- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,410
- پوائنٹ
- 562
ملک کی اہم دینی و سیاسی جماعتوں نے مختلف مسالک (بشمول شیعہ، دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث ) کے درمیان اتحاد و یکجہتی کے قیام اور فرقہ واریت کے خاتمے سمیت دیگر مقاصد کے حصول کے لئے ”ملی یکجہتی کونسل“ کو بحال کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ اجلاس میں علامہ ابتسام الٰہی ظہیر، علامہ ساجد نقوی سمیت دیگر مسالک کے اعلیٰ نمائندوں کی موجودگی میں کہا گیا ہے کہ:
١۔ کسی بھی فرقہ کو کافر قرار دینا غیر اسلامی ہے۔
٢۔ کسی بھی مکتبہ فکر کی ”دل آزاری“ کا باعث بننے والی تقریر و تحریر سے گریز کیا جائے گا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہر مسلک کے اعلیٰ قیادت تو عملا" باہم ”شیر و شکر“ ہوکر ایک دوسرے کی ”دل آزاری“ تک سے گریز کرنے کی پالیسی بناتی ہے۔ کسی مسلک اور فرقہ کو کافر یا مشرک قرار دینے کو ”غیر اسلامی“ قرار دیتی ہے۔ جبکہ انہی مسالک کی ”نچلی قیادت“ یا ان مسلکی قائدین کے ”مقلدین“ اس کے بالکل ”برعکس رویہ“ اختیار کرتے ہیں۔ آپ ان تمام مسالک سے وابستہ ”علمائے کرام“ کی تحریر و تقاریر کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں یا ان مسالک سے وابستہ ویب سائٹس اور فورمز کا وزٹ کرلیں۔ سب کی ”متفقہ رائے“ یہی ملے گی کہ صرف ”ہمارا فرقہ و مسلک“ ہی حق پر ہے اور باقی سارے فرقے، باطل، مشرک یا کافر ہیں۔
آج انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ مسلم امت کے پڑھے لکھے لوگوں کی اکثریت اس آئی ٹی کی سہولت کی بدولت تمام جملہ مسالک کے ٹاپ قائدین اور نچلی قیادت کے اس ”تضاد“ پر سخت پریشان اور حیرت زدہ ہیں۔ پاکستان مین جب کبھی بھی ملکی سطح پر کوئی ”مذہبی اتحاد“ وجود میں آیا اس میں اہل حدیث اور اہل تشیع شانہ بشانہ دیگر مسالک کے ساتھ موجود رہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ اور ایک دوسرے کے پیچھے نمازیں بھی پڑھتے رہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ہی سب کے سب اپنے اپنے فرقہ وارانہ پلیٹ فارم پر ایک دوسرے کی نفی بھی کرتے رہے اور ایک دوسرے پر کیچڑ بھی اچھالتے رہے۔ ع ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہئے۔
سُوۡرَةُ آل عِمرَان۔ وَٱعۡتَصِمُواْ بِحَبۡلِ ٱللَّهِ جَمِيعً۬ا وَلَا تَفَرَّقُواْۚ (١٠٣)
کاش ہم تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کے دین سے دوری کا سبب بننے والے مختلف مسالک کے اس متضاد رویہ کا کوئی علاج کرسکیں۔ اور فرقہ واریت سے بلند تر ہوکر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کا کوئی راستہ انہیں دکھلا سکیں۔
١۔ کسی بھی فرقہ کو کافر قرار دینا غیر اسلامی ہے۔
٢۔ کسی بھی مکتبہ فکر کی ”دل آزاری“ کا باعث بننے والی تقریر و تحریر سے گریز کیا جائے گا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہر مسلک کے اعلیٰ قیادت تو عملا" باہم ”شیر و شکر“ ہوکر ایک دوسرے کی ”دل آزاری“ تک سے گریز کرنے کی پالیسی بناتی ہے۔ کسی مسلک اور فرقہ کو کافر یا مشرک قرار دینے کو ”غیر اسلامی“ قرار دیتی ہے۔ جبکہ انہی مسالک کی ”نچلی قیادت“ یا ان مسلکی قائدین کے ”مقلدین“ اس کے بالکل ”برعکس رویہ“ اختیار کرتے ہیں۔ آپ ان تمام مسالک سے وابستہ ”علمائے کرام“ کی تحریر و تقاریر کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں یا ان مسالک سے وابستہ ویب سائٹس اور فورمز کا وزٹ کرلیں۔ سب کی ”متفقہ رائے“ یہی ملے گی کہ صرف ”ہمارا فرقہ و مسلک“ ہی حق پر ہے اور باقی سارے فرقے، باطل، مشرک یا کافر ہیں۔
آج انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ مسلم امت کے پڑھے لکھے لوگوں کی اکثریت اس آئی ٹی کی سہولت کی بدولت تمام جملہ مسالک کے ٹاپ قائدین اور نچلی قیادت کے اس ”تضاد“ پر سخت پریشان اور حیرت زدہ ہیں۔ پاکستان مین جب کبھی بھی ملکی سطح پر کوئی ”مذہبی اتحاد“ وجود میں آیا اس میں اہل حدیث اور اہل تشیع شانہ بشانہ دیگر مسالک کے ساتھ موجود رہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ اور ایک دوسرے کے پیچھے نمازیں بھی پڑھتے رہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ہی سب کے سب اپنے اپنے فرقہ وارانہ پلیٹ فارم پر ایک دوسرے کی نفی بھی کرتے رہے اور ایک دوسرے پر کیچڑ بھی اچھالتے رہے۔ ع ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہئے۔
سُوۡرَةُ آل عِمرَان۔ وَٱعۡتَصِمُواْ بِحَبۡلِ ٱللَّهِ جَمِيعً۬ا وَلَا تَفَرَّقُواْۚ (١٠٣)
کاش ہم تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کے دین سے دوری کا سبب بننے والے مختلف مسالک کے اس متضاد رویہ کا کوئی علاج کرسکیں۔ اور فرقہ واریت سے بلند تر ہوکر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کا کوئی راستہ انہیں دکھلا سکیں۔