• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اکثریت کی پیروی گمراہی کا سبب

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اس احقر کی رائے میں ’’معیار حق‘‘ درجہ بدرجہ یہ ہیں۔
1۔ قرآن مجید
2۔ صحیح احادیث
3۔ قرآن و صحیح احادیث کی وہ تشریح یا تاویل جس پر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ سے لے کر آج تک قرآن و حدیث کے مستند علماء کی بھاری ”اکثریت“ متفق ہو۔
واللہ اعلم بالصواب
بہت بہت شکریہ یوسف ثانی بھائی

آپ کے جواب سے ‘‘تسلی’’ ہو گئی ہے لیکن ‘‘تشفی’’ باقی ہے۔
وجہ یہ ہے کہ اپنے موقف کی تائید میں قرآن و سنت کی نصوص پیش کر دیتے تو تشفی ہو جاتی۔
بہرحال میں اس مسئلے کو جس طرح سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ
معیارِ حق صرف اور صرف وحی الٰہی ہے۔
وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں بہت سی آیات اس معیار پر دلالت کرتی ہیں مثلاً:
وَاِذَا قِيْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ قَالُوْا نُؤْمِنُ بِمَآ اُنْزِلَ عَلَيْنَا وَيَكْفُرُوْنَ بِمَا وَرَاۗءَہٗ وَھُوَالْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَھُمْ قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُوْنَ اَنْۢبِيَاۗءَ اللہِ مِنْ قَبْلُ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ (سورۃ البقرۃ:91)

قَوْلُہُ الْحَقُّ وَلَہُ الْمُلْكُ (سورۃ الانعام:72) اسی طرح (سورۃ الانعام:114)
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰي مُحَمَّدٍ وَّہُوَالْحَقُّ مِنْ رَّبِّہِمْ كَفَّرَ عَنْہُمْ سَيِّاٰتِہِمْوَاَصْلَحَ بَالَہُمْ (سورۃ محمد:2)


اسی طرح دیگر آیات قرآنی اور احادیث متواترہ کی روشنی میں محمد رسول اللہ ﷺ کا ہر قول و عمل مبنی برحق ہے۔

جبکہ قرآن مجید میں درج ذیل آیات بھی ملتی ہیں:
وَلَىِٕنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَاءَھُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ۰ اِنَّكَ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِيْنَ (سورۃ البقرۃ:145)
قُلْ اِنَّ ھُدَى اللہِ ھُوَالْہُدٰى وَلَىِٕنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَاءَھُمْ بَعْدَ الَّذِيْ جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللہِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا نَصِيْرٍ (سورۃ البقرۃ:120)
وَلَىِٕنِ اتَّبَعْتَ اَہْوَاءَہُمْ بَعْدَ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ۰ مَا لَكَ مِنَ اللہِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا وَاقٍ (سورۃ الرعد:37)


حالانکہ قرآن مجید نازل فرمانے والا علام الغیوب جانتا تھا محمد رسول اللہ ﷺ کا ہر قول و عمل منبی برحق ہو گا۔ پھر مندرجہ بالا آیات سے نازل فرمانے کا مقصد جو راقم سمجھتا ہے وہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ:

معیارِ حق تو صرف اور صرف وحی الٰہی ہی ہے اس کے علاوہ کوئی بھی چیز معیارِ حق نہیں۔

رسول اللہ ﷺ ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہیں اور آپ ﷺ یہ شان بھی ہے کہ:
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰى اِنْ ہُوَاِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى
لہذا آپ ﷺ کا ہر قول و عمل مبنی بر حق (مبنی بر وحی الٰہی) ہے۔

آپ ﷺ کے علاوہ دنیا میں پائی جانے والی کسی بھی شخصیت کو یہ خصوصیت و فضیلت حاصل نہیں ۔

اب جبکہ آپ ﷺ کے بعد کسی پر وحی نہیں آئے گی

تو آسمانی ہدایت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و تابعین و تبع تابعین کرام رحمہم اللہ علیہم اور علماء کرام کا قول و فعل ‘‘معیارِ حق’’ نہیں ہو سکتا
بلکہ
محمد رسول اللہ ﷺ کی نبوت کے بعد دنیا میں کسی بھی انسان کا کوئی بھی قول و عمل ‘‘معیارِ حق’’ نہیں ہو سکتا۔ اگر مانا جائے تو اس کی دلیل دینا ہو گی۔
معیارِ حق پر چلنے ہی کی وجہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے لے کر قیامت تک آنے والے ایمانداروں کے مراتب و مدارج ہوں گے۔ اور جو کوئی دنیا میں جتنے مدارج طے کرے گا، اتنی ہی عظمت پائے گا اور اسی قدر بلندی درجات حاصل کرے گا۔

لہذا ثابت ہوتا ہے کہ اکثریت کا حق پر ہونا محل نظر ہے۔
 
Top