ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
اِختلاف قراء ت پر مبنی مصحف کی اِشاعت کے خلاف منفی
پراپیگنڈہ … حقائق کیا ہیں؟
محمد عطاء اللہ صدیقی
اِسے فکر وتدبر کی موت کہا جائے، فہم و اِدراک کا قصور یا پھر شیطانی فطرت کے فتور کا نام دیا جائے کہ یکے از سفیہان عروس البلاد (کراچی) کو الہام ہوا ہے (ملہم قادیان کے ہفوات ذہن میں رہیں) کہ خطۂ پنجاب (لاہور) سے ’غالی اہل حدیثوں‘ کا ایک گروہ قاریوں کے اختلاف والے ۱۶ قرآنی مصاحف شائع کرنے کا پورا منصوبہ بنا چکا ہے جس سے مسلمانوں میں ’سخت تشویش‘ کے پیدا ہونے کے ’خطرات‘ پائے جاتے ہیں۔ ماہنامہ ’رُشد‘ کے جون ۲۰۰۹ء کے شمارے میں جب سے اس ذات شریف نے اس ’خبر‘ کا مطالعہ کیا ہے’غیرتِ ایمانی‘ کا ایک جوار بھاٹا ان کے قلب کو گرمائے جارہا ہے۔ موصوف نے پاکستان کے مسلمانوں کو اس فتنۂ ملہمہ کے متعلق ’باخبر‘ کرنے کے لیے ہاہاکار کا ایک بازار گرم کر رکھا ہے۔ اس ضمن میں موصوف نے کراچی کے ایک مفتی حضرت محمد طاہر مکی صاحب کی فتویٰ ساز فیکٹری سے فرمائشی مال کے طور پر ایک طویل فتویٰ بھی حاصل کیا ہے جس پر ان کے علم و فضل کا چوکھا رنگ چڑھا ہوا ہے۔ قبلہ مفتی صاحب، خدا ان کے ’علم و فضل‘ کا سایہ اس’ جاہل اُمت‘ کے سرپر ہمیشہ قائم رکھے۔ (آمین)نے تمام مالہ وما علیہ کا عرق ریزی سے مطالعہ کرنے کے بعد مسلمانوں کو بروقت ’خبردار‘ کیا ہے کہ مصاحف کی شکل میں اِختلاف قراء ت کو شائع کرنے سے منع کرنا ان پر ’واجب‘ ہے، مفتی صاحب قبلہ نے اپنے فتویٰ میں عوام کو یہ ’خوشخبری‘ بھی سنائی ہے کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے حکومت پنجاب نے اختلاف قراء ت کے حوالے سے قرآن کے اختلافی مصاحف چھاپنے والوں کے خلاف نوٹس لے لیا ہے۔ وہ ذاتِ شریف جن کی ذاتی کاوشوں کے نتیجے میں دانائے روزگار (اس کی وضاحت آگے آرہی ہے) مفتی محمد طاہر مکی صاحب کے اِلہامی قلم سے مذکورۃ الصدر فتوی کا ظہور عمل میں آیا ہے اور جن کی درخواست پر حکومت پنجاب نے اس معاملے کا ’نوٹس‘ لینے کی زحمت گوارا کی ہے، ذاکر حسین کے نام نامی سے متہم ہے۔ انہوں نے ’استفادہ عوام‘ کے لیے (ہمیں حسنِ ظن ہے کہ اپنی جیب سے) ماہنامہ ’رُشد ‘کا متعلقہ صفحہ ۶۷۸، مفتی صاحب کا طویل فتویٰ ،اپنی درخواست (بزبانِ انگریزی) اور حکومت پنجاب کی طرف سے جاری کردہ نوٹس کو شائع کراکے پھیلا دیا ہے۔ ہم اپنے بخت کی سرفرازی پر نازاں ہیں کہ اس عظیم ’تبلیغی لٹریچر‘ کا مطالعہ کرنے والوں میں ہمارا مرتبہ ’سابقون الاوّلون‘ میں شمار کیا جائے گا۔مذکورہ بالا تمہید کے بعد ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ذاکر حسین کی ’شکایت‘ کی حقیقت سے قارئین کو آگاہ کیا جائے۔ مذکورۃ الصدر فتویٰ، حکومتی نوٹس اور دیگر متعلقہ دستاویزات کے متعلق ناقدانہ تبصرہ بھی ان سطور کا بنیادی موضوع ہے۔ اگر ہوسکا تو پردہ نشینوں کے سازشی اَذہان اور اس تحریکخبیثہ کے حقیقی محرکات پر اظہارِ خیال کیا جائے گا۔