يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفًا (32)
وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا (33)
اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی محترم بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو ۔ اگر تم اللہ سے ڈرتی ہو تو (کسی نامحرم سے) دبی زبان سے بات نہ کرو، ورنہ جس شخص کے دل میں روگ ہے وہ کوئی غلط توقع لگا بیٹھے گا لہذا صاف سیدھی بات کرو (سورۃ الاحزاب آیت ۳۲)
اور اپنے گھروں میں قرار پکڑے رہو، پہلے دور جاہلیت کی طرح اپنی زیب و زینت کی نمائش نہ کرتی پھرو، نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو ' اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرو ۔ اے اہل بیت (نبی) اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی کو دور کرکے اچھی طرح پاک صاف بنا دے،
(سورۃ الاحزاب آیت ۳۳)
علامہ عبد الرحمن کیلانی اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
اہل بیت سے مراد کون لوگ ہیں؟ اہل بیت اور اہل خانہ یا گھر والے یہ سب ہم معنی الفاظ ہیں ۔ اور اس سے مراد کسی مرد کی بیوی یا بیویاں تو ضرور شامل ہوتی ہیں جیسے یہاں سیاق و سباق میں ازواج النبی کو ہی خطاب کیا جارہا ہے۔ اور اگر اولاد ہو تو وہ بھی اہل بیت میں شامل سمجھی جاتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے مسلمانوں کے ایک فرقہ نے اہل بیت سے ازواج النبی کو تو خارج کردیا اور اس کے بجائے اہل بیت سے مراد سیدہ فاطمۃ (رض) سیدنا علی (رض) ، سیدنا حسن (رض) اور سیدنا حسین (رض) لے لیا اور اس کی بنیاد امام احمد کی روایت ہے کہ آپ نے ان چاروں حضرات کو ایک چادر میں لے کر کہا : ( اللّٰھُمَّ ھٰوُلاَءِ اَھْلَ بَیْتِیْ۔۔) (یاللہ! یہ میرے گھر والے ہیں) حالانکہ اس سے آپ کی مراد صرف یہ تھی کہ اے اللہ تطہیر کے اس پاکیزہ عمل میں میری اولاد کو شامل کر لے اور یہ آپ نے اس لئے کیا کہ سیاق و سباق میں خطاب صرف ازواج النبی سے تھا۔ آپ کی اولاد سے نہیں تھا۔
’’ پاکیزگی کے مختلف پہلو :۔ یہاں ربط مضمون کے لحاظ سے رِجْسٌ (ناپاکی۔ گندگی) سے مراد صرف وہ حرکات اور افعال ہیں جو بےحیائی سے تعلق رکھتے ہیں اور شہوانی جذبات میں تحریک پیدا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں اور سیاق و سباق میں یہی مضمون مذکور ہے۔ تاہم رجس کے معنی میں بہت وسعت ہے اور اس سے مراد شرک، کفر اور نفاق کی گندگی ، اخلاق رذیلہ کی گندگی حتیٰ کہ ظاہری نجاست بھی شامل ہے اور مطلب یہ ہے کہ ایسی ناپاکی کو دور کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اے ازواج النبی تم جاہلیت کے دور والی نمود و نمائش کے بجائے نمازیں قائم کرو، زکوٰ ۃ ادا کیا کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو ۔ اللہ کے رسول کو خرچ وغیرہ کے مطالبات کرکے پریشان نہ کرو ۔ اس طرح اللہ تمہارے دلوں سے ہر طرح کی نجاست دور کرکے پاک و صاف بنا دے گا۔