• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اُمت ِمسلمہ میں شرک کا وجود؟

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
6. اللہ تبارک ارشاد فرماتے ہیں:
’’ وَمَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُھُمْ بِاﷲِ اِلَّا وَھُمْ مُشْرِکُوْنَ ‘‘ ( یوسف:۱۰۶)
’’اور ان میں سے اکثر لوگ اللہ پر ایمان لانے کے باوجود بھی شرک ہی کرتے ہیں۔‘‘ (ترجمہ: از مولانا غلام رسول سعیدی، تبیان القرآن:۵؍۸۷۵)
ا. یہ آیت ِکریمہ بھی اس بارے میں نص صریح ہے کہ
’’لوگ ایمان لانے کے باوجود بھی شرک کاارتکاب کرتے ہیں۔‘‘
ب. حالانکہ کوئی بھی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو واجب الوجود مانتا ہے نہ اس کی کسی صفت کو قدیم اور مستقل بالذات مانتا ہے اور نہ اس کو مستحق عبادت قرار دیتا ہے لہٰذا شرک کے پائے جانے کے لیے اور کسی کے مشرک ہونے کے لیے یہ شرط درست نہیں ہے۔
ج. علامہ سید محمود آلوسی حنفی، اس آیت ِکریمہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ومن أولئک عبدة القبور الناذرون لھا،المعتقدون للنفع والضرّ ممن اﷲ تعالیٰ أعلم بحالہ فیھا وھم الیوم أکثر من الدود (روح المعاني:۱۳؍۶۷)
’’اور انہی میں سے ایک گروہ قبر پرست لوگوں کا ہے جو ان کیلئے نذر مانتے ہیں اور ایسے لوگوں سے نفع و نقصان کا اعتقاد رکھتے ہیں جن کے بارے میں اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ قبروں میں ان کی کیا حالت ہے اور ایسا کرنے والے لوگ تو آج کل کیڑوں مکوڑوں سے بھی زیادہ ہیں۔‘‘
یاد رہے کہ اگر قبرپرستی بھی شرک ِاکبر نہیں ہے تو پھر کیا اُن کا جرم یہ ہے کہ وہ بت کو کھڑا کرکے پوجتے ہیں اس لیے شرک اکبر کے مرتکب ٹھہرے اوریہ دفن کرکے پوجنے سے شرک اکبر کی تعریف سے نکل جائیں۔سبحان اللہ! اور آستانوں اور مزارات پر اس کامشاہدہ بخوبی کیا جاسکتا ہے ۔
د. علامہ آلوسی حنفی تو قبروں کے لیے نذر و نیاز ماننے والوں اور قبروں والوں سے نفع و نقصان کا اعتقاد رکھنے والوں کو اسی آیت کریمہ کے تحت قبرپرست قرار دے کر ایسی آیت ان پر فٹ کرتے ہیں۔ (اور ان کو مشرک سمجھ رہے ہیں اور مشرک کہہ رہے ہیں)
ہ. اور اس دور کی جاہلیت ِجدیدہ کے ان جدید مفکرین کی طرح اس آیت ِکریمہ کو بتوں، ریا کاری یا قربِ قیامت کے متعلق کہہ کر ردّ نہیںکرتے اور نہ ہی اس کو کفار کے ساتھ خاص قرار دیتے ہیں۔
ح. پیر سید نصیرالدین گولڑوی سجادہ نشین درگاہ غوثیہ مہریہ گولڑہ شریف فرماتے ہیں :
" وَإِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ دَعَوْا رَبَّھُمْ مُنِیْبِیْنَ اِلَیْہِ ثُمَّ إِذَا أذَاقَھُمْ مِنْہُ رَحْمَۃً إذَا فَرِیْقٌ مِّنْھُمْ بِرَبِّھِمْ یُشْرِکُوْنَ" (الروم :۳۳)
’’اور جب لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے ربّ کو پکارتے ہیں اس کی طرف رجوع لاتے ہوئے پھر جب وہ اُنہیں اپنے پاس سے رحمت کا مزہ دیتا ہے جبھی اُن میں سے ایک گروہ اپنے ربّ کا شریک ٹھہرانے لگتا ہے۔‘‘ (ترجمہ کنزالایمان)
کیا یہ دونوں آیتیں ہم میں سے اکثر سنی کہلوانے والے محبانِ بزرگانِ دین کے نظریہ و فکر اور طرزِ عمل کی نشاندہی نہیں کررہیں؟ بارہا مشاہدہ میں آیا کہ جب کسی خوش عقیدہ اور زائد از ضرورت عقیدت مند کو کوئی فائدہ پہنچتا یاخوشی نصیب ہوتی ہے تو فوراً کہہ اٹھتا ہے کہ یہ میرے مرشد کاکام ہے، لیکن جب کوئی مصیبت اور تکلیف آدبوچتی ہے توکہنے لگتا ہے: اللہ کی مرضی… (مزید لکھتے ہیں)
’’دیکھیں یہی باتیں مشرکین اصنام میں تھیں اور یہی آج کے اکثر عقیدت مند مسلمان کہلوانے والوں میں ہیں تو کیا ان پر وہ آیات خود فٹ نہیں آرہیں؟‘‘ (اعانت و استعانت:ص ۹۵،۹۶)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
7. اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
" وَإنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ إلٰی اَوْلِیَائِھِمْ لِیُجَادِلُوْکُمْ وَإنْ أَطَعْتُمُوْھُمْ إنَّکُمْ لَمُشْرِکُوْنَ " (الانعام:۱۲۱)
’’بیشک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتے ہیں تاکہ وہ تم سے بحث کریں اور اگر تم نے ان کی اطاعت کی تو تم مشرک ہوجاؤ گے۔‘‘ (ترجمہ از غلام رسول سعیدی صاحب، تبیان القرآن:۳؍۶۳۶)
ا. اس آیت ِکریمہ میںمسلمانوں، کلمہ پڑھنے والوں، آپ کے امتیوں سے خطاب ہے۔
ب. یہ آیت ِکریمہ بھی اس بارے میں نص صریح ہے کہ اُمت ِمسلمہ میں بھی شرک پایا جاسکتا ہے اور یہ کہ مسلمان بھی مشرک ہوسکتے ہیں۔
ج. اور اسے قرب ِقیامت کے ساتھ خاص بھی نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس کی ریاکاری کے ساتھ تاویل ہوسکتی ہے۔
د. اگر اُمت ِمسلمہ میں شرک نہیں پایا جاسکتا یا مسلمان شرک نہیں کرسکتے تو پھر إنکم لمشرکون اور وہ بھی تاکیداً کیوں کہا گیا؟
ہ. جسٹس ریٹائرڈ پیر کرم شاہ ازہری صاحب راقم ہیں:
’’اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو شخص اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال یقین کرتاہے وہ مشرک ہوجاتا ہے۔‘‘ (ضیاء القرآن:۱؍۵۹۷)
و. نعیم الدین مراد آبادی صاحب اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:
’’کیونکہ دین میں حکم الٰہی کو چھوڑ دینا اور دوسرے حکم کا ماننا اللہ کے سوا اور کو حاکم قرار دینا شرک ہے۔‘‘ (خزائن العرفان، حاشیہ سورئہ انعام ، آیت :۱۲۱)
ز. کوئی مسلمان، شیطان یا اس کے اولیا کو واجب الوجود مانتا ہے، نہ ان کی کسی صفت کو قدیم اور مستقل بالذات مانتا ہے اور نہ ان کو مستحق عبادت قرار دیتا ہے لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ
’’اگر تم نے ان کی اطاعت کی تو تم مشرک ہوجاؤ گے۔‘‘ (الانعام:۱۲۱)
تومعلوم ہوا کہ شرک کے پائے جانے یا کسی کے مشرک ہونے کے لیے یہ شرط لگانا غلط ہے اور قرآنِ پاک کے خلاف ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
8. اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
" اَلَمْ اَعْھَدْ اِلَیْکُمْ یٰبَنِیْ آدَمَ أنْ لَّا تَعْبُدُوْا الشَّیْطٰنَ إنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ وَاَنِ اعْبُدُوْنِیْ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ " (یس:۶۰،۶۱)
’’اے اولادِ آدم! کیا میں نے تم سے عہد نہ لیا تھا کہ شیطان کو نہ پوجنا بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور میری بندگی کرنا، یہ سیدھی راہ ہے۔‘‘ (ترجمہ: از احمد رضا خان بریلوی، کنزالایمان)
نعیم الدین مراد آبادی بریلوی رقم طراز ہیں:
’’اس کی فرمانبرداری نہ کرنا اور کسی کو عبادت میں میراشریک نہ کرنا۔‘‘ (خزائن العرفان، سورئہ یس: حاشیہ نمبر۷۷،۷۸)
غلام رسول سعیدی بریلوی رقم طراز ہیں:
’’اور شیطان کی عبادت سے مراد ہے، شیطان کے احکام پر عمل کرنا اور اس کے قدم بہ قدم چلنا۔‘‘ (تبیان القرآن:۹؍۸۰۳)
کیاکوئی بھی عقل مند یہ کہہ سکتا ہے کہ شیطان کی عبادت بھی شرک نہیں ہے اور لوگوں میں اس کا وجود نہیں ہے؟ حالانکہ کوئی بھی شیطان کو واجب الوجود، اس کی کسی صفت کو قدیم اور مستقل بالذات اور اس کو مستحق عبادت قرار دینے والا نہیں ۔
معلوم ہوا کہ شرک کے پائے جانے کے لیے یہ شرط درست نہیں ہے اس سے تو شیطان کی عبادت بھی شرک ثابت نہیں ہوگی۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
9. اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
" إتَّخَذُوْا أحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ أرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اﷲِ وَالْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ وَمَا اُمِرُوْا اِلَّا لِیَعْبُدُوْا اِلٰھًا وَاحِدًا لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ سُبْحٰنَہٗ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ " (التوبہ:۳۱)
’’اُنہوں نے اپنے پادریوں اور جوگیوں کو اللہ کے سوا خدا بنا لیا اورمسیح ابن مریم کو اور انہیں حکم نہ تھا مگر یہ کہ ایک اللہ کو پوجیں اس کے سوا کسی کی بندگی نہیں، اُسے پاکی ہے ان کے شرک سے۔‘‘ (ترجمہ: از احمدرضا خان بریلوی، کنزالایمان)
جسٹس (ر) پیر کرم شاہ ازہری سجادہ نشین بھیرہ شریف اسی آیت ِکریمہ کے تحت راقم ہیں:
’’حضرت عدی بن حاتم پہلے عیسائی تھے۔ اب اُنہوں نے اسلام قبول کیا تھا۔ اُنہوں نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی: یارسول اللہﷺ ہم تو انہیں ربّ نہیں مانتے توقرآن کی اس آیت کا کیامطلب ہے؟ حضورِ کریمﷺ نے فرمایا کہ اگر وہ حلال چیزوں کو حرام اور حرام چیزوں کو حلال کردیتے تو کیا تم ان کی ان باتوں کونہیں مانتے تھے۔ عدی نے عرض کی کہ ایسا تو ہم کرتے تھے۔ حضورﷺ نے فرمایا یہی ان کو ربّ ٹھہرانا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی حلال کی ہوئی چیزوں کو اگر کوئی حرام کردے یا ان کی حرام کردہ چیزوں کو حلال قرار دے تو اس نے گویا تشریع قانون سازی جو صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے اس کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور جن لوگوں نے اس کی ان باتوں کو مان لیا، گویا انہوں نے اس کی خدائی کو تسلیم کرلیا۔‘‘ (ضیاء القرآن:۲؍۱۹۸)
اور غلام رسول سعیدی صاحب بھی اسی آیت کریمہ کے تحت حضرت عدیؓ والی مذکورہ بالا حدیث کو بحوالہ سنن ترمذی :۳۰۹۵ درج کرنے کے بعد رقم طراز ہیں:
’’قرآنِ مجید کی اس آیت اور اس حدیث سے واضح ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مقابلہ میں اپنے کسی دینی پیشوا کے قول کو ترجیح دینا اور اس پر اصرار کرنا اس دینی پیشوا کو خدا بنا لینا ہے۔ اسی طرح رسول اللہﷺ کی صریح حدیث کے مقابلہ میں اپنے کسی دینی پیشوا کو ترجیح دینا اس کو رسول کا درجہ دینا ہے۔‘‘
نیز فرماتے ہیں:
’’لیکن اس زمانہ میں ہم نے دیکھا کہ اگر کسی شخص کے دینی پیشوا کے کسی قول کے خلاف قرآن اور حدیث کتنا ہی کیوں نہ پیش کیا جائے وہ اپنے دینی پیشوا کے قول کے ساتھ چمٹا رہتا ہے اور کہتا ہے کیا یہ قرآن کی آیت اور یہ حدیث ان کومعلوم نہیں تھی اور وہ قرآن اور حدیث کو تم سے زیادہ جاننے والے تھے۔‘‘ (تبیان القرآن:۵؍۱۲۲)
ا. قرآن و سنت کے مقابلہ میں کسی کی بات ماننا اس کو ربّ قرار دینا ہے یہی بات پیرکرم شاہ ازہری اور مولانا غلام رسول سعیدی نے بھی بیان کی ہے، حالانکہ کوئی بھی انہیں واجب الوجود یا ان کی کسی صفت کو قدیم اور مستقل بالذات یا ان کو مستحق عبادت قرار نہیں دیتا، لہٰذا شرک کے پائے جانے کے لیے یہ شرط درست نہیں ہے۔
ب. پیر صاحب اورمولانا صاحب نے اس آیت ِکریمہ اور حدیث ِمبارکہ کو یہود و نصاریٰ کفار تک محدود کرنے یا قربِ قیامت کے ساتھ خاص قرار دے کر ردّ کردینے کا موقف نہیں اپنایا تھا جو آج کے ان جدید مفکرین کی زبان پر گردان کی طرح جاری وساری ہے۔
ج. کیامسلمان اس معاملہ میں یہود و نصاریٰ کے نقش قدم پرنہیں چل سکتے؟جب کہ رسول اللہﷺ تو فرماتے ہیں کہ
تم ضرور اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں پر چلو گے۔ بالشت کے برابر بالشت اور ہاتھ کے برابر ہاتھ حتیٰ کہ اگر وہ سانڈھے کی بل میں داخل ہوئے تھے تو تم بھی ان کی پیروی کرو گے، ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ، یہود و نصاریٰ؟آپﷺ نے فرمایا اور کون؟(صحیح بخاری: ۷۳۲۰، صحیح مسلم:۲۶۶۹)
د. اور غلام رسول سعیدی صاحب نے تو اس زمانہ میں بھی ایسے لوگوں کو دیکھ لیا ہے جو اپنے بزرگوں کو ربّ بنائے بیٹھے ہیں لیکن شاید آج کے ان جدید مفکرین کے نزدیک اللہ کے سوا کسی کو ربّ بنانا بھی شرکِ اکبر نہ ہو؟ یا ممکن ہے کہ ان لوگوں کے نزدیک یہود و نصاریٰ میں بھی شرک ِاکبر نابود ہو؟
٭ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ إنَّ اﷲَ لَا یَغْفِرُ أنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذَلِکَ لِمَنْ یَّشَائُ وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاﷲِ فَقَدِ افْتَرَیٰ إثْمًا عَظِیْمًا ‘‘ (النساء :۴۸)
’’بلا شبہ اللہ شرک کو کبھی معاف نہ کرے گا اور اس کے علاوہ وہ جسے چاہے معاف کردیتا ہے اور جس نے اللہ کے ساتھ کسی کوشریک بنایا اس نے بہتان باندھا اور بہت بڑا گناہ کیا۔‘‘
ا. ایسے گناہ جن سے مؤمن توبہ کیے بغیر ہی مرجائیں، لیکن شرک پرموت نہ آئی ہو، تو اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہے گا، سزا دیئے بغیر اس کو معاف فرما دے گا اور جس کو چاہے گا سزا دینے کے بعد اور بعض کو نبی کریم1کی شفاعت پر معاف فرما دے گا۔
ب. لیکن اگر بغیر توبہ کے مرگیا تو شرک کسی صورت معاف نہیں ہوگا بلکہ ایک اور مقام پر فرمایا کہ
’’ إِنَّہٗ مَنْ یُّشْرِکْ بِاﷲِ فَقَدْ حَرَّمُ اﷲُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَمَاْوَاہُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ ‘‘ (المائدۃ:۷۲)
’’بیشک جو اللہ کا شریک ٹھہرائے تو اللہ نے اس پر جنت حرام کردی اور اس کاٹھکانہ دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔‘‘
ج. یہود و نصاریٰ اگربالفرض شرک نہ کریں تو پھر بھی آپﷺ کی بعثت کے بعد آپ پر ایمان نہ لانے کی وجہ سے ہی کافر اور اَبدی جہنمی ہیں جیسا کہ صحیح مسلم:۱۵۳میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی حدیث اس پر نص قطعی ہے۔ لہٰذا جنت میں داخل ہوجانے، شفاعت اور اس آیت میں مذکور معافی کی سعادت و خوشخبری ان کے لیے نہیں ہے۔
د. معلوم ہوا کہ شرک نہ کرنے کی صورت میں جنت میں داخل ہوجانے، شفاعت اور اس آیت ِکریمہ میں مذکور معافی کی سعادت و خوشخبری، آپﷺ کی بعثت کے بعد صرف آپﷺ کی اُمت کے موحدین کے ساتھ ہی خاص ہے اور آپﷺ کی اُمت میں سے شرک کے مرتکب لوگ اس سے محروم رہیں گے اور یہ کہ اس اُمت میں بھی شرک پایا جاتا ہے۔
اور مندرجہ ذیل احادیث بھی اس پرنص قطعی ہیں:
٭ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ: رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ہرنبی کے لیے ایک خاص دعا ہوتی ہے اور ہر نبی نے اپنی یہ دعا اس دنیامیں جلد مانگ لی اور میں نے قیامت کے دن اپنی اُمت کی شفاعت کرنے کے لیے اس دعا کو محفوظ رکھا ہے:
’’ فھی نائلۃ إن شاء اﷲ من مات من أمتي لا یشرک باﷲ شیئا ‘‘(صحیح مسلم:۱۹۹)
’’اور ان شاء اللہ میری یہ شفاعت میری اُمت کے ہر اس فرد کو شامل ہوگی جو شرک سے بچا رہے گا۔‘‘
٭ اور ایک اور حدیث میں حضرت ابوذرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ
’’ أتاني جبرائیل علیہ السلام فبشرني أنہ من مات من أمتک لا یشرک باﷲ شیئًا دخل الجنة ‘‘ (صحیح بخاری:۱۲۳۷، صحیح مسلم:۹۴ واللفظ لہ)
’’میرے پاس جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اورمجھے بشارت دی کہ جوشخص آپ کی اُمت میں سے اس حال میں فوت ہوا کہ اس نے اللہ کے ساتھ بالکل شرک نہ کیا ہو تو وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔‘‘
مجددِ بریلویت جناب احمد رضا خان صاحب فرماتے ہیں:
’’اللہ عزوجل، ابلیس کے مکر سے پناہ دے، دنیامیں بت پرستی کی ابتدا یوں ہوئی کہ صالحین کی محبت میں ان کی تصویریں بناکر گھروں اور مسجدوں میں تبرکا ً رکھیں اور ان سے لذت، عبادت کی تائید سمجھی، شدہ شدہ وہی معبود ہوگئیں۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ:۲۴؍۵۷۳)
٭ حضرت جندبؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ کی وفات سے پانچ روز پہلے آپﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا اور اس کے آخر میں ہے :
’’ ألا وإن من کان قبلکم کانوا یتخذون قبور أنبیائھم وصالحھم مساجد ألا فلا تتخذوا القبور مساجد إني أنھاکم عن ذلک ‘‘ (صحیح مسلم:۵۳۲)
’’سنو! تم میں سے پہلے لوگ اپنے نبیوں اورنیک لوگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیتے تھے۔ سنو! میں تم کو اس سے روکتا ہوں۔‘‘ (ترجمہ از غلام رسول سعیدی بریلوی، شرح صحیح مسلم:۲؍۷۶ )
امام ابن الجوزیؒ راقم ہیں:
’’إن أصل عبادة الأوثان والأصنام من تعظیم قبور الأولیاء والصالحین ولھٰذا نھی الشارع ! عن تعظیم القبور والصلاة عندھا والعکوف علیھا فإن ذلک ھوالذي أوقع الأمم الماضیة بالشرک الأکبر (تذکرۃ أولي البصائر في معرفۃ الکبائر،ص ۲۱)
’’بلاشبہ بتوں کی عبادت کی اصل وجہ ولیوں اور نیک لوگوں کی قبروں کی تعظیم ہے اس لیے شارع علیہ السلام نے قبروں کی تعظیم کرنے، اُن کے پاس نماز پڑھنے اور ان پر مجاور بن کربیٹھنے سے منع فرمایا ہے، بلا شبہ یہی وہ چیز ہے جس نے سابقہ امتوں کوشرک اکبر میں مبتلا کردیا تھا۔‘‘
٭ حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے اپنی اس بیماری میں فرمایا جس سے آپﷺ صحت یاب نہیں ہوئے:
’’ لعن اﷲ الیھود والنصارٰی إتخذوا قبور أنبیائھم مساجد لولا ذلک أُبرز قبرہ غیر أنہ خشي أو خشی أن یتخذ مسجدًا‘‘ (صحیح بخاری:۱۳۹۰، مسلم :۵۲۹)
’’اللہ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے جنہوں نے انبیاء علیہم السلام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا، اگر یہ خطرہ نہ ہوتا تو آپﷺ کی قبر کو ظاہر کردیا جاتا، لیکن آپ کو ڈر تھا کہ آپ کی قبر کو سجدہ گاہ بنا لیا جائے گا۔‘‘
غلام رسول سعیدی بریلوی ’’ نبیوں کی قبروں کی عبادت کی ابتدا کیسے ہوئی اور کسی ممنوع کام کا ذریعہ اور اس کا دروازہ بند کرنا ‘‘ کی موٹی سرخی کے تحت علامہ ابوالعباس احمد بن عمر قرطبی (متوفی ۶۵۶ھ) کی کتاب (المفھم: ۲؍۱۲۸)سے ایک طویل عبارت نقل کرتے ہیں جس کے آخر میں ہے کہ
’’اسی وجہ سے مسلمانوں نے رسول اللہﷺ کی قبر انور پر آپ کی عبادت کا ذریعہ قطع کرنے میں بہت مبالغہ کیا اور آپ کی قبر کی دیواروں کو بہت اونچا کردیا اور ان میں داخلہ کو مسدود کردیا۔ پھر ان کو یہ خوف ہوا کہ کہیں آپ کی قبر کو قبلہ نہ بنالیا جائے تو اُنہوں نے قبر کے دو رکنوں پر دو دیواریں بنا دیں حتیٰ کہ کسی شخص کے لیے نماز میں عین قبر کی طرف منہ کرنا ممکن نہ ہوا۔ اسی وجہ سے حضرت عائشہؓ نے فرمایا تھا کہ اگر یہ خطرہ نہ ہوتا تو آپ کی قبر کو ظاہرکردیا جاتا۔‘‘ (نعمۃ الباري:۲؍۱۹۰)
٭ حضرت عائشہ ؓ اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں:
لما نَزَل برسول اﷲ ﷺ طفق یطرح خمیصة لہ علی وجھہٖ فاذا اغتم بھا کشفھا عن وجھہٖ فقال وھو کذلک لعنة اﷲ علی الیہود والنصارٰی اتخذوا قبور أنبیائھم مساجد یحذر ما صنعوا (بخاری:۴۳۵، مسلم:۵۳۱)
’’جب رسول اللہﷺ پر مرض الموت نازل ہوا تو رسول اللہﷺ نے اپنے چہرے پر سیاہ منقش چادر ڈالی۔ پھر جب آپ اس چادر سے تنگی محسوس کرتے تو آپ اس چادر کو چہرے سے ہٹا دیتے۔ پھر اسی حالت میں آپﷺنے فرمایا:یہود و نصاریٰ پراللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔ جنہوں نے انبیاء علیہم السلام کی قبروں کو مساجد بنا دیا آپ ان کے کیے ہوئے کاموں سے ڈرا رہے تھے۔‘‘ (ترجمہ از غلام رسول سعیدی بریلوی، نعمۃ الباري:۲؍۲۰۳)
جناب غلام رسول سعیدی بریلوی راقم ہیں کہ
’’بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ تاریخ میں اس کا ثبوت نہیں ہے کہ یہودیوں نے کسی نبی کی قبر کی پرستش کی ہو، اس کا جواب یہ ہے کہ کتب ِتاریخ میں کسی واقعہ کے مذکور نہ ہونے سے اس واقعہ کی نفی لازم نہیں آتی جب کہ ہمارے نزدیک کتب ِتاریخ کی بہ نسبت کتب ِاحادیث معتبر ہیں۔‘‘ (نعمۃ الباري:۲؍۲۰۴)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
خلاصہ:

دیکھیں پہلی اُمتوں کے لوگوں نے اپنے انبیا و صلحا کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا، ان کو قبلہ قرار دیا، ان کی طرف منہ کرکے نمازیں پڑھیں اور ان کی پرستش کی جبکہ آپﷺ نے مسلمانوں کو ایسے کاموں سے ڈرایا، روکا اور صحابہؓ نے اسی خطرے کے پیش نظر آپﷺ کی قبر کو کھلا نہیں چھوڑا بلکہ مسلمانوں نے آپﷺ کی قبر پر آپ کی عبادت کا ذریعہ قطع کرنے کے لیے مندرجہ بالا اقدامات کئے۔

معلوم ہواکہ آپﷺ اور صحابہؓ اس اُمت کے مسلمانوں کے شرک میں مبتلا ہونے سے بے خوف نہیں تھے، غور کریں۔ کیا یہود و نصاریٰ قبروں میں مدفون بزرگوں کو واجب الوجود مان کر یا ان کی کسی صفت کو قدیم اور مستقل بالذات مان کر یا ان کومستحق عبادت سمجھ کر ان کی پرستش کیا کرتے تھے؟ اور کیا ان قوموں میں بھی صرف شرکِ اصغر (ریاکاری) ہی پایا جاتا تھا ان میں شرکِ اکبر کے مرتکب لوگ نہیں تھے؟ اور کیا ان قوموں کے مشرکانہ عقائد و افعال اور شرکِ اکبر میں مبتلا ہونے کے اسباب و دواعی ان ہی کے ساتھ خاص تھے؟ اور کیا اس امت کے لوگ ان کے نقش قدم پرایسا نہیں کرسکتے؟

جبکہ حدیث مبارکہ میں تو نبی پاکﷺ کا فرمانِ مبارک بڑا ہی واضح ہے کہ
’’ لتتبعن سنن من قبلکم شبرا بشبر ودراعا بدراع حتی لو دخلوا جحر ضبّ لاتبعتموھم ‘‘ قلنا: یارسول اﷲ! الیھود والنصارٰی؟قال: ’’ فمن؟ ‘‘ (صحیح بخاری:۷۳۲۰ واللفظ لہ، مسلم:۲۶۶۹)
’’تم ضرور اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں پر چلو گے جیسا کہ بالشت کے برابر بالشت اور ہاتھ کے برابر ہاتھ حتیٰ کہ اگر وہ سانڈھے کی بل میں داخل ہوئے تھے تو تم بھی ان کی اتباع کرو گے۔ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ ! یہود و نصاریٰ؟ آپ نے فرمایااور کون؟‘‘
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
جزاک اللہ خیرا

کلیم حیدر بھائی اللہ تعالیٰ آپ سے دین کی خدمت کرواتا رہیں - ماشاء اللہ بہت اچھی طرح وضاحت کا ساتھ بیان کیا اس موضوع کو
 
Top