ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
تفریق کے جواز پر دلالت کرنے والی اَحادیث
(١) حضرت ابن عمرسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے رمضان کے روزوں کی قضا کے بارے میں فرمایا:
’’إن شاء فرق،وإن شاء تابع‘‘ (سنن الدارقطنی:۲؍۱۹۲)
چاہے تو تفریق کر لے اور اگر چاہے تو مسلسل روزے رکھ لے۔‘‘
(٢) ابن عمرہی سے روایت ہے کہ قضاء رمضان سے متعلق دریافت کرنے پرآپﷺ نے فرمایا:
’’یقضیہ تباعا،وإن فرقہ أجزأہ‘‘( سنن الدار قطنی:۲؍۱۹۲)
’’قضاء مسلسل دی جائے گی اگرچہ روزوں کو مختلف اوقات میں چھوڑا ہو۔‘‘
(٣) محمد بن منکدر سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺسے روزوں کی قضائی دیتے ہوئے ان کے مابین تفریق کے متعلق سوال کیا گیا تو آپﷺ نے فرمایا:
’’ذلک إلیک،أرأیت لو کان علی أحدکم دین فقضی الدرہم والدرہمین ألم یکن قضائ؟ فاﷲ أحق أن یعفوا أو یغفر‘‘(سنن الدارقطنی:۲؍۱۹۴،سنن بیہقی:۴؍۲۵۹)
’’ اس کا انحصار تم پر ہے، جب تم پر کسی کا قرض ہوتا ہے تو وہ ایک ایک، دو دو درہم کر کے ادائیگی کرتا ہے تو کیا اس کی طرف سے اَدا نہیں ہوجاتا؟ لہٰذا اللہ تعالیٰ زیادہ حق رکھتے ہیں کہ وہ معاف کریں اور بخش دیں۔‘‘
اِن اَحادیث پر اگرچہ استنادی اعتبار سے بحث کی گئی ہے، لیکن یہ تمام مل کر اپنے مؤقف کو تقویت ضرور پہنچاتی ہیں۔
(١) حضرت ابن عمرسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے رمضان کے روزوں کی قضا کے بارے میں فرمایا:
’’إن شاء فرق،وإن شاء تابع‘‘ (سنن الدارقطنی:۲؍۱۹۲)
چاہے تو تفریق کر لے اور اگر چاہے تو مسلسل روزے رکھ لے۔‘‘
(٢) ابن عمرہی سے روایت ہے کہ قضاء رمضان سے متعلق دریافت کرنے پرآپﷺ نے فرمایا:
’’یقضیہ تباعا،وإن فرقہ أجزأہ‘‘( سنن الدار قطنی:۲؍۱۹۲)
’’قضاء مسلسل دی جائے گی اگرچہ روزوں کو مختلف اوقات میں چھوڑا ہو۔‘‘
(٣) محمد بن منکدر سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺسے روزوں کی قضائی دیتے ہوئے ان کے مابین تفریق کے متعلق سوال کیا گیا تو آپﷺ نے فرمایا:
’’ذلک إلیک،أرأیت لو کان علی أحدکم دین فقضی الدرہم والدرہمین ألم یکن قضائ؟ فاﷲ أحق أن یعفوا أو یغفر‘‘(سنن الدارقطنی:۲؍۱۹۴،سنن بیہقی:۴؍۲۵۹)
’’ اس کا انحصار تم پر ہے، جب تم پر کسی کا قرض ہوتا ہے تو وہ ایک ایک، دو دو درہم کر کے ادائیگی کرتا ہے تو کیا اس کی طرف سے اَدا نہیں ہوجاتا؟ لہٰذا اللہ تعالیٰ زیادہ حق رکھتے ہیں کہ وہ معاف کریں اور بخش دیں۔‘‘
اِن اَحادیث پر اگرچہ استنادی اعتبار سے بحث کی گئی ہے، لیکن یہ تمام مل کر اپنے مؤقف کو تقویت ضرور پہنچاتی ہیں۔