• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اَولاد نیک کیسے ہو؟

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
اَولاد نیک کیسے ہو؟

طارق جاوید عارفی

والدین کی اِطاعت و فرمانبرداری دخول جنت کا اَہم ذریعہ اور رفع درجات کا عظیم سبب ہے۔ ہر صاحب اَولاد کی تمنا اور آرزو ہوتی ہے کہ اس کی اولاد نیک، پارسا، خوب سیرت اور اس کی تابع فرمان ہو اسی طرح کوئی بھی ذی شعور یہ نہیں چاہتا کہ اس کی اولاد بداَخلاق، بدکردار اور اس کی نافرمان ہو۔والدین کی دلی خواہش کے باوجود اولاد میں بگاڑ اور نافرمانی و معصیت کا عنصر عام ہے۔ موجودہ حالات میں اَولاد اور والدین میں تناؤ اور تنازع رہتا ہے۔ اَولاد کا والدین کے رویے سے تنگ آکر پھانسی کے پھندے سے جھول جانا اور والدین کااولاد کے اس رجحان سے دلبرداشتہ ہوکر گھر چھوڑ جانا یا خود کشی کرلینا جیسے واقعات آئے روز اَخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ غرض کہ والدین، اولاد کی نافرمانی کاشکوہ و شکایت کرتے نظر آتے ہیں جبکہ اولاد، والدین کی سنگدلی اور ناروا سلوک کا رونا روتی دکھائی دیتی ہے۔ والدین اپنے متشدد رویے پر نظرثانی کو مکروہ خیال کرتے ہیں جب کہ اَولاد اپنے اس منفی کردار کو بدلنا توہین سمجھتی ہے اورہر ایک،ایک دوسرے کو قصور وار ٹھہرا کر دلوں کو تسلی دیئے ہوئے ہے۔یہی وجہ ہے کہ اولاد اور والدین کے درمیان فطری پیار اور مودّت کے جذبات سرد پڑ چکے ہیں اور دونوں میں فاصلے سمٹنے کے بجائے وسعت اختیار کرتے جارہے ہیں۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
اس گھمبیر صورت حال کا اگر بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو دونوں گروہ قصوروار ٹھہرتے ہیں، البتہ والدین، اولاد کی بہ نسبت زیادہ مجرم ہیں، کیونکہ اکثر والدین بچپن میں بچوں کی صحیح تربیت نہیں کرتے۔ بے جا لاڈ اور پیار میں ان کو بگاڑ دیتے ہیں اور”ابھی بچہ ہے“ کہہ کر اس کے شنیع اَفعال کو بھی ’حسین عادات‘ ہونے کا تزکیہ عنایت کردیتے ہیں جس سے بتدریج اولاد پر والدین کی گرفت ڈھیلی پڑتی جاتی ہے اور وہ چند درچند قبیح حرکات کا خوگر ہونے کے ساتھ والدین کی گستاخ اور نافرمان بن جاتی ہے جس کے ذمہ دار یقیناً والدین ہیں جیسا کہ حافظ ابن قیم  فرماتے ہیں:
”اولاد میں اکثر بگاڑ والدین کی طرف سے آتا ہے ۔ والدین، اولاد کی تعلیم و تربیت میں غفلت برتتے ہیں اور انہیں فرائض دین اور سنن رسول ﷺ سکھانے میں بے توجہی سے کام لیتے ہیں، چنانچہ والدین، اولاد کو ان کے بچپن میں ضائع کرتے ہیں اور اپنی جانوں سے فائدہ نہیں اٹھاتے، لہٰذا اولاد بڑی ہوکر والدین کی قدر نہیں کرتی اور ان کے کبرسنی میں ان کو ضائع کرتی ہے جیسا کہ کسی شخص نے اپنے بیٹے کی نافرمانی پر اس کو ڈانٹا اور زجروتوبیخ کی تو وہ سر اٹھا کر کہنے لگا: ابا جی! آپ نے میرے بچپن میں میری نافرمانی کی تو میں آ پ کے بڑھاپے میں آپ کی نافرمانی کررہا ہوں۔ آپ نے میرے بچپن میں مجھے ضائع کر دیا تو میں اب آپ کے بڑھاپے میں آپ کوضائع کررہا ہوں۔“(تحفة المودود، ص۱۹۳)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
غرض اولاد کے عام طور پر بگاڑ اور فساد کا سبب والدین کی سستی، تعلیم و تربیت سے بے توجہی اور بے جا لاڈ پیار ہے۔ اس لئے میں نے اللہ کی توفیق سے والدین کے لئے ایسے سترہ نکات کا انتخاب یکجا کیا ہے جس کو بروئے کار لانے سے اولاد کی صلاح اور راست رَوی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ اِن شاء اللہ! راقم کو اپنی بے بضاعتی اور علمی کم مائیگی کا اعتراف ہے، لیکن اس کے باوجود مجھے عنداللہ اُمید واثق ہے کہ میرے یہ ناقص اور غیر موزوں الفاظ والدین کے لئے صلاح اَولاد میں ممدومعاون ثابت ہوں گے اور اولاد کی تربیت میں نمایاں کردار اَدا کریں گے۔ وہ سترہ نکات حسب ذیل ہیں:
1 اَولاد کی خواہش کے ساتھ انسان بار بار بارگاہ الٰہی میں دعا کرتا رہے کہ باری تعالیٰ! اسے نیک و صالح اولاد عطا فرما، جیسا کہ انبیاء کرام اللہ تعالیٰ سے ایسی دعائیں کیا کرتے تھے۔
حضرت زکریا نے یوں دعا کی:
﴿رَبِّ هَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً اِنَّکَ سَمِيْعُ الدُّعَاءِ﴾ (آل عمران:۳۸)
”اے میرے رب! مجھے اپنے پاس سے پاکیزہ اولاد عطا کر، بے شک تو ہی دعا سننے والا ہے۔“
اِرشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْيُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا﴾ (الفرقان:۷۴)
”اے ہمارے رب! ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہمیں متقیوں کا امام بنا۔“
حضرت عبداللہ بن عباس اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
”آنکھوں کی ٹھنڈک کامطلب یہ نہیں کہ آدمی کی اولاد تندرست اور خوبصورت ہو، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کی مطیع و منقاد ہو۔“ (العیال لابن ابی الدنیا، ص۴۲۷)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
2 جب انسان اولاد جیسی عظیم نعمت سے نواز دیا جائے تو اسے چاہئے کہ اس کی صلاح و راست رَوی کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہے صرف اپنی حسن تربیت اور عمدہ اُسلوب تعلیم و تعلم پر مکمل بھروسہ نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَوَصَّيْنَا الاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ اِحْسَانًا… رَبِّ اَوْزِعْنِیْ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰهُ وَاَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّيَّتِیْ اِنِّیْ تُبْتُ اِلَيْکَ وَاِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ﴾ (الأحقاف:۱۵)
”اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے ساتھ حسن ِ سلوک کا حکم دیا، اس کی ماں نے اسے تکلیف سے پیٹ میں اٹھائے رکھا اور تکلیف سے جنا، اورا س کا حمل اور دودھ چھڑانا تیس ماہ (کی مدت) ہے، یہاں تک کہ جب وہ اپنی کمال جوانی کو پہنچا اور چالیس برس کا ہوگیا تو اس نے دعا کی: اے میرے رب ! تو مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر کروں جو تو نے مجھ پراور میرے والدین پر کی اور یہ کہ میں نیک عمل کروں جو تو پسند کرے اور تو میرے لئے میری اولاد میں اصلاح کر، بلا شبہ میں نے تیری طرف توبہ کی اور بلا شبہ میں فرمانبرداروں میں سے ہوں۔“
مالک بن فعول بیان کرتے ہیں کہ ابومعشر نے حضرت طلحہ بن مصرف سے اپنے بیٹے(کی نافرمانی)کا شکوہ کیا تو وہ فرمانے لگے: اس آیت کے ساتھ استعانت مانگو:﴿رَبِّ اَوْزِعْنِیْ اَنْ اَشْکُرَ…﴾(الدرالمنثور للسیوطی،الاحقاف:۱۵)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
3 اولاد کی صلاح کے لئے ایک طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنے بیٹوں کو لے کر ایسے نیک بزرگ حضرت کی خدمت میں حاضری دے جو متبع سنت اور مستجاب الدعوات ہیں تاکہ وہ ان کی ہدایت،نیک مندی اور برکت کے لئے دعا کریں، جیسا کہ صحابہ کرام اپنے بچوں کو لے کر نبی کریمﷺ کی خدمت اَقدس میں حاضر ہوتے تھے تاکہ آپ ان کے بچوں کے لئے دعا فرمائیں۔ حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ ﷺ کے پاس بچوں کو لایا جاتا تھا، چنانچہ آپ ان کے لئے دعا کیا کرتے تھے۔ (صحیح البخاري:۶۳۵۵)
حضرت حسن بصری نے سیدہ اُم سلمہ کے بابرکت ہاتھوں میں نشوونما پائی تھی۔ ان کی والدہ نے مکمل طور پر انہیں آپ کی صحبت میں دے رکھا تھا،سیدہ اُم سلمہ  وقتاً فوقتاً ان کو اصحاب رسول اللہﷺ کی خدمت میں بھیجا کرتی تھیں تاکہ وہ ان کے لئے دعا کریں۔ ایک دفعہ انہوں نے حضرت حسن کو حضرت عمر کی خدمت میں بھیجا تو امیرالمومنین حضرت عمر نے اس بچے کے لئے یوں دعا کی :
”اے اللہ! اس کو دین کی سمجھ عطا فرما اور اس کو لوگوں کا محبوب بنا دے۔“ (تہذیب الکمال:۴/۳۰۳)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
حضرت ابراہیم بن ادھم بیان کرتے ہیں کہ میرے والد ادھم ایک نیک شخص تھے وہ مکہ مکرمہ میں تھے کہ ان کے ہاں ابراہیم نے جنم لیا۔ چنانچہ انہوں نے بچے کو کپڑے میں لپیٹا اور عباد و زہاد کی مجالس میں گھومنے لگے۔ علماء و محدثین کی خدمت میں حاضری دیتے اور ان سے بچے کے لئے خیروبرکت کی دعا کی درخواست کرتے۔ حضرت ابراہیم بن ادھمکا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے کسی بزرگ کی دعا کو شرف قبولیت بخش دیا ہے۔ (حلیة الأولیاء:۷/۳۷۱)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
4 والدین کا خود نیک و متقی ہونا بھی اولاد کے صلاح کار اور نیکو کار ہونے کا ایک سبب ہے۔ حضرت موسیٰ اور خضرi کے قصے کو ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿وَاَمَّاالْجِدَارُ فَکَانَ لِغُلٰمَيْنِ يَتِيْمَيْنِ فِیْ الْمَدِيْنَةِ وَکَانَ تَحْتَهُ کَنْزٌ لَّهُمَا وَکَانَ أَبُوْهُمَا صَالِحَا فَأَرَادَ رَبُّکَ أَنْ يَّبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا کَنْزَهُمَا رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّکَ وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِیْ ذَلِکَ تَأوِيْلُ مَالَمْ تَسْطِعْ عَّلَيْهِ صَبْرًا﴾ (الکہف:۸۲)
”اور وہ جودیوار تھی تو وہ اس شہر کے دو یتیم لڑکوں کی تھی اور اس کے نیچے ان کا خزانہ تھا اور ان کا والد نیک تھا، چنانچہ تیرے رب نے چاہا کہ وہ دونوں یتیم اپنی جوانی کو پہنچیں اور تیرے رب کی رحمت سے اپنا خزانہ نکال لیں اور میں نے یہ اپنی رائے سے نہیں کیا، یہ ان باتوں کی حقیقت ہے جن پر تو صبر نہ کرسکا۔“
حضرت ابن عباس ﴿وَکَانَ اَبُوْهُمَا صَالِحًا﴾کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ان دونوں لڑکوں (کے خزانے) کی ان کے والد کے صلاح کار ہونے کی وجہ سے حفاظت کی گئی۔ (العیال لابن أبي الدنیا، ص۳۶۰)
حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
”بلا شبہ اللہ تعالیٰ صالح آدمی کی نیکوکاری اور راست روی کی وجہ سے اس کی اولاد اور اس کے ماحول میں آباد گھرانوں کی اصلاح کردیتا ہے، چنانچہ جب تک وہ شخص ان میں (زندہ) ہوتا ہے، وہ اللہ کی حفظ و امان میں رہتے ہیں۔‘‘ (الدر المنثور للسیوطی، الکہف:۸۲)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
ہشام بن حسان بیان کرتے ہیں کہ
”حضرت سعیدبن جبیر فرمایا کرتے تھے کہ میں اپنے اس بیٹے کی وجہ سے نماز کو لمبا کردیتا ہوں۔ “ہشام راوی کہتے ہیں کہ اس اُمید سے کہ (اللہ کی طرف سے) اس کی حفاظت کی جائے۔“ (حلیة الأولیاء:۴/۲۷۹)
5 اَولاد کے نیک ہونے کا ایک سبب والدین کا اپنے والدین سے حسن سلوک سے پیش آنا ہے، کیونکہ کسی عمل کا بدلہ اس کی جنس سے ملا کرتا ہے۔ آج اگر آپ اپنے والدین سے حسن سلوک کریں گے تو کل آپ کی اولاد بھی آپ سے نیک برتاؤ کرے گی۔ ارشاد ربانی ہے:
﴿هَلْ جَزَاءُ الاِحْسَانِ اِلَّا الِاحْسَانُ﴾ (الرحمن:۶۰) ”نیکی کا بدلہ نیکی ہی ہے۔“
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
”تم اپنے والدین سے نیک برتاؤ کرو گے تو تمہارے بیٹے تمہارے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں گے اور تم پاکدامنی اختیار کرو گے تو تمہاری عورتیں بھی پاکدامن رہیں گی۔“ (المعجم الأوسط للطبراني :۱۰۰۲)
6 اَولاد کے نیک ہونے کا ایک سبب والد کا کسی نیک عورت سے شادی کرنا بھی ہے۔ نبی کریمﷺ نے آدمی کو دین دار عورت سے شادی کرنے کی ترغیب دی ہے۔
حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
”عورتوں سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتاہے، اس کے مال کی وجہ سے، اس کے خاندانی شرف کی وجہ سے، اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے۔ چنانچہ تو دین دار عورت سے شادی کرکے کامیابی حاصل کر، اگر ایسا نہ کرے تو تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں، یعنی اخیر میں تجھے ندامت ہوگی۔ (صحیح البخاري:۵۰۹۰)
حضرت ابوالاسود ایک دن اپنے بیٹوں سے فرمانے لگے: میں نے تمہارے بچپن، لڑکپن، جوانی اور تمہاری پیدائش سے قبل بھی تمہارے ساتھ حسن سلوک کیا ہے۔ بیٹے کہنے لگے: ہماری ولادت سے قبل آپ نے کیسے ہمارے ساتھ حسن سلوک کیا ہے؟ وہ فرمانے لگے: میں نے تم کو کبھی ایسی جگہ نہیں بٹھایا جہاں تم شرم و حیا محسوس کرتے ہو۔ ایک روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ انہوں نے فرمایا: ”میں نے تمہارے لئے ان ماؤں کا انتخاب کیا ہے جن کے بارے میں تمہیں کبھی گالی نہیں دی جائے گی۔“ (التاریخ الکبیر للبخاري:۴/۲۷۳،۲۷۴)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
7 اولاد کے صلاح کار اورنیک ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ آدمی شادی سے قبل اپنی اہلیہ کے والد اور بھائیوں کی نیک نامی، تقوی اور راست روی کا جائزہ لے، کیونکہ عام طور پر بچہ اپنے بعض قریبی رشتہ داروں میں سے کسی ایک کی طرح کا ہوتا ہے، جیسا کہ معروف حدیث ہے:
(تزوجوا في الحجر الصالح فإن العرق دساس) (کشف الخفاء:۲/۱۷۷)
”تم نیک خاندان میں شادی کرو، کیونکہ کوئی رگ چھپی ہوتی ہے جس کا آسانی سے پتہ نہیں چلتا۔“
یہ روایت صحیح سند کے ساتھ اگرچہ نبیٴ رحمت ﷺ سے ثابت نہیں ہے، لیکن بعض صحابہ کے اَقوال اس کے موٴید ہیں جس سے اس کے مفہوم کی تائید ہوتی ہے جیساکہ ابوسفیان حمیدی بیان کرتے ہیں کہ حضر ت عبداللہ بن زبیرکچھ باتیں ذکر کر رہے تھے اور حضرت زبیر ان کی فصیح و بلیغ کلام سماعت فرما رہے تھے۔ چنانچہ حضرت زبیر ان سے کہنے لگے: بیٹا تم مسلسل حضرت ابوبکر صدیق جیسی فصیح وبلیغ کلام کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے حضرت ابوبکر میرے پاس کھڑے ہیں۔(پھر انہوں نے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا) چنانچہ تم اپنی شادی سے قبل اچھی طرح جائزہ لینا کہ تم کیسی عورت سے شادی کررہے ہو، کیونکہ عورت اپنے بھائی یا والد کے نقش قدم پر ہوتی ہے۔ (تاریخ دمشق:۳۰/۱۳۷)
ایک روایت میں یوں ہے کہ حضرت زبیر فرمانے لگے:اللہ کی قسم! (تمہارا کلام سن کر مجھے یوں لگا) گویا کہ میں حضرت ابوبکرصدیق کو یوں فرماتے ہوئے سن رہا ہوں:
”جو شخص کسی عورت سے شادی کا ارادہ کرے تو شادی سے قبل اس عورت کے والد اور بھائیوں کو اچھی طرح دیکھے، کیونکہ عورت انہی میں سے کسی ایک جیسی ہوتی ہے۔ (الإشراف في منازل الأشراف، ص۲۷۷)
 
Top