• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اگر تم مومن ھو

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
بیعتِ عقبہ اوّل میں مدینہ کے جن بارہ افراد نے نبی ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی ان کی بیعت میں‘ شرک نہ کرنے کے بعد ایک اہم بات نبی ﷺ کی اطاعت کرنا ہی تھی۔ عقبہ کی اس بیعت کی تفصیل بخاری میں عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ:۔

’’ بَایِعُوْنِیْ عَلَی اَنْ لَّا تُشْرِکُوْا بِاللہَ شَیْئًا وَلَا تَسْرِقُوْا وَلَا تَزْنُوْا وَلَا تَقْتُلُوْا اَوْلَادَکُمْ وَلَا تَأْتُوْا بِبُھْتَانٍ تَفْتَرُوْنَہٗ بَیْنَ اَیْدِیْکُمْ وَاَرْجُلِکُمْ وَلَا تَعْصُوْا فِیْ مَعْرُوْفٍ فَمَنْ وَفِیْ مِنْکُمْ فَاَجْرُہٗ عَلَی اللہِ وَمَنْ اَصَابَ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئًا فَعُوْقِبَ فِی الدُّنْیَا فَھُوَ کَفَّارَۃٌ لَہٗ وَمَنْ اَصَابَ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئًا ثُمَّ سَتَرَہُ اللہُ فَھُوَ اِلَی اللہِ اِن شَآئَ عَفَا عَنْہُ وَاِنْ شَآئَ عَاقَبَہٗ فَبَا یَعْنَاہُ عَلٰی ذٰلِکَ‘‘
’’رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا: آئو مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ ﷲ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گے ‘ چوری نہ کرو گے‘ زنا نہ کرو گے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو گے‘ اپنے ہاتھ پائوں کے درمیان سے گھڑ کر کوئی بہتان نہ لائو گے اور کسی معروف بات میں میری نافرمانی نہ کرو گے‘ جو شخص یہ باتیں پوری کرے گا اس کا اجر ﷲ پر ہے اور جو شخص ان میں سے کسی چیز کا ارتکاب کر بیٹھے گا پھر اسے دنیا ہی میں اس کی سزا دی جائے گی تو یہ اس کیلئے کفارہ ہو گیا اور جو شخص ان میں سے کسی چیز کا ارتکاب کر بیٹھے گا پھر ﷲ اس پر پردہ ڈال دے گا تو اس کا معاملہ ﷲ کے حوالے ہے چاہے تو سزا دے گا اور چاہے تو معاف کر دے گا۔ عبادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم نے اس پر آپ ﷺ سے بیعت کر لی‘‘۔
(بخاری‘ کتاب الایمان‘ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ )۔

بیعت کرنے والے جس وقت آپ ﷺ پر بیعت کر رہے تھے اس وقت وہ مدینہ میں مقتدر ہونا تو دور کی بات تعداد میں بھی بہت قلیل تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے آپ کی اطاعت میں مدینہ میں جا کر دعوت کا کام کیا جس کے نتیجے میں ﷲ تعالیٰ نے ان کی مدد کی اور مدینہ کے مقتدر لوگ میسر آ گئے اور پھر ان کی نصرت سے اہل ایمان غلبہ پا گئے جیسے حواریوں نے عیسیٰ علیہ السلام کی اور اپنی انتہائی مغلوبیت کی کیفیت میں آپ علیہ السلام کی نصرت کا اعلان کیا اور آپ علیہ السلام کی اطاعت اختیار کی۔ عیسیٰ علیہ السلام تو آسمان پر اٹھا لئے گئے مگر ﷲ تعالیٰ نے ان اطاعت گزار انصار کی مدد کی‘ بنی اسرائیل میں سے لوگ ایمان لے آئے اور ﷲ تعالیٰ نے ان کو غلبہ عطا فرما دیا جیسا کہ ﷲ تعالیٰ آج کے اہل ایمان کو بھی انہی کی طرح کرنے کا کہتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ:

’’یَآیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا اَنْصَارَ اللہِ کَمَا قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیِّنَ مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللہِ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللہِ فَاَمَنْتُ طَّآئِفَۃٌ مِنْ بَنِیْ اِسْرَآئِ یْلَ وَکَفَرَتْ طَّآئِفَۃٌ فَاَیَّدْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلٰی عَدُوِّھِمْ فَاَصْبَحُوْا ظَاہِرِیْنَ‘‘۔
(الصف:14)
’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ﷲ کے نصرت کرنے والے بنو جیسا کہ کہا تھا عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نے حواریوں سے کہ کون ﷲ کی طرف میری نصرت کرنے والا ‘ کہا حواریوں نے کہ ہم ہیں ﷲ کے نصرت کرنے والے‘ پھر ایمان لے آیا ایک گروہ بنی اسرائیل میں سے اور انکار کر دیا یا دوسرے گروہ نے سو مدد کی ہم نے ایمان والوں کی ان کے دشمنوں کے مقابلے میں ‘ سو ہو کر رہے وہی غالب‘‘۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
خلیفہ مقرر کرنے سے پہلے امت کے ہاتھ میں اقتدار ہونے کی شرط
بعض لوگ کہتے ہیں کہ خلیفہ اس وقت تک مقرر نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ امت کے ہاتھ اقتدار نہ آ جائے جبکہ آج صورتِ حال یہ ہے کہ جس اسلامی سلطنت پر کبھی ایک خلیفہ ﷲ کے نازل کردہ کے مطابق حاکمیت کرتا تھا اسے اقوامِ متحدہ کے چارٹر پر دستخط کر کے عباد الطاغوت بننے والے ٹکڑوں میں بانٹ کر طاغوتی قوانین کے مطابق حاکمیت کے ظلم (شرک) میں مبتلا کئے ہوئے ہیں اور ﷲ کے قوانین کے مطابق حاکمیت چاہنے والے لوگ بھی آپس میں ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں۔

اس میں کیا شک ہے کہ صورتِ حال ایسی ہی ہے جیسی اوپر بیان کی گئی ہے اور اس سے نکلنے کے حوالے سے کتاب کے صفحہ 192 تا 204 پر بحث ہو چکی ہے یہاں صرف اتنی گزارش ہے کہ خلیفہ جو تفرق اور مغلوبیت میں امت کی وحدت اور غلبہ و اقتدار کا ذریعہ ہے اسے صرف اس بنا پر اختیار نہ کیا جائے کہ وحدت و غلبہ حاصل نہیں ہے گنگا الٹی بہانے ہی کے مترادف ہے۔

یہاں ایک اور بات بہت اہم ہے کہ اگر خلیفہ مقرر کرنے سے پہلے‘ غلبہ و اقتدار ہونا ضروری ہے تو جس اقتدار پر سب سے پہلا خلیفہ مقرر ہوا تھا وہ تو نبی ﷺ نے حالتِ مغلوبیت میں آ کر اور ﷲ کے احکامات کے مطابق سیاست کر کے حاصل کیا تھا چنانچہ اب امت کو مجتمع کرنے اور اسے دوبارہ اقتدار دلانے کیلئے نبی ہی کو آنا چاہئے۔ جب یہ بات طے ہے کہ اب کسی نبی نے نہیں آنا تو اب بتائیں کتاب و سنت میں انبیاء کے بعد امت کی سیاست ذمہ دار کس کو بتایا گیا ہے کیا خلیفہ کے علاوہ کوئی اور ہے جس پر امت مجتمع ہو سکے؟ اور یوں اس کے حالتِ مغلوبیت سے نکل کر دوبارہ اقتدار میں آنے کا اہتمام ہو سکے؟
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
خلیفہ مقرر کرنے کیلئے اُمت سے مشورے کی شرط
بعض لوگ یہ شرط پیش کرتے ہیں کہ خلیفہ کے تقرر کیلئے امت کا مشورہ بہت ضروری ہے‘ اس میں کیا شک ہے کہ تقررِ خلیفہ کیلئے بھی مشورہ بہت ضروری ہے کیونکہ ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’ وَشَاوِرُھُمْ فِی الْاَمْرِ ‘‘۔
(آل عمران:159)
’’ اور ان سے مشورہ لیتے رہو دین کے کام میں‘‘۔

یہاں ایک اہم سوال یہ سامنے آتا ہے کہ مشورہ کتنے افراد سے کرنا ہے‘ اس حوالے سے بھی ﷲ تعالیٰ کے اسی ارشاد سے راہنمائی ملتی ہے۔ ﷲ تعالیٰ کے ارشاد میں ’’ھم‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو کم از کم تین افراد کیلئے بولا جاتا ہے‘ اس بنا پر کم از کم تین افراد سے مشورہ تو لازم ٹھہرتا ہے لیکن اس سے زیادہ کی پابندی ﷲ تعالیٰ نے نہیں لگائی۔ اب امت کے مشورے کی شرط لگانے والوں سے سوال ہے کہ وہ تقررِ خلیفہ کیلئے کتنی امت کا مشورہ ضروری سمجھتے ہیں‘ پوری کا؟ آدھی کا؟ یا اس سے تھوڑی کم کا؟ اور کتاب و سنت کی کس دلیل کی بنیاد پر۔ حقیقت یہ ہے کہ تقرر خلیفہ کیلئے زیادہ سے زیادہ صرف اتنے ہی افراد کے مشورے کی ضرورت ہے کہ اس حوالے سے ﷲ کے حکم کی اطاعت میں کمی نہ رہ جائے۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
خلیفہ مقرر کرنے سے پہلے مجوزہ شخص پر اتفاقِ امت کی شرط
بعض لوگ کہتے ہیں کہ خلیفہ مقرر کرنے کیلئے ضروری ہے کہ پہلے ساری امت خلیفہ کیلئے مجوزہ شخص پر متفق ہو چکی ہو۔

یہ شرط رکھنے والوں سے سوال ہے کہ ﷲ کی شریعت میں اگر یہ چیز شرط ہے تو لمبا عرصہ گزر چکا تھا خلافت کو ختم ہوئے ‘ آپ لوگ کسی ایک شخص پر متفق کیوں نہیں ہو گئے؟ جواب میں عام طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ ہم نے تو ایک بہترین لیڈر پیش کیا تھا (جماعتوں سے وابستہ لوگ اپنے اپنے لیڈر کا نام لیتے ہیں) لوگ اس پر متفق نہیں ہوئے تو یہ لوگوں کا قصور ہے۔

’’بعض لوگوں کے پسندیدہ لیڈر‘‘ پر تمام لوگ متفق نہیں ہوئے تو یہ لوگوں کا قصور نہیں بلکہ یہ فطرت کا تقاضاہ ہے کیونکہ:۔

1۔ اختلاف انسانوں کی فطرت میں داخل ہے جیسا کہ ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’ وَلَوْ شَآء رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّلَا یَزَالُوْنَ مَخْتَلِفِیْنَo اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّکَ وَکَذٰلِکَ خَلَقَھُمْ‘‘۔
(ھود:118‘119)
’’ اگر تیرا رب چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک ہی جماعت بنا دیتا مگر وہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے مگر جن پر رحمت ہو تیرے رب کی اور اسی (امتحان) کیلئے اس نے پیدا کیا ہے انہیں‘‘۔

2۔ اہل ایمان اگر کسی چیز پر متفق رہ سکتے ہیں تو وہ صرف ﷲ اور اس کے رسول کی بات ہے اور اگر وہ تنازعے میں مبتلا ہو جائیں تو جس بات پہ وہ دوبارہ متفق ہو سکتے ہیں وہ بھی صرف ﷲ اور اس کے رسول کی بات ہے۔

3۔ اہل ایمان ازخود یا کسی کی دعوت دینے پر بھی کسی ایسی چیز یا شخص پر متفق نہیں ہو سکتے جس پر متفق ہونے کیلئے کوئی شرعی دلیل نہ ہو جبکہ اندھا دھند (اندھی تقلید میں) کسی کے جھنڈے تلے لڑتے ہوئے مارے جانے کو جاہلیت کی موت مرنا بھی کہا گیا ہے۔

نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’ مَنْ قَاتَلَ تَحْتَ رَاٰیَۃٍ عِمِّیَّۃٍ یَغْضَبُ لِعَصَبَۃٍ اَوْیَدْعُوْ اِلٰی عَصَبَۃٍ اَوْ یَنْصُرُ عَصَبَۃً فَقُتِلَ فَقِتْلَۃ ‘‘۔
’’ جو شخص اندھا دھند (اندھی تقلید میں) کسی کے جھنڈے تلے لڑتا ہوا مارا جائے جو عصبیت کیلئے غضب ناک ہو‘ عصبیت کی طرف دعوت دے اور عصبیت کی نصرت کرے اور قتل ہو جائے تو اس کا قتل جاہلیت کا قتل ہے‘‘۔

نبی ﷺ کی وفات کے فوراً بعد انبیاء کے بعد سب سے بہترین لوگ صحابہ رضی اللہ عنہم بھی فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق ازخود کسی شخص پر متفق نہیں ہو پا رہے تھے اور اس سلسلے میں ان کے تین گروہ بن گئے تھے۔ مہاجرین کی اکثریت نے ابوبکر رضی اللہ عنہ پہ اتفاق کر لیا تھا مگر علی رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ والوں نے اختلاف کیا تھا اور انصار اپنے میں سے خلیفہ بنانا چاہتے۔

جب ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم انصار کے پاس ثقیفہ بنی ساعدہ میں پہنچے تو وہاں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مدلل خطاب کے باوجود ایک خلیفہ انصار اور ایک مہاجرین میں سے مقرر کرنے کی بات سامنے آ گئی جس پر شورو غل مچ گیا اور لوگوں کی آوازیں بلند ہو گئیں حتی کہ بقول عمر رضی اللہ عنہ مجھے خوف پیدا ہو گیا تو جھٹ میں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے عرض کی کہ اے ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنا ہاتھ بڑھائیے۔ انہوں نے ہاتھ بڑھایا تو میں نے بیعت کر لی اور مہاجرین نے بھی ان سے بیعت کر لی اور ان کے بعد انصار نے بھی ان سے بیعت کر لی۔

ابوبکر رضی اللہ عنہ بیعت سے پہلے امت میں بہت محترم تو تھے مگر اطاعت کیلئے کسی شرعی دلیل کے حامل نہ تھے اس بنا پر صحابہ ان کے موجود ہونے کے باوجود ان پر مجتمع نہ ہو پا رہے تھے مگر ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھ پر عمر رضی اللہ عنہکے بیعت کرنے کے ساتھ ہی شرعی دلیل ’’پہلی بیعت‘‘ کے حامل ہو گئے اس کے ساتھ ہی امت کے خلیفہ و امام قرار پا گئے ‘ اب ان سے اختلاف رکھنے ولوں کیلئے بھی کوئی چارہ اس کے سوا نہ رہ اتھا کہ شرعی دلیل کے حامل اس شخص کے ہاتھ پر بیعت کر کے اس کی اطاعت اختیار کر لیں۔ صحابہ رضی اللہ عنہم اندھی تقلید میں ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسی عظیم المرتبت شخصیت پر بھی متفق نہ ہو سکے لیکن جونہی آپ شرعی دلیل کے حامل ہو گئے ‘ صحابہ رضی اللہ عنہم ان پر باآسانی متفق ہو گئے۔

اس ساری تفصیل سے تقررِ خلیفہ کے حوالے سے جو اصول واضح ہوتا ہے وہ ’’تقررِ خلیفہ سے پہلے اتفاقِ امت‘‘ کی بجائے شرعی دلیل کی بنا پر خلیفہ قرار پا جانے والی شخصیت پر اتفاقِ امت ہے ‘‘اور نبی ﷺ بھی ہر امتی کو ’’پہلی بیعت‘‘ کے حامل سے وفاداری کرنے اور اسے اس کا حق دینے کا حکم دے رہے ہیں نہ کہ پوری امت کو متفق ہو کے پہلی بیعت کرنے کا۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ:

’’ فُوْا بِبَیْعَۃِ الْاَوَّلِ فَالْاَوَّلِ اَعْطُوْھُمْ حَقَّھُمْ فَاِنَّ اللہَ سَائِلُھُمْ عَنْ مَّا اسْتَرْعَاھُمْ‘‘۔(بخاری‘ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ)
’’ پہلی بیعت کے (حامل کے) ساتھ وفاداری کرو اور پھر پہلی کے ساتھ تم انہیں ان کا حق دو ان سے ان کی رعیت کے بارے میں ﷲ پوچھے گا‘‘۔

اختتام

۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
جزاک اللہ خیراً
اچھی محنت اچھی معلومات اور اچھی کاوش کے لیے مبارک باد اللہ تعالیٰ قبول فرمائے
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
جزاک اللہ بھائی جان۔۔۔۔اس کی ایک فائل بنا کر کسی اپ لوڈنگ ویب سائٹ پر ڈال دیں۔۔تاکہ ہم اس کو مکمل ایک فائل کی صورت میں ڈاؤن لوڈ کر لیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء۔۔۔
بہت بہت شکریہ شاکر بھائی
اپنی سی کوشش کے باوجود بندہ ناچیز محدث ٹائیپنگ پروجیکٹ تک رسائی حاصل نہیں کر سکا
یہ ذمہ داری آپ ہی نبھا دیں (یعنی نقل کروا دیں۔ اس میں میں شیر ہوں ہاہاہاہا)
پھر اس کے بعد کوشش کروں گا کہ کام مسلسل جاری و ساری رہے

ہاں یاد آیا کہ آپ کو دو عدد فونٹس بھیجے ہیں۔ ان کے متعلق آپ کی رائے کیا ہے؟

ایک چیز اور بھی ہے کہ السیاسۃ الشرعیہ والے تھریڈ میں جو عربی فونٹ ہے وہ تو شاید عثمان طہ والا فونٹ ہے۔ آج بھی اس میں پوسٹیں لگائیں تو یہی فونٹ سامنے آیا۔ لیکن جب دوسرے تھریڈ میں کام کیا مثلاً ان کنتم مؤمنین تو اس تھریڈ میں عربی فونٹ شاید ٹریڈ بولڈ عریبک لگ رہا ہے۔ یہ چیزیں سمجھ نہیں آ رہیں۔

برائے کرم ان پر راہنمائی فرما دیجیے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
جزاک اللہ خیراً
اچھی محنت اچھی معلومات اور اچھی کاوش کے لیے مبارک باد اللہ تعالیٰ قبول فرمائے
اللہ تعالی ہم سب کے لئے ان چیزوں کو نافع بنائے۔

اللھم انی اسئلک علما نافعا و عملا مّتقبلا و رزقا طیبا
 
Top