• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ايران حکومت کے خلاف نئ پابندياں

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ





ايرانی حکومت کے خلاف پابنديوں سے امریکی حکومت نے يہ واضح پيغام ديا ہے کہ دہشت گرد گروہوں کی پشت پنائ کسی بھی طور قابل قبول نہيں ہے اور امريکی حکومت ہر ممکن کوشش کرے گی اور ايسے اقدامات بھی اٹھاۓ گی جن کے ذريعے ايرانی حکومت کو روکا جا سکے جو اقوام متحدہ کی کئ قراردادوں اور قوانين کو پس پشت ڈال کر ايسے افراد اور گروہوں کی معاونت کے ليے ذمہ دار ہے جو عالمی سطح پر دہشت گردی کی بے شمار کاروائيوں کے ليے براہ راست ذمہ دار ہيں۔

”امریکہ نے ایرانی حکومت کو اپنے خونی ایجنڈے کی ترویج کے لیے درکار مالی وسائل کے حصول سے روکنے کے لیے معاشی دباؤ کی مہم شروع کی ہے” ۔۔ صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ

تمام پابندیوں کا دوبارہ نفاذ: صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ ایران پر کڑی ترین پابندیاں دوبارہ نافذ کر رہے ہیں جن کے تحت اس بدعنوان حکومت کے متعدد اہم شعبہ جات کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔

· تباہ کن ایرانی جوہری معاہدے کے تحت اٹھائی گئی تمام امریکی پابندیاں 5 نومبر 2018 سے دوبارہ پوری طرح نافذ ہو جائیں گی۔

o ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے اٹھائے گئے پابندیوں کے بے مثل اقدامات کے ساتھ یہ ایران پر اب تک کی کڑی ترین پابندیاں ہوں گی۔

· یہ پابندیاں ایرانی معیشت کے اہم شعبہ جات جیسا کہ اس کے توانائی، جہازرانی، جہاز سازی اور مالیاتی شعبوں کو ہدف بنائیں گی۔

o 700 سے زیادہ افراد، ادارے، بحری جہاز اور طیارے دوبارہ ہماری پابندیوں کی فہرست میں شامل ہو رہے ہیں جن میں بڑے ایرانی بینک، تیل کے برآمد کنندگان اور جہازراں کمپنیاں بھی شامل ہیں۔

o ان پابندیوں کے ذریعے ایران کے مرکزی بینک کے ساتھ لین دین اور نامزد ایرانی مالیاتی اداروں کو بھی ہدف بنایا جائے گا۔

o ایران کو خوراک کی فروخت، زرعی اشیا، ادویات اور طبی آلات ہماری پابندیوں سے مستثنیٰ رہے ہیں اور رہیں گے۔

· پابندیوں کے دوبارہ نفاذ سے ایسے مالی وسائل کا راستہ بند ہو جائے گا جنہیں ایرانی حکومت دہشت گرد گروہوں کی مالی مدد، عالمی سطح پر عدم استحکام پھیلانے، جوہری اور بلسٹک میزائل پروگراموں کے لیے مالی وسائل پیدا کرنے اور اپنے رہنماؤں کی جیبیں بھرنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔

پوری قوت سے عملدرآمد: صدر ٹرمپ ایرانی حکومت کی جارحیت کے مقابل کھڑے رہیں گے اور ازسرنو پابندیاں پوری قوت سے نافذ کریں گے۔

· ٹرمپ انتظامیہ ایران پر امریکی پابندیوں کا پوری قوت سے نفاذ چاہتی ہے اور ان کی خلاف ورزی کے مرتکب یا اس ضمن میں دھوکہ دینے کی کوشش کرنے والوں کو ہدف بنائے گی۔

o ایران کے ساتھ پابندیوں کی زد میں آنے والی سرگرمیاں ختم کرنے میں ناکام رہنے والوں کے لیے سنگین نتائج کا خدشہ ہے۔

· امریکی انتظامیہ پہلے ہی پابندیوں کے 19 ادوار کا اجرا کر چکی ہے جن میں ایران سے متعلقہ 168 افراد کو نامزد کیا گیا۔

o ان افراد کو ایران کی جانب سے دہشت گردی کی معاونت، بلسٹک میزائل پروگرام، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، مجرمانہ سرگرمیوں اور دیگر اقدامات کے حوالے سے اس کے ساتھ تعلقات کی بنا پر ہدف بنایا گیا۔

· ایرانی تیل کی برآمدات جون میں عروج پر پہنچنے کے بعدایک ملین بیرل روزانہ کی شرح سے گر چکی ہیں اور بیس سے زیادہ ممالک نے ایران سے تیل کی برآمدات ختم کر دی ہیں۔

o امریکی انتظامیہ دیگر درآمد کنندگان پر زور دے رہی ہے کہ وہ جتنا جلد ممکن ہو یہ درآمدات مکمل طور پر ختم کر دیں۔

o ہم پابندیوں کے حوالے سے گزشتہ انتظامیہ کی نسبت بہت کم چھوٹ دے رہے ہیں۔

تیل کی منڈیوں میں
استحکام یقینی بنایا جائے گا: امریکہ کو اعتماد ہے کہ ایرانی تیل کی برآمدات محدود ہو جانے کے باوجود توانائی کی منڈیوں میں ترسیل معمول پر رہے گی۔

· اگست 2017 سے اگست 2018 تک امریکی خام تیل کی پیداوار میں 1 ملین بیرل روزانہ کی شرح سے اضافہ ہوا اور اس کی برآمدات 700000 بیرل روزانہ کے حساب سے بڑھ گئیں جس سے منڈی کی روانی میں اضافہ ہوا۔

o آئندہ برس امریکی پیداوار میں ایک ملین بیرل روزانہ یا اس سے زیادہ اضافہ ہو گا۔

· ہم دنیا بھر میں تیل پیدا کرنے والوں کی جانب سے ترسیل میں اضافے کے لیے ان کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔

· ‘توانائی کی معلومات سے متعلق امریکی انتظامیہ’ جیسے موقر پیش گو ادارے کو توقع ہے کہ پیداوار میں اس اضافے کے نتیجے میں 2018 کے اواخر میں تیل کی عالمگیر ترسیل طلب کے مطابق رہے گی اور 2019 میں طلب سے بڑھ جائے گی۔​


 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ




امریکی محکمہ خزانہ اور دہشت گردی کی مالیات کے خلاف مرکز کے شراکت داروں کی طالبان سہولت کاروں اور ان کے ایرانی معاونین پر پابندیاں


ریاض ۔۔ آج دہشت گردی کی مالیات کے خلاف مرکز (ٹی ایف ٹی سی) کے سات رکن ممالک نے افغان حکومت کی سلامتی کو کمزور کرنے والے طالبان کرداروں اور ان کے ایرانی معاونین کو سامنے لانے اور ان کی سرگرمیوں کو نشانہ بنانے کے لیے اہم اقدامات اٹھائے ہیں۔ ٹی ایف ٹی سی کے رکن ممالک نے طالبان سے وابستہ سات افراد کو پابندیوں کے لیے نامزد کیا ہے جن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اس دہشت گرد گروہ کی مدد کے لیے ایرانی معاونت میں سہولت دے رہے ہیں۔ امریکہ محکمہ خزانہ میں غیرملکی اثاثہ جات پر کنٹرول کے دفتر (او ایف اے سی) نے ‘ٹی ایف ٹی سی’ کے دیگر رکن ممالک کی شراکت سے ان اہم طالبان ارکان اور ایرانی حکومت میں شامل ان کے معاونین کو پابندیوں کے لیے نامزد کیا ہے۔ ٹی ایف ٹی سی کے ان ارکان میں سعودی عرب، برطانیہ، کویت، سلطنت اومان، قطر اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) شامل ہیں۔

وزیر خزانہ سٹیون منوچن نے کہا ہے کہ ”ٹی ایف ٹی سی نے خودکش حملوں اور دیگر مہلک سرگرمیوں میں شامل اہم طالبان ارکان کو نشانہ بنانے اور انہیں سامنے لا کر ثابت کیا ہے کہ وہ عالمگیر سلامتی کو کس قدر اہمیت دیتا ہے۔ ہم طالبان کو مالی اور مادی معاونت فراہم کرنے والے اہم ایرانی معاونین کو بھی ہدف بنا رہے ہیں” ان کا کہنا تھا کہ ”طالبان کو ایران کی جانب سے عسکری تربیت، مالیات اور ہتھیاروں کی فراہمی اس امر کی ایک اور مثال ہے کہ کس طرح وہ علاقائی امور میں کھلم کھلا مداخلت اور دہشت گردی کی معاونت کا مرتکب ہو رہا ہے۔ امریکہ اور ہمارے شراکت دار ایرانی حکومت کی جانب سے اپنے تخریبی طرزعمل کو وسعت دینے کے لیے افغانستان کے حالات سے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ طالبان کو ایرانی مدد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی یکسر خلاف ورزی اور اس کی جانب سے بنیادی عالمی اصولوں کی کھلی پامالی کی مثال ہے”

خاص طور پر ‘او ایف اے سی’ نے ‘ٹی ایف ٹی سی’ کے خلیجی شراکت داروں کے تعاون سے محمد ابراہیم اوحدی (معروف بہ جلال وحیدی)، اسماعیل الرضاوی، عبداللہ صمد فاروقی، محمد داؤد مزمل، عبدالرحیم منان، عبدالعزیز (معروف بہ عزیز شاہ زمانی) صدر ابراہیم اور حافظ ماجد کو انتظامی حکم 13224 کی مطابقت سے پابندیوں کے لیے نامزد کیا ہے جو دہشت گردوں اور دہشت گردی کے اقدامات کی معاونت کرنے والوں کو نشانہ بناتا ہے۔ علاوہ ازیں ‘ٹی ایف ٹی سی’ کے رکن ممالک نے نائم باریش کو بھی پابندیوں کے لیے نامزد کیا ہے جو ایران کے ساتھ طالبان کے تعلقات کا نگران ہے۔ قبل ازیں 15 نومبر 2012 کو امریکہ نے نائم باریش کو ‘منشیات کے غیرملکی سرغنوں کی پابندیوں کے لیے نامزدگی’ کے قانون (کنگ پن ایکٹ) کے تحت نامزد کیا تھا۔

یہ 21 مئی 2017 کو ‘ٹی ایف ٹی سی’ کے قیام کے بعد تیسری مربوط نامزدگی ہے۔ ٹی ایف ٹی سی دہشت گردی کی مالیات سے نمٹنے کے لیے سات رکن ممالک کے باہمی تعاون کو وسعت دینے اور مضبوط بنانے کی دلیرانہ اور تاریخی کوشش ہے۔ ٹی ایف ٹی سی دہشت گردی کی سرگرمیوں کو نشانہ بنانے کے لیے مربوط اقدامات، مالیاتی انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے اور دہشت گردی کی مالیات کے نیٹ ورکس کو نشانہ بنانے نیز ٹی ایف ٹی سی ارکان کی قومی سلامتی کے لیے خطرات کا باعث متعلقہ سرگرمیوں کو نشانہ بنانے کے لیے سہولت مہیا کرتا ہے۔

یہ نامزدگیاں افغان حکومت کو کمزور کرنے والے کرداروں کو سامنے لانے اور ان کے خلاف کارروائی نیز جنوبی ایشیا میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے قلع قمع کے ذریعے صدر ٹرمپ کی جنوبی ایشیائی حکمت عملی میں بھی معاون ہیں۔ ہم طالبان کو مالی مدد دینے والوں کو متحرک طور سے نشانہ بناتے رہیں گے یہاں تک کہ بات چیت کے ذریعے امن تصفیہ نہ ہو جائے۔ اس کارروائی میں طالبان عناصر کی مدد کرنے والے ایرانی پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے ارکان کو ہدف بنائے جانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایرانی حکومت کی ضرررساں سرگرمیوں کی وسعت کہاں تک ہے اور یہ اقدام علاقائی سطح پر اس کے تخریبی طرزعمل کو سامنے لاتا اور ایران کے خلاف امریکہ کی دباؤ بڑھانے کی مہم میں مدد دیتا ہے۔

محمد ابراہیم اوحدی (اوحدی)

محمد ابراہیم اوحدی کو پاسداران انقلاب-قدس فورس کے لیے کام کرنے اور طالبان کی معاونت یا انہیں مالی، مادی یا ٹیکنالوجی کے شعبے میں مدد فراہم کرنے یا ان کی مدد کے لیے مالیاتی سرگرمیوں یا دیگر کاموں میں ملوث ہونے پر پابندیوں کے لیے نامزد کیا گیا۔

2017 میں ایرانی علاقے بیرجند میں فرائض انجام دینے والے پاسداران انقلاب-قدس فورس کے افسر اوحدی نے افغان صوبہ ہرات میں طالبان کے نائب شیڈو گورنر عبداللہ صمد فاروقی (صمد) سے معاہدہ کیا کہ پاسداران انقلاب-قدس فورس صمد کی فورسز کو عسکری اور مالیاتی مدد فراہم کرے گی جس کے بدلے میں میں صمد کی فورسز صوبہ ہرات میں افغان حکومت کے خلاف حملے کریں گی۔ آج صمد کو بھی پابندیوں کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔ یہ معاہدہ ایرانی علاقے بیرجند میں ہوا جس میں یہ بات بھی شامل تھی کہ پاسداران انقلاب-قدس فورس صمد کے جنگجوؤں کو بیرجند کے قریب اپنے مراکز میں تربیت فراہم کرے گی۔ 2017 کے وسط تک دونوں فریقین اس معاہدے پر عمل کر رہے تھے جس میں پاسداران انقلاب-قدس فورس صمد کی فورسز کو بنیادی عسکری تربیت فراہم کرنے میں مصروف تھی۔

2016 میں اوحدی نے طالبان کے لیے ایرانی مدد کے معاملے پر صمد سے بات چیت کی۔ اس میں ایران میں ایک احاطہ تعمیر کرنا بھی شامل تھا جس میں زخمی اور ہلاک ہونے والے طالبان جنگجوؤں کے اہلخانہ کو رکھا جانا تھا۔ اوحدی نے جنگجوؤں کو تربیت کے لیے ایران بھیجے جانے کے معاملے پر پیش رفت کی بابت بھی پوچھا۔

2014 تک اوحدی بیرجند میں پاسداران انقلاب-قدس فورس کا دوسرا نائب عہدیدار تھا اور افغان حکومت کے مخالفین کو ہتھیار اور گولہ بارود کی فراہمی اس کی ذمہ داری تھی۔

2008 میں اوحدی ایرانی علاقے نیہبندان میں پاسداران انقلاب کا عہدیدار تھا جہاں بارہ سے پندرہ سال تک عمر کے بہت سے بچوں کو دہشت گردی اور خودکش حملوں کی تربیت دی گئی۔ نیہبندان میں تعینات حکام بیرجند میں پاسداران انقلاب کے ماتحت تھے۔

اسماعیل رضاوی

اسماعیل رضاوی کو پاسداران انقلاب-قدس فورس کے لیے کام کرنے اور طالبان کی معاونت یا انہیں مالی، مادی یا ٹیکنالوجی کے شعبے میں مدد فراہم کرنے یا ان کی مدد کے لیے مالیاتی سرگرمیوں یا دیگر کاموں میں ملوث ہونے پر پابندیوں کے لیے نامزد کیا گیا۔

رضاوی ایرانی علاقے بیرجند میں پاسداران انقلاب-قدس فورس کے تربیتی مرکز کا انچارج تھا جہاں سے 2014 تک افغان صوبے فراح، غور، بادیس اور ہلند میں طالبان فورسز کو تربیت، انٹیلی جنس اور ہتھیار فراہم کیے گئے۔ 2017 میں رضاوی نے افغان صوبے فراح کا دورہ کیا جہاں اس نے افغانستان کے سرحدی علاقے میں حملوں کے لیے طالبان کی حوصلہ افزائی کی۔ علاوہ ازیں اس نے ایک طالبان کمانڈر کو مغربی افغانستان میں ایک ڈیم پر جاری تعمیر کو نقصان پہنچانے کا حکم دیا اور محمد داؤد مزمل کو دو خودکش بمبار تیار کرنے کو کہا جس کا مقصد جنوب مغربی صوبوں میں افغان حکومت کی جانب سے کام کرنے والے کسی عہدیدار کو ہلاک کروانا تھا۔ آج محمد داؤد مزمل کو بھی پابندیوں کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔ رضاوی نے آج پابندیوں کے لیے نامزد ہونے والے افغان صوبہ ہلمند کے شیڈو گورنر عبدالرحیم منان کو طیارہ شکن ہتھیار فراہم کرنے کا وعدہ بھی کیا۔

2008 میں بیرجند میں پاسداران انقلاب-قدس فورس کے اعلیٰ عہدیدار کی حیثیت سے اس نے اپنے فوجی اڈے کو افغان صوبہ فراح اور ہرات میں اتحادی افواج کے خلاف حملوں میں مدد دینے کے لیے بھی استعمال کیا۔
عبداللہ صمد فاروقی (صمد)

عبداللہ صمد فاروقی کو طالبان کے لیے یا ان کی جانب سے کام کرنے پر پابندیوں کے لیے نامزد کیا گیا۔

2018 کے اوائل میں صوبہ ہرات میں طالبان کا نائب شیڈو گورنر صمد ایسے متعدد طالبان حکام میں شامل تھا جو بیرجند میں پاسداران انقلاب-قدس فورس کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں مصروف تھے اور جس کا مقصد طالبان کے لیے ایران کی جانب سے ہتھیار اور عسکری مدد قبول کرنا تھا۔ 2018 کے اوائل تک صمد نے پاسداران انقلاب سے ہزاروں کلو گرام دھماکہ خیز مواد وصول کیا جسے اس نے ہرات بھر میں طالبان کمانڈروں میں تقسیم کرنا تھا۔ صمد نے ایرانی علاقے بیرجند میں قائم ایک تربیتی مرکز کا دورہ بھی کیا جہاں پاسداران انقلاب طالبان جنگجوؤں کو تربیت دینے میں مصروف تھے جنہوں نے افغانستان سے گزرنے والی مجوزہ پائپ لائن پر حملہ کرنا تھا۔ صمد نے ایران کے مہیا کردہ مالی وسائل جنگجوؤں کے اہلخانہ کو دینے کا وعدہ کیا۔

2006 کے اوائل میں صمد ایرانی انٹیلی جنس حکام سے ملاقات کے لیے زاہدان جانے والے طالبان رہنماؤں کے ایک گروہ کا حصہ تھا۔ صمد سابق اعلیٰ سطحی طالبان رہنما ملا عبیداللہ کا نمائندہ بھی رہ چکا ہے۔ ایرانی حکام نے طالبان رہنماؤں کے گروہ کو رقم اور سازوسامان دیا جنہوں نے مغربی افغانستان میں تعمیرنو کی سرگرمیوں کو نشانہ بنانے کے لیے دہشت گرد حملوں پر آمادگی ظاہر کی۔

مزیدبراں 2017 کے وسط میں صمد نے ہرات میں حوالہ کے ذریعے پاسداران انقلاب سے رقم بھی وصول کی۔

محمد داؤد مزمل (داؤد)

محمد داؤد مزمل کو طالبان کے لیے یا ان کی جانب سے کام کرنے پر پابندیوں کے لیے نامزد کیا گیا۔

2017 کے اواخر تک افغان صوبہ بلمند میں طالبان کے سابق نائب شیڈو گورنر داؤد کو فراح صوبے کا شیڈو گورنر بنایا گیا۔ 2017 کے اوائل میں داؤد کو کوئٹہ فوجی کمیشن میں طالبان کا رہنما مقرر کیا گیا۔

عبدالرحیم منان (رحیم)

عبدالرحیم منان کو طالبان کے لیے یا ان کی جانب سے کام کرنے پر پابندیوں کے لیے نامزد کیا گیا۔

رحیم افغان صوبہ ہلمند میں طالبان کا شیڈو گورنر ہے جس نے افغان حکومت پر حملوں کے لیے بہت بڑی تعداد میں جنگجو مہیا کیے۔ 2018 کے اوائل میں رحیم افغانستان میں طالبان کی کارروائیوں کو مربوط و منظم بنانے کا ذمہ دار تھا اور اس کے پاسداران انقلاب سے تعلقا ت تھے۔

2007 کے اواخر میں رحیم نے پاسداران انقلاب-قدس فورس کی جانب سے طالبان کو ہلاکت خیز امداد کی منتقلی کی نگرانی کی۔ اعلیٰ سطحی طالبان کمانڈر رحیم نے سازوسامان اور مہلک نوعیت کی امداد کی فراہمی کے لیے طالبان کے ساتھ ایران کے بنیادی معاملہ کار کے ہمراہ کام بھی کیا۔

نائم باریش (باریش)

نائم باریش کو ‘ٹی ایف ٹی سی’ کے رکن ممالک کی جانب سے طالبان کے لیے یا ان کی جانب سے کام کرنے پر پابندیوں کے لیے نامزد کیا گیا۔ باریش کو عالمی سطح پر منشیات کی خریدوفروخت میں نمایاں کردار پر ‘او ایف اے سی’ نے 15 نومبر 2012 کو ‘کنگ پن ایکٹ’ کے تحت پابندیوں کے لیے بھی نامزد کیا تھا۔ طالبان کی مدد کرنے کی پاداش میں باریش کا نام اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1988 میں لگائی گئی پابندیوں کی فہرست میں بھی شامل ہے۔

2017 کے اواخر میں باریش طالبان کا شیڈو وزیر خارجہ تھا اور اس نے ایران کے ساتھ طالبان کے تعلقات قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

پاسداران انقلاب-قدس فورس کے حکام نے کم از کم 2006 سے باریش کو ہتھیار فراہم کیے ہیں۔

عبدالعزیز عزیز (عزیز)

عبدالعزیز عزیز کو طالبان کی معاونت یا انہیں مالی، مادی یا ٹیکنالوجی کے شعبے میں مدد فراہم کرنے یا ان کی مدد کے لیے مالیاتی سرگرمیوں یا دیگر کاموں میں ملوث ہونے پر پابندیوں کے لیے نامزد کیا گیا۔

2017 کے اوائل میں عبدالعزیز کے دو طالبان کمانڈروں سے کاروباری تعلقات تھے اور اس نے ان کمانڈروں کے لیے افغانستان سے پاکستان کے راستے یورپ اور افریقہ تک منشیات پہنچانے کا اہتمام کیا۔ اس کے بدلے میں ان طالبان کمانڈروں نے افغان صوبہ ہلمند میں عبدالعزیز کے منشیات کی تیاری کے مرکز کو تحفظ فراہم کیا۔ 2016 کے اواخر میں اس نے پاکستان میں طالبان کی اعلیٰ قیادت کو معاونت فراہم کی اور طالبان کمانڈروں کے مخصوص سفری اخراجات اٹھائے۔ عزیز کے یورپ، افریقہ اور مشرقی ایشیا میں منشیات سے متعلق سرگرمیوں میں ملوث عناصر سے تعلقات ہیں۔ قبل ازیں اس نے افغانستان سے قیمتی پتھر عالمی منڈی میں فروخت کے لیے سمگل کیے اور اس کام سے حاصل ہونے والے منافع کا بڑا حصہ پاکستان میں طالبان کی اعلیٰ قیادت کو دیا۔ عزیز ہر سال طالبان کی کوئٹہ شوریٰ کو مالی معاونت فراہم کرتا ہے اور اس مقصد کے لیے منشیات کے دیگر عالمگیر بیوپاریوں سے رقم جمع کرنے کے لیے سالانہ بنیادوں پر خلیجی ممالک کے دورے کرتا ہے۔

مزید براں فروری 2017 کےاواخر میں عزیز نے ایک کمپنی قائم کرنے کے لیے چین کے دورے کی منصوبہ بندی بھی کی۔ امکانی طور پر اس کمپنی کا تعلق پاکستان میں ماربل کی کھدائی کے ایک کاروبار سے تھا۔ عزیز نے ماربل کے اس کام کا جائزہ لینے کے لیے حال ہی میں ایک سفر کیا ہے ۔ جولائی 2017 کے اواخر میں عزیز نے یواے ای کے دورے میں سبز، سفید اور گلابی رنگ کے قیمتی پتھر ساتھ لے جانے کی منصوبہ بندی کی تھی۔

پاکستان سے تعلق رکھنے والے منشیات کے اس بیوپاری نے افغان کسانوں سے ایرانی اور ترکی منشیات بیوپاریوں کو افیون کی فروخت کے لیے دلال کا کردار بھی ادا کیا ہے۔

صدر ابراہیم (ابراہیم)

صدر ابراہیم کو طالبان کے لیے یا ان کی جانب سے کام کرنے پر پابندیوں کے لیے نامزد کیا گیا۔

گزشتہ چار برس میں ابراہیم نے طالبان کے فوجی کمیشن کے رہنما کے طور پر ذمہ داریاں انجام دی ہیں۔ قبل ازیں وہ طالبان کے پشاور فوجی کمیشن کا حصہ تھا اور افغانستان میں طالبان کی حکومت میں وزارت دفاع میں خدمات انجام دے چکا ہے۔

2018 میں ایرانی حکام نے ابراہیم کو مالی مدد اور افرادی تربیت دینے پر اتفاق کیا تاکہ اس میں ایران کا نام سامنے نہ آئے۔ ایرانی تربیت کاروں نے طالبان کی تزویراتی اور جنگی اہلیتوں کو بہتر بنانے میں مدد دینا تھی۔

حافظ ماجد (ماجد)

حافظ ماجد کو طالبان کے لیے یا ان کی جانب سے کام کرنے پر پابندیوں کے لیے نامزد کیا گیا۔

ماجد طالبان کی شوریٰ اور فوجی کمیشن کا اعلیٰ سطحی رکن ہے اور افغانستان میں خودکش حملوں کی نگرانی کرتا ہے۔

ماجد طالبان کے سابق امیر ملاعمر کا مشیر رہ چکا ہے۔ طالبان حکومت کےد وران ماجد صوبہ قندھار میں طالبان کا سکیورٹی چیف (پولیس کا سربراہ) تھا۔

آج پابندیوں کے لیے نامزد ہونے والے افراد کے بارے میں شناختی معلومات۔



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


digitaloutreach@state.gov

www.state.gov


https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu


https://www.instagram.com/doturdu/


https://www.flickr.com/photos/usdoturdu/
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ




صدر ٹرمپ کی ایران سے متعلق نئی حکمت عملی کے پہلے سال کی تکمیل وزیر خارجہ پومپئو کا بیان​


ایک سال پہلے آج کے دن صدر ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ امریکہ مشترکہ جامع منصوبہ عمل میں اپنی شرکت ختم کر دے گا اور اس کے بجائے ایران کے تخریبی طرزعمل کا خاتمہ کرنے اور اسے جوہری ہتھیار کے حصول سے روکنے کے لیے ایک دلیرانہ اور نئی حکمت عملی شروع کرے گا۔ صدر ٹرمپ نے وعدہ کیا کہ امریکہ ایرانی حکومت کی جانب سے جوہری معاملے پر دھمکیوں کے آگے نہیں جھکے گا اور ہم ایران کی تمام تر تخریبی سرگرمیوں سے جارحانہ طور پر نمٹیں گے۔

ایک سال بعد صدر ٹرمپ نے جامع دباؤ کی مہم کے ذریعے ایران کا مقابلہ کرنے کا وعدہ پورا کیا ہے۔ ہم نے ایرانی حکومت کے خلاف اب تک کی کڑی ترین پابندیاں عائد کیں اور گزشتہ برس اس کے قریباً 1000 افراد اور اداروں کو پابندیوں کے لیے نامزد کیا۔ ٹرمپ انتظامیہ ایرانی تیل کی برآمدات کو تاریخ کی کم ترین سطح پر لے آئی ہے اور ایرانی تیل کے درآمدکنندگان کو اہم تخفیفی اسثنیات کا اجرا روک کر ایرانی خام تیل کی خریداری کا موثر طور سے خاتمہ کر دیا ہے۔ مئی میں وزیر خارجہ پومپئو نے ایسی پابندیوں کو مزید سخت کیا تھا جو ایران کی اپنے پرانے جوہری پروگرام کو دوبارہ ترتیب دینے کی اہلیت کے حصول میں مزاحم ہیں اور ان سے ایران کو جوہری ہتھیار کے لیے مختصر وقت میں قابل انشقاق مواد کی تیاری روکنے میں مدد ملی ہے۔ آج صدر ٹرمپ نے ایرانی دھاتوں کی خریدوفروخت کے خلاف نئی پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔ اس میں تیل سے ہٹ کر ایران کی سب سے بڑی برآمد کو ہدف بنایا گیا ہے اور اس کی بدولت ایرانی حکومت کی مشرق وسطیٰ میں دہشت گردی کی مالی معاونت اور عدم استحکام پیدا کرنے کی اہلیت میں مزید کمی واقع ہوئی ہے۔

ایرانی حکومت کی جانب سے آج اپنے جوہری پروگرام کو وسعت دینے کے ارادے کا اعلان عالمگیر اصولوں کی کھلی خلاف ورزی اور دنیا کو یرغمال بنانے کی کوشش ہے۔ اس کی جانب سے مختصر وقت میں جوہری ہتھیار بنانے کے عمل کو دوبارہ شروع کرنے کی دھمکی سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ایرانی حکومت کی جانب سے دنیا بھر کے امن و سلامتی کو مسلسل
خطرہ لاحق ہے۔

امریکی ایرانی حکومت کی جوہری ہتھیار کے حصول کی تمام راہیں روکنے کے لیے پرعزم ہے۔ ہم ایرانی حکومت پر زیادہ سے زیادہ دباؤ کا نفاذ جاری رکھیں گے یہاں تک کہ وہ اپنے تخریبی عزائم سے باز آ جائے۔ ہم عالمی برادری سے کہتے ہیں کہ وہ جوہری پروگرام کو وسعت دینے کی دھمکی پر ایرانی حکومت کا احتساب کرے۔

ایران سے نمٹنے میں امریکہ اکیلا نہیں ہے۔ جوہری معاہدے سے ہماری دستبرداری سے اب تک ہمارے اتحادیوں اور شراکت داروں نے ہمارے ساتھ مل کر ایرانی جارحیت سے نمٹنے کے اقدامات میں اضافہ کیا ہے۔ ہم نے ایران کی جانب سے تیل کی ترسیل کے سلسلے میں غیرقانونی کارروائیاں ناکام بنانے کے لیے قریباً ہر براعظم کے ممالک کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔ یورپی یونین نے گزشتہ برس دہشت گردی کے دو منصوبے ناکام بنائے جانے کے بعد ایرانی اداروں پر نئی پابندیوں کی منظوری دی۔ دیگر ممالک نے اپنے سفیر واپس بلانے، ایرانی سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے، ویزے کے بغیر سفر کی سہولت کے خاتمے یا ماہان ایئر کے اپنے ملک میں اترنے کے حقوق ختم کر کے ایران کی ضرررساں سرگرمی کا جواب دیا ہے۔ اگلے قدم کے طور پر ہم ایران پر دباؤ ڈالنے کی مہم کو مزید آگے بڑھائیں گے جسے پہلے ہی نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ جیسا کہ 21 مئی 2018 کی تقرری میں شامل 12 مطالبات سے واضح ہوتا ہے ہم ایرانی حکومت پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنا جاری رکھیں گے یہاں تک کہ اس کے رہنما اپنا تخریبی طرزعمل تبدیل کر لیں، ایرانی عوام کے حقوق کا احترام کریں اور مذاکرات کی میز پر واپس آ جائیں

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

https://www.instagram.com/doturdu/

https://www.flickr.com/photos/usdoturdu/
 
Top