• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اکٹھی تین طلاق دینے پر نبی مکرم ﷺ کے غصہ کی روایت ضعیف قرار دینے کا سبب کیا ہے؟؟؟

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
اس حدیث کے ضعیف ہونے کی وجہ دلائل کی روشنی میں بتائی جائے

سنن النسائي (6 / 142):
أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ ابْنِ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَخْرَمَةُ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ مَحْمُودَ بْنَ لَبِيدٍ، قَالَ: أُخْبِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثَ تَطْلِيقَاتٍ جَمِيعًا، فَقَامَ غَضْبَانًا ثُمَّ قَالَ: «أَيُلْعَبُ بِكِتَابِ اللَّهِ وَأَنَا بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ؟» حَتَّى قَامَ رَجُلٌ وَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا أَقْتُلُهُ؟
[حكم الألباني] ضعيف
امام أبو عبد الرحمن أحمد بن شعيب النسائي (المتوفى: 303هـ) نے روایت کیا ہے کہ :
أخبرنا سليمان بن داود، عن ابن وهب، قال: أخبرني مخرمة، عن أبيه، قال: سمعت محمود بن لبيد، قال: أخبر رسول الله صلى الله عليه وسلم عن رجل طلق امرأته ثلاث تطليقات جميعا، فقام غضبانا ثم قال: «أيلعب بكتاب الله وأنا بين أظهركم؟» حتى قام رجل وقال: يا رسول الله، ألا أقتله؟
ترجمہ :
سیدنامحمود بن لبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کو ایک آدمی کے بارے میں بتایا گیا جس نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے دی تھیں۔ آپ غصے کی حالت میں اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا ’’کیا میری موجودگی میں اللہ تعالیٰ کی کتاب سے کھیلا جاتا ہے؟‘‘ حتیٰ کہ ایک آدمی کھڑا ہو کرکہنے لگا: اے اللہ کے رسول! کیا میں اسے قتل نہ کردوں؟
(سنن النسائی 3430)
علامہ ناصرالدین البانیؒ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ؛
ملاحظہ فرمائیں :
صحيح اخرجه النسائي من طريق مخرمة عن ابيه قال سمعت محمود بن لبيد قال فذكره
قلت : وهذا إسناد صحيح رجاله ثقات على خلاف في سماع مخرمة وهو ابن بكير من أبيه . وفي « التقريب » : صدوق ، وروايته عن أبيه وجادة من كتابه . قاله أحمد وابن معين وغيرهما . وقال ابن المديني : سمع من أبيه قليلا » . ومحمود بن لبيد ، صحابي صغير وجل روايته عن الصحابة . كما قال الحافظ ، فالظاهر أن هذا من مراسيله ، لكن مراسيل الصحابة حجة .
(غاية المرام في تخريج أحاديث الحلال والحرام ص161 )

https://archive.org/details/WAQ6102/page/n163

اور علامہ البانیؒ سے پہلے مصر کے نامور محدث اور عالم علامہ احمدؒ شاکر مصری اپنی کتاب "نظام الطلاق فی الاسلام " میں اسے صحیح قرار دے چکے ہیں ؛
لکھتے ہیں :
" كما روى النسائي باسناد صحيح عن محمود بن لبيد قال أخبر رسول الله عن رجل طلق امرأته ---- الخ
اور اس کے حاشیہ میں لکھتے ہیں :
"نقل الشوكاني (ج7 ص11 ) عن ابن كثير أنه قال "اسناده جيد "
-------------------
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
ایک مجلس میں اکٹھی تین طلاق


الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایک ہی مجلس میں اکٹھی تین طلاقیں دینا ہمارے معاشرے کابہت نازک اور سلگتا ہوا مسئلہ ہے لیکن ہم اس سلسلہ میں بہت لاپروا واقع ہوتے ہیں ،اس کی نزاکت کااندازہ درج ذیل حدیث سے بخوبی لگایا جاسکتاہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک شخص نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے دیں جب آپ کو اس کی اطلاع دی گئی تو غضبناک ہوکر کھڑے ہوئے اورفرمایا:" کیا میری موجودگی میں اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیلا جارہا ہے۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت دیکھ کر ایک صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میں اس شخص کو قتل نہ کردوں؟[1]

بہرحال کتاب وسنت کے مطابق ایک مجلس میں اکٹھی تین طلاقیں دینے سے ایک رجعی طلاق واقع ہوتی ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک ،حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ابتدائی دو سالہ عہد حکومت میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا جاتا تھا۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:" لوگوں نے ایک ایسے معاملہ میں جلدی کی ہےجس میں انہیں سہولت دی گئی تھی،انہوں نے اس کے بعد تینوں کو نافذ کردینے کاحکم دیا۔[2]

اسی طرح حضرت ابورکانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دےدی تھیں،پھر اس پر وہ نادم وپشیمان ہوئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"وہ تینوں طلاقیں ایک ہی ہیں۔"[3]

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابورکانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا:"تم ام رکانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے رجوع کرلو۔"انہوں نے عرض کیا:میں نے اسے تین طلاقیں دے دی ہیں۔آپ نے فرمایا:"مجھے اس بات کا علم ہے تم اس سے رجوع کرلو۔"[4]

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ یہ حدیث طلاق ثلاثہ کے متعلق فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے جس کی دوسری کوئی تاویل نہیں ہوسکتی۔[5]

درج بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک رجعی طلاق شمار ہوتی ہے،عدالت کےروبرو پہلی طلاق کو ہی پیش کردیا گیا لہذا اس کی کوئی الگ حیثیت نہیں ہے، اس طلاق پر چار سال کاعرصہ بیت چکا ہے اور مطلقہ کی عدت ختم ہوچکی ہے،عدت کے اختتام پر نکاح بھی ختم ہوجاتاہے لہذا تجدید نکاح سے صلح ہوسکے گی،ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَإِذا طَلَّقتُمُ النِّساءَ فَبَلَغنَ أَجَلَهُنَّ فَلا تَعضُلوهُنَّ أَن يَنكِحنَ أَزو‌ٰجَهُنَّ إِذا تَر‌ٰضَوا بَينَهُم بِالمَعروفِ...﴿٢٣٢﴾... سورةالبقرة
"اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور ان کی عدت پوری ہوجائے تو تم ان کے شوہروں سے نکاح میں رکاوٹ نہ بنو بشرط یہ کہ وہ آپس میں جائز طور پر راضی ہوجائیں۔"

اس آیت سے معلوم ہوا کہ رجع طلاق ے بعد اگرعدت ختم ہوجائے تو تجدید نکاح سے صلح ہوسکتی ہے لیکن اس کے لیے چار باتوں کا ہونا ضروری ہے:

1۔عورت تجدید نکاح پر رضا مند ہو،اس پر اس سلسلہ میں کوئی دباؤ نہ ڈالا جائے۔

2۔عورت کے سرپرست کی اجازت حاصل ہو کیونکہ اس کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوگا۔

3۔ازسر نو حق مہر کیاجائے۔

4۔گواہوں کی تعین بھی ضروری ہے۔

بہرحال ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک رجعی شمار ہوگی ،دوران عدت نئے نکاح کے بغیر ہی رجوع ممکن ہے ،البتہ عدت گزرنے کے بعد تجدید نکاح سے صلح ہوسکے گی۔(واللہ اعلم)

[1] ۔سنن النسائی:الطلاق:3430۔

[2] ۔صحیح مسلم الطلاق:1472۔

[3] ۔مسند امام احمد،265،ج1۔

[4] ۔ابوداود الطلاق:2196۔

[5] ۔فتح الباری :45،ج9۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب
فتاویٰ اصحاب الحدیث
جلد3۔صفحہ نمبر 344
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
امام أبو عبد الرحمن أحمد بن شعيب النسائي (المتوفى: 303هـ) نے روایت کیا ہے کہ :
أخبرنا سليمان بن داود، عن ابن وهب، قال: أخبرني مخرمة، عن أبيه، قال: سمعت محمود بن لبيد، قال: أخبر رسول الله صلى الله عليه وسلم عن رجل طلق امرأته ثلاث تطليقات جميعا، فقام غضبانا ثم قال: «أيلعب بكتاب الله وأنا بين أظهركم؟» حتى قام رجل وقال: يا رسول الله، ألا أقتله؟
ترجمہ :
سیدنامحمود بن لبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کو ایک آدمی کے بارے میں بتایا گیا جس نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے دی تھیں۔ آپ غصے کی حالت میں اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا ’’کیا میری موجودگی میں اللہ تعالیٰ کی کتاب سے کھیلا جاتا ہے؟‘‘ حتیٰ کہ ایک آدمی کھڑا ہو کرکہنے لگا: اے اللہ کے رسول! کیا میں اسے قتل نہ کردوں؟
(سنن النسائی 3430)
علامہ ناصرالدین البانیؒ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ؛
ملاحظہ فرمائیں :
صحيح اخرجه النسائي من طريق مخرمة عن ابيه قال سمعت محمود بن لبيد قال فذكره
قلت : وهذا إسناد صحيح رجاله ثقات على خلاف في سماع مخرمة وهو ابن بكير من أبيه . وفي « التقريب » : صدوق ، وروايته عن أبيه وجادة من كتابه . قاله أحمد وابن معين وغيرهما . وقال ابن المديني : سمع من أبيه قليلا » . ومحمود بن لبيد ، صحابي صغير وجل روايته عن الصحابة . كما قال الحافظ ، فالظاهر أن هذا من مراسيله ، لكن مراسيل الصحابة حجة .
(غاية المرام في تخريج أحاديث الحلال والحرام ص161 )

https://archive.org/details/WAQ6102/page/n163
اس صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غصہ سے کہا «أيلعب بكتاب الله وأنا بين أظهركم؟» ۔
اگر یہ ایک طلاق تھی تو اس پر غصہ ہونے کی وجہ بیان کر دی جائے؟
اگر یہ ایک ہی طلاق تھی تو یہ ’’اللہ تعالیٰ کی کتاب سے کھیلنا‘‘ کس سبب ہؤا؟
دوسری طرف ہم دیکھ رہے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے منشائے الٰہی کے خلاف حالتِ حیض میں طلاق دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی قسم کا غصہ نا فرمایا بلکہ اصلاح فرمائی۔


بہرحال کتاب وسنت کے مطابق ایک مجلس میں اکٹھی تین طلاقیں دینے سے ایک رجعی طلاق واقع ہوتی ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک ،حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ابتدائی دو سالہ عہد حکومت میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا جاتا تھا۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:" لوگوں نے ایک ایسے معاملہ میں جلدی کی ہےجس میں انہیں سہولت دی گئی تھی،انہوں نے اس کے بعد تینوں کو نافذ کردینے کاحکم دیا۔[2]
نسائی کی روایت اور یہاں اس روایت میں معاملہ الٹ نظر آرہا ۔
آپ کے بقول نسائی والی روایت میں ایک مجلس والی تین ایک تھی۔
عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک کو تین قرار دے رہے اور عورت کو اس پر حرام قرار دے رہے ہیں۔
دونوں میں تطبیق کیسے ہو؟


اب اس حدیث پر بھی غور فرما لیا جائے؛

سنن الدارقطني:
نا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ مِرْدَاسٍ , نا أَبُو دَاوُدَ السِّجِسْتَانِيُّ , نا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ , وَأَبُو ثَوْرٍ إِبْرَاهِيمُ بْنُ خَالِدٍ الْكَلْبِيُّ وَآخَرُونَ , قَالُوا: نا الشَّافِعِيُّ , حَدَّثَنِي عَمِّي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ شَافِعٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ السَّائِبِ , عَنْ نَافِعِ بْنِ عُجَيْرِ بْنِ عَبْدِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ , أَنَّ رُكَانَةَ بْنَ عَبْدِ يَزِيدَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ سُهَيْمَةَ الْبَتَّةَ فَأُخْبِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ فَقَالَ: وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ إِلَّا وَاحِدَةً , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَاللَّهِ مَا أَرَدْتَ إِلَّا وَاحِدَةً؟» , فَقَالَ رُكَانَةُ: وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ إِلَّا وَاحِدَةً , فَرَدَّهَا إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَطَلَّقَهَا الثَّانِيَةَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَالثَّالِثَةَ فِي زَمَانِ عُثْمَانَ.
قَالَ أَبُو دَاوُدَ: وَهَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.

ایک مجلس کی تین اگر ایک ہی ہوتی ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قسمیں کیوں اٹھوائیں کہ اس کی نیت تین کی نہیں بلکہ ایک ہی کی تھی۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
اس صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غصہ سے کہا «أيلعب بكتاب الله وأنا بين أظهركم؟» ۔
اگر یہ ایک طلاق تھی تو اس پر غصہ ہونے کی وجہ بیان کر دی جائے؟
اگر یہ ایک ہی طلاق تھی تو یہ ’’اللہ تعالیٰ کی کتاب سے کھیلنا‘‘ کس سبب ہؤا؟
اس کو ایک مثال سے سمجھاتے ہیں :
ایک مولوی صاحب کو نمازِ ظہر کے بعد سے لے کر مغرب تک تین مختلف جگہ "ختم شریف " پڑھنے اور کھانے جانا تھا ،
ایک جگہ جمعرات کا ختم تھا ،دوسری جگہ ایک بزرگ کے ایصال کیلئے ختم شریف تھا ،اور تیسری جگہ ایک افتتاحی تقریب کے ضمن میں قرآن کو ختم کرنا تھا ؛

ان سب ختموں میں اطمینان سے حاضری کیلئے مولوی صاحب نے نمازِ ظہر کے ساتھ ہی عصر اور مغرب کی نماز بھی پڑھ لی ،
مولوی صاحب کے اس فعل کا علم ایک مستند عالم کو ہوا ،تو وہ بڑے غصہ ہوئے ،اور فرمایا اکٹھی پڑھی گئی ان نمازوں میں صرف ایک نماز "ادا " ہوئی ،باقی دو قبل از وقت پڑھے جانے کے سبب ادا نہیں ہوئیں ،

اسی طرح نبی مکرم ﷺ کا ایک ہی وقت میں تین طلاق دینے پر غصہ اور ناراضگی تھی ،کہ ایک وقت میں پہلے ایک طلاق شرع شریف کا طریقہ ہے جو کتاب و سنت میں موجود ہے ،آپ کو تین طلاق دینے کا اختیار تو دیا گیا ہے لیکن اس کا طریقہ ،وقت بھی متعین کیاگیا ہے جس کی پابندی لازم ہے ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف ہم دیکھ رہے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے منشائے الٰہی کے خلاف حالتِ حیض میں طلاق دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی قسم کا غصہ نا فرمایا بلکہ اصلاح فرمائی۔
جی نہیں ؛
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جناب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما پر ان کے فعل پر غصہ فرمایا اور ناراضگی کا اظہار فرمایا تھا ،
ٍصحیح بخاری (4908 ) میں ہے :
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، قال: حدثني عقيل، عن ابن شهاب، قال: أخبرني سالم، أن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، أخبره: أنه طلق امرأته وهي حائض، فذكر عمر لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فتغيظ فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم قال: «ليراجعها، ثم يمسكها حتى تطهر، ثم تحيض فتطهر، فإن بدا له أن يطلقها فليطلقها طاهرا قبل أن يمسها، فتلك العدة كما أمر الله عز وجل»

اور سنن ابوداود میں ہے :
سالم بن عبد الله، عن أبيه، أنه طلق امرأته، وهي حائض، فذكر ذلك عمر لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فتغيظ رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال: «مره فليراجعها، ثم ليمسكها حتى تطهر، ثم تحيض فتطهر، ثم إن شاء طلقها طاهرا قبل أن يمس، فذلك الطلاق، للعدة كما أمر الله عز وجل» (سنن ابی داود 2182)
جناب سالمؒ بن عبداللہ اپنے والد ( عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی جبکہ وہ حیض سے تھی ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوئے پھر فرمایا ” اسے حکم دو کہ اس سے رجوع کرے ، پھر اسے روکے رکھے حتیٰ کہ وہ پاک ہو جائے ، پھر اسے حیض آئے اور پاک ہو ۔ تب اگر چاہے تو اسے طلاق دے جبکہ وہ پاک ہو ، مباشرت سے پہلے ۔ یہی وہ عدت کے موقع پر طلاق ہے ، جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ۔ “
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس حدیث میں نبی مکرم ﷺ کے اظہار ناراضگی کیلئے لفظ (فتغیظ ) استعمال ہوا ہے جو سخت غصہ اور شدید ناراضگی کیلئے استعمال کیا جاتا ہے :
عربی ڈکشنری میں ہے :
تغيَّظ الرَّجلُ : أظهر الغيْظ ، أي الغضب والسُّخْط
تغيَّظتِ النَّارُ : اشتدّت وسُمع لها صوت

یعنی سخت ناراضگی اور شدید غصہ کرنے کو "تغيَّظ " کہتے ہیں ؛

اس حدیث کے ذیل میں سنن ابوداود کے شارح علامہ شمس الحق عظیم آبادیؒ فرماتے ہیں :
" (فتغيظ) فيه دليل على حرمة الطلاق في الحيض لأنه صلى الله عليه وسلم لا يغضب بغير حرام كذا قال علي القارىء ۔۔۔۔

یعنی اس حدیث میں ہے کہ جناب رسول مکرم ﷺ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے فعل پر بڑے غصہ ہوئے ،آپ ﷺ کا غصہ اس بات کی دلیل ہے کہ حالت حیض میں طلاق دینا حرام ہے ، کیونکہ آپ ﷺ فعل حرام کے علاوہ اظہار غضب نہ فرماتے تھے ،جیسا کہ مشہور حنفی عالم ملا علی القاریؒ نے فرمایا ہے "
(عون المعبود شرح سنن ابی داود )
 
Last edited:
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
اس کو ایک مثال سے سمجھاتے ہیں :
ایک مولوی صاحب کو نمازِ ظہر کے بعد سے لے کر مغرب تک تین مختلف جگہ "ختم شریف " پڑھنے اور کھانے جانا تھا ،
ایک جگہ جمعرات کا ختم تھا ،دوسری جگہ ایک بزرگ کے ایصال کیلئے ختم شریف تھا ،اور تیسری جگہ ایک افتتاحی تقریب کے ضمن میں قرآن کو ختم کرنا تھا ؛

ان سب ختموں میں اطمینان سے حاضری کیلئے مولوی صاحب نے نمازِ ظہر کے ساتھ ہی عصر اور مغرب کی نماز بھی پڑھ لی ،
مولوی صاحب کے اس فعل کا علم ایک مستند عالم کو ہوا ،تو وہ بڑے غصہ ہوئے ،اور فرمایا اکٹھی پڑھی گئی ان نمازوں میں صرف ایک نماز "ادا " ہوئی ،باقی دو قبل از وقت پڑھے جانے کے سبب ادا نہیں ہوئیں ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فرمان سے یہ ثابت نہیں کہ انہوں نے اس صحابی کی ان تین طلاق کو ایک ہی قرار دیا ہو

ہر طلاق طہر ہی میں دینی چاہیئے کہ اس میں سوچنے سمجھنے کا موقعہ ملتا ہے اور مفاہمت کی سبیل نکل سکتی ہے۔
مگر جب اکٹھی تین دے دیں تو اس نے مفاہمت کی راہ نا رہنے دی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وجہ سے شدید غصہ کا اظہار کیا اور اس کو کتاب اللہ سے کھیلنا قرار دیا۔

مگر رجوع کا حکم نا فرمایا۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جناب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما پر ان کے فعل پر غصہ فرمایا اور ناراضگی کا اظہار فرمایا تھا ،
ٍصحیح بخاری (4908 ) میں ہے :
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، قال: حدثني عقيل، عن ابن شهاب، قال: أخبرني سالم، أن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، أخبره: أنه طلق امرأته وهي حائض، فذكر عمر لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فتغيظ فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم قال: «ليراجعها، ثم يمسكها حتى تطهر، ثم تحيض فتطهر، فإن بدا له أن يطلقها فليطلقها طاهرا قبل أن يمسها، فتلك العدة كما أمر الله عز وجل»
غصہ تو ہوئے مگر اس کو کتاب اللہ سے کھیلنا نا فرمایا۔
تربیت کے لئے رجوع کا بھی حکم دیا ۔
رجوع منعقدہ طلاق سے ہی ہؤا کرتا ہے۔
ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ کا فرمان واضح ہے کی ان کی حالت حیض میں دی گئی طلاق گنی گئی۔


اب اس حدیث پر بھی غور فرما لیا جائے؛

سنن الدارقطني:
نا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ مِرْدَاسٍ , نا أَبُو دَاوُدَ السِّجِسْتَانِيُّ , نا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ , وَأَبُو ثَوْرٍ إِبْرَاهِيمُ بْنُ خَالِدٍ الْكَلْبِيُّ وَآخَرُونَ , قَالُوا: نا الشَّافِعِيُّ , حَدَّثَنِي عَمِّي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ شَافِعٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ السَّائِبِ , عَنْ نَافِعِ بْنِ عُجَيْرِ بْنِ عَبْدِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ , أَنَّ رُكَانَةَ بْنَ عَبْدِ يَزِيدَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ سُهَيْمَةَ الْبَتَّةَ فَأُخْبِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ فَقَالَ: وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ إِلَّا وَاحِدَةً , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَاللَّهِ مَا أَرَدْتَ إِلَّا وَاحِدَةً؟» , فَقَالَ رُكَانَةُ: وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ إِلَّا وَاحِدَةً , فَرَدَّهَا إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَطَلَّقَهَا الثَّانِيَةَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَالثَّالِثَةَ فِي زَمَانِ عُثْمَانَ.
قَالَ أَبُو دَاوُدَ: وَهَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.

[FONT=KFGQPC Uthman Taha Naskh, Trad Arabic Bold Unicode, Tahoma][/FONT]
ایک مجلس کی تین اگر ایک ہی ہوتی ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قسمیں کیوں اٹھوائیں کہ اس کی نیت تین کی نہیں بلکہ ایک ہی کی تھی۔
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
ایک مجلس کی تین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین ہی قرار دیا

سنن ابن ماجه: كِتَاب الطَّلَاقِ: بَاب مَنْ طَلَّقَ ثَلَاثًا فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ إِسْحَقَ بْنِ أَبِي فَرْوَةَ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ قَالَ قُلْتُ لِفَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ حَدِّثِينِي عَنْ طَلَاقِكِ قَالَتْ طَلَّقَنِي زَوْجِي ثَلَاثًا وَهُوَ خَارِجٌ إِلَى الْيَمَنِ فَأَجَازَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

سنن النسائي: کتاب الطلاق: بَاب الرُّخْصَةِ فِي ذَلِكَ
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَزِيدَ الْأَحْمَسِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا الشَّعْبِيُّ قَالَ حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ قَالَتْ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ أَنَا بِنْتُ آلِ خَالِدٍ وَإِنَّ زَوْجِي فُلَانًا أَرْسَلَ إِلَيَّ بِطَلَاقِي وَإِنِّي سَأَلْتُ أَهْلَهُ النَّفَقَةَ وَالسُّكْنَى فَأَبَوْا عَلَيَّ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ قَدْ أَرْسَلَ إِلَيْهَا بِثَلَاثِ تَطْلِيقَاتٍ قَالَتْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا النَّفَقَةُ وَالسُّكْنَى لِلْمَرْأَةِ إِذَا كَانَ لِزَوْجِهَا عَلَيْهَا الرَّجْعَةُ
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
اوپر مذکور دو روایات سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اس بات پر ناراضگی کا اظہار نہیں فرمایا تھا کہ ایک ہی مجلس میں تین طلاق کیوں دیں؟
بلکہ ناراضگی کا سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ غصہ میں یا بلا وجہ ایک مجلس میں تین طلاق نا دی جائیں۔
ہاں کوئی عذر ہو تو ایسا کیا جاسکتا ہے جس کا ثبوت اوپر مذکور حدیث میں ہے۔
 
Top