• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اچھی اور بری صحبت کے أثرات

قاری مصطفی راسخ

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 07، 2012
پیغامات
664
ری ایکشن اسکور
742
پوائنٹ
301
اچھی اور بری صحبت کے أثرات

الحمدللّٰہ رب العالمین،والصلاۃ والسلام علی نبینا محمد ﷺ،وعلی آلہ وصحبہ ومن دعا بدعوتہ الی یوم الدین۔أما بعد
اچھا دوست:
وہ ہے جو اللہ کا مطیع وفرمانبردارہو ،اس کے اوامر کی پابندی کرنیوالا ،منہیات سے دور رہنے والا،فرائض کو ادا کرنے والا،سنن کی پابندی کرنے والا،حدود اللہ کا لحاظ رکھنے والا،اچھے اور اعلی اخلاق سے پیش آنے والا،برے اخلاق سے بچنے والا،صلہ رحمی کرنے والا،والدین سے حسن سلوک کرنیوالا ، ہمسائے سے احسان کرنے والا،بردبار عاجز ،لوگوں کے کام آنے والا اورلوگوںکواذیت دینے سے دور رہنے والا ہو۔
برا دوست:
وہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول کا باغی ہو،فرائض میں کوتاہی کرنے والا،منہیات میں جرأت کرنے والا،حدود اللہ کو پامال کرنے والا،برے اخلاق سے پیش آنے والا،قطع رحمی کرنے والا،والدین کا نافرمان،ہمسائے سے برائی کرنے والا،جلد اور بہت زیادہ غصہ کرنے والا،متکبراور لوگوں کو اذیت دینے والا ہو۔گویا کہ عقیدہ عمل اور سلوک کرنے میں دین سے منحرف ہو۔
اچھی صحبت کے اثرات:بے شک انسانی زندگی پر اچھی صحبت کے اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں کیونکہ اچھا دوست آپ کو خیر اور بھلائی کی جانب راہنمائی کرے گا۔اور آپ کو دین ودنیا کی بہتری کا مشورہ دے گا۔اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری پر راغب کرے گا جبکہ آپ کے عیوب کی بھی نشاندہی کرتا رہے گا۔برے اخلاق چھوڑ کر اچھے اخلاق اپنانے کی دعوت دے گا۔یا کم از کم آپ اس کی نیکی کو دیکھ کر خود نیکی کرنے کی کوشش کریں گے۔آپ کی موجوگی یا عدم موجودگی میں آپ کی خیر خواہی کرے گا اور آپ کی زندگی یا موت کے بعدآپ کے لئے دعا مغفرت کرے گا۔
بری صحبت کے اثرات:جس طرح اچھی صحبت سے انسانی زندگی پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں اسی طرح بری صحبت اختیار کرنے سے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔کیونکہ برے دوست کے تمام احوال ونقائص میں آپ اس کے برابر کے شریک ہیں۔اور سب سے برا اثر جو انسان پر مرتب ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ یا تو برا دوست آپ کو بھی برائی میں شرکت کی دعوت دے گاجو آپ کے دین و دنیا دونوں کے لئے مضر ہے یا پھر برائی پر آپ کی حوصلہ افزائی کرے گا۔اور آپ کو والدین کی نافرمانی اورقطع رحمی پر ابھارے گا۔آپ کے رازوں کو مخفی رکھے گا تاکہ آپ اپنے گناہوں کو جاری رکھیں۔نیز آپ کی عدم موجودگی میںآپ کے رازوں کو افشاء کردینا آپ کے لئے ذلت ورسوائی کا سبب ہو گا۔ انسان اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے اور اپنے دوستوں کے دین پر ہوتا ہے جیسا کہ کسی شاعر کا کلام ہے:
عن المرء لا تسئل وسل عن قرینہ فکل قرین بالمقارن یقتدی
کسی بھی آدمی کے بارے میں مت پوچھ! بلکہ اس کے دوست کے متعلق پوچھ۔کیونکہ دوست اپنے دوستوں کے پیروکار ہوتے ہیں۔
حضرت ابو موسی اشعری سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اچھے دوست اور برے دوست کی مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا:
((مثل الجلیس الصالح والجلیس السوء کحامل المسک ونافخ الکیر ،فحامل المسک اما أن یحذیک ،واما أن تبتاع منہ،واما أن تجد منہ ریحا طیبۃ،ونافخ الکیر اما أن یحرق ثیابک،واما أن تجد منہ ریحاخبیثۃ))[متفق علیہ]
’’اچھے دوست اور برے دوست کی مثال کستوری اٹھانے والے اور بھٹی جھونکنے والے کی مانند ہے،کستوری اٹھانے والا یا تو آپ کو ہدیہ میں دے دیگایا آپ اس سے خرید لیں گے یا کم از کم اچھی خوشبو تو پائیں گے،جبکہ بھٹی جھونکنے والا آپ کے کپڑوں کو جلا دے گا یا کم از کم آپ اس سے بدبوپائیں گے۔‘‘
نبی کریم ﷺ نے اس مثال کے ذریعہ معقول کو محسوس کے قریب کر دیا ہے۔جس سے صحبت کے اثرات کوسمجھنے میں مدد ملے گی۔کہ جس طرح کستوری والے کے پاس بیٹھنے سے فائدہ ہی فائدہ ہے اسی طرح اچھی صحبت اختیار کرنے سے انسان خیر اور بھلائی میں رہتا ہے جبکہ بھٹی جھونکنے والے پاس بیٹھنے سے نقصان ہی نقصان ہے اسی بری صحبت اختیار کرنے سے انسان خسارہ میں ہی رہتا ہے۔
نیک لوگوں کے ساتھ محبت اور ان کی صحبت اختیار کرنے کے فوائد
نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے ان کے ساتھ بیٹھنے اور ان سے محبت کرنے کی فضیلت میں کتاب وسنت میں بہت ساری نصوص وارد ہیں۔جیسا کہ حضرت ابوسعید خدری روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
((لاتصاحب الا مؤمناولا یأکل طعامک الا تقی)) [ابوداؤد،ترمذی]
’’صرف مومن شخص کی صحبت اختیار کر،اور تیرا کھانا صرف متقی شخص کھائے۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
((الرجل علی دین خلیلہ فلینظر أحدکم من یخالل))[ابوداؤد،ترمذی]
’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے،پس چاہئیے کہ تم میں سے ہر شخص اپنے دوست کو دیکھے۔‘‘
حضرت ابوموسی أشعری روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
((المرء مع من أحب))
’’آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس سے محبت کرتا ہے۔‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا کہ جو شخص کسی قوم کے ساتھ محبت کرتا ہے اسے اس قوم کے ساتھ ملحق کیوں کر دیا جاتا ہے؟تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:((المرء مع من أحب))’’آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس سے محبت کرتا ہے۔‘‘
اسی طرح رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ دین دار عورت سے شادی کی جائے تاکہ وہ تمہارے دین میں تمہاری مدد گار ثابت ہو سکے۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
((تنکح المرأۃ لأربع لمالھا ولحسبھا ولجمالھا ولدینھا فاظفر بذات الدین تربت یداک)) [متفق علیہ]
’’چار وجوہ سے عورت کے ساتھ نکاح کیا جاتا ہے۔اس کے مال کی وجہ سے،اس کے حسب ونسب کی وجہ سے،اس کے جمال کی وجہ سے ،اور اس کے دین کی وجہ سے۔دین والی کو ترجیح دوتیرے ہاتھ خاک آلود ہوں۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ کی حدیث میں ان سات افراد کا تذکرہ ہے جن کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے عرش کا سایہ عطا فرمائیں گے جن میں سے دو افرادوہ بھی ہیں:
((رجلان تحابا فی اللہ اجتمعا علیہ وتفرقا علیہ))
’’جو فقط اللہ کے لئے محبت کرتے ہیں اسی محبت پر جمع ہوتے ہیں اور اسی پر ہی علیحدہ ہوتے ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺکو نیک اور اللہ کو یاد کرنے والے لوگوں کے ساتھ بیٹھنے اور ان کی صحبت پر صبر کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ ان کو دھتکارنے سے منع کیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
((وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ)) [الکھف:۲۸]
’’اور اپنے آپ کو انہی کے ساتھ رکھا کر جو اپنے پروردگار کو صبح شام پکارتے ہیں اور اسی کے چہرے کے ارادے رکھتے (رضامندی چاہتے)ہیں،خبردار! تیری نگاہیں ان سے نہ ہٹنے پائیں۔‘‘یعنی ان لوگوں کے ساتھ بیٹھ جو صبح وشام اللہ کو یاد کرتے ہیں ،تسبیح وتحمید بیان کرتے ہیں ،تہلیل وتکبیرکرتے ہیں،اورصرف ایک اللہ سے مانگتے ہیں خواہ غریب ہیں یا امیر ،کمزور ہیں یا قوی۔
نیکو کاروں کی صحبت اختیار کرنے میں بے شمار فوائد ہیں۔ان کے پاس بیٹھنے سے علمی اور اخلاقی فوائد ملتے ہیں۔اور یہ نیک لوگوں کی دوستی کل قیامت کو بھی قائم رہے گی جبکہ باقی سب دوستیاں ختم ہوجائیں گی۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
((اَلْأَخِلَّآئُ یَوْمَئِذٍ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلاَّ الْمُتَّقِیْنَ))[الزخرف:۶۷]
’’اس دن گہرے دوست بھی ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے سوائے پرہیز گاروں کے۔‘‘
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
((وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلاً٭یٰوَیْلَتٰی لَیْتَنِیْ لَمْ أَتَّخِذْ فُلَاناً خَلِیْلاً٭لَقَدْ أَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّکْرِ بَعْدَ اِذْ جَآئَ نِیْ وَکَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلاً))[الفرقان:۲۷-۲۹]
’’اور اس دن ظالم شخص اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا ہائے کاش کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی راہ اختیار کی ہوتی۔ہائے افسوس کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔اس نے تو مجھے اس کے بعد گمراہ کر دیا کہ نصیحت میرے پاس آپہنچی تھی اور شیطان تو انسان کو (وقت پر) دغا دینے والا ہے۔‘‘ظالم شخص غم اور افسوس سے اپنی انگلیوں کو کاٹے گا کہ اس نے غلط اور شریر شخص کو اپنا دوست بنا لیا جس نے اسے ہدایت اورصراط مستقیم سے ہٹا کر ضلالت و گمراہی اور بد بختی کے رستے پر لگا دیالیکن اس وقت یہ افسوس کسی کام نہیں آئیگا کیونکہ ہاتھ سے نکلاہوا وقت واپس نہیں آتا ۔
اسی طرح جہنمی جہنم میں ندامت کا اظہار کریں گے کہ کاش ہم اپنے سرداروں اور بڑوں کی اطاعت نہ کرتے جنہوں نے ہمیں گمراہ کر دیااور صراط مستقیم سے ہٹا دیا، کاش کہ ہم اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کا دامن تھام لیتے اور آج اس ذلت آمیز عذاب سے بچ جاتے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
((یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْھُھُمْ فِی النَّارِ یَقُوْلُوْنَ یٰلَیْتَنَا أَطَعْنَا اللّٰہَ وَأَطَعْنَا الرَّسُوْلَا٭وَقَالُوْا رَبَّنَا اِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَکُبَرَآئَ نَافَأَضَلُّوْنَا السَّبِیْلَا))[الأحزاب:۶۶،۶۷]
’’اس دن ان کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کئے جائیں گے۔(حسرت وافسوس سے) کہیں گے کہ کاش ہم اللہ تعالیٰ اور رسول کی اطاعت کرتے۔اور کہیں گے اے ہمارے رب!ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی مانی جنہوں نے ہمیں راہ راست سے بھٹکا دیا۔‘‘اس سے معلوم ہوا کہ برے لوگوں کی صحبت نہ صرف علمی واخلاقی فوائد سے محروم کر دیتی ہے بلکہ انسان کو اسفل سافلین تک جا پہنچاتی ہے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
اللہ سبحان و تعالیٰ ھم سب کو میدان محشر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب نصیب فرمائیں - آمین یا رب العالمین

10714439_472410949563838_267653502063270813_o.jpg
 
شمولیت
فروری 06، 2020
پیغامات
3
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
33
اچھی اور بری صحبت کے أثرات

الحمدللّٰہ رب العالمین،والصلاۃ والسلام علی نبینا محمد ﷺ،وعلی آلہ وصحبہ ومن دعا بدعوتہ الی یوم الدین۔أما بعد
اچھا دوست:
وہ ہے جو اللہ کا مطیع وفرمانبردارہو ،اس کے اوامر کی پابندی کرنیوالا ،منہیات سے دور رہنے والا،فرائض کو ادا کرنے والا،سنن کی پابندی کرنے والا،حدود اللہ کا لحاظ رکھنے والا،اچھے اور اعلی اخلاق سے پیش آنے والا،برے اخلاق سے بچنے والا،صلہ رحمی کرنے والا،والدین سے حسن سلوک کرنیوالا ، ہمسائے سے احسان کرنے والا،بردبار عاجز ،لوگوں کے کام آنے والا اورلوگوںکواذیت دینے سے دور رہنے والا ہو۔
برا دوست:
وہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول کا باغی ہو،فرائض میں کوتاہی کرنے والا،منہیات میں جرأت کرنے والا،حدود اللہ کو پامال کرنے والا،برے اخلاق سے پیش آنے والا،قطع رحمی کرنے والا،والدین کا نافرمان،ہمسائے سے برائی کرنے والا،جلد اور بہت زیادہ غصہ کرنے والا،متکبراور لوگوں کو اذیت دینے والا ہو۔گویا کہ عقیدہ عمل اور سلوک کرنے میں دین سے منحرف ہو۔
اچھی صحبت کے اثرات:بے شک انسانی زندگی پر اچھی صحبت کے اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں کیونکہ اچھا دوست آپ کو خیر اور بھلائی کی جانب راہنمائی کرے گا۔اور آپ کو دین ودنیا کی بہتری کا مشورہ دے گا۔اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری پر راغب کرے گا جبکہ آپ کے عیوب کی بھی نشاندہی کرتا رہے گا۔برے اخلاق چھوڑ کر اچھے اخلاق اپنانے کی دعوت دے گا۔یا کم از کم آپ اس کی نیکی کو دیکھ کر خود نیکی کرنے کی کوشش کریں گے۔آپ کی موجوگی یا عدم موجودگی میں آپ کی خیر خواہی کرے گا اور آپ کی زندگی یا موت کے بعدآپ کے لئے دعا مغفرت کرے گا۔
بری صحبت کے اثرات:جس طرح اچھی صحبت سے انسانی زندگی پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں اسی طرح بری صحبت اختیار کرنے سے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔کیونکہ برے دوست کے تمام احوال ونقائص میں آپ اس کے برابر کے شریک ہیں۔اور سب سے برا اثر جو انسان پر مرتب ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ یا تو برا دوست آپ کو بھی برائی میں شرکت کی دعوت دے گاجو آپ کے دین و دنیا دونوں کے لئے مضر ہے یا پھر برائی پر آپ کی حوصلہ افزائی کرے گا۔اور آپ کو والدین کی نافرمانی اورقطع رحمی پر ابھارے گا۔آپ کے رازوں کو مخفی رکھے گا تاکہ آپ اپنے گناہوں کو جاری رکھیں۔نیز آپ کی عدم موجودگی میںآپ کے رازوں کو افشاء کردینا آپ کے لئے ذلت ورسوائی کا سبب ہو گا۔ انسان اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے اور اپنے دوستوں کے دین پر ہوتا ہے جیسا کہ کسی شاعر کا کلام ہے:

کسی بھی آدمی کے بارے میں مت پوچھ! بلکہ اس کے دوست کے متعلق پوچھ۔کیونکہ دوست اپنے دوستوں کے پیروکار ہوتے ہیں۔
حضرت ابو موسی اشعری سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اچھے دوست اور برے دوست کی مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا:
((مثل الجلیس الصالح والجلیس السوء کحامل المسک ونافخ الکیر ،فحامل المسک اما أن یحذیک ،واما أن تبتاع منہ،واما أن تجد منہ ریحا طیبۃ،ونافخ الکیر اما أن یحرق ثیابک،واما أن تجد منہ ریحاخبیثۃ))[متفق علیہ]
’’اچھے دوست اور برے دوست کی مثال کستوری اٹھانے والے اور بھٹی جھونکنے والے کی مانند ہے،کستوری اٹھانے والا یا تو آپ کو ہدیہ میں دے دیگایا آپ اس سے خرید لیں گے یا کم از کم اچھی خوشبو تو پائیں گے،جبکہ بھٹی جھونکنے والا آپ کے کپڑوں کو جلا دے گا یا کم از کم آپ اس سے بدبوپائیں گے۔‘‘
نبی کریم ﷺ نے اس مثال کے ذریعہ معقول کو محسوس کے قریب کر دیا ہے۔جس سے صحبت کے اثرات کوسمجھنے میں مدد ملے گی۔کہ جس طرح کستوری والے کے پاس بیٹھنے سے فائدہ ہی فائدہ ہے اسی طرح اچھی صحبت اختیار کرنے سے انسان خیر اور بھلائی میں رہتا ہے جبکہ بھٹی جھونکنے والے پاس بیٹھنے سے نقصان ہی نقصان ہے اسی بری صحبت اختیار کرنے سے انسان خسارہ میں ہی رہتا ہے۔
نیک لوگوں کے ساتھ محبت اور ان کی صحبت اختیار کرنے کے فوائد
نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے ان کے ساتھ بیٹھنے اور ان سے محبت کرنے کی فضیلت میں کتاب وسنت میں بہت ساری نصوص وارد ہیں۔جیسا کہ حضرت ابوسعید خدری روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
((لاتصاحب الا مؤمناولا یأکل طعامک الا تقی)) [ابوداؤد،ترمذی]
’’صرف مومن شخص کی صحبت اختیار کر،اور تیرا کھانا صرف متقی شخص کھائے۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
((الرجل علی دین خلیلہ فلینظر أحدکم من یخالل))[ابوداؤد،ترمذی]
’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے،پس چاہئیے کہ تم میں سے ہر شخص اپنے دوست کو دیکھے۔‘‘
حضرت ابوموسی أشعری روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
((المرء مع من أحب))
’’آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس سے محبت کرتا ہے۔‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا کہ جو شخص کسی قوم کے ساتھ محبت کرتا ہے اسے اس قوم کے ساتھ ملحق کیوں کر دیا جاتا ہے؟تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:((المرء مع من أحب))’’آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس سے محبت کرتا ہے۔‘‘
اسی طرح رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ دین دار عورت سے شادی کی جائے تاکہ وہ تمہارے دین میں تمہاری مدد گار ثابت ہو سکے۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
((تنکح المرأۃ لأربع لمالھا ولحسبھا ولجمالھا ولدینھا فاظفر بذات الدین تربت یداک)) [متفق علیہ]
’’چار وجوہ سے عورت کے ساتھ نکاح کیا جاتا ہے۔اس کے مال کی وجہ سے،اس کے حسب ونسب کی وجہ سے،اس کے جمال کی وجہ سے ،اور اس کے دین کی وجہ سے۔دین والی کو ترجیح دوتیرے ہاتھ خاک آلود ہوں۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ کی حدیث میں ان سات افراد کا تذکرہ ہے جن کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے عرش کا سایہ عطا فرمائیں گے جن میں سے دو افرادوہ بھی ہیں:
((رجلان تحابا فی اللہ اجتمعا علیہ وتفرقا علیہ))
’’جو فقط اللہ کے لئے محبت کرتے ہیں اسی محبت پر جمع ہوتے ہیں اور اسی پر ہی علیحدہ ہوتے ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺکو نیک اور اللہ کو یاد کرنے والے لوگوں کے ساتھ بیٹھنے اور ان کی صحبت پر صبر کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ ان کو دھتکارنے سے منع کیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
((وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ)) [الکھف:۲۸]
’’اور اپنے آپ کو انہی کے ساتھ رکھا کر جو اپنے پروردگار کو صبح شام پکارتے ہیں اور اسی کے چہرے کے ارادے رکھتے (رضامندی چاہتے)ہیں،خبردار! تیری نگاہیں ان سے نہ ہٹنے پائیں۔‘‘یعنی ان لوگوں کے ساتھ بیٹھ جو صبح وشام اللہ کو یاد کرتے ہیں ،تسبیح وتحمید بیان کرتے ہیں ،تہلیل وتکبیرکرتے ہیں،اورصرف ایک اللہ سے مانگتے ہیں خواہ غریب ہیں یا امیر ،کمزور ہیں یا قوی۔
نیکو کاروں کی صحبت اختیار کرنے میں بے شمار فوائد ہیں۔ان کے پاس بیٹھنے سے علمی اور اخلاقی فوائد ملتے ہیں۔اور یہ نیک لوگوں کی دوستی کل قیامت کو بھی قائم رہے گی جبکہ باقی سب دوستیاں ختم ہوجائیں گی۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
((اَلْأَخِلَّآئُ یَوْمَئِذٍ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلاَّ الْمُتَّقِیْنَ))[الزخرف:۶۷]
’’اس دن گہرے دوست بھی ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے سوائے پرہیز گاروں کے۔‘‘
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
((وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلاً٭یٰوَیْلَتٰی لَیْتَنِیْ لَمْ أَتَّخِذْ فُلَاناً خَلِیْلاً٭لَقَدْ أَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّکْرِ بَعْدَ اِذْ جَآئَ نِیْ وَکَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلاً))[الفرقان:۲۷-۲۹]
’’اور اس دن ظالم شخص اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا ہائے کاش کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی راہ اختیار کی ہوتی۔ہائے افسوس کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔اس نے تو مجھے اس کے بعد گمراہ کر دیا کہ نصیحت میرے پاس آپہنچی تھی اور شیطان تو انسان کو (وقت پر) دغا دینے والا ہے۔‘‘ظالم شخص غم اور افسوس سے اپنی انگلیوں کو کاٹے گا کہ اس نے غلط اور شریر شخص کو اپنا دوست بنا لیا جس نے اسے ہدایت اورصراط مستقیم سے ہٹا کر ضلالت و گمراہی اور بد بختی کے رستے پر لگا دیالیکن اس وقت یہ افسوس کسی کام نہیں آئیگا کیونکہ ہاتھ سے نکلاہوا وقت واپس نہیں آتا ۔
اسی طرح جہنمی جہنم میں ندامت کا اظہار کریں گے کہ کاش ہم اپنے سرداروں اور بڑوں کی اطاعت نہ کرتے جنہوں نے ہمیں گمراہ کر دیااور صراط مستقیم سے ہٹا دیا، کاش کہ ہم اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کا دامن تھام لیتے اور آج اس ذلت آمیز عذاب سے بچ جاتے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
((یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْھُھُمْ فِی النَّارِ یَقُوْلُوْنَ یٰلَیْتَنَا أَطَعْنَا اللّٰہَ وَأَطَعْنَا الرَّسُوْلَا٭وَقَالُوْا رَبَّنَا اِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَکُبَرَآئَ نَافَأَضَلُّوْنَا السَّبِیْلَا))[الأحزاب:۶۶،۶۷]
’’اس دن ان کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کئے جائیں گے۔(حسرت وافسوس سے) کہیں گے کہ کاش ہم اللہ تعالیٰ اور رسول کی اطاعت کرتے۔اور کہیں گے اے ہمارے رب!ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی مانی جنہوں نے ہمیں راہ راست سے بھٹکا دیا۔‘‘اس سے معلوم ہوا کہ برے لوگوں کی صحبت نہ صرف علمی واخلاقی فوائد سے محروم کر دیتی ہے بلکہ انسان کو اسفل سافلین تک جا پہنچاتی ہے۔
ماشاء اللہ تبارک اللہ
 
Top