہ بات بیان کی ہے کہ بخاری و مسلم نے ایسے راویوں سے جن کی روایات صحیح و ضعیف دونوں قسم پر ہیں ، صرف صحیح روایات لی ہیں ۔
ثانی : صحیحین کو امت کے تلقی بالقبول کے حوالے سے آپ نے جس انداز سےاعتراض کیا ہے اس طرح تو کسی بھی چیز کےبارے میں ’’ تلقی بالقبول ‘‘ کہنا بے سود ہوجاتا ہے ۔ حضرات احناف اور دیگر مذاہب کے نزدیک ’’ تلقی بالقبول ‘‘ ایک زبردست دلیل مانی جاتی ہے حتی کہ بعض کے نزدیک تو ضعیف روایت بھی تلقی بالقبول کیو جہ سے قابل عمل بن جاتی ہے ۔ حالانکہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ ’’ امت کی طرف سے تلقی بالقبول ‘‘ کا ہونا بہت بعد میں وجود میں آیا ۔ تو در اصل بات یہ ہے کہ صحیحین کی روایات صحت کے درجہ پر پہنچتی تھیں تو امت سے ان کو تلقی بالقبول حاصل ہوا نا ۔ اگر درجہ صحت کو نہ پہنچتیں تو لوگ اسی طرح تنقید کرتے جس طرح دیگر کتابوں پر تنقید کی جاتی ہے ۔ گویا تلقی بالقبول ہونا یہ بذات خود دلیل نہیں بلکہ اصل دلیل ان کا قواعد و ضوابط کے مطابق ہونا ہے جو کہ اس وقت کے لوگوں کو زمانہ قریب ہونے کی وجہ سے معلوم تھا اور بعد والے لوگ جن کا زمانہ بعید تھا ان کے لیے تلقی بالقبول اس کے قائم مقام دلیل بن گیا ۔
چنانچہ صحیحین کے اندر جتنی معنعن روایات موجود ہیں علماء نے ان کا دراسہ کیا اور ثابت کیا ہےکہ یا تو خود صحیحین کے اندر تصریح بالسماع موجود ہے یا دیگر کتب میں اس کی وضاحت مل جاتی ہے ۔ چنانچہ ہند و پاک میں اہل حدیث کے نامور محقق و محدث حافظ زبیر علی زئی صاحب رحمہ اللہ کا دعوی تھا کہ صحیحین کی کوئی بھی معنعن روایت ایسی نہیں ہےجس کی تصریح بالسماع نہ ملتی ہو ۔
خلاصہ : یہ ہے کہ غیر صحیحین کو صحیحین پر قیاس نہیں کیاجاسکتا کیونکہ وہ قرائن اور دلائل جن کی بنا پر صحیحین کو یہ رتبہ ملا ہے دیگر کتب ان قرائن اور خصوصیات سے خالی ہیں ۔ بلکہ اس طرح کے قیاس کو اصولیوں کی زبان میں ’’ قیاس مع الفارق ‘‘ بھی کہاجائے تو بعید نہ ہوگا۔
موضوع کی طرف آتے ہیں کہ تین علتوں میں سے دو علتیں تاحال باقی ہیں :
1۔ ہانی بن ہانی کی جہالت ۔ جیساکہ علی ابن المدینی وغیرہ سے آپ خود نقل کرچکے ہیں ۔ ابن حبان کا ثقات میں ذکر کرنا اس لیے معتبر نہیں کہ ان کا اصول ہے کہ وہ مجہول راویوں کو ثقات میں ذکر دیتے ہیں ۔ ہاں اگر ابن حبان نے اس کو صراحت کے ساتھ ’’ ثقۃ ‘‘ وغیرہ کہا تو الگ بات ہے جو محتاج دلیل ہے ۔
اسی طرح عجلی اور نسائی کی توثیق کا حوالہ بھی آپ سے مطلوب ہے ۔
اہم بات یہ ہے کہ مجہول الحال راوی کی جہالت کے رفع کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ اس سے روایت کرنے والے کم ازکم دو راوی ہونے چاہییں جبکہ ہانی سے ابو اسحاق کے سوا اور کوئی روایت کرنے والا نہیں ہے ۔
2۔ زیادتی ثقہ کے حوالے سے آپ نےجو کہا وہ بھی مطلقا درست نہیں ۔ وہ بھی اس صورت میں جب یہ زیادتی کرنے والے کو ثقہ مان لیا جائے ۔ فی الوقت تو ’’ ثقاہت ‘‘ ہی محل نظر ہے ۔ لہذا زیادۃ الثقۃ والی بحث کو مؤخر رکھتے ہیں ۔