مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 463
- پوائنٹ
- 209
اکبر الہ آبادی اور ان کی شاعری مغربی تہذیب پر تنقید کے تناظر میں
مقالہ نگار : مقبول احمد سلفی داعی ومترجم /طائف اسلامک دعوہ سنٹر(سعودی عرب)
نوٹ : یہ مقالہ جامعہ سلفیہ بنارس میں دورطالب علمی کا ہے ۔اس مقالے کی اصلاح گرامی قدراستادومشفق مربی فضیلۃ الشیخ عزیزالرحمن سلفی حفظہ اللہ کی تھی ۔ اصلاح شدہ نسخہ ابھی تک میرے پاس محفوظ ہے ۔ ثانویہ میں ہی ایسا ادبی مقالہ لکھنے پہ عش عش کررہے تھے اورایک روشن مستقبل کی مجھےدعا رہے تھے ۔اللہ تعالی آپ کی عمرمیں برکت دے اور علمی خدمات کو نجات کا ذریعہ بنائے ۔آمین ۔ مقالہ آپ کی خدمت میں ۔
اکبرالہ آبادی: سیداکبرحسین الملقب بہ خان بہادر المتخلص بہ اکبر 16نومبر 1846کو الہ آبادکے ایک گاؤں بارہ کے شریف گر انے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مکاتب اور سرکاری سکولوں میں حاصل کی 1866 میں مختاری کا امتحان فرسٹ پوزیشن سے پاس کر کے کدو کاوش کے بقدر کبھی نائب تحصیلدارہوئےتو کبھی مسلسل 8 برس تک وکالت کی۔ 1880میں منصف کے عہدہ پر بھی فائز ہوئے ۔اکبر اور ان کے خاندان کی گذربسر کا ذریعہ ان کی سرکاری ملازمت ہی تھی۔ فلسفہ ،سیاست اور معاشرت وغیرہ میں ان کی گہری نظر تھی چنانچہ ڈاکٹر آصفہ زمانی ماہنامہ نیادور میں رقمطراز ہیں " اکبرالہ آبادی بھی ایک ہمہ جہت ادیب تھے انہوں نے نظم اور نثر دونوں میں فلسفہ،تصوف،سیاست، معاشرت وغیرہ پر کہیں اختصار سے اور کہیں تفصیل سے اپنے خیالات کا اظہار کیاہے"۔ انہیں مشاعروں کابھی بیحد شوق تھا ، متعدد مشاعروں میں ان کی شرکت کا ثبوت ملتا ہے جس کے ذریعہ انہوں نے اپنے اندر پنپنے والے شعوروآگہی کو جلادیا۔اکبر کو اللہ نے بے پناہ قوت فہم اور سمجھداری دی تھی ، انہوں نے اس خداداد صلاحیت سے خاصا فائدہ اٹھایااور ترقی کرتے کرتے عدالت خفیہ کے جج مقرر ہوگئے ۔ اکبر نے اپنی ذہانت کا کبھی غلط استعمال نہیں کیابلکہ معرفت علم وفن کی خاطر اپنی ہستی کو خاک میں ملادیاجس کا لازمی نتیجہ تھا کہ آسمان ادب کے افق پر نیر درخشان بن کر ابھرے ۔ بلاآخر آسمان ادب کایہ سورج 1921ء کی شام کے دھندھلکوں میں روپوش ہوگیا۔ تاہم اپنے پیچھے ایسا سرمایہ افتخار چھوڑگیا جو شب کی تاریکی میں مشعل راہ کا کام دیتا رہے گا۔
اکبر دریادل تھے ،ہرکسی کو اپنانے کی جستجو انکا خاص مسلک تھایہی وجہ ہے کہ اکبر کا حلقہ احباب کافی وسیع تھااور یہ زندگی کے آخری لمحات تک وسیع ہوتا چلاگیا۔ جہاں اکبر ہوتے وہاں لمحوں میں محفل سجادیتے اور محفل کے روح رواں بھی وہی ہوتے ۔ان کا نثری کلام بھی شعرونغمہ سے کم جاذب دل ودماغ نہیں ہوتابلکہ اچھے اچھوں کے دل جیتنے کا ایک کامیاب وسیلہ تھا۔
اکبر نے نازک ترین دور میں آنکھیں کھولیں اس وقت ملک کا سبزہ سبزہ اپنی ہریالی چوڑ چکا تھا اور خاک کے ذروں میں بھی تاب سرکشی آ چکی تھی۔ بہر حال اکبر نے زندگی کے درو بام کا خوب خوب جائزہ لیا ،حالات کو قریب سے دیکھا ،گردش ایام کو سمجھنے کی کوشش کی ،زمانے کی ایک ایک دیوار میں نقب زنی کرنے کی سعی پیہم کی پھر اپنے قوت بازو کا بھی اندازہ کیا ،کئی مہینوں تک بال و پر تولتے رہے جب انہیں اس بات کا یقین واثق ہو گیا کہ زمانے کے سلاب کے سامنے بند باندھنے کے قابل ہو گئے تو پھر ظلم و وجور سے پنجہ آزمائی اور عدل و انصاف کے شانہ بشانہ چلنے کے لئے شاعری کی زبان سے زمانے کے ضمیر کو دعوت معرکہ آرائی دی ۔گرچہ اکبر ہتھیار سے قدرے لیس تھے مگر ابھی بھی زمانے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرباتیں کرنا غیر معمولی کام تھا اس لئے شاعری پرقدرت حاصل کرنا پہلا اور اہم کام تھا۔ ایک وقت ایسا بھی آ یا کہ ایک طرف اکبر تھے اور ایک طرف زمانہ اور یہ جنگ اس وقت تک جاری و ساری رہی جب تک اکبر کی جان میں جان تھی۔
اکبر کی ابتدائی شاعری الفاظ کے گرد گھوم رہی تھی مگر چونکہ اکبر کو زمانے کا اکبر ہونا تھا ان کے چھپنے سے زمانے کی آنکھیں کہاں بند ہو جاتیں وہ تو خود اس کا معترف نظر آتے ہیں ۔
؎نگاہیں کاملوں پر پڑہی جاتی ہیں زمانے کی
کہیں چھپتاہے اکبرؔ پھول پتوں میں نہاں ہو کر
اکبر نے شعر کی اصلاح کے لئے وحید الہ آبادی کی شاگردی اختیار کی جنہوں نے آتش لکھنوی کے خرمن شعر سے خوشہ چینی ہی نہیں کی تھی بلکہ زانوے تلمذبھی تہ کیا تھا ۔اکبر کی شاعری 55سال کو محیط ہے ،اس میں بھی 45 سال کی شاعری اکبر کی زندگی کا خلاصہ ہے اور وہ طنز و ظرافت کا نایاب گنجینہ ہے جو ارباب علم و فن سے داد وتحسین حاصل کر چکا ہے۔ اکبر نے جس مقصد کے تحت شاعری کی تھی وہ یہ تھا کہ انسانیت کو ایک ایسی راہ دکھائی جائے جو تمام راستوں سے جدا گانہ ہو جس کا سرا اسلامی مملکت سے ملتا ہو۔ اکبر نے مقصدی شاعری میں طنز و ظرافت کے ذریعہ وہ رول ادا کیا ہےکہ صدیوں بعد تک آنکھیں اس پر حیران رہیں گی۔ 1885 سے ان کے طنز و ظرافت کا دور شروع ہوتا ہے اورچلتے چلتے طنز و ظرافت کا سلسلہ وہاں سے مل جاتا ہےجہاں زندگی کا آخر ی سرا ہے ۔اکبر کی شاعری کو بعض ادباء و مؤرخین نے پانچ ادوار میں تقسیم کیا ہے تاہم بعض نے تین ہی ادوار قائم کئے۔
پہلا دور 1884 تک ہے جس میں انہوں نے جوانی کے رنگ و بو سے زندگی کے نشیب و فراز کو مہکانے کی کوشش کی ہے اور دوسرا دور1884 سے شروع ہوکر 1912 پر ختم ہو جاتا ہے۔ یہی وہ دور تھا جس میں انہوں نے دامن زندگی کو موتیوں سے بھر لیا ۔یہاں پہنچ کر اکبر نے اپنی شاعری کو بے لگام چھوڑ دیا جو حالی،داغ ،مومن ،میر اور ان جیسےبہت سے شعراء کی صفوں کو چیرتی ہوئی غالب کے شانہ بشانہ کھڑی ہو گئی ۔یہیں اکبر اور انکی شاعری کا حسین امتیاز ملتا ہے جو اکبر ہی نہیں دبستان ادب کے سر کا تاج ہے۔اس کے بعد اکبر کی شاعری کا تیسرا دور انکی زندگی کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے۔
اکبر کی شاعری خصوصیات
اکبر نے شاعری میں عامیانہ ڈگر کو پسند نہیں کیا بلکہ اس سے ہٹ کر بذات خود ایک خاص شاہراہ نکالی جس کے سامنے اوروں کا رنگ پھیکا پڑجاتا ہے ۔کئی ناحئےسے اکبر نے شاعری کے مردہ جسم میں نئی روح پھونکی ،انکی سب سے بڑی خصوصیت قافیہ آرائی ہے۔ اکبر اپنے ذوق سے نہایت دل پذیر اورنئے نئے سلیس قافیہ ڈھونڈ لاتے ہیں ،اوروں کے یہاں ایسے قوافی ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔ آل احمدسرور اکبر قافئے کے متعلق رطب اللسان ہیں:" اکبر کو الفاظ پر غیر معمولی قدرت تھی وہ ایسےایسے قافیے ڈھونڈکے لاتے تھے جنکی نظیر کہیں نہیں ملتی، شبلی کیلئے قبلہ قبلی کا استعمال صرف اکبر ہی کر سکتے ہیں۔ انہوں نے صرف اردوکے الفاظ نہیں بلکہ انگریزی کے الفاظ سے بھی اپنے قافیوں میں مدد لی اوران سے جو لطف پیدا کیا وہ سنے سے تعلق رکھتا ہے"۔ پھر مثال دیتے ہوئے رقمطراز ہیں چند قافیوں کی بہار دیکھئے۔
ممبر مراد علی ہیں یا سکھ نداں ہیں
لیکن معائنہ کو وہی نامداں ہیں
ملکی ترقیوں میں دوالےنکالئے
پلٹن نہیں تو خيررسالے نکالئے
اکبردبے نہیں کسی سلطان کی فوج سے
لیکن شہید ہو گئے بیگم کی نوج سے
انگریزی قافئے کی بھی مثال دیکھیں ۔
گو بہت اونچی ہے پروازحریف
شیخ برگڈ کم نہیں ہیں جمپ میں
انکا طوطی بولتا ہے عرش پر
انکی مرغی بولتی ہے کیمپ میں
اکبر کی دوسری بڑی خصوصیت یہ تھی کہ غیر مانوس اور پھدلے الفاظ کو اس انداز سے لاتے کہ ایک طرف تو اس میں چار چاند لگ جاتا تودوسری طرف بلاغت کی انتہا کو پہنچ جاتا ہے مثلا ٹٹو، بدھواور نیٹو بجائے بھونڈے ہونے کے کہ جنکو آدمی سن لے توکراہت محسوس کرے،انکو ایسے حسین و جمیل پیرانے میں بیان کرتے ہیں کہ اس میں ایک بڑی داستان سما جاتی ہے اس کا اندازا کیجئے ۔
ٹٹو پہ جس طرح سے ہوتا زی کا سازبوجھ
یوں بابوان ہند پہ ہےاب نماز بوجھ
اولڈ مرزا ہر طرف بدنام ہیں
ینگ بدھو وارث اسلام ہیں
اکبر سے میں نے پوچھا اے واعظ طریقت
دنیائے دوں سےرکھو کس قدر تعلق
اس نےدیابلاغت سےیہ جواب مجھ کو
انگریزکو ہے نیٹو سےجس قدرتعلق
ایک ملکہ یہ بھی دیکھنے کو ملتاہےکہ اکبر دوسروں کے کلام میں تصرف کرتے ہوئے اسے لباس زینت دیکر کلام میں نکھار پیدا کر دیتے ہیں۔ یہ بھی دیکھتے چلئے کہ اکبر کس طرح دوسرے شعراء کی آنکھوں میں دھول جھونک کرلوگوں کو اپنے کلام کی طرف متوجہ کر لیتے ہیں۔
یوسف کو نہ سمجھےکہ حسیں بھی ہے جواں بھی
شاید نرے لیڈر تھے زلیخاکے میاں بھی
اکبر کے کلام سے پتہ چلتا ہے کہ وہ سند یافتہ قادر الکلام تھے جس کےتئیں انگریزی کے بہت ثقیل الفاظ کو سلیس زبان دیکر پیکرجمال میں ڈھال دیتے ہیں ۔یہ بھی ملاحظہ فرماتے چلئے کہ اکبرانگریزی کے باب میں کس خوبی سے قادر الکلامی کا ثبوت فراہم کرتے ہیں ۔
پانی پینا پڑا ہے پائپ کا
حرف پڑھنا پڑاہے ٹائپ کا
مل کا آٹاہے نل کا پانی ہے
آب و دانہ کی حکمرانی ہے
اکبر کی شاعری اس بات کا بین ثبوت ہے کہ انہوں نے ہر شاعر و ادیب کاخوب خوب مطالعہ کیا ،انکےتخلیقی کارنامے پہ غور کیا ،ان کے دل و دماغ اور انکی فکر و نظر کو اپنی قوت فہم کی دوربین سےدیکھا پھر کہیں جا کر بحر شاعری کے ایک بہترین شناور بنے ۔خود اکبر کو اپنی سخنوری پہ زعم ہے۔
محل شکر ہیں یہ درفشاںنظمیں
ہر اک زباں کو یہ موتی نہیں عطا ہوتے
طنزوظرافت:
مندرجہ بالا سطورمیں یہ تحریر کیا جا چکا ہے کہ اکبر کی شاعری کے دوسرے دور میں طنزو ظرافت کا سیلاب امنڈپڑتاہے ۔دراصل یہ انکے خون جگر کا ماحصل ہےجو سالہا سال کی عرق ریزی کا نتیجہ تھا، اس کا ثبوت اکبر خودپیش کرتے ہیں۔
شعر اکبر میں کوئی کشف وکرامات نہیں
دل پہ گزری نہ ہو جوایسی کوئی بات نہیں
اکبر دکھ اور سکھ کے ایک حسین سنگم کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں ۔انکی خواہش تھی کہ قہقے انکا خواب ہوں اور زندگی خوابوں کی حسین تعبیر ہو تاکہ ان قہقوں اور تلاطم خیز ہنسی میں قوم کو گم کر کے زندگی کرنے کا سبق پڑھائے ۔
اکبر کی زندگی کو سمجھنے کے لئے چند بنیادی باتیں پیش نظر رکھنا چاہیے۔ اس سے قبل یہ جان لیں کہ غالب کےبعد اکبر طنزوظرافت کے باب میں سر فہرست نظر آتے ہیں ۔اکبر کی طنز نگاری نے جہاں ارباب علم و فن کی محفلوں میں رقص وسرودکا سماں باندھ دیا وہیں کفر کے ایوانوں میں بھی زلزلہ برپا کردیا ۔یہاں یہ بات بھی نہیں بھولناچاہیے کہ طنزوظرافت میں عموم و خصوص مطلق کی نسبت پائی جاتی ہے۔ طنزکے لیے ضروری نہیں کہ ظرافت کاپہلو اس میں شامل ہو مگرظرافت میں طنزمیں ضرورنمایاں ہوتاہے۔ طنزانسان کے وجود میں بجلی پیداکرکےاسکے چہرےسےنور چھین لیتا ہےاوراس لب پر کھلنے والےگل و گلاب کو رنگ و بو سےمحروم کر دیتاہےاورظرافت انسان کو اپنی معیت میں قہقوں کی منزل تک پہنچاتی ہے یہی نہیں بلکہ راہ سفر میں ہروہ سامان بہم پہنچاتی ہے جسکی ضرورت ایک مسافر محسوس کرتا ہےیا کر سکتا ہے۔ اکبرایسے ہی طنزکے ذریعہ قوم و ملت کی اصلاح وتنقیدکرتے ہیں جس کے سر پہ ظرافت کا تاج نور برساتا رہتا ہے۔ آل احمدسروراکبر کی طنزو ظرافت پر یوں تحریر فرما ہیں:" انہیں (اکبر)معلوم ہے کہ لوگ ضرب شدید گواراکرلیتےہیں طنزکا ایک ہلکا نشتربرداشت نہیں کر سکتے اس لئے طنزکو ظرافت کا لباس دیتے ہیں "۔ گویااکبر کو طنز و ظرافت کا امام تسلیم کر لیا جائے تو ممکن ہے انکی شان میں زیادتی نہیں ہو گی ۔اکبر نےطنز و ظرافت کیلئے آنکھیں چار کیں اور ایسی ایسی تشبیہات ،الفاظ اور تراکیب کا استعمال کیا جو شاعری میں تبحرکی دلیل ہے اور یہی وہ طنز و ظرافت ہے جس کا سہارا لے کر مغربیت کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور مشرقیت کی اس قدر ہاں میں ہاں ملائی کہ انہیں اپنے دل کی ترجمانی کرتےنہ بنی۔
؎بہت مشکل ہے نبھنامشرق و مغرب کا یارانہ
ادھر صورت فقیرانہ ادھرصورت سامان شاہانہ
مغربی تہذیب پر تنقید کا اجمالی تعارف :
اکبر نے ایسےعالم رنگ و بو میں آنکھیں کھولیں جہاں لوگ مغرب کی کورانہ تقلید کو فوزو فلاح کی راہ سمجھتے تھے اور انہیں مغربی نظریات کی تقلید میں ہی مذہبی تقدس نظر آتاتھا۔ اکبر ان چیزوں کو دیکھ کر دم بخود رہ گئے۔ انہیں اندھی تقلید کی گرم بازاری سرد کرنے کی فکر دامن گیر ہو گئی۔ اسی لئے اکبر نے طنز و ظرافت کا سہارالیکر مشرقی عوام کی تقلید مغرب پر تضحیک کی۔ مشرقی قوم اکبر کی تضحیک سے قہقوں کی شبشتانوںمیں گم ہو گئی جہاں انہیں اکبر کی پوشیدہ تنقیدنے اس بات کا احساس دلایا کہ ترقی مغرب کی اڑان اتنی اونچی ہے جہاں پہنچ کر انسان شعورو آگہی کی دولت کھو بیٹھتا ہے اور اسے اپنی بلندی تک کا احساس نہیں ہوتا۔ صاحب موج ادب لکھتے ہیں:" اکبر ایک ذہین شخص تھے وہ دور اندیش تھے ۔بدلتے ہوئے زمانہ کے بولتے ہوئے لوگوں کو نئے انداز سے راستے پر لانا ہو گا اور اس کام کے لیے غزل یا تلخ نصیحت کی فرسودگی اور روایتی دھار سے اکبر آشنا تھے اسی لیے انہوں شاعری کی ایسی راہ اپنائی جو ظاہری طور پر ظرافت و تمسخر مگر باطنی طور پر نصیحت و تنقید تھی"۔ اکبر کی مغربیت پر تنقید کو سمجھنا سطحی ذہن کیلے ایک مشکل امر ہے، اس لئے بنیادی باتیں مد نظر رکھنا اکبرکے موقف کو سمجھنے میں معاون ثابت ہو گا جسکی طرف سطور بالا میں اشارہ کیا گیا تھا ۔
(1)اکبر سر سید کی اس تحریک کے خلاف تھے جس سے مغرب کے شرارے ٹپکتے تھے۔
(2)اکبر مغرب کی اس تعلیم جدید سے بھی بیزار تھے جس سے ادب واخلاق غارت ہو کر رہ جاتا ہے اور اسکی جگہ اخلاقی بحران، غلامانہ ذہنیت ،مفاد پرستی اور دین سے دوری لے لیتی ہیں۔
(3)چونکہ اخلاقی فساد میں کالج اہم رول ادا کرتا ہے اسی لئے اکبر نے اسکو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔
(4)اکبر ایسے فلسفے کی تضحیک کرتے ہیں جس سے عقل پر دبیز پردہ پڑجاتاہے اور تمیز کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔
(5)مغرب مشرق کا بدترین دشمن ہے اس لیے اپنی دشمنی کا قرض اپنے دلکش فریب سے چکانے کا عزم کر رکھا ہے۔ یہ ایک خاموش جنگ ہے ،مشرقی عقل و شعورجس کا ادراک نہیں کر سکتی ہے۔
(6)تعلیم نسواں کا اخلاقی فساد ظاہر ہے جس سے عورت ہر شخص کے اعصاب پر سوار ہو جاتی ہےاور شہوت کے بازار میں ترقی ہوتی ہے ۔ اخلاقی بگاڑاور اباحیت پسندی کا بازار اس طرح گرم ہوتا ہے ہر کہ ومہ خواہشات نفسانی کے آسمان پر کمندیں ڈالنے لگتا ہے۔
(7)اکبر اس ترقی کے بھی شدید مخالف ہیں جس کے سامنے انسان "خالق کل شئی "کی عظمت کو بھول کر زعم ترقی پر پھول جاتا ہے۔
تنقیدی شعور کے تعلق سے یہ چند بنیادی نقطے تھے جنکا تفصیلی جائزہ ذیل میں پیش کیا جائے گا۔
مشرق و مغرب کے تصادم پر تنقید:
مشرقیت اور مغربیت کا ایک دوسرے سے متصادم ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ مغربیت آگ کا آلاؤ ہے اس میں جو بھی جائے گا آگ کی نذر ہو جائے گا بلکہ اکبر کا ایک خاص نقطہ نظر ہے ۔وہ چاہتے ہیں کہ توحید کو کسی کی ہوا نہ لگے اس لئے مغربیت ہی نہیں بلکہ اس کی ایک ایک فکر پر طنز و ظرافت سے وار کرتے ہیں ۔ایک طرح سے مغرب سے اکبرکی بغاوت حق بجانب ہے کیونکہ مغرب کے نظریات کی عمارت دین و مذہب سے ہٹ کر ہوا وہوس اور جور وستم پر قائم ہے۔ دیکھئے اکبر مشرق و مغرب کے تصادم کا فلسفہ کس طرح پیش کرتے ہیں ۔
الجھنا زلف مغرب میں دکھاتی ہےوہ دنیا
مگر دینی مقاصد میں ہزاروں پیچ پڑتے ہیں
فزوں ہے دل کشی مشرق کی مغرب کی لطافت سے
حریف بلبل گلشن کنيری ہو نہیں سکتی
ہوتی تھی تاکید لندن جاؤ انگریزی پڑھو
قوم انگلش سے ملو سیکھو وہی وضع و تراش
جگمگاتے ہوٹلوں کا جاکے نظارہ کرو
سوپ کاری كا مزے لو چھوڑ کر یخنی وآش
بادہ تہذیب یورپ کے چڑھاؤ خم کےخم
ایشیا کے شیشہ تقوی کو کرو پاش پاش
مشرق سے تجھے ہوتی ہے نفرت
للہ اکبرؔ نماز مغرب تو نہ چھوڑ
بہت مشکل ہے نبھنا مشرق و مغرب کا یارانہ
ادھر صورت فقیرانہ ادھر سامان شاہانہ
تہذیب نو پر تنقید :
اکبر کچھ آگے بڑھتے ہوئے مغربیت کو کہیں نئی تہذیب ،کہیں نئی روشنی تو کہیں نئے طریقے کا نام دیتے ہیں ۔اس تہذیب کا رد عمل انسان کا انسانیت سے عاری ہونا اکبر کا تتبع ہے۔ بلاشبہ اس تتبع میں وہ بہت حد تک کامیاب ہیں ۔چونکہ اس تہذیب پر ایک دل فریب پردہ پڑا ہے اسلئے اسکی حقیقت تک صرف دور رس نگا ہیں پہنچ سکتی ہیں۔ اب نئی تہذیب کو دیکھئے اکبر کیسے اسکی خیریت لیتے ہیں۔
داغ اب انکی نظر میں ہیں شرافت کے نشاں
نئی تہذیب کی موجوں سےدھلے جاتے ہیں
نئی تہذیب سے ساقی نے ایسی گرم جوشی کی
کہ آخر مسلموں میں روح پھونکی بادہ نوشی کی
نئی تہذیب میں بھی مذھبی تعلیم شامل ہے
مگر یوں نہیں کہ گویا آب زمزم مے میں داخل ہے
تہذیب نو کے رنگ پر بلبل بنے ہیں سب
واللہ کیا بہار ہےاس سبز باغ میں
یہ موجودہ طریقے راہی ملک عدم ہوں گے
نئی تہذیب ہوگی اور نئے ساماں بہم ہوں گے
نہ خاتونوں میں رہ جائے گی پردے کی پاپندی
نہ گھونگھٹ اس طرح سے حاجب روئےصنم ہوں گے
عقائد پر قیامت آئے گی ترمیم ملت پر
نیا کعبہ بنے گا مغربی پتلےصنم ہوں گے
کالج پر تنقید:
نئی تہذیب سے ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے اکبر کالج کو نشانہ بناتے ہیں اور اسکے مثبت و منفی پہلو کو نمایا ں کرتے ہیں۔ چونکہ سر سید جدید تعلیم کو فروغ دینے میں کافی سرگرم عمل تھے اس لیے اکبرعلی گڑھ کی کل پرزے الگ الگ کر کے بکھیر دیتے ہیں ۔آپ خود اندازہ کیجیے کہ اکبر کی طنز و ظرافت کے پہلو میں اصلاح و تنقید کا عنصر کس قدر معنی دار اور با مقصد ہے ۔
سنتا نہیں کسی سے کچھ بڑھ بڑھ کے سوا
کہتا نہیں کوئی کچھ پڑھ پڑھ کے سوا
پڑھنے کا نہ ٹھیک اصول بڑھنے کی نہ راہ
اور قبلہ کوئی نہیں علی گڑھ کے سوا
نظر انکی رہی کالج میں بس علمی فوائد پر
گرا کیں چپکے چپکے بجلیاں دینی عقائد پر
ایمان بیچنے پہ سب ہیں تلے ہوئے
لیکن خرید ہو جو علی گڑھ کے بھاؤ سے
طفل دل محوطلسم رنگ کالج ہو گیا
ذہن کو تپ آگئی مذہب کوفالج ہو گیا
ہم تو کالج کی طرف جاتے ہیں اے مولویو
کس کو سونپیں تمہیں اللہ نگہبان رہے
نہ کتابوں سے نہ کالج کے ہے در سے پیدا
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا
کالج و اسکول و یونیورسٹی
قوم بچاری اسی میں مر مٹی
مغربی تعلیم پر تنقید:
یہاں اکبر کتاب مغرب کی تعلیم پر انگشت نمائی کرتے ہیں اور اسے مختلف پیرا ئے میں پیش کرتے ہیں تاکہ اس کے مضر اثرات کو خواص کے علاوہ عوام بھی محسوس کر سکیں ۔اس مقام پر اکبر کی ہنسی قدرے بلند ہو جاتی ہے جس سے قوم میں ہلچل پیدا ہو جاتی ہے۔ جدید دانشوروں نے اکبر کےاس نقطہ نظر کو کافی اچھالا۔ مخالفین کاکہنا ہے کہ اکبر جدید تعلیم کے قائل نہیں تھے حالانکہ اس کے بغیر زندگی اجیرن بن جائے گی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ دانشورحضرات اکبر کے نظریے کو سمجھ ہی نہ سکے یا سمجھ کر تجاہل عارفانہ برتا ۔ پروفیسر ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار نے ماہنامہ محدث میں "اکبر الہ آبادی اور جدید ذہن کے تحت "ان مخالفین کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ جدید تعلیم کے متعلق اکبر کا نقطہ نظر مندرجہ ذیلاشعار سے پوری طرح واضح ہو جاتا ہے۔
تم شوق سےکالج میں پھلو پارک میں پھولو
جائزہے غباروں میں اڑوچرخ پہ جھولو
بس اک سخن بندہ عاجزکی رہے یاد
اللہ کو اور اس کی حقیقت کو نہ بھولو
افلاک تو اس عہد میں ثابت ہوئے معدوم
اب کیا کہوں جاتی ہے مری آہ کہاں تک
ہم فلسفہ کوکہتے ہیں گمراہی کا باعث
وہ پیٹ دکھاتے ہیں کہ شیطان یہی ہے
ہوشیار رہ کے پڑھنا اس جال میں نہ پڑنا
یورپ نے یہ کہا ہے یورپ نےوہ کہا ہے
کیوں کر نہ کچھ بھی نہیں فیر کےسوا
سب کچھ علوم مغرب میں ہے خیر کے سوا
ماں باپ سے شیخ سے اللہ سے کیا کام انکو
ڈاکٹر جنوا گئے تعلیم دی سرکارنے
میں نے اکبرسے کہا آئیے حجرے میں مرے
اس چٹائی پرنمازیں پڑھیں حسب دستور
چھوڑئیے آپ یہ ہنگامہ تعلیم جدید
کاٹ ہی دے گا کسی طرح خداوندغفور
بولا جھنجھلاکے کہ ہےسہل جہنم مجھ پر
اس کی نسبت کہ میں کالج میں ہوں احمق مشہور
تعلیم نسواں پر تنقید:
اکبر تعلیم نسواں کو ہلاکت و بربادی کا موجب تصور کرتے تھے ۔انکا کہنا ہے کہ تعلیم نسواں ایک صالح معاشرے کے لیےمرض مہلک ہے جس سے تخریب تو ممکن ہے مگر تعمیر محال ہے،اسکی وجہ سے فساد کا ظہور ہوتا ہے اور پورا معاشرہ فساد کی دلدل بن جاتاہے۔ اسی فساد کا اکبر کے دل نے احساس کیا اور اس احساس کو عملی جامہ پہنایا ۔ملاحظہ فرمائیے کہ اکبر کس طرح جدید تہذیب اور نام نہاد تعلیم نسواں کی دلداوہ عورتوں کی خبر لیتے ہیں۔
حامدہ چمکی نہ تھی انگلش سے جب بیگانہ تھی
اب ہے شمع انجمن پہلے چراغ خانہ تھی
تعلیم دختراں سے یہ امید ہے ضرور
ناچے دلہن خوشی ہے خود اپنی برات میں
مجلس نسواں میں دیکھو عزت تعلیم کو
پردہ اٹھاچاہتا ہے علم کی تعظیم کو
کون کہتا ہے علم زناں خوب نہیں
ایک ہی بات فقط کہنا ہےیاں حکمت کو
دوا سے شوہرو اطفال کی خاطر تعلیم
قوم کے واسطے تعلیم نہ دو عورت کو
مغرب زدہ عورتوں پر تنقید:
اکبر نےجہاں مردوں کوطنزو ظرافت کے چلمن میں فلسفہ زندگی بتلایا وہیں مغرب زدہ خواتین کی کھلی اڑائی۔ یہاں اکبر کا موضوع ایسی عورتیں ہیں جو مغربیت کا دم بھرتی ہیں اور اس دھارے میں بہتی چلی جاتی ہیں ۔ان اشعار کو دیکھیےاکبر ایسی فیشن زدہ خواتین کے متعلق ان کے کیا احساسات و جذبات ہیں ۔
بے پردہ کل جو آئیں نظر چندبی بیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومى سے گڑ گیا
پوچھا جواں سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کے پڑ گیا
خدا کے فضل سے بی بی میاں دونوںمہذب ہیں
حجاب ان کو نہیں آتاانہیں غصہ نہیں آتا
شوہر افسردہ پڑے ہیں اور مرید آوارہ ہیں
بی بیاں اسکول میں ہیں شیخ جی اسکول میں
بی بی جو طرز مغربی ہو توکہو
احسان ہے یہ جو مجھ کو شوہر سمجھو
مغربی فیشن پر تنقید:
فیشن کو عصر حاضر میں مذہب کا درجہ حاصل ہو چکا ہے ۔یہ بھی مغربی تہذیب کی دین ہے۔ مشرقی بڑے سادہ لوح ہیں جو مغرب کی اس امانت میں خیانت کرنا موجب عتاب سمجھتے ہیں اس لئے اسے قرآن کی طرح سینوں سے چمٹائے ہیں ۔اکبر جب مشرقی عوام کے خلوص دلی کو دیکھتے ہیں تو ان کے ایمان کی شہادت دیتے ہیں اور ان کے متبعین مذہب ہونے پر مشرقی سند سے روایات بیان کرتے ہوئے انکی زندگی کو اسوہ حسنہ قرار دیتے ہیں ۔آپ انکی روایات سے مسائل کا استنباط کیجئے اور یہ بھی غور کیجئے کہ اکبر کی روایات کے رواۃ کیسے ہیں اور حدیث کا کون سا درجہ ہو سکتا ہے؟ مندرجہ ذیل روایات کو اکبر نے اپنی کلیات میں تخریج کیا ہے ۔
عشرتى گھر کی محبت کا مزا بھول گئے
کھاکے لندن کی ہوا عہدو فا بھول گئے
پہونچے ہوٹل میں تو پھر عید کی پروا نہ رہی
کیک کو چکھ کے سوئیوں کا مزا بھول گئے
موم کی پتلیوں پر ایسی طبیعت پگھلی
چمن ہند کی پریوں کی ادا بھول گئے
داڑھی خدا کا نور ہے بے شک مگر جناب
فیشن کے انتظام صفائی کو کیا کروں
لیلی نے سایہ پہنا مجنوں نے کوٹ پہنا
ٹوکا جو میں نے بولے بس بس خموش رہنا
حسن و جنوں بدستور اپنی جگہ ہیں لیکن
ہے لطف بحرہستی فیشن کے ساتھ بہنا
تھے کیک کی فکر میں سو روٹی بھی گئی
چاہی تھی بڑی شئی سو چھوٹی بھی گئی
واعظ کی نصیحت نہ مانی آخر
پتلون کی تاک میں لنگوٹی بھی گئی
مغرب کی برق رفتاری پر تنقید:
اکبر مغربى برق رفتاری کے باب میں عورت و مرد کا غیر واضح طور پر تذکرہ کرتے ہیں گویا ایک تیر سے دونوں کا شکار کرنا چاہتے ہیں اور ان پر یہ واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ عرش و فرش کی خاک چھاننا سعی لا حاصل ہے ۔اس کے اثرات بہت برے ثابت ہوتے ہیں۔ لوگ جن غباروں میں اڑ کر چرخ فلک پر جھول رہے ہیں نہ جانے کب انہیں خاک پر دے مارے اور وہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو جائیں۔ اکبر انہیں پہلے منفی انداز میں بچوں کی طرح لوریاں سناتے ہیں ،دیکھو بیٹا ہواؤں اور فضاؤں کی سیر نہ کرو ،ہوا کا رخ نہ جانے تمہیں کس مقام پر پہونچا دے ؟ اکبر نے جب دیکھا کہ یہ اپنے ارادے پر مصر ہیں تو تبشیر وانذار کے پہلو میں مذہب کی تعلیم دیتے ہیں ۔اکبر کے ان اشعار کو پڑہیے۔
اہل غرور و حرص کو کیا علم سے شرف
تا چرخ بھی پہنچ کر وہ شیطان ہی رہے
اٹھی نگاہ دیر میں لیکن جھکا نہ سر
پیش صنم بھی ہم تو مسلمان ہی رہے
مذہب چھڑا عشوہ دنیا نے شیخ سے
دیکھی جو ریل اونٹ سے آخر اتر پڑے
بھولتا جاتاہے یورپ آسمانی باپ کو
بس خدا سمجھا ہے اس نے برق کو اور بھاپ کو
برق گر جائے گی اک دن اور اڑ جائے گی بھاپ
دیکھنا اکبر بچائے رکھنا اپنے آپ کو
ترقی پاتے ہیں لڑکے ہمارے نور دیں کھوکر
یہ کیا اندھیر ہےبجھ لیتے ہیں یہ تب چمکتے ہیں
تماشا دیکھئے بجلی کا مغرب اور مشرق میں
کلو میں ہے وہاں داخل یہاں مذہب پہ گرتی ہے
سطور بالا میں اکبر کی شاعری کے مختلف پہلو پیش کیے گئے ہیں جنکو پڑھ کر یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ انکی شاعری زندگی کی اصلاح و تنقید کا لب لباب تھی ۔ان کے دل میں قوم و مذہب کا درد اوروں سے زیادہ تھا۔جب اکبرکا درد حد سے بڑھ گیا تو یہی قوم کی دوا ہو گیا ۔آنے والی نسلیں انکا نسخہ دیکھ کر زندگی کو سنواریں گیں اور اپنی بقا ودوام کی خاطر آپ خود راہ ہموار کریں گیں۔ ہم اکبر کی موت پر رنجیدہ نہیں ہیں کیوں کہ انہوں نے اپنی زندگی کی ایک ایک سانس قوم کی نذر کردی،اب افسوس اور ماتم کس پر؟ انہوں نے اپنے پیچھے پچپن سال کی مستند تاریخ چھوڑ دی ۔اس میں پچپن سال کی ایک ایک لکیرنقش ہو چکی ہے۔ گویا اکبر ایک عہد تھے اور اس عہدکو اپنے ساتھ لے کر نہیں گئے بلکہ ہمارے ما بین چھوڑ گئے ۔جنکو بھی اکبر کا مطالعہ کرنا ہو، انکی زندگی کےپیچ و خم سے واقف ہونا ہو، انکے باغ حالات کی سیرکرنا ہو، خود انہی کی چھوڑی ہوئی وراثت انکے لئے ان کے سارے پر پیچ مسائل کا حل ہے۔ سید احتشام حسین لکھتے ہیں :کہ" اکبر کی شاعری اور فن کا مطالعہ انيسویں صدی کے ربع آخر اور بیسویں صدی کے ابتدائی بیس سالوں کے سمجھنے میں بہت معاون ہو گا "۔