mubashirnazir
مبتدی
- شمولیت
- مئی 12، 2011
- پیغامات
- 9
- ری ایکشن اسکور
- 46
- پوائنٹ
- 0
اس تحریر کو پی ڈی ایف فارمیٹ میں ڈاون لوڈ کرنے کے لیے اس لنک پر کلک کیجیے:
How to build our personality? اپنی شخصیت اور کردار کی تعمیر کیسے کی &#
علم نفسیات (Psychology) میں شخصیت کا مطالعہ ایک دلچسپ موضوع ہے۔ شخصیت کی ایک جامع و مانع تعریف کرنا بہت مشکل ہے۔ سادہ الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کسی انسان کی شخصیت اس کی ظاہری و باطنی اور اکتسابی و غیر اکتسابی خصوصیات (Personality Attributes) کا مجموعہ ہے۔ اگر کوئی ہم سے پوچھے کہ تمھارے دوست کی شخصیت کیسی ہے؟ تو ہم جواب میں فوراً اس کی چند صفات کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ محنتی، وقت کا پابند، ذہین اور مخلص ہے۔
ان میں سے بہت سی خصوصیات مستقل ہوتی ہیں، لیکن طویل عرصے کے دوران ان میں تبدیلیاں بھی پیدا ہوتی رہتی ہے اور انہی خصوصیات کی بنیاد پر ایک شخص دوسرے سے الگ نظر آتا ہے اور ہر معاملے میں دوسروں سے مختلف رویے اور کردار کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اگر کسی کی شخصیت کو درست طور پر جان لیا جائے تو پیش گوئی کی جاسکتی ہے کہ وہ فرد مخصوص حالات میں کیا کرے گا۔ ان میں سے بعض صفات عارضی حالات کی پیداوار بھی ہوتی ہیں۔ علم نفسیات کی طرح شخصیت اور کردار کی تعمیر دین کا بھی اہم ترین موضوع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی جو ہدایت انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے ذریعے دنیا میں بھیجی ہے ، اس کا بنیادی مقصد ہی انسان کی شخصیت اور کردار کی صفائی ہے۔ اسی کا نام ’’تزکیہ نفس‘‘ ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الأُمِّيِّينَ رَسُولاً مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمْ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ (الجمعہ 62:2) ’’وہی ذات ہے جس نے ان امیوں میں ایک رسول انہی میں سے اٹھایا ہے جو اس کی آیتیں ان پر تلاوت کرتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور (اس کے لئے) انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘ انسان کی یہ خصوصیات بنیادی طور پر دو قسم کی ہیں: ایک تو وہ ہیں جو اسے براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملی ہیں ۔ یہ غیر اکتسابی یا قدرتی صفات کہلاتی ہیں۔ دوسری وہ خصوصیات ہیں جنہیں انسان اپنے اندر یا تو خود پیدا کر سکتا ہے یا پھر اپنی قدرتی صفات میں کچھ تبدیلیاں پیدا کرکے انہیں حاصل کرسکتا ہے یا پھر یہ اس کے ماحول کی پیداوار ہوتی ہیں۔ یہ اکتسابی صفات کہلاتی ہیں۔ قدرتی صفات میں ہمارا رنگ، نسل ، شکل و صورت ، جسمانی ساخت ، ذہنی صلاحیتیں وغیرہ شامل ہیں۔ اکتسابی صفات میں انسان کی علمی سطح، اس کا پیشہ، اس کی فکر وغیرہ شامل ہیں۔
شخصیت کی تعمیر ان دونوں طرز کی صفات کو مناسب حد تک ترقی دینے کرنے کا نام ہے۔ انسان کو چاہئے کہ وہ اپنی شخصیت کو دلکش بنانے کے لئے اپنی قدرتی صفات کو ترقی دے کر ایک مناسب سطح پر لے آئے اور اکتسابی صفات کی تعمیر کا عمل بھی جاری رکھے۔ شخصیت کے باب میں ہمارے نزدیک سب سے اعلیٰ و ارفع اور آئیڈیل ترین شخصیت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ہے۔ اعلیٰ ترین صفات کا اس قدر حسین امتزاج ہمیں کسی او رشخصیت میں نظر نہیں آتا۔ آپ بحیثیت ایک انسان اتنی غیرمعمولی شخصیت رکھتے ہیں، کہ آپ کی عظمت کا اعتراف آپ کے مخالفین نے بھی کیا۔ دور جدید کے متعصب مغربی مفکرین نے بھی آپ کی شخصیت اور کردار کی عظمت کو کھلے لفظوں میں بیان کیا ہے۔
قرآن مجید اور صحیح احادیث سے ہمیں سابقہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی شخصیات کے بہت سے اعلیٰ پہلو ملتے ہیں لیکن ان سب میں مسئلہ یہ ہے کہ ان کے بارے میں صحیح اور درست معلومات بہت کم میسر ہیں۔ یہ خصوصیت صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو حاصل ہے کہ آپ کی سیرت طیبہ کا تفصیلی ریکارڈ ہمارے پاس موجود ہے۔ آپ کے زیر تربیت صحابہ کرام علیہم الرضوان میں بھی ہمیں اعلیٰ شخصی صفات بدرجہ اتم ملتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری اس تحریر میں آپ کو جگہ جگہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی سیرت سے حوالے ملیں گے۔ انسان کی شخصیت کے دو پہلو ہیں۔ ایک اس کا ظاہر اور دوسرا اس کا باطن۔ انسان کا ظاہر وہ ہے جو دوسرے لوگوں کو واضح طور پر نظر آتا ہے۔ اس میں اس کی ظاہری شباہت اور رویے شامل ہیں۔ باطن میں انسان کی عقل، علم، جذبات، احساسات اور رجحانات شامل ہیں۔ عام طور پر انسانوں کا ظاہر ان کے باطن ہی کا عکس ہوتا ہے البتہ بعض افراد عارضی طور پر اپنے باطن پر پردہ ڈالنے میں کامیاب ہو ہی جاتے ہیں۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے کہ ان میں سے بعض صفات مستقل نوعیت کی ہوتی ہیں جبکہ کچھ کیفیات عارضی نوعیت کی ۔ انسان کی مستقل صفات وہ ہوتی ہیں جو ایک طویل عرصے میں ارتقاء پذیر ہوتی ہیں اور ان میں تبدیلیاں بہت آہستہ آہستہ آتی ہیں۔ یہ صفات انسان کی پوری عمر اس کے ساتھ رہتی ہیں۔ مثلاً انسان کی علمی و عقلی سطح ایک طویل عرصے میں ہی بلند ہوتی ہے اور اس میں تبدیلی کی رفتار کو سالوں میں ناپا جاتا ہے۔ اس کے برعکس انسان کی خوشی یا غمی ایک عارضی کیفیت ہے جو ہر تھوڑی دیر کے بعد بدل جاتی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ایک شخص پانچ بجے خوش ہو لیکن ساڑھے پانچ بجے کسی وجہ سے غمگین ہو گیا ہو۔ انسان کی مستقل صفات اس کی عارضی کیفیتوں پر اثر انداز ہوتی رہتی ہیں۔ اگر انسان اپنی عارضی کیفیتوں میں بھی ایک مخصوص رویہ اختیار کرنے لگ جائے تو یہ بھی اس کی شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے۔ مثلاً ایک شخص اگر بات بات پر بھڑک اٹھتا ہو تو سب لوگ اس کی شخصیت کے تصور میں اس کا غصہ ور ہونا بھی شامل کر دیتے ہیں۔ ذیل میں ہم انسان کی شخصیت کے ان دونوں پہلوؤں کی تفصیلی صفات کی ایک نامکمل فہرست دے رہے ہیں۔ آپ مزید غور و فکر کرکے اس فہرست میں اضافہ کرسکتے ہیں۔
How to build our personality? اپنی شخصیت اور کردار کی تعمیر کیسے کی &#
علم نفسیات (Psychology) میں شخصیت کا مطالعہ ایک دلچسپ موضوع ہے۔ شخصیت کی ایک جامع و مانع تعریف کرنا بہت مشکل ہے۔ سادہ الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کسی انسان کی شخصیت اس کی ظاہری و باطنی اور اکتسابی و غیر اکتسابی خصوصیات (Personality Attributes) کا مجموعہ ہے۔ اگر کوئی ہم سے پوچھے کہ تمھارے دوست کی شخصیت کیسی ہے؟ تو ہم جواب میں فوراً اس کی چند صفات کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ محنتی، وقت کا پابند، ذہین اور مخلص ہے۔
ان میں سے بہت سی خصوصیات مستقل ہوتی ہیں، لیکن طویل عرصے کے دوران ان میں تبدیلیاں بھی پیدا ہوتی رہتی ہے اور انہی خصوصیات کی بنیاد پر ایک شخص دوسرے سے الگ نظر آتا ہے اور ہر معاملے میں دوسروں سے مختلف رویے اور کردار کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اگر کسی کی شخصیت کو درست طور پر جان لیا جائے تو پیش گوئی کی جاسکتی ہے کہ وہ فرد مخصوص حالات میں کیا کرے گا۔ ان میں سے بعض صفات عارضی حالات کی پیداوار بھی ہوتی ہیں۔ علم نفسیات کی طرح شخصیت اور کردار کی تعمیر دین کا بھی اہم ترین موضوع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی جو ہدایت انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے ذریعے دنیا میں بھیجی ہے ، اس کا بنیادی مقصد ہی انسان کی شخصیت اور کردار کی صفائی ہے۔ اسی کا نام ’’تزکیہ نفس‘‘ ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الأُمِّيِّينَ رَسُولاً مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمْ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ (الجمعہ 62:2) ’’وہی ذات ہے جس نے ان امیوں میں ایک رسول انہی میں سے اٹھایا ہے جو اس کی آیتیں ان پر تلاوت کرتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور (اس کے لئے) انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘ انسان کی یہ خصوصیات بنیادی طور پر دو قسم کی ہیں: ایک تو وہ ہیں جو اسے براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملی ہیں ۔ یہ غیر اکتسابی یا قدرتی صفات کہلاتی ہیں۔ دوسری وہ خصوصیات ہیں جنہیں انسان اپنے اندر یا تو خود پیدا کر سکتا ہے یا پھر اپنی قدرتی صفات میں کچھ تبدیلیاں پیدا کرکے انہیں حاصل کرسکتا ہے یا پھر یہ اس کے ماحول کی پیداوار ہوتی ہیں۔ یہ اکتسابی صفات کہلاتی ہیں۔ قدرتی صفات میں ہمارا رنگ، نسل ، شکل و صورت ، جسمانی ساخت ، ذہنی صلاحیتیں وغیرہ شامل ہیں۔ اکتسابی صفات میں انسان کی علمی سطح، اس کا پیشہ، اس کی فکر وغیرہ شامل ہیں۔
شخصیت کی تعمیر ان دونوں طرز کی صفات کو مناسب حد تک ترقی دینے کرنے کا نام ہے۔ انسان کو چاہئے کہ وہ اپنی شخصیت کو دلکش بنانے کے لئے اپنی قدرتی صفات کو ترقی دے کر ایک مناسب سطح پر لے آئے اور اکتسابی صفات کی تعمیر کا عمل بھی جاری رکھے۔ شخصیت کے باب میں ہمارے نزدیک سب سے اعلیٰ و ارفع اور آئیڈیل ترین شخصیت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ہے۔ اعلیٰ ترین صفات کا اس قدر حسین امتزاج ہمیں کسی او رشخصیت میں نظر نہیں آتا۔ آپ بحیثیت ایک انسان اتنی غیرمعمولی شخصیت رکھتے ہیں، کہ آپ کی عظمت کا اعتراف آپ کے مخالفین نے بھی کیا۔ دور جدید کے متعصب مغربی مفکرین نے بھی آپ کی شخصیت اور کردار کی عظمت کو کھلے لفظوں میں بیان کیا ہے۔
قرآن مجید اور صحیح احادیث سے ہمیں سابقہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی شخصیات کے بہت سے اعلیٰ پہلو ملتے ہیں لیکن ان سب میں مسئلہ یہ ہے کہ ان کے بارے میں صحیح اور درست معلومات بہت کم میسر ہیں۔ یہ خصوصیت صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو حاصل ہے کہ آپ کی سیرت طیبہ کا تفصیلی ریکارڈ ہمارے پاس موجود ہے۔ آپ کے زیر تربیت صحابہ کرام علیہم الرضوان میں بھی ہمیں اعلیٰ شخصی صفات بدرجہ اتم ملتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری اس تحریر میں آپ کو جگہ جگہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی سیرت سے حوالے ملیں گے۔ انسان کی شخصیت کے دو پہلو ہیں۔ ایک اس کا ظاہر اور دوسرا اس کا باطن۔ انسان کا ظاہر وہ ہے جو دوسرے لوگوں کو واضح طور پر نظر آتا ہے۔ اس میں اس کی ظاہری شباہت اور رویے شامل ہیں۔ باطن میں انسان کی عقل، علم، جذبات، احساسات اور رجحانات شامل ہیں۔ عام طور پر انسانوں کا ظاہر ان کے باطن ہی کا عکس ہوتا ہے البتہ بعض افراد عارضی طور پر اپنے باطن پر پردہ ڈالنے میں کامیاب ہو ہی جاتے ہیں۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے کہ ان میں سے بعض صفات مستقل نوعیت کی ہوتی ہیں جبکہ کچھ کیفیات عارضی نوعیت کی ۔ انسان کی مستقل صفات وہ ہوتی ہیں جو ایک طویل عرصے میں ارتقاء پذیر ہوتی ہیں اور ان میں تبدیلیاں بہت آہستہ آہستہ آتی ہیں۔ یہ صفات انسان کی پوری عمر اس کے ساتھ رہتی ہیں۔ مثلاً انسان کی علمی و عقلی سطح ایک طویل عرصے میں ہی بلند ہوتی ہے اور اس میں تبدیلی کی رفتار کو سالوں میں ناپا جاتا ہے۔ اس کے برعکس انسان کی خوشی یا غمی ایک عارضی کیفیت ہے جو ہر تھوڑی دیر کے بعد بدل جاتی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ایک شخص پانچ بجے خوش ہو لیکن ساڑھے پانچ بجے کسی وجہ سے غمگین ہو گیا ہو۔ انسان کی مستقل صفات اس کی عارضی کیفیتوں پر اثر انداز ہوتی رہتی ہیں۔ اگر انسان اپنی عارضی کیفیتوں میں بھی ایک مخصوص رویہ اختیار کرنے لگ جائے تو یہ بھی اس کی شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے۔ مثلاً ایک شخص اگر بات بات پر بھڑک اٹھتا ہو تو سب لوگ اس کی شخصیت کے تصور میں اس کا غصہ ور ہونا بھی شامل کر دیتے ہیں۔ ذیل میں ہم انسان کی شخصیت کے ان دونوں پہلوؤں کی تفصیلی صفات کی ایک نامکمل فہرست دے رہے ہیں۔ آپ مزید غور و فکر کرکے اس فہرست میں اضافہ کرسکتے ہیں۔