مشکٰوۃ
سینئر رکن
- شمولیت
- ستمبر 23، 2013
- پیغامات
- 1,466
- ری ایکشن اسکور
- 939
- پوائنٹ
- 237
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
گرمیاں آئیں یا بچپن یاد کریں ’’اُلٹے چمچ ‘‘کی یاد نہ آئے ناممکن سی بات ہے ۔۔
انکل عبدالرحمٰن ہر سال گرمیوں میں دبئی سے پاکستان آتے تھے ۔ایک سال آئے تو ان کا بیٹا یوسف چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا تھا ۔۔آنٹی اس سے عربی میں بات کرتیں تو محترم طلحہ صاحب اور احباب حیرت سے کبھی آنٹی کو دیکھتے اور کبھی یوسف کو۔۔۔
’’اوئے اسے عربی آتی ہے ۔۔‘‘
’’’آنٹی اسے پتہ ہے کہ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟؟‘‘
’’اسے پتا ہے گاجر کو جزر کہتے ہیں۔۔؟؟‘‘
’’ باہر کے ملک میں بچے پیدا ہوتے ہی عربی بولنے اور سمجھنے لگتے ہیں ۔۔۔؟؟‘‘
غرض کے بے شمار سوال تھے اور جوابات ۔۔۔۔۔
اگلے سال انکل آئے ،مردانے میں برتن پہنچانے کی ذمہ داری ہم بچوں کی تھی ۔۔کھانا دے کر گھر میں بھی سب خواتین کھانا کھانے لگیں یکدم ہی زور زور سے دروازہ بجنے لگا۔
’’مشکٰوۃ باجی بات سنیں ۔۔۔‘‘اور ہم بھاگ کر باہر ہوئے ۔۔
’’کیا ہو گیا ؟؟؟‘‘
’’وہ یوسف کا پتہ ہے نا !۔۔وہ نا! ۔۔۔وہ! ‘‘طلحہ پھولی ہوئی سانس کے ساتھ بولا ۔
’’ہاں کیا ہوا۔۔؟ ابھی تو وہ لائبریری میں بیٹھا تھا جب میں گئی تھی۔‘‘
’’اوہو سنو تو سہی پتا کیا وہ الٹے چمچ سے کھا رہا ہے ۔۔۔‘‘
’’الٹے چمچ سے ‘‘ ہمارے پیچھے کھڑے بچوں کی حیرت بھری آوازیں ابھریں اور پھر ہنسی چھوٹ گئی۔۔۔
’’مطلب یہ کہ وہ جہاں سے پکڑتے ہیں وہاں سے کھا رہا ہے ؟؟‘‘پوچھا گیا۔
’’اوہو! ایسے نہیں سمجھے آئے گا ۔۔آؤ ادھر کھڑکی سے دیکھتے ہیں ۔۔۔‘‘
طلحہ نے اس خفیہ جگہ کی طرف اشارہ دیا جہاں سے ہم ضرورت کے وقت جھانکتے تھے کہ لائبریری میں کون بیٹھا ہے ۔۔؟ابو کے کون سے مہمان آئے ہیں۔۔؟ابو اکیلے ہیں یا کوئی اور ۔۔؟یا لائبریری کھلی ہے تو ابو اندر ہیں یا نہیں ۔۔؟نہیں ہیں تخریب کاری کی جائے ۔۔۔ہیں تو بھاگا جائے۔۔۔
’’ابو ڈانٹیں گے‘‘
’’نہیں ڈانتے‘‘
’’گرمی ہے ‘‘
’’تھوڑی دیر کی بات ہے ‘‘
’’امی نہیں جانے دیں گی‘‘
’’نہیں پتا چلتا ‘‘
’’وہ۔۔۔۔۔۔کھانا۔۔‘‘
’’اوہو کچھ نہیں ہوتا آ کے کھا لینا۔۔۔بس دو منٹ کی بات ہے ۔۔۔۔‘‘وہ بھی ضد کا پکا ہی تھا۔
’’اچھا!۔۔۔۔امی جی میں ا بھی آئی ۔۔۔‘‘ میں کے ساتھ طویل قطار بھی تھی۔۔۔۔دبے قدموں سیڑھیاں اترے ۔۔چھپتے چھپتے لائبریری کے عقب میں آئے اور سبز شیشوں کے ساتھ منہ لگا دیئے۔۔۔اگلا منظر دیکھ کر سب کی ہنسی چھوٹ گئی۔۔
ہمارےغصے سے گھورنے پر ہاتھ منہ پر آگئے اور سب دبی دبی ہنسی ہنسنے لگے۔۔
یوسف انتہائی اطمینان کے ساتھ چمچ الٹا کئے چاول کھارہا تھا۔۔۔الٹے چمچ پر ایک دو دانے بمشکل ٹھہرتے اور وہ بڑے اطمینان سے پورا چمچ منہ میں ڈال لیتا۔۔۔
اب آپ کو سمجھ کیسے آئے ۔۔؟؟؟
جہاں سے کھاتے ہیں نا وہ سائڈ اُلٹی کریں اور پھر کھائیں ۔۔۔
اس طرح سے ۔۔
ہاہا۔۔ہی ہی ۔۔ہو ہو ۔۔ہے ہے ۔۔۔ہائے ہائے۔۔۔سب اپنی اپنی بولیوں میں ہنستے واپس بھاگے۔۔۔
’’کہاں گئے تھے ۔۔؟‘‘امی نے آتے ہی پوچھا۔
’’ادھر ہی تھے۔۔۔کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ہے نیچے؟؟‘‘
’’نہیں ۔۔۔طلحہ آیا تھا ابھی کچھ چاہیے ہوتا تو بتا دیتا۔۔۔‘‘اطمینان سے جواب دے کر سب کھانا کھانے لگے اورجیسے ہی ایک دوسرے کی طرف دیکھتے تو ہنسی چھوٹ جاتی ۔۔
’’کیا ہو ا۔؟‘‘امی نے ہماری طرف دیکھا ۔
’’آ۔۔آ۔۔۔وہ۔۔۔کچھ نہیں ۔۔۔ایویں ای۔۔۔‘‘
آخر برداشت نا ہوا تو بول پڑے ۔۔۔’’آنٹی ! یوسف اُلٹے چمچ سے کھاتاہے ؟؟؟‘‘
آنٹی نے ہماری طرف دیکھا تو اور ہنس دیں۔۔
’’ بہت کوشش کی ہے کہ سیدھے چمچ سے کھائے لیکن پتہ نہیں کیا ہے وہ الٹے چمچ سے ہی کھاتا ہے ۔۔اس کے ابو بھی اتنا کہتے ہیں ۔۔پتہ نہیں کیا کرتا ہے ۔۔۔؟؟؟‘‘
’’بچے ایسے ہی کرتے ہیں ۔۔۔کوئی بات نہیں ۔۔۔خود ہی ٹھیک سے کھانے لگے گا ۔۔آج الٹے سے کھاتا ہے تو کل سیدھے سے بھی کھا لے گا ۔۔۔امی نے آنٹی کی پریشانی بھانپتے ہوئے کہا،ساتھ ہی تنبیہی نگاہوں سے دیکھا گیا لیکن یہاں پرواہ کسے تھی۔۔؟؟
’’تب ہی یہ ہنس رہے تھے۔۔میں بھی کہوں کیا ہو گیاہے ۔۔۔‘‘آنٹی دوبارہ کھانے کی طرف متوجہ ہوئیں لیکن ہم چمچ پکڑتے اور پھر رکھ کر ہنسنا شروع کر دیتے ۔۔۔
’’چلو بھئی اٹھو ۔۔‘‘آخر امی نے ہمیں دستر خوان سے اٹھنے کا کہہ ہی دیا اور مہمانوں کے سامنے ایسے’’دوروں ‘‘کا آخری حل یہی ہوتاہے۔
ہم بھی اسی انتظار میں تھے ۔۔سو جلدی جلدی اپنی پلیٹیں اٹھائے کچن کی طرف بھاگے اور دل کھول کر ہنستے ہوئے پلیٹیں ڈھانپیں ۔۔اور گھر سے باہر نکل آئے آگے سے محترم طلحہ صاحب دوبارہ تشریف لا رہے تھے۔۔
ہاہاہاہہاہ۔۔۔ہی ہی ہی ۔۔ہو ہو ہو۔۔۔۔۔تبادلہ ہنسی
’’کیسی بات ہے ؟؟وہ الٹے چمچ سے کیسے کھا لیتا ہے ؟؟
’’جیسے ہم سیدھے چمچ سے کھاتے ہیں‘‘ہم نے منہ چڑاتے ہوئے کہا۔
’’نہیں پھر بھی ۔۔۔سوچو تو سہی ۔۔۔کیا معاملہ ہے یہ؟؟عجیب ہے نا؟؟؟‘‘ طلحہ کو بھی چھوٹی چھوٹی باتیں سر پر سوار کرنے کا بہت شوق تھا۔
دروازے کے قریب ہوتے ہی فرمانے لگے’’اُلٹے چمچ والے کے ابو کہہ رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’اوئے آنٹی سن لیں گی ۔۔‘‘اسے بازو سے پکڑ کر ہوش دلائی گئی۔
’’تو کیا ہے ۔۔؟ہم کون سا جھوٹ بول رہے ہیں ۔۔۔۔؟وہ الٹے چمچ سے نہیں کھا تا؟؟‘‘
من بھرکے سر تائید میں ہل گئے ۔۔
’’اچھا آنٹی وہ اُلٹے چمچ والے کے ابو کہہ رہے ہیں۔۔۔۔۔‘‘
’’یوسف کے ابو۔ ۔۔۔‘‘امی نے اسے گھورا۔
لیکن وہ طلحہ ہی کیا جو کسی کی سنے۔۔۔
’’میں سمجھ گئی ۔۔۔‘‘آنٹی نے ہنستے ہوئے کہا
بچے بھی کہاں سنتے ہیں ۔۔۔۔۔۔وہ کام کہہ کر نکل گیا۔
اب تو یہ معمول بن گیا جہاں یُوسف کی بات آئی تو ‘‘وہی اُلٹے چمچ والا ناں؟؟؟؟‘‘
دو تین سال یوں ہی ہوتا رہا۔۔۔۔۔ایک سال آنٹی آئیں تو حسبِ معمول طلحہ نے آواز لگائی ۔۔۔۔’’اُلٹے چمچ والے کو اس کے ابو بلا رہے ہیں ۔۔۔‘‘ اور اند آکر جب یہی پیغام نشر کیا گیا کہ آنٹی طلحہ کہہ رہا ہے کہ اُلٹے چمچ والے کو اس کے ابو بلا رہے ہیں ۔۔
تو آنٹی کہنے لگیں’’طلحہ سے کہو اب وہ الٹے چمچ سے نہیں کھاتا ۔۔۔اس نے اب الٹے جوتے پہننے شروع کر دیئے ہیں ۔۔۔‘‘
اس وقت تو آنٹی نے اسے جوتے پہنا دیئے۔۔۔۔لیکن کچھ دیر بعد جب وہ واپس آیا تو اس کے دونوں جوتے الٹے تھے اور وہ بڑے مزے سے سارے گھر میں گھوم رہا تھا۔۔۔۔ہہہ ہہ
اُلٹے جوتوں سے تو بہت سے لوگ ’’وابستہ‘‘ ہیں لیکن فی الوقت’’اُلٹا چمچ‘‘ صرف یوسف کے ساتھ خاص ہے ۔۔
اب تو یوسف بھی ماشاء اللہ دس ،بارہ سال کا ہو گیا ہو گا،،،کافی عرصہ ہو گیا آنٹی کا حال احوال جانے۔۔۔لیکن آج بھی جب ان کی یاد آئے تو ساتھ ہی ’’الٹاچمچ‘‘ ضرور یاد آتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔