• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل بیت سے محبت-خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی

شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
*اہل بیت سے محبت*


عن زيد بن أرقم رضي الله عنه قال : قام رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما خطيبا …. الحديث .

( صحيح مسلم :2408، الفضائل – مسند أحمد :4/367 )

ترجمہ : حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں مکے اور مدینے کے درمیان خم نامی ایک چشمے پر خطبہ دینے کھڑے ہوئے ، سب سے پہلے آپ نے اللہ تعالی کی حمد وثنا بیان کی اور وعظ ونصیحت کی پھر فرمایا : اما بعد ! سنو اے لوگو ! میں بھی ایک بشر ہوں ، قریب ہے کہ میرے رب کا قاصد [ملک الموت ] میرے پاس آئے اور میں اس کی دعوت قبول کرلوں [یعنی میری وفات ہوجائے ] میں تمہارے پاس دو بھاری چیزیں [نہایت عظیم اور اہم چیزیں ] چھوڑ رہا ہوں ، ان میں سے پہلی چیز کتاب الہی ہے جس میں ہدایت اور روشنی ہے ،ا س لئے تم اللہ کی کتاب کو لو اور اسے مضبوطی سے تھام لو ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی کتاب کی ترغیب دی اور اس کے مطابق عمل پر ابھارا ، پھر فرمایا : [ دوسری عظیم چیز ] میرے اہل بیت ہیں ، میں تمہیں اہل بیت کے بارے میں اللہ کی یاد دہانی کراتا ہوں ، میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالی کی یاد دہانی کراتا ہوں ، میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالی کی یاد دہانی کراتا ہوں ۔

{ صحیح مسلم ، مسند احمد ، صحیح ابن خزیمہ }

تشریح : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع سے واپس ہور ہے تھے کہ رابغ کے پاس خم نامی ایک چشمے پر قیام فرمایا ، چونکہ عرفہ کے میدان میں یہ آیت نازل ہوچکی تھی کہ “الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا ” اس لئے آپ کو محسوس ہوا کہ اب آپ کی اجل قریب ہے اور بہت ممکن ہے کہ جلد ہی اللہ تعالی کی طرف سے بلاوا آجائے اور میں اس دنیا سے رخصت ہوجاؤں ، اس لئے صحابہ کرام کے اس عظیم اجتماع کو غنیمت سمجھتے ہوئے انہیں چند نصیحتی کلمات سے نواز ا، من جملہ ان نصیحتی کلمات کے دو اہم باتیں اس حدیث میں بیان ہوئی ہیں ۔

[۱] کتاب الہی کا اہتمام : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو اوالا تو اس کتا ب کی اہمیت بتلائی کہ یہ کتاب سراپا ہدایت اور روشنی ہے جس طرح اگر کوئی شخص صاف اور سیدھے راستے پر چل رہا ہے اور اسے کافی روشنی بھی میسر ہے تو وہ نہ بھٹکے گا اور نہ ہی ٹھوکر کھائے ، اسی طرح کتاب الہی کو اپنے لئے کتاب ہدایت سمجھنے والا اور اسے مشعل راہ بنا کر عملی میدان میں اترنے والا شخص کبھی بھی گمراہ نہ ہوگا اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کتاب کو مضبوطی سے تھامے رہنے اور اس سے جٹے رہنے کا حکم دیا اور اس کے مطابق عمل کرنے پر ابھارا ۔
[۲] اہل بیت کی رعایت : چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پیچھے علمی میراث کے علاوہ کوئی مادی میراث چھوڑ کر نہیں جارہے تھے اور آپ کے پیچھے آپ کے اہل وعیال کا ایک بڑا سلسلہ تھا اس لئے ان کےحقوق کے بارے میں بھی صحابہ کو متنبہ کیا کہ ان کے حقوق کا خصوصی خیال رکھنا ، ان کا احترام کرنا ، ان سے محبت رکھنا ، ان کی اچھی رعایت کرنا اور ہر وہ چیز جس سے انہیں تکلیف ہو اس سے پرہیز کرنا ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بھی فرمایا تھا ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میرے نزدیک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل قرابت کے ساتھ حسن سلوک کرنا میرے اپنے اہل قربت کے ساتھ حسن سلوک سے زیادہ محبوب ہے

{ صحیح البخاری :3712} ۔

اس حدیث میں قرآن کریم اورا ہل بیت کو “ثقلین ” دو بھاری چیزوں سے تعبیر کیا گیا ہے جس کا معنی ہے کہ ان پر عمل کرنا ، ان کے حقوق کا پاس و لحاظ رکھنا اور ان کے بارے میں صحیح حد پر باقی رہنا بھاری اور مشکل کام ہے ، جیسا کہ آج اس کا مشاہدہ ہے کہ قرآن کریم اور اہل بیت کے بارے میں لوگ افراط وتفریط اور غلو و جفا کے شکار ہیں ۔

واضح رہے کہ اس حدیث میں اہل بیت سے مراد اس مفہوم سے بہت عام ہے جو شیعہ حضرات لیتے ہیں اور اہل سنت وجماعت کے نزدیک ان کے حقوق کی رعایت کا مفہوم بھی شیعہ حضرات کے مفہوم سے مختلف ہے چنانچہ اہل تشیع اہل بیت سے مراد صرف اولاد فاطمہ کو لیتے ہیں جب کہ اہل سنت وجماعت کے نزدیک اہل بیت میں اولین درجہ ازواج مطہرات کو حاصل ہے اور قریش کے خاندان کا ہر وہ فرد داخل ہے جس پر صدقہ حرام ہے جیسا کہ اس حدیث کے آخر میں اس کی صراحت موجود ہے کہ روای حدیث حضرت حصین نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ آپ کے اہل بیت کون ہیں ؟ کیا آپ کی ازواج مطہرات آپ کے اہل بیت میں سے نہیں ہیں ؟ حضرت زید نے جواب دیا یقینا آپ کی بیویاں آپ کے اہل بیت میں سے ہیں ، لیکن یہاں اس سے مراد آپ کے وہ اہل بیت ہیں جن پر آپ کے بعد صدقہ حرام ہے ، جیسے آل علی ، آل عقیل ، آل جعفر اور آل عباس ۔

اسی طرح ان کے حقوق کی رعایت کا یہ معنی نہیں ہے کہ انہیں معصوم مانا جائے ، ان کی شان میں افراط و غلو سے کام لیا جائے جیسا کہ اہل تشیع کا رویہ ہے بلکہ ان کے سارے دین کی بنیاد ہی افراط و غلو اور ائمہ اہل بیت کی معصومیت پر ہے حالانکہ اہل بیت سے محبت وتعظیم کا مطلب ان کی سیرت وکردار کے تابندہ نقوش کو اپنانا اور ان کی صالحیت و تقوائے الہی کی وجہ سے ان کی محبت و عظمت کوا پنے دل میں رکھنا ، ان کی تعظیم کرنا ہے بلکہ تقریبا وہ سارے کام ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم وتکریم میں داخل ہیں ، جیسا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تم لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کے اہل بیت کے بارے میں خیال رکھو

{ صحیح البخاری :3751} ۔

فوائد :

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک بشر ہیں ، اور تمام انسانوںکی طرح آپ پر بھی موت وارد ہے ۔
قرآن مجید کے ساتھ تمسک ہی گمراہی سے نجات ہے ۔
اہل بیت کے بارے میں اہل سنت وجماعت کا تصور اہل تشیع سے مختلف ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کی توہین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے منافی ہے ۔

https://www.islamidawah.com/?p=728
 
Top