السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ﻣﺤﺪﺙ
ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺭﻭﭘﮍﯼ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ '' ﺗﻮﺣﯿﺪ
ﺍﻟٰﮩﯽ ﻭﺣﺪۃ
ﺍﻟﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﺍﺻﻄﻼﺣﺎﺕ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﺮ
ﻣﺘﺎﺧﺮﯾﻦ ﺻﻮﻓﯿﺎﺀ
ﺍﺑﻦ ﻋﺮﺑﯽ ﻭﻏﯿﺮﮦ ) ﮐﯽ ﮐﺘﺐ ﻣﯿﮟ
ﭘﺎﺋﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔
ﻣﺘﻘﺪﻣﯿﻦ ﮐﯽ ﮐﺘﺐ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﮨﺎﮞ
ﻣﺮﺍﺩ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺻﺤﯿﺢ
ﮨﮯ،۔۔ ﺍﺑﻦ ﻋﺮﺑﯽ ﺳﮯ ﺳﻮﺀ ﻇﻦ ﭨﮭﯿﮏ
ﻧﮩﯿﮟ ''( ﻓﺘﺎﻭﯼ
ﺍﮨﻠﺤﺪﯾﺚ، 1/151 ، 152 )
حافظ عبد اللہ روپڑی کی مکمل عبارت ملاحظہ فرمائیں:
مسئلہ وحدة الوجود اور مسئلہ وحدة الشہود
سوال:۔ مسئلہ وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود کی صوفیا کے نزدیک کیا تعریف ہے؟ اور محققین علمائ اس کے کیا معنیٰ مراد لیتے ہیں؟ اور یہ توحید وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود کی زمانہ سلف میں تھی یا نہیں؟
جواب:۔ مولیٰنا جامی ؒ نے اپنی کتاب ''نفحات الانس من حضرات القدس فارسی'' کے صفحہ 17 الگایت صفحہ 20 میں بحوالہ ترجمہ العوارف باب اوّل توحید کے چار مراتب لکھے ہیں۔ اصل عبارت نقل کرکے اس کا ترجمہ کرنے سے تو بات بہت طویل ہوجائے گی۔ اس لئے کسی قدر توضیح کے ساتھ اُردو خلاصہ پر اکتفاء کی جاتی ہے جس کو زیادہ تفصیل کا شوق ہو وہ اصل کتاب ملاحظہ کرے۔
اوّل توحید ایمانی، دوم توحید علمی، سوم توحید حالی، چہارم توحید الٰہی
توحیدِ ایمانی:
عوام کی توحید ہے یعنی کتاب و سنت کے مطابق۔ خدا کو وحدہ لاشریک سمجھنا اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرنا۔ دل میں اس کا اعتقاد رکھنا اور زبان سے اقرار کرنا۔ اور یہ توحید مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر کے تصدیق کرنے کا نتیجہ ہے اور ظاہری علم سے حاصل ہے۔ اور صوفیا کرام اس توحید مین عام مومنوں کے ساتھ شریک ہیں اور باقی قسموں میں ممتاز ہیں۔
توحیدِ علمی:
باطنی علم سے حاصل ہوتی ہے جس کو علم الیقین کہتے ہیں۔ اور وہ اس طرح ہوتی ہے کہ انسان کا یقین اس حد تک پہنچ جائے کہ موجود ھقیقی اور مؤثر مطلق بجز خدا کسی کو نہ جانے۔ تمام ذوات صفات اور افعال کو خدا کی ذات اور افعال کے سامنے ہیچ سمجھے۔ ہر ذات کو اس کی ذات کا اثر خیال کرے اور ہر صفت کو اس کی صفت کا پرتو جانے۔ مثلاً جہاں علم ، قدرت، ارادہ، سُننا دیکھنا پائے ان سب کو خدا تعالیٰ کے علم، قدرت، ارادہ، سننے دیکھنے کے آثار سے سمجھے۔ اسی طرح باقی صفات وافعال کی خیال کرے گویا ظاہری اسبابکاپردہ درمیاننہ دیکھے۔ اور سب کچھ مؤثر حقیقی کی طرف سے سمجھے یہاں تک کہ ظاہری اسباب سے متاثر نہ ہو۔ مگر چونکہ اس مرتبہ میں حجاب باقی رہتا ہے اس لئے اکثر اوقات نظر ظاہری اسباب کی طرف چلی جاتی ہے جو شرک خفی کی قسم ہے۔
توحید ِ حالی:
یہ ہے کہ قریب قریب تمام حجابات درمیان سے اُٹھ جاتے ہیں۔ اور موحد مشاہدہ جمال وجود واحد کا کرتا ہے جیسے ستاروں کا نُور آفتاب کے نُور میں غائب ہوجاتا ہے اسی قریب قریب تمام وجودات موحد کی نظر سے غائب ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ توحید کی صفت کو بھی اسی وجود واحد کی صفت دیکھتا ہے اور اپنے مشاہدہ کو بھی اسی وجود واحد کی صفت دیکھتا ہے۔ غرض اس کی نظر میں وحدت ہوتی ہے۔ دوئی کا وہاں دخل نہیں رہتا۔ اس طریق سے موحد کی ہستی بحرِ توحید کا ایک قطرہ ہو کر اس میں مضمحل ہو جاتی ہے اور ایسی گُھل مل جاتی ہے کہ وہاں انتشار نہیں رہتا۔ اسی بنا پر جنید بغدادیؒ (سرتاج صوفیاء) نے کہا ہے:
التوحيد معنی يضمحل فيه الرسوم ويندرج فيه العلوم يكون الله كما لم ينزل
''یعنی توحید ایک معنیٰ ہے جس میں رسمی وجود یں گھل مل جاتے ہیں اور علوم اس میں مندرج ہو جاتے ہیں۔ گویا خدا ویسے کا ویسا ہے۔ کوئی چیز پیدا ہی نہیں کی۔''
یہ توحید مشاہدہ سے پیدا ہوتی ہے اور توھید علمی مراقبہ سے۔ مراقبہ سے ظاہر کی طرف توجہ ہٹا کر جمال محبوب کی انتظار ہے اور مشاہدہ محبوب کا دیدار ہے۔ توحید علمی میں اکثر لوازم بشریہ باقی رہتے ہیں اور توحید حالی میں تھوڑے باقی رہتے ہیں۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ انسان دنیا میں ترتیب افعال اور تہذیب اقوال کے ساتھ مکلّف ہے اور مکلف اسی صورت میں رہ سکتا ہے کہ اس کے ساتھ کچھ لوازم بشریہ رہیں جن کا اس کو مقابلہ کرنا پڑے اسی بناء پر ابو علی وقاق ؒ نے کہا ہے:
التوحيد غريم لا یقضی دینه وغريب لا يؤدي حقّه.
''یعنی توحید ایسا قرض خواہ ہے کہ اس کا قرض پارا نہیں ہو سکتا اور ایس امسافر ہے کہ اس (کی مہمانی) کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔''
دُنیا کی کبھی کبھی خالص حقیقت توحید جس میں یکبارگی آثار اور رسمی وجود گم ہو جاتے ہیں بجلی کی چمک کی طرح نمودار ہوتی ہے اور فی الفور بُجھ جاتی ہے اور رسمی وجودات کا اثر دوبارہ لَوٹ آتا ہے اور اس حالت مين شرک خفی کا نام نشان نہیں رہتا۔ انسان کے لئے توحید میں اس سے بڑھ کر اور کوئی مرتبہ ممکن نہیں۔
توحیدِ الٰہی:
یہ ہے کہ خدا تعالیٰ خود اپنی ذات میں بغیر اس کے کہ دوسرا اس کی ذات وحدت کی نسبت کرے ازل میں ہمیشہ وحدت سے موصوف رہا چنانچہ حدیث میں ہے کان الله ولم يكن معه شئ یعنی ''خدا تعالیٰ تھا اور اس کے ساتھ کوئی دوسری شئے نہ تھی۔'' اور اب بھی اسی طرح ہے اور ابد الاباد اسی طرح رہے گا۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے كل شئ هالك الا وجهه یعنی ''ہر شئے ہلاکت والی ہے مگر خدا کی ذات''۔ اس آیت میں یہ نہیں کہا کہ ہر شئے ہلاک ہوجائے گی بلکہ ''ہالک'' کہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت بھی ہلاکت والی یعنی نیست اور فانی ہے اس کی مثال اس طرح ہے جیسے رَسِّیْ جلا دی جائے تو اس کے بَٹ بدستور نظر آتے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ رَسَّیْ قائم ہے حالانکہ حقیقت میں رَسِّیْ فنا ہو چکی ہوتی ہے اور اس حالت مشاہدہ کے لئے قیامت کا حوالہ دینا یہ محبوبوؐ کے لئے ہے ورنہ اربابِ بصیرت اور اصحاب مشاہدہ جو زمان ومکان کے تنگ کوچہ سے گذر کر خٌاصی پاگئے یہ عودہ ان کے حق میں قیامت تک اُدھار نہیں بلکہ نقد ہے یعنی محبوبوں کے لئے جو مشاہدہ قیامت کو ہوگا۔ ارباب بصیرت کے لئے اس وقت ہو رہا ہے۔
یہ توحید الٰہی نقص وعیب سے بَری ہے۔ برخلاف توحیدِ مخلوق کے وہ بوجہ وجود کے ناقص ہے۔
یہ چار قسمیں توحید کی صوفیاء کے ہاں مشہور ہیں۔ اخیر کی دوہی ہیں جن کے متعلق آپ نے سوال کیا ہے یعنی توحید حالی ''وحدة الشہود'' ہے اور توحید الٰہی ''توحید الوجود'' ہے۔ یہ اصطلاحات زیادہ تر متاخرین صوفیاء (ابن عربی وغیرہ) کی کتب میں پائی جاتی ہیں۔ متقدمین کی کتب میں نہیں ۔ ہاں مراد ان کی صحیح ہے۔ توحید ایمانی اور توحید علمی تو ظاہر ہے توحید حالی کا ذکر اس حدیث میں ہے: ان تعبد الله كانك تراه فان لم تكن تراه فانه يراك. یعنی ''خدا کی اس طرح عبادت کر گویا تو اُس کو دیکھ رہا ہے. پس اگر تُونہ دیکھے تو وہ تجھے دیکھ رہ اہے۔'' یہ حالت چونکہ اکثر طور پر ریاضت اور مجاہدہ سے تعلق رکھتی ہے۔ اس لئے یہ عقل سے سمجھنے کی شئے نہیں ہاں اس کی مثال عاشق ومعشوق سے دی جاتی ہے۔ عاشق جس پر معشوق کا تخیّل اتنا غالب ہوتا ہے کہ تمام اشیاء اس کی نظر میں کالعدم ہو جاتی ہیں۔ اگر دوسری شئے کا نقشہ اس کے سامنے آتا ہے تو محبوب کا خیال اس کے دیکھنے سے حجاب ہو جاتا ہے گویا ہر جگہ اس کو محبوب ہی محبوب نظر آتا ہے خاص کر خُدا کی ذات سے کسی کو عشق ہو جائے تو چونکہ تمام اشیاء اس کے آثار اور صفات کا مظہر ہیں اس لئے خدائی عاشق پر اس حالت کا زیادہ اثر ہوتا ہے یہاں تک کہ ہر شئے سے اس کو خدا نظر آتا ہے وہ شئ نظر نہیں آتی ہے جیسے شیشہ دیکھنے کے وقت چہرے پر نظر پڑتی ہے نہ کہ شیشہ پر۔
شیخ مخدوم علی ہجویریؒ معروف بہ ''داتا گنج بخش'' جن کا لاہورمیں مزار مشہور ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب ''کشف المحجوب'' باب مشاہدہ میں صوفیاء کے اقوال اس قسم کے بہت لکھے ہیں جن کا خلاصہ یہی ہے جو بیان ہوا ہے کہ غلبۂ محبّت اور کمال یقین کی وجہ سے ایسی حالت ہو جاتی ہے کہ غیر خدا پر نظر ہی نہیں پڑتی۔ اس طرح دوسرے بزرگوں نے اپنی تصانیف میں لکھا ہے۔ مگر یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ خواص کی دو حالتیں ہیں جلوت اور خلوت۔ جلوت لوگوں سے اختلاط اور میل جول کی حالت ہے اور خلوت علیٰحدگی اور تنہائی کی حالت ہے جس میں ظاہراً باطناً خدا کی طرف توجہ ہوتی ہے۔ جلوت میں تبلیغ کا کام ہوتا ہے اور خلوت میں نفس کی اصلاح اور دل کی صفائی ہوتی ہے۔
قرآن مجید میں سورۃ مزمل کے شروع میں ان دونوں حالتوں کا بیان ہے چنانچہ ارشاد ہے:
إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا إِنَّ لَكَ فِي النَّهَارِ سَبْحًا طَوِيلًا
یعنی ''رات کا قیام نفس کے لتاڑنے کے لئے سخت ہے اور زبان کی بہت درست رکھنے والا ہے۔ بے شک تجھے دین میں طویل شغل ہے۔''
ان دونوں آیتوں میں ان دونوں حالتوں کا ذکر ہے جن کی یہ دو حالتیں قائم ہیں ان کی تو رِیس ہی نہیں اوّل نمبر ان میں انبیاء علیم السلام کا ہے پھر درجہ بدرجہ ان کے جانشینوں کا ہے۔ جو لوگ ساری عمر خلوت میں گزارتے ہیں اگرچہ ان کی حالت مشاہدہ زیادہ ہوتی ہے مگر چونکہ یہ چیز صرف ان کی ذات سے تعلق رکھتی ہے اس میں متعدی فائدہ نہیں اس لئے وہ علما ربانیین کا مقابلہ نہیں کرسکتے اس لئے رسُول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے چودہویں رات کے چاند کی ستاروں پر۔'' اور دوسری حدیث ميں ہے '' جیسی میری تمہارے ادنیٰ پر ۔'' (مشکوٰة کتاب العلم فصل 2)
پس انسان کو چاہیئے کہ توحید حالی حاصل کرتے ہوئے افضل مرتبہ ہاتھ سے نہ دے، جو محض گوشہ نشینی کو بڑا کمال سمجھے ہوئے ہیں اور اپنی عمر اسی میں گزار دیتے ہیں وہ علمائے ربانی کی نسبت بڑے خسارہ میں ہیں۔ اگرچہ ذاتی طور پر ان کی طبیعت کو اطمنان وسکون زیادہ ہو۔ اور ذوقِ عبادت اور حلاوتِ ذکر میں خواہ کتنے بڑھے ہوئے ہوں مگر علمائے ربانی کا متعدی فائدہ اس سے بڑھ جاتا ہے۔ کیونکہ شیطان کا اصل مقابلہ کرنے والی یہی (علمائے ربّانی) کی جماعت ہے۔ عابد ریاضت اور مجاہدہ سے صرف اپنی خواہشات کو دباتا ہے اور یہ جماعت ہزاروں کی اصلاح کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
''ہزار عابد سے شیطان اتنا نہیں ڈرتا جتنا ایک عالِم سے (ڈرتا ہے) '' (مشکوٰۃ کتاب العلم فصل 2)
خدا ہمیں بھی ربانی علماء سے کرے اور انہی کے زمرہ مین اُٹھائے۔ آمین
اب رہی ''توحید الٰہی'' سو اس کے متعلق بہت دنیا بہکی ہوئی ہے۔ بعض تو اس کا مطلب '' ہمہ اوست'' سمجھتے ہیں یعنی ہر شئے عین خدا ہے، جیسے برف اور پانی بظاہر دو معلوم ہوتے ہیں مگر حقیقت ایک ہے اسی طرح خدا اور دیگر موجودات ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ تمام موجودات وحدت حقیقی کا عکس ہیں۔ جیسے ایک شخص کے ارد گرد کئی شیشے رکھ دیئے جائیں تو سب میں اس کا عکس پڑتا ہے ایسے ہی خدا اصل ہے اور باقی اشیاء اس کا عکس ہیں۔ اور بعض کہتے ہیں کہ کُلی جزئ کی مثال ہے جیسے انسان اور زید عمر بکر ہیں۔ حقیقت سب کی خدا ہے اور یہ تَعَیُّنَات حوادث ہیں۔ غرض دُنیا عجیب گھورکھدندے میں پڑی ہوئی ہے کوئی کچھ کہتا ہے کوئی کچھ۔
صحیح راستہ اس میں یہ ہے کہ اگر اس کا مطلب یہ سمجھا جائے کہ خدا کے کوئی شئے حقیقۃً موجود نہیں اور یہ جو کچھ نظر آرہا ہے یہ محض توہمات ہیں جیسے ''سوفسطائیہ'' فرقہ کہتا ہے کہ آگ کی گرمی اور پانی کی برودت وہمی اور خیالی چیز ہے تو یہ سراسر گمراہی ہے۔ اور اگر اس کا یہ مطلب ہے کہ یہ موجودات انسانی ایجادات کی طرح نہیں کہ انسان کے فنا ہونے کے بعد بھی باقی رہتی ہیں بلکہ یہ ان کا وجود خدا کے سہارے پر ہے اگر اُدھر سے قطع تعلق فرض کیا جائے تو ان کا کوئی وجود نہیں۔ تو یہ مطلب صحیح ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے بجلی کا کرنٹ (برقی رَو) قمقموں کے لئے ہے۔ گویا حقیقت میں اس وقت بھی ہر شئے فانی ہے مگر ایک علمی رنگ مین اس کو سمجھنا ہے اور ایک حقیقت کا سامنے آنا ہے۔ علمی رنگ مین تو سمجھنے والے بہت ہیں مگر حقیقت کا اس طرح سامنے آنا جیسے آنکھوں سے کوئی شے دیکھی جاتی ہے یہ خاص اربابِ بصیرت کا حِصّہ ہے گویا قیامت والی فنا اس وقت ان کے سامنے ہے۔ پس آیہ کریمہ کل شئ هالك الا وجهه۔ ان کے حق مین نقد ہے نہ اُدھار۔
نوٹ:
ابن عربیؒ، رومیؒ اور جامیؒ وغیرہ کے کلمات اس توحید مین مشتبہ ہیں۔ اس لئے بعض لوگ ان کے حق مین اچھا اعتقاد رکھتے ہیں بعض بُرا۔ ابن تیمیہؒ وغیرہ ابن عربیؒ سے بہت بدظن ہیں۔ اسی طرح رومیؒ اور جامیؒ کو کئی علماء برا کہتے ہیں مگر میرا خیال ہے کہ جب ان کا کلام محتمل ہے جیسے جامیؒ کا کلام اُوپر نقل ہو چکا ہے اور وہ درحقیقت ابن عربیؒ کا ہے۔ کیونکہ ابن عربی کی کتاب ''عوارف المعارف'' سے ماخوذ ہے تو پھر ان کے حق مین سُوء ظنی ٹھیک نہیں۔ اسی طرح رومیؒ کو خیال کر لینا چاہیئے، گرض حتی الوسع فتویٰ میں احتیاط چاہیئے۔ جب تک پُوری تسلی نہ ہو فتویٰ نہ لگانا چاہیئے خاص کر جب وہ گزرچکے۔اور ان کا معاملہ خدا کے سپرد ہو چکا تو اَب کُرید کی کیا ضرورت؟ بلکہ صرف اس آیت پر کفایت کرنی چاہیئے۔
تلك امة قد خلت لها ماكسبت ولكم كسبتم ولا تسئلون عما كانو تعملون
نوٹ:
ابن عربیؒ وغیرہ کاکچھ ذکر ''تنظیم'' جلد 9 نمبر 22 مورخہ 29 مارچ 1940 ء مطابق 20 صفر المظفر 1359 ھ میں بھی ہو چکا ہے اور رسال ''تعریف اہلسنت'' کے صفحہ 365 ، 366 میں بھی ہم اس کے متعلق کافی لکھ چکے ہیں زیادہ تفصیل مطلوب ہو تو وہاں ملاحظہ ہو۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 150 – 155 جلد 01 فتاویٰ اہل حدیث – حافظ عبد اللہ محدث روپڑی – ادارہ احیاء السنۃ النبویۃ، سرگودھا
حافظ عبد اللہ روپڑی نے سائل کے سوال کے کے مطابق ، کہ سائل نے صوفیاء کے موقف کے حوالہ سے سوال کیا تھا، تو اس سوال کے اعتبار سے صوفیاء کی عقیدہ توحید کے مختلف مراتب بیان کیئے ہیں جیسا کہ صوفی بیان کرتے ہیں، اور یہ بتلایا ہے کہ ان مراتب میں جو صوفیاء نے ذکر کیئے ہیں اس میں توحید حالی وحدت الشہود ہے اور توحید الٰہی وحدت الوجود ہے، اور وحدت الوجود کی اس تعبیر کو صحیح قرار دیا ہے، لیکن اسی وحدت الوجود کی دوسری تعبیرات کا رد آخر میں بیان کیا ہے۔
مزید کہ ابن عربی اور دیگر کے کلام کو مشتبہ قرار دیا ہے، اور ان کے کلام کو صحیح تاویل کے موافق حسن ظن رکھتے ہوئے ان پر فتوی لگانے میں احتیاط کی نصیحت کی ہے!