• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اُمت مسلمہ میں شرک کا مسئلہ

شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
سجدہ تعظیمی اس لئے حرام ہے کیونکہ نبی اکرم نے اسے حرام کہا۔اور اگلی بات مانگنا شرک ہے یا نہیں اس حوالے سے فارم پر بحث ہو رہی ہے اسے ضرور ملاحظہ کریں۔
 

MD. Muqimkhan

رکن
شمولیت
اگست 04، 2015
پیغامات
248
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
70
میں نے تو کسی مزار پر آج تک کسی مولوی کو کہتے نہیں سنا کہ سجدہ مت کرو اگر یہ تعظیمی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے. آپ کا تو اس سے بڑا جہاد ہو ہی نہیں سکتا کسی مزار پر ڈیوٹی دیں جناب آپ کی بات سے لوگوں کی اصلاح بھی ہوجائے گی. ویسے ایک سوال ہے کہ کیا کہیں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ اس سجدے کو حرام کیوں کہا
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میں نے تو کسی مزار پر آج تک کسی مولوی کو کہتے نہیں سنا کہ سجدہ مت کرو اگر یہ تعظیمی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے. آپ کا تو اس سے بڑا جہاد ہو ہی نہیں سکتا کسی مزار پر ڈیوٹی دیں جناب آپ کی بات سے لوگوں کی اصلاح بھی ہوجائے گی. ویسے ایک سوال ہے کہ کیا کہیں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ اس سجدے کو حرام کیوں کہا
ایسی بات ہے تو پھر ان مزار کو ہی کیوں نہ ڈھا دیا جائے!

وابلغ من ذلك انه عليه السلام هدم مسجد الضرار ففي هذا دليل علی هدم ما هو اعظم فساد منه كالمساجد المبنية علی القبور فان حكم الاسلام فيها ان ينهدم كلها حتی يساوی بالارض وكذا القاب التي بينت علی القبور يجب هدمها لانها اسست علی معصية الرسول ومخالفته وكل بناء اسس علی معصية الرسول ومخالفته وهو بالهدم اولی من مسجد الضرار لانه عليه السلام نهی البناء علی القبور ولعن المتخذين عليها مساجد فيجب المبادرة والمسارعة الی هدم ما نهی عنه رسول الله صلی الله عليه وسلم ولعن فاعله وكذلك يجب ازالة كل قنديل وسراج وشمع اوقدت علی القبور لان فاعل ذلك طعون بلعنة رسول الله عليه السلام فكل ما لعن فيه رسول الله عليه السلام فهو من الكبائر ولهذا قال العلماء لايجوزان ينذر للقبور شمع ولازيت ولا غير ذلك فانه نذر معصية لا يجوز الوفاء به بل يلزم الكفارة مثل كفارة اليمين ولا ان يوقف عيلها شئ من ذلك فان هذا الوقف لا يصح ولا يحل اثباته وتنقيذه وقال ابوبكر الطرطوسي انظرو ارحکم الله تعالی اينما وجدتم يقصدها الناس ويعظمونها ويرجون البرء ولشفاء من يعلقون عليها ويضربون بها المسامير ولخرق فهی ذات انواط فاقطعوها وذات انوط شجرة اللمشركين كانوا يعلقون عليها استلحتهم وامتعتمم ويعكفون حولها
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بارے میں یہ بات پہنچی ہے کہ پیغمبر علیہ السلام نے مسجد ضرار کو گروا دیا، اس میں دلیل ہے واسطے گرا دینے جس کا بڑا فساد ہو، اس کا جس کا بڑا فساد ہو ،جیسے مسجدیں جو قبروں پر بنائی گئی ہیں، بیشک حکم اسلام کا اس باب میں یہی ہے کہ ان سب کو ڈھا کر زمین کے برابر کردیں اور ایسے ہی گنبد اور برج کہ قبروں پر بنائی گئی ہیں سب کا ڈھا دینا واجب ہے ۔ اس واسطے کہ سب کی بنیاد رسول کی نافرمانی اور مخالفت پر ہے اور جو عمارت کہ بنیاد رکھی جاوے رسول کی نافرمانی اور مخالفت پر اسکا گرادینا بہتر ہے مسجد ضرار کے۔ اس واسطے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر منع فرمایا ہے اور لعنت کی ہے جو قبروں پر مسجد بناویں، پس واجب ہوا جلد ایسی شتاب گرادینا عمارت کا جس سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے اور اس کے بنانے والے کو لعنت کی ہے اور ایسے ہی واجب ہے دور کرنا قندیل اور چراغ اور شمع کا جو قبروں پر روشن کی جائیں، اس واسطے کہ روشمی کرنے والا مطعون ہے رسول اللہ علیہ السلام کی لعنت سے ، اور جس امر پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے وہ گناہ کبیرہ ہے اسی واسطے علماء کہتے ہیں کہ منت ماننی قبروں پر روشنی کی اور تیل بتی کی اور مانند اس کی جائز نہیں ہے کیونکہ یہ منت گناہ کی ہے اس کا پورا کرنا جائز نہیں بلکہ کفارہ مثل کفارہ قسم کے لازم ہے اور نہ وقف کی جاوے قبروں کے واسطے کچھ ان میں سے ، بیشک یہ وقف صحیح نہیں اور نہ ثابت رکھنا حلال اور نہ جاری کرنا۔ اور امام ابوبکر طرطوسی کہتے ہیں : خیال کرو تم پر خدا کی رحمت ہو جس جگہ تم کو ایسا درخت معلوم ہو کہ لوگ اس پر تعظیم کر کے آتے ہیں اور صحت اور شفاء اس کے وسیلہ سے امید رکھتے ہیں اور اس میں میخیں گاڑتے ہیں اور حیلہ باندھتی ہیں پس وہ ذات انواط ہے اس کو کاٹ ڈالو اور ذات انواط مشرکوں کا درخت تھا اس پر اپنے ہتھیار اور اسباب لٹکا کر اس کے گرد چلہ کشی کرتے تھے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ129 - 128 خزينۃ الاسرار ترجمہ اردو مع مجالس الابرار و مسالك الاخيار و محائق البدع و مقامع الاشرار ۔ أحمد بن عبدالقادر الرومي الحنفي ۔مترجم سبحان بخش ۔ مطبع مصطفائی 1283 ھ
 
Last edited:

MD. Muqimkhan

رکن
شمولیت
اگست 04، 2015
پیغامات
248
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
70
ابن داؤد بھائی قبروں کے محافظ کہتے ہیں کہ اس سجدے کو شرک کہنے کے لیے پہلے یہ پوچھنا ہوگا فاعل سے کہ اس کی نیت کیا تھی تب کوئی حکم لگایا جائے گا.البتہ قبروں کے محافظ بعض دفعہ بہت قیل و قال کرنے کے بعد یہ مان لیتے ہیں کہ بنا پوچھے اور نیت جانے بغیر بھی اس پر کم از کم حرام کا حکم تو ہے ہی. اسی لئے میرے ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ یہ لوگ اہل سنت والجماعت سے جھگڑنے کے بجاے پہلے اس حرام کاری کو تو روکیں آخر ان کی ناک کے نیچے ہی تو یہ حرام افعال انجام دیے جارہے ہیں. کیا یہ ایک اہم کام جہاد نہیں ہوگا. خوامخواہ ہی یہ لوگ یہاں وہاں یہ سمجھاتے اور لڑتے پھرتے ہیں کہ بھائی ہمارا یہ کام حرام ہے شرکیہ نہیں.
 

MD. Muqimkhan

رکن
شمولیت
اگست 04، 2015
پیغامات
248
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
70
جب حرام کاری رک جائے گی تو خود ہی قبر قبر معلوم ہوگی جاے عبرت معلوم ہوگی نہ کہ دیکھ کر دل باغ باغ ہوجائے.
 

MD. Muqimkhan

رکن
شمولیت
اگست 04، 2015
پیغامات
248
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
70
حال ہی میں مجھے مسلمانوں کے ایک قبرستان میں جانے کا اتفاق ہوا دیکھ کر عیسائیوں کا قبرستان لگا. شاید ہی کوئی قبر کچی رہی ہو چار چار ہاتھ اونچے قبے. بعض تو اس قدر سنہری کہ سورج کی روشنی پڑجائے تو آنکھیں خیرہ ہوجاتیں. کتبے اور ان کی عبارتیں تو معلوم ہوتی تھیں گویا شادی کارڈ. خیر یہ بات موضوع سے باہر ہے لیکن یوں ہی اپنی حیرانی کو شئیر کرلیا.
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ابن داؤد بھائی قبروں کے محافظ کہتے ہیں کہ اس سجدے کو شرک کہنے کے لیے پہلے یہ پوچھنا ہوگا فاعل سے کہ اس کی نیت کیا تھی تب کوئی حکم لگایا جائے گا.البتہ قبروں کے محافظ بعض دفعہ بہت قیل و قال کرنے کے بعد یہ مان لیتے ہیں کہ بنا پوچھے اور نیت جانے بغیر بھی اس پر کم از کم حرام کا حکم تو ہے ہی. اسی لئے میرے ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ یہ لوگ اہل سنت والجماعت سے جھگڑنے کے بجاے پہلے اس حرام کاری کو تو روکیں آخر ان کی ناک کے نیچے ہی تو یہ حرام افعال انجام دیے جارہے ہیں. کیا یہ ایک اہم کام جہاد نہیں ہوگا. خوامخواہ ہی یہ لوگ یہاں وہاں یہ سمجھاتے اور لڑتے پھرتے ہیں کہ بھائی ہمارا یہ کام حرام ہے شرکیہ نہیں.
اس شرک کے لئے ایک راستہ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ سجدہ تو ساتھ اعضاء پر کیا جاتا ہے، لہٰذا قبر پر سجدہ کرنے والے کے سجدہ کو سجدہ ہی نہیں کہا جائے! کیونکہ اس نے ساتھ اعضاء پر نہیں کیا ہوگا!
یہ الگ بات ہے کہ فتاوی عالمگیری میں موجود ہے کہ اگر کوئی شخص نماز میں اپنے گھٹنے اور ہاتھ زمین پر لگائے بغیر بھی سجدہ کرے تو ہو جائے گا!
لیکن قبر پر سجدہ کو سجدہ کہنے کے لئے انہیں وہ سات اعضاء کی شرط والی حدیث یاد آجاتی ہے!
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
میں نے تو کسی مزار پر آج تک کسی مولوی کو کہتے نہیں سنا کہ سجدہ مت کرو اگر یہ تعظیمی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے. آپ کا تو اس سے بڑا جہاد ہو ہی نہیں سکتا کسی مزار پر ڈیوٹی دیں جناب آپ کی بات سے لوگوں کی اصلاح بھی ہوجائے گی. ویسے ایک سوال ہے کہ کیا کہیں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ اس سجدے کو حرام کیوں کہا
حضرت باقی مزرات کا مجھے علم نہیں ہاں ہمارے شہر میں جو مسعود فرید المعروف بابافرید گنج شکر کا مزار ہے اس کے آغاز میں ہی یہی بات لکھی ہوئی ہے کہ سجدہ تعظیمی حرام ہے۔اور اگلی بات اعلی حضرت نے فتوی رضویہ کی ج 9 میں واضاحت سے لکھا کہ مزار پر نہ ہی سجدہ کیا جائے اور نہ ہی اس کو چھوا جائے اور طواف بھی بالاتفاق حرام ہے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
اس شرک کے لئے ایک راستہ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ سجدہ تو ساتھ اعضاء پر کیا جاتا ہے، لہٰذا قبر پر سجدہ کرنے والے کے سجدہ کو سجدہ ہی نہیں کہا جائے! کیونکہ اس نے ساتھ اعضاء پر نہیں کیا ہوگا!
اس کا زبردست جواب قرآن مجید میں موجود ہے ؛
’’ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ ‘‘
نہ سجدہ کرو سورج کو ،اور نہ ہی سجدہ کرو چاند کو ۔بلکہ اس (اللہ ) کو سجدہ کرو ،جس نے انہیں تخلیق کیا ‘‘
آسان سی بات ہے کہ سورج ،چاند کو سجدہ کرنے والے ،،نہ قبلہ رخ ہوتے تھے ،اور نہ ہی اس ہیئت و کیفیت کی پابندی کرتے تھے جو اہل اسلام کی نماز کے سجدے میں ضروری ہے؛ پھر بھی قرآن نے مشرکین کے اس سجدے کو سجدہ ہی کہا ہے ۔اور اس سجدے روکا ہے
بالفاظ دیگر :ایک ہے غیر اللہ کو شرکیہ سجدہ ،وہ کسی ھیئت میں ہو ، ناجائز و شرکیہ ہی ہو گا،
اور ایک سجدہ ہے شرعی نماز کا ۔۔۔اس کیلئے نماز میں وہی کیفیت و ھیئت ضروری ہے، جو احادیث مصطفی ﷺ میں ثابت ہے ؛
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
حضرت کسی جاہل کا فعل حجت نہیں ہوتا اگر کوئی بیچارہ لا علمی کی وجہ سے سجدہ کرتا ہے تو اس میں اس کا اپنا قصور ہے اس کی ذمہ داری مسلک اہلسنت پر نہیں ڈالی جا سکتی۔اور یہ سجدہ تعظیمی ہوتا ہے جو حرام ہے مگر شرک نہیں۔
 
Top