- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,751
- پوائنٹ
- 1,207
ان ادوار پرشاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا تاریخی تبصرہ اور علمی محاکمہ حجۃ اللہ البالغۃ ۱؍۲۷۴
آگاہ رہئے! امام سعید بن المسیب ، ابراہیم نخعی اور زہری یا امام مالک وسفیان جیسے ائمہ معتبرین کے زمانہ میں ۔۔یا ان کے بعد کے ادوار میں۔۔ علماء حق رائے زنی کو پسند نہیں کرتے تھے اور فتوی دینے یا استنباط سے بھی گھبراتے تھے۔ہاں بہت ضروری ہوتا تو فتوی دیا کرتے۔ ان ادوار میں ایسے علماء کا سب سے زیادہ اہم کام حدیث رسول ﷺ کی روایت کا تھا جو فتوی ہوتا ۔
رائے کے بارے میں سلف کے اقوال:
سیدنا عبد اللہؓ بن مسعود سے کسی شے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو فرمانے لگے: مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میں ایک شے کو جسے اللہ نے تم پر حرام کیا ہو حلال کردوں یا جو حلال کی ہو اسے حرام کردوں۔
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
لوگو! ابتلاء کے نازل ہونے سے قبل اسے جلدی مت مانگو کیونکہ مسلمانوں میں کچھ لوگ مسلسل رہیں گے جن سے جب کچھ پوچھا جائے گا تووہ جلدی سے اسے بیان کردیں گے۔ یہی بات سیدنا عمر، علی، ابن عباس، اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم سے سے بھی مروی ہے۔
سیدنا ابن عمر ؓ نے جابر بن زید سے فرمایا:
تم بصرہ کے فقہاء میں شمار ہوتے ہو۔ تم سوائے قرآن ناطق کے یا سنت ماضیہ کے کوئی فتوی نہ دینا۔اگر تم نے ان کے علاوہ کچھ بھی فتوی دیا تو خود بھی ہلاک ہوگے اور دوسروں کو بھی کروگے۔
ابوالنصر کہتے ہیں:
جب ابو سلمہ رضی اللہ عنہ بصرہ تشریف لائے تو میں اور حسن آپ سے ملنے آئے۔ حسن سے آپ نے فرمایا: تم حسن ہو؟ بصرہ میں مجھے سب سے زیادہ تمہیں ملنے کی خواہش تھی۔جس کی وجہ یہ تھی کہ میں نے سنا ہے تم اپنی رائے سے فتوے دیتے ہو۔ اپنی رائے سے فتوے مت دو۔ ہاں اگر سنت رسول اللہ ﷺ سے ہو یا کتاب منزل سے ہو تو۔
ابن المنکدر کہتے ہیں:
عالم، اللہ اور اس کے بندوں کے مابین ہوا کرتا ہے۔ عالم اپنی جان کا مخرج بھی ضرور تلاش کرلے۔
اہل الحدیث اور اصحاب الرائے کے مابین فرق
آگاہ رہئے! امام سعید بن المسیب ، ابراہیم نخعی اور زہری یا امام مالک وسفیان جیسے ائمہ معتبرین کے زمانہ میں ۔۔یا ان کے بعد کے ادوار میں۔۔ علماء حق رائے زنی کو پسند نہیں کرتے تھے اور فتوی دینے یا استنباط سے بھی گھبراتے تھے۔ہاں بہت ضروری ہوتا تو فتوی دیا کرتے۔ ان ادوار میں ایسے علماء کا سب سے زیادہ اہم کام حدیث رسول ﷺ کی روایت کا تھا جو فتوی ہوتا ۔
رائے کے بارے میں سلف کے اقوال:
سیدنا عبد اللہؓ بن مسعود سے کسی شے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو فرمانے لگے: مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میں ایک شے کو جسے اللہ نے تم پر حرام کیا ہو حلال کردوں یا جو حلال کی ہو اسے حرام کردوں۔
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
لوگو! ابتلاء کے نازل ہونے سے قبل اسے جلدی مت مانگو کیونکہ مسلمانوں میں کچھ لوگ مسلسل رہیں گے جن سے جب کچھ پوچھا جائے گا تووہ جلدی سے اسے بیان کردیں گے۔ یہی بات سیدنا عمر، علی، ابن عباس، اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم سے سے بھی مروی ہے۔
سیدنا ابن عمر ؓ نے جابر بن زید سے فرمایا:
تم بصرہ کے فقہاء میں شمار ہوتے ہو۔ تم سوائے قرآن ناطق کے یا سنت ماضیہ کے کوئی فتوی نہ دینا۔اگر تم نے ان کے علاوہ کچھ بھی فتوی دیا تو خود بھی ہلاک ہوگے اور دوسروں کو بھی کروگے۔
ابوالنصر کہتے ہیں:
جب ابو سلمہ رضی اللہ عنہ بصرہ تشریف لائے تو میں اور حسن آپ سے ملنے آئے۔ حسن سے آپ نے فرمایا: تم حسن ہو؟ بصرہ میں مجھے سب سے زیادہ تمہیں ملنے کی خواہش تھی۔جس کی وجہ یہ تھی کہ میں نے سنا ہے تم اپنی رائے سے فتوے دیتے ہو۔ اپنی رائے سے فتوے مت دو۔ ہاں اگر سنت رسول اللہ ﷺ سے ہو یا کتاب منزل سے ہو تو۔
ابن المنکدر کہتے ہیں:
عالم، اللہ اور اس کے بندوں کے مابین ہوا کرتا ہے۔ عالم اپنی جان کا مخرج بھی ضرور تلاش کرلے۔