کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
اُمت مسلمہ میں شرک کا مسئلہ
سید محمد علی
شرک گناہ کبیرہ اور سنگین جرم ہے۔ اس کا مرتکب اپنے خالق اور محسنِ حقیقی کا ایسا مجرم ہے کہ اس پر جنت کو حرام کردیا گیا ہے (المائدہ:72) اور اگر یہ بغیر توبہ کیے اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے تو اس کے لیے مغفرت کی تمام راہیں مسدود ہیں (النسائی:48) قیامت کے روز اس کا سب کِیا دھرا غبار کی طرح اُڑا دیا جائے گا (الفرقان:23) شرک کی برائی اور شناخت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ قوم موسیٰ کے وہ عناصر جو بچھڑے کی عبادت میں بہک گئے اور اُن سے شرک سرزد ہوا تو قانونِ الٰہی میں اس کی کم سے کم سزا یہ طے پائی کہ ان مشرکین کو قتل کردیا جائے، خواہ وہ ہزاروں کی تعداد میں ہوں (البقرہ:54) شرکیہ افعال میں ملوث افراد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ خدا کی زمین پر اُس کی نعمتوں سے متمتع ہوں۔ اسی مقصد کے تحت فتح مکہ کے بعد مشرکین کو قتل کردینے کا عمومی حکم جاری ہوا (التوبہ:5)
انسانوں سے عقیدت و احترام کا تعلق روا رکھنا، مستحسن عمل ہے مگر یہ رویہ شرک باللہ کی صورت اختیار کرلے تو اِس سے زیادہ قبیح حرکت بھی کوئی نہیں ہے۔ خدا کی ذات سب سے اعلیٰ و برتر ہے۔ خالق، معبود اور مقتدر ہونے کی حیثیت سے وہ تنہا اور لاشریک ہے۔ اُس کی بزرگی اور عزت و توقیر کے سامنے تمام کائنات کی بزرگیاں اور عزتیں ہیچ ہیں۔ اسلام نے فلسفۂ ادب و اخلاق میں جس اہم اصول کا اضافہ کیا ہے وہ یہ کہ خالق اور مخلوق کے مابین ذات اور صفات کے لحاظ سے کوئی مطابقت نہیں ہے۔اور ظاہر ہے کہ احسان فراموشی کی حد ہوگی کہ ایک طرف انسان کو اپنے رب کے حقوق پامال کرنے میں ذرا تامل نہ ہو اور دوسری طرف اس رب ہی کی عطا کردہ نعمتوں سے لذتِ کام و دہن کا سامان کرتا رہے اور نہ صرف یہ کہ اپنے وجود کی بقا کو ممکن بناتا رہے بلکہ اس کی رونقوں کو دوبالا کرنے اور آسائشیں حاصل کرنے کے لیے کسی طرح بھی اپنے رب کی عطا سے بے نیاز نہ ہو۔
انسانی تاریخ میں اکثر و بیشتر جو شرک ہوا ہے وہ ذات باری کے ساتھ نہیں ، بلکہ اللہ کی صفات کی جہت سے تھا۔ یہ دعویٰ تو معدودے چند لوگوں کا رہا ہے کہ اس کائنات کے خالق دو ہیں یا فلاں بزرگ و ہستی اللہ کی طرح ہے یا اللہ کے برابر ہے۔ عام طور پر جو شرک زمانہ جاہلیت میں رائج تھا، آج بھی موجود ہے اور جس کی تردید میں قرآن کا اکثر و بیشتر حصہ نازل ہوا ہے، وہ صفاتِ باری کے ساتھ شرک ہے۔مخلوقات میں سے مثال کے طور پر رسول، نبی، ولی، بزرگ، شب زندہ دار، صاحب سلطنت و وقار، یہ سب قابل احترام ہیں، مگر خدا اور خدائی صفات کے مقابلے میں یہ بجاے خود محتاج اور بے بس لوگ ہیں۔ یہ اپنی مرضی سے ایک سانس کو بھی فرحت ِ جاں نہیں بنا سکتے، یہ کسی بھی جہت سے مارواے اسباب افعال و اعمال اختیار کرنے پر قدرت نہیں رکھتے۔ ایسی امداد نہیں کرسکتے جو سمجھ میں آنے والی یا دِکھنے والی نہ ہو۔ مادی ذرائع کے بغیر کسی کی فریاد نہیں سن سکتے۔ مرنے کے بعد زندہ انسانوں سے کوئی ربط و تعلق باقی نہیں رکھ سکتے۔
اس حوالے سے صریح ارشاد ہوا ہے:مثال کے طور پر یہ کہ ’علم ِغیب‘اللہ کی خاص صفت ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ بغیر سبب کے ماوراے حواس اشیا کا ادراک حاصل کرلینا، خبر پہنچے بغیر مستقبل کے احوال جان لینا، از خود نوشتہ تقدیر پر مطلع ہو جانا، یہ اللہ تعالیٰ کی مخصوص صفات ہیں، جو کسی معمولی درجے میں بھی غیراللہ کو حاصل نہیں ہوسکتیں۔
اسی طرح بغیر کسی سبب کے امداد و نصرت کرنا، عالم دنیا سے کوچ کرجانے کے بعد بھی زندوں سے ربط و تعلق باقی رکھنا اور اِن کی فریاد سننا، تغیرات زمانہ پر اختیار و طاقت رکھنا، یہ اللہ تعالیٰ کی مخصوص صفات ہیں۔ اِن کے مظاہر بے شمار ہیں، یہاں احصاء مقصود ہے نہ ممکن۔ یہ صفات کا شرک مختلف ادیان و مذاہب سے وابستہ حضرات کے عقائد میں پایا جاتا ہے اور یہی شرک فی الصفات اسلام سے قبل مکہ میں بھی رائج تھا۔ یہ سب لوگ اللہ عزوجل ہی کو کائنات کا خالق، بادشاہ، سمیع و بصیر، رازق و ممیت سمجھتے تھے، مگر اس کے باوجود قرآن کے مطابق یہ اصل مشرک قرار پائے اور یہی تھے جن پر جنت کو حرام کردیا گیا۔قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰہُ ط وَمَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ (النمل:65)
’’ان سے کہو: اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں کوئی غیب کا علم نہیں رکھتا اور وہ (تمہارے معبود تو یہ بھی ) نہیں جانتے کہ کب وہ اُٹھائے جائیں گے۔‘‘
ہماری رائے میں ایمان لانے کے بعد کوئی بھی شخص دوبارہ کفر و شرک میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ یہ متفق علیہ مسئلہ ہے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے:اِس سلسلے میں ہمارے پیش نظر جو مسئلہ ہے وہ یہ کہ کیا اُمت مسلمہ کے حوالے سے یہ امکان موجود ہے کہ وہ اس شرک میں مبتلا ہوجائے؟ یا سرے سے یہ امکان ہی پیدا نہیں ہوتا اور مسلمان ہوجانے کے بعد شرک کا ارتکاب کرنا ناممکن افعال میں سے ہے۔
وَلاَ تَاْکُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَ اِنَّہٗ ’’اور جس جانور کو اللہ کا نام لے کر ذبح نہ کیا گیا ہو
ایک دوسرے مقام پر ارشاد باری ہے:لَفِسْقٌ ط وَاِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰٓی اَوْلِیٰٓئِہِمْ لِیُجَادِلُوْکُمْ ج وَاِنْ اَطَعْتُمُوْہُمْ اِنَّکُمْ لَمُشْرِکُوْنَ(الانعام:121)
اُس کا گوشت نہ کھائو، ایسا کرنا فسق ہے۔ شیاطین اپنے ساتھیوں کے دلوں میں شکوک و اعتراضات القا کرتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں لیکن اگر تم نے اُن کی اطاعت قبول کرلی تو یقینا تم مشرک ہو‘‘
چنانچہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے : ’’جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام نے کہا : اے اللہ کے رسول! ہم میں سے کس نے ظلم نہیں کیا؟ تو آپ ﷺنے فرمایا: اس کی مراد وہ نہیں جو تم سمجھ رہے ہو… بلکہ اِس سے مراد شرک ہے۔ ‘‘ (بخاری:32 ؛ مسند احمد:444/1 )اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِکَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مُّہْتَدُوْنَ (الانعام:82)
’’حقیقت میں تو امن انہی کے لیے ہے اور راہ راست پر وہی ہیں جو ایمان لائے اور جنہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا۔ ‘‘
مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنْم بَعْدِ اِیْمَانِہٖٓ اِلاَّ مَنْ اُکْرِہَ وَقَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّم بِالْاِیْمَانِ وَلٰکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْہِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِج وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ (النحل:106)یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تُطِیْعُوْا فَرِیْقًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْا الْکِتٰبَ یَرُدُّوْکُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ کٰفِرِیْنَ (آل عمران:100)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم نے اِن اہل کتاب میں سے ایک گروہ کی بات مانی تو یہ تمہیں ایمان سے پھر کفر کی طرف پھیر لے جائیں گے۔‘‘
’’جو شخص ایمان لانے کے بعد کفر کرے وہ اگر مجبور کیا گیا ہو اور دل اُس کا ایمان پر مطمئن ہو (تب تو خیر) مگر جس نے دل کی رضامندی سے کفر کو قبول کرلیا اُس پر اللہ کا غضب ہے اور ایسے سب لوگوں کے لیے بڑا عذاب ہے۔‘‘
ایمان لانے کے بعد کفر کی ایک صورت تو ارتداد کی ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ بندہ مومن کسی ایسے عمل کا ارتکاب کرلے جو شریعت کے بیانات کی روشنی میں صراحتاً کفر اکبر یا شرک ہے تو ایسا شخص دعواے اسلام و ایمان کے باوجود کافر و مشرک ہو جاتا ہے۔وَمَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُہُمْ بِاللّٰہِ اِلاَّ وَہُمْ مُّشْرِکُوْنَ (یوسف: 106)
’’ان میں سے اکثر اللہ کو مانتے ہیں مگر اس طرح کہ اُس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھیراتے ہیں۔‘‘
ہمارے ہاں بعض مدعیانِ علم اس دوسری قسم کے کفر کو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں اور اِن کے خیال میں ایمان کے بعد کفر کی بس یہی صورت ہے کہ کوئی مسلمان اِن سے بول کر کہہ دے کہ میں کافر ہونے جارہا ہوں! یہ نظریہ کج فہمی اور شریعت کے گہرے مطالعے سے محرومی کا نتیجہ ہے، کیونکہ اِسے تسلیم کرلینے کی صورت میں آپ نے تمام اہل باطل اور گمراہ فرقوں کو اِذن دے دیا ہے کہ وہ زبان سے اسلام، توحید اور رسالت کا اقرار بھی کرتے رہیں اور اُمت میں کفر و شرک کی تخم ریزی بھی جاری رکھیں۔
اس ضمن میں یہ بھی واضح رہے کہ ایمان لانے کے بعد کفر و شرک میں مبتلا ہونا ممکن ہے، جیسا کہ آیاتِ قرآن کی روشنی میں واضح کیا گیا ہے، لیکن نبی ﷺکی ساری اُمت مشرک نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ فرمانِ نبوی ہے:سوال یہ ہے کہ اِس اصول کو تسلیم کرلینے کے بعد آپ کسی قادیانی کو کافر اور زندیق کیسے کہہ سکیں گے، جو توحید او رختم رسالت کا قائل ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کو مجدد مانتا ہے!! اِسی طرح شعائر اسلام کی عملاً توہین کرنے والا اور بت کو سجدہ کرنے والا جب تک زبان سے اقرار کرتا رہے گا کہ میں مسلمان و مومن ہوں تو مذکورہ اصول کی روشی میں یہ پکا مسلمان رہے گا!!
کچھ لوگ ضرور توحید پر قائم رہیں گے اور کچھ مشرک ہوں گے۔ جیسا کہ فرمان نبوی ہے:وَاللّٰہِ مَا أَخَافُ عَلَیْکُمْ أَنْ تُشْرِکُوْا بَعْدِی (بخاری:1344)
’’مجھے تم سے یہ اندیشہ نہیں ہے کہ تم (سب) میرے بعد شرک کرو گے۔‘‘
بعض اربابِ بدعت اور اہل شرک کی جانب سے یہ مقدمہ قائم کیا گیا ہے کہ اُمت مسلمہ میں شرک پیدا ہونے کا کوئی اندیشہ نہیں ہے، لہٰذا مسلمان کے کسی عمل کو شرکیہ اور بڑے سے بڑے شرک کا مرتکب ہونے کے باوجود خود اِسے مشرک نہیں کہا جاسکتا۔ خواہ وہ رسول اللہ ﷺ کو اللہ کی ذات کا نور (ٹکڑا) مانتا ہو، خواہ وہ کہنے والا ہو ؎لَا تَقُوْمُ السَّاعۃُ حتّی تَلْحَقَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِی بِالْمُشْرِکِیْنَ، وَحَتَّی تَعْبُدَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِیْ الأوْثَانَ (ابوداؤد:4252)
’’اُتنی دیر تک قیامت قائم نہ ہو گی جب تک میری اُمت کے قبائل مشرکین کے ساتھ نہ مل جائیں۔ اور یہاں تک کہ میری اُمت کے قبائل بتوں کی عبادت کریں گے۔‘‘
ظاہر دے وچ مرشد ہادی باطن دے وچ اللہ
نازک مکھڑا پیر فریدا سانوں ڈسدا ہے وجہ اللہ
(حج فقیربر آستانہ پیر :ص45)
خواہ وہ ہر مردہ یا زندہ بزرگ کے بارے میں یہ خیال رکھتا ہو کہ وہ اِس کے حالات سے واقف ہے یعنی علم غیب رکھتا ہے، چاہے وہ بہت سی ہستیوں کے بارے میں سمجھتا ہو کہ وہ ماوراے اسباب امداد و نصرت کرنے پر قادر ہیں، خواہ وہ اپنی تحریر میں درج ذیل دعویٰ کرتا ہو:سانوں کعبے دے جانے دی لوڑ نئیں
کعبہ روضہ تیرا قلعے والیا
(سہ حرفی رموز معرفت :ص16)
’’انبیا و مرسلین، اولیا، علما، صالحین سے ان کے وصال کے بعد بھی استعانت و استمداد جائز ہے، اولیا بعد انتقال بھی دنیا میں تصرف کرتے ہیں۔‘‘ (رسالۃ حیاۃ الموات از احمد رضا بریلوی)
خواہ وہ براہِ راست مردوں کو پکار کر اِن سے فریاد کرتا ہو، چاہے وہ قبروں پر بت گاڑھ کر سجدے کرتا ہو، خواہ وہ غیراللہ کے نام پر قربانیاں دیتا، نذریں مانتا اور ذبیحے پیش کرتا ہو!خواہ اُس کی شاعری کی نوعیت کچھ یوں ہو ؎’’میں نے جب بھی مدد طلب کی، یا غوث ہی کہا۔ ایک مرتبہ میں نے ایک دوسرے ولی (حضرت محبوب الٰہی) سے مدد مانگنی چاہی، مگر میری زبان سے ان کا نام ہی نہ نکلا۔ بلکہ زبان سے یاغوث ہی نکلا!‘‘ (ملفوظات از احمد رضا بریلوی:ص307)
یہ مشرک ہرگز نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ اُمت مسلمہ کا فرد ہے اور اسلام لاکر اپنے منہ سے ایمان کا دعویدار ہے!! اور اس پر دلیل اِس حدیث کو قائم کرتے ہیں جسے صحیح مسلم میں روایت کیا گیا ہے:وہی جو مستوی عرش تھا خدا ہوکر
اُتر پڑا ہے مدینہ میں مصطفی ہوکر
جبکہ اِس حدیث کا مفہوم بہت واضح ہے کہ یہاں صرف قدیم جزیرئہ عرب کے باسیوں (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ) کے بارے میں خبر دی گئی ہے کہ وہ اب شیطان کے وسوسوں کا شکار نہیں ہوسکتے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شرک میں مبتلا نہیں ہوئے۔ اس پر تاریخ کی شہادت کافی ہے۔ فلہٰذا اہل شرک و بدعت کا یہ دعویٰ سخت باطل، امر واقعہ کے خلاف، دین کے محکم بیانات سے یکسر مختلف اور پیغمبر اسلام ﷺ کے فرامین سے متصادم ہے۔ قرآن و سنت کے معتدبہ دلائل سے ثابت ہے کہ شرک کا اندیشہ مسلمان کو بھی لاحق ہوتا ہے۔ وہ بے احتیاطی کی وجہ سے کسی وقت بھی شرک میں مبتلا ہوسکتا ہے، بلکہ فی زمانہ یہ شرک فی الصفات اُمت میں کثرت سے موجود ہے۔إِنَّ الشَّیْطَانَ قَدْ أَیِسَ أَنْ یَعْبُدَہُ الْمُصَلُّونَ فِی جَزیْرَۃِ الْعَرَبِ وَلٰکِنْ فِی التَّحْرِیشِ بَیْنَھُمْ (مسلم:5030)
’’بے شک شیطان مایوس ہوگیا ہے کہ جزیرئہ عرب میں نماز پڑھنے والے اُس کی عبادت کریں گے لیکن اُن کے مابین تنازعات پیدا کرنے سے (مایوس نہیں ہے)‘‘