کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
6. اللہ تبارک ارشاد فرماتے ہیں:
ج. علامہ سید محمود آلوسی حنفی، اس آیت ِکریمہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
د. علامہ آلوسی حنفی تو قبروں کے لیے نذر و نیاز ماننے والوں اور قبروں والوں سے نفع و نقصان کا اعتقاد رکھنے والوں کو اسی آیت کریمہ کے تحت قبرپرست قرار دے کر ایسی آیت ان پر فٹ کرتے ہیں۔ (اور ان کو مشرک سمجھ رہے ہیں اور مشرک کہہ رہے ہیں)
ہ. اور اس دور کی جاہلیت ِجدیدہ کے ان جدید مفکرین کی طرح اس آیت ِکریمہ کو بتوں، ریا کاری یا قربِ قیامت کے متعلق کہہ کر ردّ نہیںکرتے اور نہ ہی اس کو کفار کے ساتھ خاص قرار دیتے ہیں۔
ح. پیر سید نصیرالدین گولڑوی سجادہ نشین درگاہ غوثیہ مہریہ گولڑہ شریف فرماتے ہیں :
ا. یہ آیت ِکریمہ بھی اس بارے میں نص صریح ہے کہ’’ وَمَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُھُمْ بِاﷲِ اِلَّا وَھُمْ مُشْرِکُوْنَ ‘‘ ( یوسف:۱۰۶)
’’اور ان میں سے اکثر لوگ اللہ پر ایمان لانے کے باوجود بھی شرک ہی کرتے ہیں۔‘‘ (ترجمہ: از مولانا غلام رسول سعیدی، تبیان القرآن:۵؍۸۷۵)
ب. حالانکہ کوئی بھی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو واجب الوجود مانتا ہے نہ اس کی کسی صفت کو قدیم اور مستقل بالذات مانتا ہے اور نہ اس کو مستحق عبادت قرار دیتا ہے لہٰذا شرک کے پائے جانے کے لیے اور کسی کے مشرک ہونے کے لیے یہ شرط درست نہیں ہے۔’’لوگ ایمان لانے کے باوجود بھی شرک کاارتکاب کرتے ہیں۔‘‘
ج. علامہ سید محمود آلوسی حنفی، اس آیت ِکریمہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
یاد رہے کہ اگر قبرپرستی بھی شرک ِاکبر نہیں ہے تو پھر کیا اُن کا جرم یہ ہے کہ وہ بت کو کھڑا کرکے پوجتے ہیں اس لیے شرک اکبر کے مرتکب ٹھہرے اوریہ دفن کرکے پوجنے سے شرک اکبر کی تعریف سے نکل جائیں۔سبحان اللہ! اور آستانوں اور مزارات پر اس کامشاہدہ بخوبی کیا جاسکتا ہے ۔ومن أولئک عبدة القبور الناذرون لھا،المعتقدون للنفع والضرّ ممن اﷲ تعالیٰ أعلم بحالہ فیھا وھم الیوم أکثر من الدود (روح المعاني:۱۳؍۶۷)
’’اور انہی میں سے ایک گروہ قبر پرست لوگوں کا ہے جو ان کیلئے نذر مانتے ہیں اور ایسے لوگوں سے نفع و نقصان کا اعتقاد رکھتے ہیں جن کے بارے میں اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ قبروں میں ان کی کیا حالت ہے اور ایسا کرنے والے لوگ تو آج کل کیڑوں مکوڑوں سے بھی زیادہ ہیں۔‘‘
د. علامہ آلوسی حنفی تو قبروں کے لیے نذر و نیاز ماننے والوں اور قبروں والوں سے نفع و نقصان کا اعتقاد رکھنے والوں کو اسی آیت کریمہ کے تحت قبرپرست قرار دے کر ایسی آیت ان پر فٹ کرتے ہیں۔ (اور ان کو مشرک سمجھ رہے ہیں اور مشرک کہہ رہے ہیں)
ہ. اور اس دور کی جاہلیت ِجدیدہ کے ان جدید مفکرین کی طرح اس آیت ِکریمہ کو بتوں، ریا کاری یا قربِ قیامت کے متعلق کہہ کر ردّ نہیںکرتے اور نہ ہی اس کو کفار کے ساتھ خاص قرار دیتے ہیں۔
ح. پیر سید نصیرالدین گولڑوی سجادہ نشین درگاہ غوثیہ مہریہ گولڑہ شریف فرماتے ہیں :
کیا یہ دونوں آیتیں ہم میں سے اکثر سنی کہلوانے والے محبانِ بزرگانِ دین کے نظریہ و فکر اور طرزِ عمل کی نشاندہی نہیں کررہیں؟ بارہا مشاہدہ میں آیا کہ جب کسی خوش عقیدہ اور زائد از ضرورت عقیدت مند کو کوئی فائدہ پہنچتا یاخوشی نصیب ہوتی ہے تو فوراً کہہ اٹھتا ہے کہ یہ میرے مرشد کاکام ہے، لیکن جب کوئی مصیبت اور تکلیف آدبوچتی ہے توکہنے لگتا ہے: اللہ کی مرضی… (مزید لکھتے ہیں)" وَإِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ دَعَوْا رَبَّھُمْ مُنِیْبِیْنَ اِلَیْہِ ثُمَّ إِذَا أذَاقَھُمْ مِنْہُ رَحْمَۃً إذَا فَرِیْقٌ مِّنْھُمْ بِرَبِّھِمْ یُشْرِکُوْنَ" (الروم :۳۳)
’’اور جب لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے ربّ کو پکارتے ہیں اس کی طرف رجوع لاتے ہوئے پھر جب وہ اُنہیں اپنے پاس سے رحمت کا مزہ دیتا ہے جبھی اُن میں سے ایک گروہ اپنے ربّ کا شریک ٹھہرانے لگتا ہے۔‘‘ (ترجمہ کنزالایمان)
’’دیکھیں یہی باتیں مشرکین اصنام میں تھیں اور یہی آج کے اکثر عقیدت مند مسلمان کہلوانے والوں میں ہیں تو کیا ان پر وہ آیات خود فٹ نہیں آرہیں؟‘‘ (اعانت و استعانت:ص ۹۵،۹۶)