السلام علیکم،
محترم اسحاق سلفی بھائی ،
مندرجہ ذیل حدیث المستدرک للحاکم میں 1515 پر موجود ہے ۔ اس کا ترجمہ درکار ہے ، مجھے لگتا ہے کہ اردو والے نسخے میں اسکا ترجمہ غلط ہوا ہے ۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَفَى بِالْمَرْءِ إِثْمًا أَنْ يُضَيِّعَ مَنْ يَقُوتُ»
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
مستدرک حاکم کا ترجمہ کرنے والے بریلوی محمد شفیق الرحمن قادری رضوی نےاس حدیث کا ترجمہ یہ کیا ہے :
"حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :آدمی کے گنہ گار ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنی لگی ہوئی روزی بلاوجہ چھوڑدے "
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
اب یہ حدیث اصل مصادر سے صحیح ترجمہ و شرح کے ساتھ پیش ہے ؛
اپنے اہل و عیال کی ضروریات کا خیال رکھنا
مسند احمد(6842 ) اور مسند ابو داود الطیالسی (2395) میں حدیث شریف ہے کہ :
حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن أبي إسحاق، سمعت وهب بن جابر، يقول : إن مولى لعبد الله بن عمرو، قال له: إني أريد أن أقيم هذا الشهر هاهنا ببيت المقدس؟ فقال له: تركت لأهلك ما يقوتهم هذا الشهر؟ قال: لا، قال: فارجع إلى أهلك فاترك لهم ما يقوتهم، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " كفى بالمرء إثما أن يضيع من يقوت "
علامہ شعیب ارناؤط اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں :
حديث صحيح، وهذا إسناد حسن،
ترجمہ : وہب بن جابر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عبداللہ ابن عمرو رضی اللہ عنہ کے ایک غلام نے ان سے کہا کہ میں یہاں بیت المقدس میں ایک ماہ قیام کرنا چاہتا ہوں انہوں نے فرمایا کیا تم نے اپنے اہل خانہ کے لئے اس مہینے کی غذائی ضروریات کا انتظام کردیا ہے ؟ اس نے کہا نہیں انہوں نے فرمایا پھر اپنے اہل خانہ کے پاس جا کر ان کے لئے اس کا انتظام کرو کیونکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ انسان کے گناہ گار ہونے کے لئے یہی بات کافی ہے کہ وہ ان لوگوں کو ضائع کردے جن کی روزی کا وہ ذمہ دار ہو (مثلاً ضعیف والدین اور بیوی بچے) "
اور سنن ابی داود (1692 ) میں ہے کہ :
حدثنا محمد بن كثير، اخبرنا سفيان، حدثنا ابو إسحاق، عن وهب بن جابر الخيواني، عن عبد الله بن عمرو، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "كفى بالمرء إثما ان يضيع من يقوت".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کے گنہگار ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ ان لوگوں کو جن کے اخراجات کی ذمہ داری اس کے اوپر ہے ضائع کر دے “۔
علامہ ناصرالدین البانیؒ نے اسے حسن کہا ہے "
اس کے مطلب کی وضاحت کیلئے مترجم نے حاشیہ میں لکھا ہے :
وضاحت: یعنی جن کی کفالت اس کے ذمہ ہو ان سے قطع تعلق کر کے نیکی کے دوسرے کاموں میں اپنا مال خرچ کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور شیخ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ نے ریاض الصالحین (حدیث 296 جلد اول ص285 ) میں اس کا ترجمہ کیا ہے :
عن عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنهما، قَالَ: قَالَ رَسُول الله - صلى الله عليه وسلم: «كَفَى بِالمَرْءِ إثْمًا أَنْ يُضَيِّعَ مَنْ يَقُوتُ» حديث صحيح رواه أَبُو داود وغيره.ورواه مسلم في صحيحه بمعناه، قَالَ: «كَفَى بِالمَرْءِ إثْمًا أَنْ يحْبِسَ عَمَّنْ يَمْلِكُ قُوتَهُ»
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”آدمی کے گناہ گار ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ جن کی روزی کا ذمہ دار ہے، ان ( کےحقوق ) کوضائع کر دے۔(یعنی ان کے نان و نفقہ میں کوتاہی کرے "
(امام نوویؒ فرماتے ہیں ) یہ حدیث صحیح ہے جسے ابوداود وغیرہ نے روایت کیا ہے ،اور صحیح مسلم میں اس کے ہم معنی روایت ہے جس میں آپ ﷺ نے فرمایا :آدمی کے گناہ کیلئے یہی کافی ہے کہ جس کی خوراک کا ذمہ دار ہے اس سے ہاتھ روک لے "
فوائد از حافظ صلاح الدین یوسف : (اس حدیث کا ) مطلب یہ ہے کہ اپنے اہل و عیال کی کفالت سے غفلت یا اعراض اتنا بڑا گناہ ہے کہ اگر اس کے نامہ اعمال میں اس کوتاہی کے علاوہ کوئی اور گناہ نہ بھی ہو ،تب بھی عنداللہ مواخذہ کیلئے یہی کافی ہے ۔
علاوہ ازیں اس حدیث کے الفاظ میں اتنی عمومیت ہے کہ اس میں اہل و عیال کے علاوہ خادم اور نوکر چاکر بھی آجاتے ہیں ،کیونکہ انسان ان کی بھی خوراک کا ذمہ دار ہوتا ہے ، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ خادموں،ملازموں اور نوکروں چاکروں کی بھی خوراک اور انسانی ضروریات کا مہیا کرنا مالک کی ذمہ داری ہے ،اور اس میں کوتاہی عنداللہ جرم ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس حدیث کا معنی و مطلب
مصر کے نامور عالم اور محدث علامہ شیخ ابو اسحاق الحوینی الحجازی فرماتے ہیں :
وجوب النفقة على الأهل،
اہل وعیال کا خرچہ واجب ہونا
قال صلى الله عليه وسلم: ( كفى بالمرء إثماً أن يضيع من يقوت ) ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کے گنہگار ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ ان لوگوں کو جن کے اخراجات کی ذمہ داری اس کے اوپر ہے ضائع کر دے ،
وفي رواية: ( أن يضيع من يعول )،
اور ایک روایت کے الفاظ ہیں :جن کے اخراجات اور پالنے کی ذمہ اس پر ہو ان کو ضائع کردے ۔
وفي مسلم: ( كفى بالمرء إثماً أن يحبس عمن يملك قوته )
اور صحیح مسلم کی روایت کے الفاظ ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ”آدمی کو اتنا ہی گناہ کافی ہے کہ جس کو خرچ دیتا ہے اس کا خرچ روک رکھے۔“
وكلمة (كفى إثماً) تدل على عظم هذا الإثم، أي: يكفيه من الإثم أن يضيع زوجته وأولاده، أن يضيع من يقوت، فلا يجوز أن تحبس النفقة عن الأولاد
اور اس حدیث کا کلمہ (کفیٰ اِثماً ) گناہگار ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے " اس گناہ کے بڑا ہونے پر دلالت کرتا ہے ، مطلب یہ کہ اسے اتنا گناہ ہی (گرفتار عذاب ہونے کیلئے ) کافی ہے کہ وہ اپنی بیوی اور اولاد کو جن کی پرورش اور ضروریات کی ذمہ اس پر ہے ان کو ضائع کردے ، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اولاد کا خرچ اور ضروریات روک لینا جائز نہیں ،
http://islamport.com/w/amm/Web/1478/1499.htm
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور صحیح مسلم ،کتاب الزکاۃ ،باب فضل النفقۃ علی العیال میں یہ حدیث اس طرح ہے :
عَنْ خَيْثَمَةَ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا مَعَ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، إِذْ جَاءَهُ قَهْرَمَانٌ لَهُ فَدَخَلَ، فَقَالَ: أَعْطَيْتَ الرَّقِيقَ قُوتَهُمْ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَانْطَلِقْ فَأَعْطِهِمْ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَفَى بِالْمَرْءِ إِثْمًا أَنْ يَحْبِسَ، عَمَّنْ يَمْلِكُ قُوتَهُ»
ترجمہ : سیدنا خیثمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھے تھے کہ ان کا داروغہ آیا اور انہوں نے پوچھا کہ تم نے غلاموں کو خرچ دے دیا؟ اس نے کہا: نہیں۔ انہوں نے کہا: دے دو، اس لیے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ”آدمی کو اتنا ہی گناہ کافی ہے کہ جس کو خرچ دیتا ہے (یا جن کا خرچ اس کے ذمہ ہے ) ان کا خرچ روک رکھے۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اس معنی کی دیگر احادیث دیکھئے :
عن أنس رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : " إن الله سائل كل راع عما استرعاه ، أحفظ ذلك أم ضيع ، حتى يسأل الرجل عن أهل بيته " رواه ابن حبان
سیدناانس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( اللہ تعالی ہر ایک سے اس کی رعایا کے متعلق سوال کرے گا کہ آیا اس نے ان کی حفاظت کی یا کہ ضائع کردیا ، حتی کہ آدمی کو اس کے اہل خانہ کے متعلق بھی سوال کیا جاۓ گا ) صحیح ابن حبان ۔
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : " والله لأن يغدو أحدكم فيحتطب على ظهره ، فيبيعه ويستغني به ، ويتصدق منه خير له من أن يأتي رجلاً فيسأله ، يؤتيه أو يمنعه ، وذلك أن اليد العليا خير من اليد السفلى ، وابدأ بمن تعول " رواه مسلم 3/96 .
وفي رواية عند أحمد 2/524 : فقيل : من أعول يا رسول الله ؟ قال : امرأتك ممن تعول " .
ترجمہ : سیدناابوھریرہ رضی اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوۓ سنا : ( اللہ کی قسم تم میں سے کسی ایک کے لۓ یہ بہتر ہے کہ وہ جاکر لکڑیاں کاٹے اوراپنی پیٹھ پر اٹھا ۓ اور انہیں بیچ کر غنا حاصل کرے اور اس میں سے صدقہ کرے یہ سوال کرنے والے شخص سے بہتر ہے کہ اسے کچھ دیاجاۓ یا نہ دیا جاۓ ، اور یہ اس لئے کہ اوپروالا ھاتھ (دینے والا ) نیچے والے ھاتھ (لینے والے ) سے بہتر ہے اور جن کی تو کفالت کرتا ہے ان سے ابتدا کر )
(صحیح مسلم ( 3 / 96 )
اوردوسری روایت میں ہےکہ ( آپ سے یہ کہا گيا کہ اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میری کفالت میں کون ہیں ؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تیری بیوی ان شامل ہے جن کی تو کفالت کرتا ہے )
(مسند احمد ( 2 / 524 )
وفي حديث جابر بن سمرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : " إذا أعطى الله أحدكم خيراً فليبدأ بنفسه وأهل بيته " رواه مسلم 1454 .
ترجمہ :
سیدناجابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( جب اللہ تعالی نے تمہیں کوئی بھلائی اور خیر (مال ودولت ) عطا کی ہو تو اسے خرچ کرنے کی ابتدا اپنے آپ اور اپنے اہل عیال پر کرنی چاہیئے ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1454 )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔