• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل بدعت کی اس غلط تأویل کا جواب مطلوب ہے؟

شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اہل علم سے گزارش ہے کہ مبتدعین کو جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مختار کل اور علم الغیب اور نبی علیہ السلام کے فرشتہ یا نور نہ ہونے پر آیات پیش کی جاتی ہیں جیسا کہ (سورہ الانعام: ۵۰) اور (الاعراف: ۱۱۸) میں آیات آتی ہیں تو ان کی طرف سے یہ دو جواب آتے ہیں
B پہلا یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسابطورِ تواضع کہا جیسے مال ودولت والا کوئی امیر شخص اپنے سے کم درجہ لوگوں کو یوں کہے کہ میں بھی آپ جیسا ہی ہوں ، آپ ہی کی طرح کھاتا پیتا اور پہنتا ہوں، جبکہ اس کا لائف آف سٹینڈرڈ (یعنی اس کا کھانا پینا اور پہننا ) ان سے یکسر مختلف ہوتا ہے ، اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے بھی اپنے پیارے حبیب نبی مکرمﷺ سے ایسا بطورِ عاجزی کے کہلوایا لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے ...
C دوسرا یہ کہ نبیﷺ کے مختار کل، عالم الغیب اور نور کی نفی والی آیات کا یہ لوگ یہ جواب دیتے ہیں کہ نفی والی آیات کو ذاتی پر محمول کیا جائے گا یعنی کہ نہ تو ذاتی طور پر آپ خزانوں کے مالک ہیں اور نہ ہی ذاتی طور (یعنی خود بخود) آپ کو علم غیب ہو جاتا ہے بلکہ آپ اللہ کی عطاء سے سب کو دیتے ہیں اور اللہ ہی کی عطاء سے آپ کو بہت سارا علم غیب عطاء ہوا ہے...
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
پہلا یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسابطورِ تواضع کہا جیسے مال ودولت والا کوئی امیر شخص اپنے سے کم درجہ لوگوں کو یوں کہے کہ میں بھی آپ جیسا ہی ہوں ، آپ ہی کی طرح کھاتا پیتا اور پہنتا ہوں، جبکہ اس کا لائف آف سٹینڈرڈ (یعنی اس کا کھانا پینا اور پہننا ) ان سے یکسر مختلف ہوتا ہے ،
پہلے تو ان کی اس مثال پر عرض ہے کہ جناب! یہ مال ودولت والا امیر شخص کیا مال ودولت کے سبب انسان نہیں رہتا؟ بھئی انسان تو وہ رہتا ہے، اور انسان ہونے میں وہ مسکین کی طرح انسان ہی ہے!
ہاں اس کے اوصاف میں فرق ہے! جیسا کہ یہاں مثال میں اس کے لائف آف اسٹینڈرڈ (یعنی اس کا کھنا پینا اور پہننا) مسکین انسانوں سے مختلف بتلایا ہے۔
تو کیا اس فرق کی کے سبب اس مال ودولت والے امیر شخص کو انسان نہیں سمجھا اور کہا جائے گا؟ اور وہ کوئی غیر انسانی مخلوق بن جاتا ہے؟
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے بھی اپنے پیارے حبیب نبی مکرمﷺ سے ایسا بطورِ عاجزی کے کہلوایا لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے ...
یہ کہنا کیا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عاجزی حقیقت کے برعکس بات کہنے کا حکم دیا ہے؟
یعنی کہ حکم تو اللہ نے دیا کہ کہو دو کہ بشر ہو، انسان ہو لیکن حقیقت میں اس کے برعکس ہے یعنی انسان وبشر نہیں؟
آخیر یہ کہنا کیا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سچائی کے پیکر کو اپنی حقیقت کے برعکس بتلانے حکم دے رہا ہے؟
اور یاد رہے یہ مذکورہ عاجزی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اللہ کے سامنے نہیں بلکہ انسانوں کے سامنے ہے!
اللہ تعالیٰ نے کیا فرمایا ہے اسے دیکھیں:

قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَة رَبِّهِ أَحَدًا (سورة الكهف 110)
کہہ دو کہ میں بھی تمہارے جیسا آدمی ہی ہوں میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے پھر جو کوئی اپنے رب سے ملنے کی امید رکھے تو اسے چاہیئے کہ اچھے کام کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے ۔ (ترجمہ احمد علی لاہوری)
قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوهُ وَوَيْلٌ لِلْمُشْرِكِينَ (سورة فصلت 06)
آپ ان سے کہہ دیں کہ میں بھی تم جیسا ایک آدمی ہوں میری طرف یہی حکم آتا ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی ہے پھراس کی طرف سیدھے چلے جاؤ اور اس سے معافی مانگو اور مشرکوں کے لیے ہلاکت ہے۔ (ترجمہ احمد علی لاہوری)
یہاں دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیں کہ وہ انسان ہیں، جیسے کہ یہ لوگ انسان ہیں!
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکین و کفار بھی انسان ہی سمجھتے تھے، مگر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس وصف سے انکاری تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آتی ہے،
لہٰذا آگے اس وصف کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آتی ہے!
اور یہ اصل مدعا کہ یہاں مشرکین و کفار کے اس اعتراض کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کے انکاری تھے کہ اور کہتےتھے کہ یہ بھی تو ہماری طرح انسان ہے!

لَاهِيَةً قُلُوبُهُمْ وَأَسَرُّوا النَّجْوَى الَّذِينَ ظَلَمُوا هَلْ هَذَا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ أَفَتَأْتُونَ السِّحْرَ وَأَنْتُمْ تُبْصِرُونَ (سورة الأنبياء 03)
ان کے دل کھیل میں لگے ہوئے ہیں اور ظالم پوشیدہ سرگوشیاں کرتے ہیں کہ یہ تمہاری طرح ایک انسان ہی تو ہے پھر کیا تم دیدہ دانستہ جادو کی باتیں سنتے جاتے ہو۔ (ترجمہ احمد علی لاہوری)
اس اعتراض کا جواب یہاں دیا گیا ہے،
کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے انسان و بشر ہونے کا اثبات کیا ہے، اور بتلایا ہے کہ انسان تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے انسانوں کی طرح ہیں، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصف یہ ہے کہ ان پر اللہ کی طرف سے وحی آتی ہے!
میں وہی مثال پیش کرتا ہوں کہ جس طرح امیر انسان صاحب مال ودولت ہونے کو باوجود انسان ہی ہوتا ہے، اسی طرح نبی صاحب وحی ہونے کو باوجود انسان ہی ہوتاہے۔

دوسرا یہ کہ نبیﷺ کے مختار کل، عالم الغیب اور نور کی نفی والی آیات کا یہ لوگ یہ جواب دیتے ہیں کہ نفی والی آیات کو ذاتی پر محمول کیا جائے گا یعنی کہ نہ تو ذاتی طور پر آپ خزانوں کے مالک ہیں اور نہ ہی ذاتی طور (یعنی خود بخود) آپ کو علم غیب ہو جاتا ہے بلکہ آپ اللہ کی عطاء سے سب کو دیتے ہیں اور اللہ ہی کی عطاء سے آپ کو بہت سارا علم غیب عطاء ہوا ہے...
صاحب کا مدعا یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب تھا، مگر ذاتی نہیں تھا عطائی تھا!
قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (سورة الأعراف 188)
کہہ دو میں اپنی ذات کے نفع و نقصان کا بھی مالک نہیں مگرجو الله چاہے اور اگر میں غیب کی بات جان سکتا تو بہت کچھ بھلائیاں حاصل کر لیتا اور مجھے تکلیف نہ پہنچتی میں تو محض ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان دار ہیں۔ (ترجمہ احمد علی لاہوری)
تم فرماؤ میں اپنی جان کے بھلے برے کا خودمختار نہیں مگر جو اللہ چاہے اور اگر میں غیب جان لیا کرتا تو یوں ہوتا کہ میں نے بہت بھلائی جمع کرلی، اور مجھے کوئی برائی نہ پہنچی میں تو یہی ڈر اور خوشی سنانے والا ہوں انہیں جو ایمان رکھتے ہیں، (ترجمہ احمد رضا خان بریلوی)
تو جناب ذاتی ہو یا عطائی ہو علم غیب کے سبب علم تو حاصل ہوتا ہی ہے ! لیکن یہاں قرآن میں اللہ تعالی خود نبی کو حکم دیتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہہ دی کہ اگرنبی صلی اللہ علیہ کو علم غیب ہوتا تو بہت کچھ بھلائیاں حاصل کرلیتے اور انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچتی!
اب یہ امر ذاتی علم غیب کا محتاج نہیں، یہ تو عطائی سے بھی حاصل ہو جاتا ہے، لیکن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہاں اپنے علم غیب کی نفی کرنے پر اس اضافی دلیل و وضاحت کرنا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب نہیں، نہ ذاتی نہ عطائی!
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
C دوسرا یہ کہ نبیﷺ کے مختار کل، عالم الغیب اور نور کی نفی والی آیات کا یہ لوگ یہ جواب دیتے ہیں کہ نفی والی آیات کو ذاتی پر محمول کیا جائے گا یعنی کہ نہ تو ذاتی طور پر آپ خزانوں کے مالک ہیں اور نہ ہی ذاتی طور (یعنی خود بخود) آپ کو علم غیب ہو جاتا ہے بلکہ آپ اللہ کی عطاء سے سب کو دیتے ہیں اور اللہ ہی کی عطاء سے آپ کو بہت سارا علم غیب عطاء ہوا ہے...
علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس کا بنیادی اور اہم جواب یہ ہے کہ :
جس طرح
نبیﷺ کے مختار کل، عالم الغیب اور نور کی نفی والی آیات واضح الفاظ میں موجود ہیں ،
اسی طرح ان صفات کے عطائی ہونے کی واضح آیات پیش کی جائیں ، جن سے یہ ثابت ہو کہ اللہ رب العزت نے علم غیب ، اور تمام امور میں تصرف کا اختیار نبی کریم ﷺ
کو عطا فرمادیا ہے !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مثلاً قرآن مجید میں سیدہ مریم کی کفالت کی ذمہ داری اٹھانے کے متعلق بتایا گیا کہ :
ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلَامَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يَخْتَصِمُونَ
(44)
ترجمہ :
یہ غیب کی خبروں میں سے ہے جسے ہم تیری طرف وحی سے پہنچاتے ہیں، تو ان کے پاس نہ تھا جب کہ وه اپنے قلم ڈال رہے تھے کہ مریم کو ان میں سے کون پالے گا؟ اور نہ تو ان کے جھگڑنے کے وقت ان کے پاس تھا۔ (44)
یعنی : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان باتوں کا علم تمہیں صرف میری وحی سے ہوا ورنہ تمہیں کیا خبر؟ تم کچھ اس وقت ان کے پاس تھوڑے ہی موجود تھے جو ان واقعات کی خبر لوگوں کو پہنچاتے؟
یہاں سیدہ مریم علیہا السلام کی کفالت کے متعلق قرعہ اندازی کے موقع پر ہمارے پیارے نبی ﷺ کی موجودگی کی نفی کی گئی ہے ،
اب اس نفی کو کسی اور معنی پر محمول کرنے کیلئے ۔۔۔ ایسی ہی ایک آیت۔۔۔ یا صحیح ،صریح حدیث پیش کردی جائے جس سے ثابت ہو کہ جناب رسول اللہ ﷺ
وہاں موجود تھے ،
 
شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!!
پہلے تو ان کی اس مثال پر عرض ہے کہ جناب! یہ مال ودولت والا امیر شخص کیا مال ودولت کے سبب انسان نہیں رہتا؟ بھئی انسان تو وہ رہتا ہے، اور انسان ہونے میں وہ مسکین کی طرح انسان ہی ہے!
ہاں اس کے اوصاف میں فرق ہے! جیسا کہ یہاں مثال میں اس کے لائف آف اسٹینڈرڈ (یعنی اس کا کھنا پینا اور پہننا) مسکین انسانوں سے مختلف بتلایا ہے۔
تو کیا اس فرق کی کے سبب اس مال ودولت والے امیر شخص کو انسان نہیں سمجھا اور کہا جائے گا؟ اور وہ کوئی غیر انسانی مخلوق بن جاتا ہے؟
جی ابن داؤد بھائی ! ان کا کہنا ہے کہ ہم بشریت نبوی کے انکاری نہیں بلکہ اسے کفر سمجھتے ہیں۔ مزید اپنے الفاظ میں کچھ کہنے کی بجائے فیس بک کے مشہور بریلوی عالم ڈاکٹر فیض احمد چشتی صاحب کی کچھ تحریرات کا خلاصہ آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔
کیا نبی کریم ﷺ ہمارے جیسے بشر ہیں ؟

سب سے اول بات تو یہ ہے کہ انبیائے کرام بشر ہیں اور یہ قرآن سے ثابت ہے اور اس کا مطلقاً انکار کرنا کفر ہے، اہل سنت کا مشہور فقہی انسائیکلوپیڈیا بہار شریعت جلد اول حصہ اول عقائد متعلقہ نبوت میں پہلا عقیدہ ہی یہ لکھا ہے کہ نبی اس بشر کو کہتے ہیں جسے اللہ عزوجل نے ہدایت کے لئے وحی بھیجی ہو۔
اور اسی عبارت کے نیچے دوسرا عقیدہ یہ لکھا ہے کہ انبیا علیہم السلام سب بشر تھے اور مرد ، نہ کوئی جن نبی ہوا اور نہ عورت۔
انبیا کرام بشر ہیں اس سے کون انکار کرتا ہے جب کہ یہ تو قرآن پاک میں ارشاد ہوا ہے، لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ حضور کو اپنے جیسا بشر سمجھتے ہیں یا خود کو حضور جیسا بشر، اگر تو اپنے جیسا بشر سمجھتے ہیں تو جو خصوصیات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل ہوئیں وہ کسی دوسرے نبی کو نہ حاصل ہو سکیں تو ان کو کیسے حاصل ہو جائیں گی اور اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے جیسا سمجھتے ہیں تو سوائے رب تعالیٰ کی نعمتوں سے حسد کے سوا ان کے ہاتھ کچھ نہ آئے گا کیونکہ رب تعالیٰ تو ہر لمحہ ہر آن اپنے محبوب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درجات کو بلندی عطا فرماتا ہے جس کا ثبوت قرآن پاک کی بیشتر آیات میں ہے جیسے و رفعنا لک ذکرک اے محبوب ہم نے آپ کے ذکر کو آپ کے لئے بلند فرما دیا۔
اہل سنت کا نظریہ کہ انبیا ءکرام علیہم السلام بشر ہیں لیکن ہم جیسے نہیں وہ بے مثل ہیں، مخلوق میں سے کوئی بھی ان کے ہم پلہ نہیں۔اس کی مثال آپ یوں سمجھیں کہ اگر کوئی شخص اپنی ماں کو باپ کی بیوی یا باپ کو ماں کا خصم یا شوہرکہے تو اگر چہ یہ بات سچی ہے مگر بے ادب و گستاخ کہا جائے گا ۔اسی طرح آقائے دو جہاںﷺ کی عظمت والے القاب کے ہوتے ہوئے محض بشر یا بھائی کہنے والوں کو یقیناً بے ادب و گستاخ کہا جائے گا اور نبی کو بشر کہنا مؤمنین کا طریقہ ہر گز نہیں رہا ہے بلکہ کفار کا طریقہ رہا ہے۔
دیکھئے سورہ الاحزاب کی آیت نمبر 32 کا یہ حصہ ملاحظہ فرمائیں .
یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ
اے نبی کی بیبیوں تم اور عورتوں کی طرح نہیں ہو۔
قارئین کرام غور فرمائیں کہ وہ عورتیں جن کو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت زوجیت حاصل ہوئی اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں ارشاد فرما دیا کہ تم اور عورتوں کی طرح نہیں ہو ،جب رب تعالیٰ نے ان عورتوں کو نسبت رسول کی وجہ سے دیگر عورتوں سے ممتاز فرما دیا تو اور کسی کی کیا جرأت کہ وہ خود کو حضور کی مثل کہے یا حضور کو اپنی مثل کہے۔ العیاذ باللہ تعالیٰ
مزید اس ضمن میں احادیث مبارکہ ملاحظہ ہوں
انی لست کاحدکم انی ابیت عند ربی فیطعمنی و یسقینی
بے شک میں تم میں سے کسی کی مثل نہیں ہوں میں اپنے رب کے ہاں رات گزارتا ہوں پس وہی مجھے کھلاتا بھی ہے اور پلاتا بھی۔
امام بخاری نے اپنی صحیح جلد 4 صفحہ 118،123،134 میں ان الفاط کے ساتھ روایت کیا ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے صوم وصال رکھنے سے منع فرمایا تو ایک مسلمان نے عرض کی بلاشبہ آپ تو صوم وصال رکھتے ہیں ، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
ایکم مثلی انی ابیت یطعمنی ربی و یسقینی
تم میں سے کون ہے میری مثل میں تو اس حال میں رات گزارتا ہوں کہ میرا پروردگار مجھے کھلاتا بھی ہے اور پلاتا بھی۔
حوالہ کے لئے دیکھیں
مسند الامام احمد جلد 2 صفحہ 21، 102، 231 اور الجامع الصغیر جلد 1 صفحہ 115 الموطا للامام مالک جلد 1 صفحہ 130 اور سنن الدارمی جلد 1 صفحہ 304 اور جامع الترمذی جلد 1 صفحہ 163 اور سنن ابی داود جلد 2 صفحہ 279 اور صحیح مسلم جلد 3 صفحہ 134
اور ایک روایت صحاح ستہ میں سے تین کتابوں میں پائی جاتی ہے
ایکم مثلی انی ابیت یطعمنی ربی و یسقین
تم میں میرا مثل کون ہے میرا رب مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے (بخاری شریف کے علاوہ مسلم شریف کے صفحہ 351 اور ابوداؤد صفحہ 335 پر بھی موجود ہے)
بخاری شریف کی ایک روایت یوں ہے: حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو اچھے کاموں کا حکم دیتے تو ایسے اعمال و افعال بتاتے جو وہ بآسانی کر سکتے تھے یہاں پر صحابہ کرام عرض کرتے : انا لسنا کھیئتک یا رسول اللہ
آقا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم ہم آپ کی مثل تو نہیں ہیں۔
یہ بات انتہائی باعث عار اور گستاخی و بے ادبی کی علت ہے کہ ایک اُمتی اپنی ذات سے بڑھ کر اپنے بے مثال نبی کی مثل ہونے کا دعویٰ کرے۔
ان ارشادات عالیہ سے یہ بات واضح ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی بشریت کے متعلق تمام اشکالات ختم فرما دئے اور یہ بھی یاد رہے کہ ایکم مثلی کے مخاطب صحابہ کرام ہیں جب اتنی برگزیدہ ہستیاں آپ کی مثل نہیں تو کسی اور کو اس دعوی کی کیا مجال ہو سکتی ہے۔ قرآن وحدیث سے کہیں یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مسلمانوں نے کبھی کسی نبی کو اپنے جیسا بشر کہا ہو۔ ہم مسلمان ہیں لہٰذا ہمیں بھی سرکار کا ادب و احترام کرنا چاہیے۔ اس میں قصور جہالت کا ہے یا ان متعصب لوگوں کا جو ادب و احترام سے ہٹ کر نبی کو اپنے جیسا بشر کی رٹ لگائے رکھتے ہیں۔ یہود و نصاریٰ کی سازش و اتباع میں ایسا ہو رہا ہے تاکہ مسلمانوں کے دلوں سے اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و محبت ختم ہو جائے۔ اس کی نشاندہی علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کی ہے۔
وہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمد(ﷺ) اس کے بدن سے نکال دو
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
طبقۂ خاص کے پاس قرآن مجید کی آیات کی ” رکیک تاویلات“ کے علاوہ اور کوئی چیز بطورِ ثبوت نہیں ہے ۔ وہ خالق اور مخلوق میں فرق کو عمداً جاننا نہیں چاہتے ۔طبقۂ خاص قرآن مجید سے ہدایت نہیں بلکہ الٹا اس کو ہدایت دینے بیٹھ جاتے ہیں۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَة رَبِّهِ أَحَدًا (سورة الكهف 110)
کہہ دو کہ میں بھی تمہارے جیسا آدمی ہی ہوں میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے پھر جو کوئی اپنے رب سے ملنے کی امید رکھے تو اسے چاہیئے کہ اچھے کام کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے ۔ (ترجمہ احمد علی لاہوری)
تو فرماؤ ظاہر صورت بشری میں تو میں تم جیسا ہوں مجھے وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے تو جسے اپنے رب سے ملنے کی امید ہو اسے چاہیے کہ نیک کام کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو شریک نہ کرے (ترجمہ احمد رضا خان)

قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوهُ وَوَيْلٌ لِلْمُشْرِكِينَ (سورة فصلت 06)
آپ ان سے کہہ دیں کہ میں بھی تم جیسا ایک آدمی ہوں میری طرف یہی حکم آتا ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی ہے پھراس کی طرف سیدھے چلے جاؤ اور اس سے معافی مانگو اور مشرکوں کے لیے ہلاکت ہے۔ (ترجمہ احمد علی لاہوری)
تم فرماؤ آدمی ہونے میں تو میں تمہیں جیسا ہوں مجھے وحی ہوتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے، تو اس کے حضور سیدھے رہو اور اس سے معافی مانگو اور خرابی ہے شرک والوں کو، (ترجمہ احمد رضا خان)
سب سے اول بات تو یہ ہے کہ انبیائے کرام بشر ہیں اور یہ قرآن سے ثابت ہے اور اس کا مطلقاً انکار کرنا کفر ہے، اہل سنت کا مشہور فقہی انسائیکلوپیڈیا بہار شریعت جلد اول حصہ اول عقائد متعلقہ نبوت میں پہلا عقیدہ ہی یہ لکھا ہے کہ نبی اس بشر کو کہتے ہیں جسے اللہ عزوجل نے ہدایت کے لئے وحی بھیجی ہو۔
اور اسی عبارت کے نیچے دوسرا عقیدہ یہ لکھا ہے کہ انبیا علیہم السلام سب بشر تھے اور مرد ، نہ کوئی جن نبی ہوا اور نہ عورت۔
انبیا کرام بشر ہیں اس سے کون انکار کرتا ہے جب کہ یہ تو قرآن پاک میں ارشاد ہوا ہے، لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ حضور کو اپنے جیسا بشر سمجھتے ہیں یا خود کو حضور جیسا بشر، اگر تو اپنے جیسا بشر سمجھتے ہیں تو جو خصوصیات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل ہوئیں وہ کسی دوسرے نبی کو نہ حاصل ہو سکیں تو ان کو کیسے حاصل ہو جائیں گی اور اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے جیسا سمجھتے ہیں تو سوائے رب تعالیٰ کی نعمتوں سے حسد کے سوا ان کے ہاتھ کچھ نہ آئے گا کیونکہ رب تعالیٰ تو ہر لمحہ ہر آن اپنے محبوب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درجات کو بلندی عطا فرماتا ہے جس کا ثبوت قرآن پاک کی بیشتر آیات میں ہے جیسے و رفعنا لک ذکرک اے محبوب ہم نے آپ کے ذکر کو آپ کے لئے بلند فرما دیا۔
یہاں تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بشر ہونے کا اثبا ت کیا گیا ہے، اور بشر کی کی نفی کو کفر کہا ہے! اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف عالیہ کا بیان ہے!
بلکل درست ہم بھی اس کے قائل ہیں!
مگر آگے خود اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بشر کہنے پر گستاخی کا فتوی داغ دیا گیا ہے:

اہل سنت کا نظریہ کہ انبیا ءکرام علیہم السلام بشر ہیں لیکن ہم جیسے نہیں وہ بے مثل ہیں، مخلوق میں سے کوئی بھی ان کے ہم پلہ نہیں۔اس کی مثال آپ یوں سمجھیں کہ اگر کوئی شخص اپنی ماں کو باپ کی بیوی یا باپ کو ماں کا خصم یا شوہرکہے تو اگر چہ یہ بات سچی ہے مگر بے ادب و گستاخ کہا جائے گا ۔

مثال تو یہاں بلکل غلط ہے، کہ مثال دی گئی ہے کہ بات سچی ہے، جبکہ جس کے لئے مثال دی گئی ہے وہاں تو انکار ہے!
یہاں صاحب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بشر مانتے ہیں، لیکن کہتے ہیں کہ ہم جیسے نہیں وہ بے مثل ہیں!
جبکہ قرآن خود یہ مثال بیان کر رہا ہے!
اور یہ بات تو ان کے امام احمد رضا خان نے بھی قرآن کے ترجمہ میں ایک جگہ کی ہے، (جبکہ دوسری جگہ تحریف سے کام لیا ہے)

قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوهُ وَوَيْلٌ لِلْمُشْرِكِينَ (سورة فصلت 06)
تم فرماؤ آدمی ہونے میں تو میں تمہیں جیسا ہوں مجھے وحی ہوتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے، تو اس کے حضور سیدھے رہو اور اس سے معافی مانگو اور خرابی ہے شرک والوں کو، (ترجمہ احمد رضا خان)
اب یہ تو احمد رضا خان نے خود قرآن کے ترجمہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دوسروں کے جیسا آدمی کہتے ہوئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بشر ہونے کے لئے مثال کا اثبات کیا ہے!
اور یہ درست ہے، قرآن میں کے الفاظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بشر ہونے میں مثل پر قطعی نص ہے!
اب یہ صاحب کیا احمد رضا خان بریلوی کو گستاخ قرار دیں گے؟
اسی طرح آقائے دو جہاںﷺ کی عظمت والے القاب کے ہوتے ہوئے محض بشر یا بھائی کہنے والوں کو یقیناً بے ادب و گستاخ کہا جائے گا اور نبی کو بشر کہنا مؤمنین کا طریقہ ہر گز نہیں رہا ہے بلکہ کفار کا طریقہ رہا ہے۔
ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ محض بشر سمجھتے ہیں نہ کہتے ہیں، بلکہ ہم انہیں وہ بشر سمجھنے ہیں جو نبی ہیں اور جس پر وحی آتی ہے!
ابھی انہوں نے اوپر یہ عقیدہ بیان کیا :
سب سے اول بات تو یہ ہے کہ انبیائے کرام بشر ہیں اور یہ قرآن سے ثابت ہے اور اس کا مطلقاً انکار کرنا کفر ہے، اہل سنت کا مشہور فقہی انسائیکلوپیڈیا بہار شریعت جلد اول حصہ اول عقائد متعلقہ نبوت میں پہلا عقیدہ ہی یہ لکھا ہے کہ نبی اس بشر کو کہتے ہیں جسے اللہ عزوجل نے ہدایت کے لئے وحی بھیجی ہو۔
اور اسی عبارت کے نیچے دوسرا عقیدہ یہ لکھا ہے کہ انبیا علیہم السلام سب بشر تھے اور مرد ، نہ کوئی جن نبی ہوا اور نہ عورت۔
یہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے یا کفار کا؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار بشر مانتے ، کہتے ہوئے ان پر وحی کے منکر تھے، جبکہ قرآن نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بشر کہا اور اور ان پر وحی کا بھی اثبات کیا!
لہٰذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بشر کہنا قرآن کا حکم ہے، جو اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی دیا ہے!
اب کوئی منچلا آکر اللہ اور اس کے رسول پر بھی گستاخی کا حکم نہ لگا دے!
لیکن ان صاحب کا احمد رضا خان بریلوی کے متعلق کیا خیال ہے:
اور یہ بات تو ان کے امام احمد رضا خان نے بھی قرآن کے ترجمہ میں ایک جگہ کی ہے، (جبکہ دوسری جگہ تحریف سے کام لیا ہے)

قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوهُ وَوَيْلٌ لِلْمُشْرِكِينَ (سورة فصلت 06)
تم فرماؤ آدمی ہونے میں تو میں تمہیں جیسا ہوں مجھے وحی ہوتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے، تو اس کے حضور سیدھے رہو اور اس سے معافی مانگو اور خرابی ہے شرک والوں کو، (ترجمہ احمد رضا خان)
اب یہ تو احمد رضا خان نے خود قرآن کے ترجمہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دوسروں کے جیسا آدمی کہتے ہوئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بشر ہونے کے لئے مثال کا اثبات کیا ہے!

دیکھئے سورہ الاحزاب کی آیت نمبر 32 کا یہ حصہ ملاحظہ فرمائیں .
یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ
اے نبی کی بیبیوں تم اور عورتوں کی طرح نہیں ہو۔
قارئین کرام غور فرمائیں کہ وہ عورتیں جن کو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت زوجیت حاصل ہوئی اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں ارشاد فرما دیا کہ تم اور عورتوں کی طرح نہیں ہو ،جب رب تعالیٰ نے ان عورتوں کو نسبت رسول کی وجہ سے دیگر عورتوں سے ممتاز فرما دیا تو اور کسی کی کیا جرأت کہ وہ خود کو حضور کی مثل کہے یا حضور کو اپنی مثل کہے۔ العیاذ باللہ تعالیٰ
تو کیا یہاں یہ صاحب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کو بھی نوری مخلوق ثابت کرنا چاہتے ہیں؟
یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے لئے احکام واوصاف خصوصیہ کی بات ہے، کہ وہ ان احکام و اوصاف خصوصیہ میں اور عورتوں کی طرح نہیں! وگرنہ بشر ہونے میں وہ بالکل اور عورتوں کی طرح ہیں!
مزید اس ضمن میں احادیث مبارکہ ملاحظہ ہوں
انی لست کاحدکم انی ابیت عند ربی فیطعمنی و یسقینی
بے شک میں تم میں سے کسی کی مثل نہیں ہوں میں اپنے رب کے ہاں رات گزارتا ہوں پس وہی مجھے کھلاتا بھی ہے اور پلاتا بھی۔
امام بخاری نے اپنی صحیح جلد 4 صفحہ 118،123،134 میں ان الفاط کے ساتھ روایت کیا ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے صوم وصال رکھنے سے منع فرمایا تو ایک مسلمان نے عرض کی بلاشبہ آپ تو صوم وصال رکھتے ہیں ، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
ایکم مثلی انی ابیت یطعمنی ربی و یسقینی
تم میں سے کون ہے میری مثل میں تو اس حال میں رات گزارتا ہوں کہ میرا پروردگار مجھے کھلاتا بھی ہے اور پلاتا بھی۔
حوالہ کے لئے دیکھیں
مسند الامام احمد جلد 2 صفحہ 21، 102، 231 اور الجامع الصغیر جلد 1 صفحہ 115 الموطا للامام مالک جلد 1 صفحہ 130 اور سنن الدارمی جلد 1 صفحہ 304 اور جامع الترمذی جلد 1 صفحہ 163 اور سنن ابی داود جلد 2 صفحہ 279 اور صحیح مسلم جلد 3 صفحہ 134
اور ایک روایت صحاح ستہ میں سے تین کتابوں میں پائی جاتی ہے
ایکم مثلی انی ابیت یطعمنی ربی و یسقین
تم میں میرا مثل کون ہے میرا رب مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے (بخاری شریف کے علاوہ مسلم شریف کے صفحہ 351 اور ابوداؤد صفحہ 335 پر بھی موجود ہے)
بخاری شریف کی ایک روایت یوں ہے: حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو اچھے کاموں کا حکم دیتے تو ایسے اعمال و افعال بتاتے جو وہ بآسانی کر سکتے تھے یہاں پر صحابہ کرام عرض کرتے : انا لسنا کھیئتک یا رسول اللہ
آقا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم ہم آپ کی مثل تو نہیں ہیں۔
یہ تمام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام و اوصاف خصوصیہ کے متعلق ہے، وگرنہ بشر و انسان ہونے میں تو اللہ تعالیٰ نے خود دوسروں کی مثل قرار دیا ہے! اور یہ مثل احمد رضا خان نے بھی ترجمہ قرآ ن میں کی ہے!
یہ بات انتہائی باعث عار اور گستاخی و بے ادبی کی علت ہے کہ ایک اُمتی اپنی ذات سے بڑھ کر اپنے بے مثال نبی کی مثل ہونے کا دعویٰ کرے۔
انتہائی باعث عار بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بشر ہونے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دوسرے بشر و انسان کی مثل قرار دے دے، اور یہ صاحب اس مسئلہ میں قرآن کا انکار کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بے مثل قررار دیں!
اور بشر ہونے میں نبی صلی اللہ علیہ کی مثل کسی اور بشر سے بیان کرنا، گستاخی ہے ، تو احمد رضا خان بریلوی کو گستاخ قرار دو!
ان ارشادات عالیہ سے یہ بات واضح ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی بشریت کے متعلق تمام اشکالات ختم فرما دئے اور یہ بھی یاد رہے کہ ایکم مثلی کے مخاطب صحابہ کرام ہیں جب اتنی برگزیدہ ہستیاں آپ کی مثل نہیں تو کسی اور کو اس دعوی کی کیا مجال ہو سکتی ہے۔
دعوی ہے کہ قرآن وحدیث سے کہیں یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مسلمانوں نے کبھی کسی نبی کو اپنے جیسا بشر کہا ہو!
قرآن اللہ کا کلام ہے، اور اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خود اپنے آپ کو دوسروں کی مثل بشر ہونے کہنے کا حکم دیا ہے!
اب آپ معاذ اللہ ! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مسلمان نہ سمجھتے ہوں ، تو الگ بات ہے!
قرآن وحدیث سے کہیں یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مسلمانوں نے کبھی کسی نبی کو اپنے جیسا بشر کہا ہو۔ ہم مسلمان ہیں لہٰذا ہمیں بھی سرکار کا ادب و احترام کرنا چاہیے۔ اس میں قصور جہالت کا ہے یا ان متعصب لوگوں کا جو ادب و احترام سے ہٹ کر نبی کو اپنے جیسا بشر کی رٹ لگائے رکھتے ہیں۔
بلکل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب و احترام لازم ہے، لیکن احترام کا مطلب یہ نہیں کہ اپنی اٹکل کی بنا پر قرآن و حدیث کے واضح احکام کا اانکار کرتے ہوئے، نبی صلی اللہ علیہ کو بشر ہونے میں دیگر بشر کی جیسا نہ مانا جائے!
احمد رضا خان نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیگر بشر جیسا بشر لکھا ہے!
یہود و نصاریٰ کی سازش و اتباع میں ایسا ہو رہا ہے تاکہ مسلمانوں کے دلوں سے اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و محبت ختم ہو جائے۔ اس کی نشاندہی علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کی ہے۔
وہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمد(ﷺ) اس کے بدن سے نکال دو
اس شعر کے تساہل کو نظر انداز کرتے ہوئے عرض ہے، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ایمان ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں ہے!

 
Last edited:

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
مزید اس ضمن میں احادیث مبارکہ ملاحظہ ہوں
انی لست کاحدکم انی ابیت عند ربی فیطعمنی و یسقینی
بے شک میں تم میں سے کسی کی مثل نہیں ہوں میں اپنے رب کے ہاں رات گزارتا ہوں پس وہی مجھے کھلاتا بھی ہے اور پلاتا بھی۔
امام بخاری نے اپنی صحیح جلد 4 صفحہ 118،123،134 میں ان الفاط کے ساتھ روایت کیا ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے صوم وصال رکھنے سے منع فرمایا تو ایک مسلمان نے عرض کی بلاشبہ آپ تو صوم وصال رکھتے ہیں ، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
ایکم مثلی انی ابیت یطعمنی ربی و یسقینی
تم میں سے کون ہے میری مثل میں تو اس حال میں رات گزارتا ہوں کہ میرا پروردگار مجھے کھلاتا بھی ہے اور پلاتا بھی۔
حوالہ کے لئے دیکھیں
مسند الامام احمد جلد 2 صفحہ 21، 102، 231 اور الجامع الصغیر جلد 1 صفحہ 115 الموطا للامام مالک جلد 1 صفحہ 130 اور سنن الدارمی جلد 1 صفحہ 304 اور جامع الترمذی جلد 1 صفحہ 163 اور سنن ابی داود جلد 2 صفحہ 279 اور صحیح مسلم جلد 3 صفحہ 134
اور ایک روایت صحاح ستہ میں سے تین کتابوں میں پائی جاتی ہے
ایکم مثلی انی ابیت یطعمنی ربی و یسقین
تم میں میرا مثل کون ہے میرا رب مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے (بخاری شریف کے علاوہ مسلم شریف کے صفحہ 351 اور ابوداؤد صفحہ 335 پر بھی موجود ہے)
صوم و وصال پر آپﷺ کا عمل لیکن صحابہ کرام کو ممانعت
صوم و صال کے بارے میں تین قول
زاد المعاد جلد ۱ ۴۵۲۔۴۵۶
 
شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
جزاک اللہ خیرا ابن داؤد بھائی! وضاحت کا شکریہ، بشر والا پوائنٹ تو کلئیر ہو گیا۔ بس یہی بات رہ گئی تھی کہ انی لست کاحدکم اور ایکم مثلی انی والے الفاظ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کس موقع پر ارشاد فرمائے اور اس کا صحیح مفہوم کیا ہے؟ اگرچہ برادرم عدیل سلفی نے اس کی کچھ وضاحت فرمائی ہے لیکن پھر بھی آپ اپنے انداز میں مختصر وضاحت فرما دیں تو آپ کا احسان مند ہوں گا۔
صاحب کا مدعا یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب تھا، مگر ذاتی نہیں تھا عطائی تھا!
قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (سورة الأعراف 188)
کہہ دو میں اپنی ذات کے نفع و نقصان کا بھی مالک نہیں مگرجو الله چاہے اور اگر میں غیب کی بات جان سکتا تو بہت کچھ بھلائیاں حاصل کر لیتا اور مجھے تکلیف نہ پہنچتی میں تو محض ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان دار ہیں۔ (ترجمہ احمد علی لاہوری)
تم فرماؤ میں اپنی جان کے بھلے برے کا خودمختار نہیں مگر جو اللہ چاہے اور اگر میں غیب جان لیا کرتا تو یوں ہوتا کہ میں نے بہت بھلائی جمع کرلی، اور مجھے کوئی برائی نہ پہنچی میں تو یہی ڈر اور خوشی سنانے والا ہوں انہیں جو ایمان رکھتے ہیں، (ترجمہ احمد رضا خان بریلوی)
اب آتے ہیں دوسرے پوائنٹ کی طرف اس کا جواب یہ آیا ہے ان کی طرف سے، ملاحظہ فرمائیں۔
مذکورہ بالا آیت میں ذاتی ملکیت اور بغیر عطائے رب تعالیٰ اختیار کی نفی فرمائی گئی ہے۔ کیونکہ لا املك سے اختیار کی نفی اور الا ماشاء اللہ سے اثبات ہوتا ہے۔ اب یہ تو ہر طالب علم پر واضح ہے کہ ایک ہی شے کی نفی اور اثبات بھی تو نہیں ہو سکتی۔ معلوم ہوا کہ نفی ایک شے کی ہو گی اور اثبات کسی اور شے کا۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک ہی شے کی نفی اور اثبات ہو، اور وہ یوں کہ نفی کسی ایک حیثیت سے ہو تو اثبات کسی دوسری حیثیت سے، اور یہاں اس اس آیت کریمہ میں یہی بات ہے کہ ذاتی ملکیت کی نفی اور عطائے رب سے جو اختیار حاصل ہو اس کا اثبات ہے۔ اور یہ تو کسی مسلمان کا عقیدہ نہیں ہے کہ بغیر عطائے خداوند تعالیٰ کوئی کسی شے کا مالک ومختار ہے۔
اہل سنت کا عقیدہ تو یہی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اللہ تعالیٰ کی عطاء سے مالک ومختار ہیں۔ اب اس وضاحت وتشریح کے بعد یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ آیت تو ہماری دلیل ہے نہ کہ ملکیت مصطفےٰ کے منکر کی۔ ہاں البتہ اس آیت سے ان لوگوں کی ضرور تردید ہوتی ہے جو کہ کسی مخلوق کے لیے بغیر عطائے رب تعالیٰ ذاتی اور بلاواسطہ ملکیت کے قائل ہوں۔ بہرحال یہاں اس موقع پر ہمارے خلاف اس آیت کو پیش کرنا مسلک اہل سنت سے ناواقفیت یا عدم امتیاز مسلک کی بنا پر ہے۔ لہٰذا آپ وقت ضائع کئے بغیر کوئی ایسی آیت پیش کریں جس سے ملکیت اور اختیار عطائی کی نفی ہوتی ہو۔ مگر میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ ایسا ہرگز نہیں کر سکتے۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
طبقۂ خاص کی ہمیشہ یہ عادت رہی ہے کہ آیت کا پورا اور صحیح مفہوم کبھی بیان نہیں کرتے بلکہ اپنے مطلب کا مفہوم کشید کر کے ایک عقیدہ بنا کر جمیع اہلِ سنت پر مسلط کر دیتے ہیں ۔ جو مفہوم طبقۂ خاص کی طرف سے بیان کیا گیاہے وہ سراسر باطل و لغو ہے چونکہ ان کے مفہوم کا بطلان فقط اسی آیت سے ہورہا تھا اس لیے عمداً نہ صرف پورا اور صحیح مفہوم بیان کرنے سے گریز کیا گیا بلکہ عطائی طور پر مختار ہونے کی کوئی واضح و صریح آیت بھی پیش نہیں کی گئی۔

اب اس آیت کا پورا اور صحیح مفہوم بیان کیا جاتا ہے:-
قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ﴿١٨٨﴾
اے محمدﷺ، ان سے کہو ”میں اپنی ذات کے لیے کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا، اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے وہ ہو تا ہے اور اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں بہت سے فائدے اپنے لیے حاصل کر لیتا اور مجھے کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا میں تو محض ایک خبردار کرنے والا اور خوش خبری سنانے والا ہوں اُن لوگوں کے لیے جو میری بات مانیں“۔
قرآن، سورۃ الاعراف، آیت نمبر188

لا املک سے نہ صرف ذاتی بلکہ عطائی اختیار کی بھی نفی ہو رہی ہے کیونکہ آیت کے الفاظ ہیں الا ماشا ء اللہ یعنی جو کچھ اللہ تعالٰی چاہے نہ کہ جو رسول اللہ ﷺ چاہیں۔ اس بات کی مزید دلیل اسی آیت میں موجود ہے کیونکہ اس کے فوراً بعد رسول اللہ ﷺ سے کہلوایا گیا ہے کہ اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں اپنے لیے بہت سے فائدے حاصل کر لیتا اور مجھے کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا ۔

یعنی جیسا طبقۂ خاص کا عقیدہ ہے کہ نبیﷺ ذاتی نہیں بلکہ عطائی طور پر مختار تھے تو اس عطائی علمِ غیب کی بنا ء پر رسول اللہ ﷺ اپنے لیے بہت سی دینی و دنیاوی منفعتیں نہ صرف حاصل کر لیتے بلکہ راہِ حق میں پیش آنے والی کسی بھی قسم کی جسمانی و روحانی تکلیفوں اور مضرتوں سے اپنے آپ کو محفوظ کر لیتے ۔

اس سے آگے رسول اللہ ﷺ کے اصل مقام و منصب کو بیان کیا جا رہا ہے کہ میں( رسول اللہ ﷺ) کوئی ما فوق الفطرت قسم کا انسان نہیں ہوں کہ جس کے قبضۂ قدرت میں ہر قسم کے فوائد و نقصانات ہوں اور نہ ہی میں علمِ غیب جاننے کا دعویٰ دارہوں کہ اس کی بناء پر قبل از وقت پیش آنے والے مصائب و آلام سے اپنے آپ کو اور تم کو بچا لوں میرا فرض تو تم کو( اگر تم ایمان و اسلام والی زندگی گزارتے ہو) جنت کی خوشخبری سنانا اور( اگر تم روگردانی اختیار کرتے ہو) جہنم کی وعید سنانا ہے۔

ایک شبہ کا ازالہ :-
روایات میں بعض موقعوں پر اللہ تعالٰی کی طرف سے رسول اللہ ﷺ کو کسی خاص معاملے کے متعلق خبر ملنا جس سے رسول اللہ ﷺکو فوائد حاصل ہوئے، سورۃ الاعراف ، آیت نمبر 188 کے تحت الا ماشاء اللہ کی دلیل ہے نہ کہ رسول اللہ ﷺ کے عطائی طور پر مختار ہونے کی۔

اب ہم اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کیے بغیر صرف اور صرف اللہ تعالٰی کے مختار ِ کل ہونےپر آیات پیش کرتے ہیں :-

وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ ۚ يُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۚ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ﴿١٠٧﴾
اگر اللہ تجھے کسی مصیبت میں ڈالے تو خود اس کے سوا کوئی نہیں جو اس مصیبت کو ٹال دے، اور اگر وہ تیرے حق میں کسی بھلائی کا ارادہ کرے تو اس کے فضل کو پھیرنے والا بھی کوئی نہیں ہے وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اپنے فضل سے نوازتا ہے اور وہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
قرآن، سورۃ یونس، آیت نمبر107
وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ ﴿٢٩﴾
اور تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک اللہ رب العالمین نہ چاہے۔
قرآن، سورۃ التکویر، آیت نمبر29
وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴿٣٠﴾
اور تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک اللہ نہ چاہے یقیناً اللہ بڑا علیم و حکیم ہے۔
قرآن، سورۃ الانسان، آیت نمبر30
لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ ﴿١٢٨﴾
(اے پیغمبرﷺ) فیصلہ کے اختیارات میں تمہارا کوئی حصہ نہیں، اللہ کو اختیار ہے چاہے انہیں معاف کرے، چاہے سزا دے کیونکہ وہ ظالم ہیں۔
قرآن، سورۃ آل عمران، آیت نمبر128
إِن يَنصُرْكُمُ اللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ ۖ وَإِن يَخْذُلْكُمْ فَمَن ذَا الَّذِي يَنصُرُكُم مِّن بَعْدِهِ ۗ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ﴿١٦٠﴾
اللہ تمہاری مدد پر ہو تو کوئی طاقت تم پر غالب آنے والی نہیں، اور وہ تمہیں چھوڑ دے، تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کرسکتا ہو؟ پس جو سچے مومن ہیں ان کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔
قرآن، سورۃ آل عمران، آیت نمبر160
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بس یہی بات رہ گئی تھی کہ انی لست کاحدکم اور ایکم مثلی انی والے الفاظ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کس موقع پر ارشاد فرمائے اور اس کا صحیح مفہوم کیا ہے؟
انی لست کاحدکم انی ابیت عند ربی فیطعمنی و یسقینی
بے شک میں تم میں سے کسی کی مثل نہیں ہوں میں اپنے رب کے ہاں رات گزارتا ہوں پس وہی مجھے کھلاتا بھی ہے اور پلاتا بھی۔
ایکم مثلی انی ابیت یطعمنی ربی و یسقینی
تم میں سے کون ہے میری مثل میں تو اس حال میں رات گزارتا ہوں کہ میرا پروردگار مجھے کھلاتا بھی ہے اور پلاتا بھی۔
ایکم مثلی انی ابیت یطعمنی ربی و یسقین
تم میں میرا مثل کون ہے میرا رب مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ نَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْوِصَالِ قَالُوا إِنَّكَ تُوَاصِلُ قَالَ إِنِّي لَسْتُ مِثْلَكُمْ إِنِّي أُطْعَمُ وَأُسْقَى
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے متواتر روزے رکھنے سے منع فرمایا، لوگوں نے عرض کیا: آپ تو وصال کے روزے رکھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: "میں تمہاری مثل نہیں ہوں، مجھے کھلایا پلادیا جاتا ہے۔ "
مترجم: شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)

صحيح البخاري: كِتَابُ الصَّوْمِ (بَابُ الوِصَالِ، وَمَنْ قَالَ: «لَيْسَ فِي اللَّيْلِ صِيَامٌ»)
صحیح بخاری: کتاب: روزے کے مسائل کا بیان (باب: پے درپے ملا کر روزہ رکھنا اور جنہوں نے یہ کہا کہ رات میں روزہ نہیں ہو سکتا)

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ حَدَّثَنِي ابْنُ الْهَادِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَبَّابٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا تُوَاصِلُوا فَأَيُّكُمْ إِذَا أَرَادَ أَنْ يُوَاصِلَ فَلْيُوَاصِلْ حَتَّى السَّحَرِ قَالُوا فَإِنَّكَ تُوَاصِلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ إِنِّي لَسْتُ كَهَيْئَتِكُمْ إِنِّي أَبِيتُ لِي مُطْعِمٌ يُطْعِمُنِي وَسَاقٍ يَسْقِينِ
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے سنا: "لوگو! تم وصال کے روزے نہ رکھو۔ جب تم میں سے کوئی وصال کا روزہ رکھنا چاہے تو صبح تک کرے، اس سے زیادہ نہ کرے۔ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! آپ تو متواتر روزے رکھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: "میں تمہارے جیسا نہیں ہوں، میں رات گزارتا ہوں تو مجھے کھلانے والا کھلاتا ہے اور پلانے والا پلاتاہے۔ "
مترجم: شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)

صحيح البخاري: كِتَابُ الصَّوْمِ (بَابُ الوِصَالِ، وَمَنْ قَالَ: «لَيْسَ فِي اللَّيْلِ صِيَامٌ»)
صحیح بخاری: کتاب: روزے کے مسائل کا بیان (باب: پے درپے ملا کر روزہ رکھنا اور جنہوں نے یہ کہا کہ رات میں روزہ نہیں ہو سکتا)

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَمُحَمَّدٌ قَالَا أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْوِصَالِ رَحْمَةً لَهُمْ فَقَالُوا إِنَّكَ تُوَاصِلُ قَالَ إِنِّي لَسْتُ كَهَيْئَتِكُمْ إِنِّي يُطْعِمُنِي رَبِّي وَيَسْقِينِ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ لَمْ يَذْكُرْ عُثْمَانُ رَحْمَةً لَهُمْ
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے انھوں نے کہاکہ رسول اللہ ﷺ نے مہربانی کرتے ہوئے متواتر روزے رکھنے سے منع فرمایا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ آپ تو پے درپے رکھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: "میں تمہاری مثل نہیں ہوں؟ مجھے میرا رب کھلاتا اور پلاتا ہے۔ "ابو عبداللہ(امام بخاری) ؓ کہتے ہیں کہ راوی حدیث عثمان بن ابی شیبہ نے"مہربانی کرتے ہوئے"کے الفاظ ذکر نہیں کیے ہیں۔
مترجم: شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)

صحيح البخاري: كِتَابُ الصَّوْمِ (بَابُ الوِصَالِ، وَمَنْ قَالَ: «لَيْسَ فِي اللَّيْلِ صِيَامٌ»)
صحیح بخاری: کتاب: روزے کے مسائل کا بیان (باب: پے درپے ملا کر روزہ رکھنا اور جنہوں نے یہ کہا کہ رات میں روزہ نہیں ہو سکتا)

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْوِصَالِ فَقَالَ لَهُ رِجَالٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَإِنَّكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ تُوَاصِلُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّكُمْ مِثْلِي إِنِّي أَبِيتُ يُطْعِمُنِي رَبِّي وَيَسْقِينِ فَلَمَّا أَبَوْا أَنْ يَنْتَهُوا عَنْ الْوِصَالِ وَاصَلَ بِهِمْ يَوْمًا ثُمَّ يَوْمًا ثُمَّ رَأَوْا الْهِلَالَ فَقَالَ لَوْ تَأَخَّرَ لَزِدْتُكُمْ كَالْمُنَكِّلِ بِهِمْ حِينَ أَبَوْا تَابَعَهُ شُعَيْبٌ وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ وَيُونُسُ عَنْ الزُّهْرِيِّ وَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے وصال کے روزے رکھنے سے منع فرمایا تو ایک مسلمان صحابی نے کہا: اللہ کے رسول! آپ تو وصال کے روزے رکھتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے کون میرے جیسا ہے؟ میں رات بسر کرتا ہوں تو میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے۔“ جب لوگ وصال کے روزوں سے باز نہ آئے تو آپ ﷺ نے ایک دن وصال کا روزہ رکھا دوسرے دن پھر وصال کا روزہ رکھا، پھر لوگوں نے چاند دیکھ لیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر چاند دکھائی نہ دیتا تو میں مزید وصال کے روزے رکھتا۔“ یہ آپ نے بطور تنبیہ فرمایا کیونکہ لوگ وصال کے روزے رکھنے پر مصر تھے۔ شعیب یحیٰی بن سعد اور یونس نے زہری سے روایت کرنے میں عقیل کی متابعت کی ہے نیز عبدالرحمن بن خالد نے ابن شہاب سے، انہوں نے سعید سے، انہوں نے ابو ہریرہ ؓ انہوں نے نبی ﷺ سے بیان کیا۔
مترجم: شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)

صحيح البخاري: كِتَابُ المُحَارِبِينَ مِنْ أَهْلِ الكُفْرِ وَالرِّدَّةِ (بَابٌ: كَمُ التَّعْزِيرُ وَالأَدَبُ)
صحیح بخاری: کتاب: ان کفار ومرتدوں کے احکام میں جو مسلمان سے لڑتے ہیں (
باب: تنبیہ اور تعزیر یعنی حد سے کم سزا کتنی ہونی چاہئے)

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ وَقَالَ اللَّيْثُ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْوِصَالِ قَالُوا فَإِنَّكَ تُوَاصِلُ قَالَ أَيُّكُمْ مِثْلِي إِنِّي أَبِيتُ يُطْعِمُنِي رَبِّي وَيَسْقِينِ فَلَمَّا أَبَوْا أَنْ يَنْتَهُوا وَاصَلَ بِهِمْ يَوْمًا ثُمَّ يَوْمًا ثُمَّ رَأَوْا الْهِلَالَ فَقَالَ لَوْ تَأَخَّرَ لَزِدْتُكُمْ كَالْمُنَكِّلِ لَهُمْ
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے وصال کے روزے رکھنے سے منع فرمایاتو کچھ صحابہ کرام ؓم نے کہا: آپ تو خود وصال کے روزے رکھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”تم میں سے مجھ جیسا کون ہے؟ میں تو اس حالت میں رات گزارتا ہوں کہ میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے۔“ لیکن جب لوگ نہ مانے تو آپ نے ایک دن کے ساتھ دوسرا روزہ ملا رکھا،پھر انہوں نے چاند دیکھ لیا تو آپ نے فرمایا: ”اگر (چاند) مؤخر ہوتا تو میں مزید وصال کے روزے رکھتا۔“ گویا آپ نے انہیں تنبیہ کرنے کے ایسا فرمایا۔
مترجم: شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)

صحيح البخاري: كِتَابُ التَّمَنِّي (بَابُ مَا يَجُوزُ مِنَ اللَّوْ)
صحیح بخاری: کتاب: نیک ترین آرزؤں کے جائز ہونے کے بیان میں (باب: لفظ” اگر مگر“کے استعمال کا جواز)

اس حدیث کی روایات میں یہ بات واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ''میں تم جیسا نہیں'' یا تم میں سے کون میرے جیسا ہے؟'' یہ اس سوال پر تھا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ آپ خود صوم وصال رکھتے ہیں، اور ہمیں آپ اس سے منع فرما رہے ہیں؟ تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ''میں تم جیسا نہیں'' یا ''تم میں سے کون میرے جیسا ہے؟'' اور پھر مزید اس کی وضاحت بھی کردی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات اس طرح بسر کرتے ہیں کہ اللہ انہیں کھلاتا ہے۔
لہٰذا یہاں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اوصاف کے اعتبار سے بتلایا ہے کہ کوئی بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس وصف وخاصیت کا حامل نہیں!

بخاری شریف کی ایک روایت یوں ہے: حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو اچھے کاموں کا حکم دیتے تو ایسے اعمال و افعال بتاتے جو وہ بآسانی کر سکتے تھے یہاں پر صحابہ کرام عرض کرتے : انا لسنا کھیئتک یا رسول اللہ
آقا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم ہم آپ کی مثل تو نہیں ہیں۔
ان صاحب کی اگلی دلیل دیکھیں!کہ یہ جس حدیث کو دلیل بنا رہے ہیں، اور صحابہ کے عقیدہ بیان کر رہے ہیں، اسی حدیث کے اگلے جملہ کا اکثر بریلویہ صریح انکار کرتے ہیں، بلکہ یہ ماننے والوں پر گستاخی کے فتاوی بھی داخنے لگتے ہیں۔
گو کہ بعض بریلویوں نے خود بھی ان بریلویوں کی تردید کی ہے؛
اس بات کو ذہن میں رکھئیے کہ احمد رضا خان نے سورۃ فتح کی آیت نمبر 02 کا کیا ترجمہ کیا ہے:

لِّيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًا ﴿سورة الفتح 02﴾
تاکہ اللہ تمہارے سبب سے گناہ بخشے تمہارے اگلوں کے اور تمہارے پچھلوں کے اور اپنی نعمتیں تم پر تمام کردے اور تمہیں سیدھی راہ دکھادے (ترجمہ: احمد رضا خان بریلوی)

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَمَرَهُمْ، أَمَرَهُمْ مِنَ الأَعْمَالِ بِمَا يُطِيقُونَ، قَالُوا: إِنَّا لَسْنَا كَهَيْئَتِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ قَدْ غَفَرَ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ، فَيَغْضَبُ حَتَّى يُعْرَفَ الغَضَبُ فِي وَجْهِهِ، ثُمَّ يَقُولُ: «إِنَّ أَتْقَاكُمْ وَأَعْلَمَكُمْ بِاللَّهِ أَنَا.»
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ جب صحابہ کرام ؓ کو حکم دیتے تو انہی کاموں کا حکم دیتے جن کو وہ بآسانی کر سکتے تھے۔ انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہمارا حال آپ جیسا نہیں ہے۔ اللہ نے آپ کی اگلی پچھلی ہر کوتاہی سے درگزر فرمایا ہے۔ یہ سن کر آپ ﷺ اس قدر ناراض ہوئے کہ آپ کے چہرہ مبارک پر غصے کا اثر ظاہر ہوا، پھر آپ نے فرمایا: ’’ میں تم سب سے زیادہ پرہیزگار اور اللہ کو جاننے والا ہوں۔‘‘
مترجم: شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)

صحيح البخاري: كِتَابُ الإِيمَانِ (بَابُ: قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: «أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِاللَّهِ»)
صحیح بخاری: کتاب: ایمان کے بیان میں (باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی تفصیل کہ میں تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو جانتا ہوں۔)

اس مسئلہ کے لئے مزید مندرجہ ذیل لنک ملاحظہ فرمائیں:

بدعتی بریلوی فرقہ
بدعتی بریلویوں کا گستاخانہ رویہ

(جاری ہے)
 
Top