• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل حدیث اور وحدۃ الوجود ؟

شمولیت
جولائی 11، 2017
پیغامات
57
ری ایکشن اسکور
9
پوائنٹ
37
ﺍﺳﻼﻡ ﻋﻠﯿﮑﻢ۔ﺍﯾﮏ ﺩﯾﻮﺑﻨﺪﯼ ﻧﮯ ﺩﺭﺝ
ﺯﯾﻞ ﭘﻮﺳﭧ ﮐﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻋﻠﻤﺎﺋﮯ ﺍﮨﻞ
ﺣﺪﯾﺚ ﻭﺣﺪﺕ ﺍﻟﻮﺟﻮﺩ ﮐﮯ ﻗﺎﺋﻞ ﮨﯿﮟ۔
ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﺑﺎﺭﮮ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ
ﺻﺤﯿﺢ ﮨﮯ ﯾﺎ ﻏﻠﻂ۔ ﻏﯿﺮ ﻣﻘﻠﺪﯾﻦ ﮐﮯ
ﺷﯿﺦ ﺍﻟﮑﻞ ﻧﺬﯾﺮ ﺣﺴﯿﻦ ﺩﮨﻠﻮﯼ
ﺻﺎﺣﺐ
ﺍﺑﻦ ﻋﺮﺑﯽ ﮐﮯ ﺍﺗﻨﮯ ﻣﻌﺘﻘﺪ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﮯ
ﮨﯽ ﻏﯿﺮ ﻣﻘﻠﺪ
ﻋﻠﻤﺎﺀ ﺳﮯ ﺍﺑﻦ ﻋﺮﺑﯽ ﮐﯽ ﺣﻘﺎﻧﯿﺖ ﭘﮧ
ﻣﻨﺎﻇﺮﮦ ﮐﺮﺗﮯ
ﺗﮭﮯ۔ ''( ﻣﻌﯿﺎﺭ ﺍﻟﺤﻖ، 377/ ﺍﻟﺤﯿﺎۃ ﺑﻌﺪ
ﺍﻟﻤﻤﺎۃ 123 ‏)
ﻏﯿﺮ ﻣﻘﻠﺪ ﺷﯿﺦ ﺍﻻﺳﻼﻡ ﺛﻨﺎﺀ ﺍﻟﻠﮧ
ﺍﻣﺮﺗﺴﺮﯼ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ
'' ﻧﻮﺍﺏ ﺻﺎﺣﺐ ﻣﺮﺣﻮﻡ ﺷﯿﺦ ﻣﻤﺪﻭﺡ
ﮐﻮ ﻋﺰﺕ ﮐﯽ ﻧﮕﺎﮦ
ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻭﺭ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻧﺰﯾﺮ
ﺣﺴﯿﻦ ﺍﻟﻤﻌﺮﻭﻑ
ﺣﻀﺮﺕ ﻣﯿﺎﮞ ﺻﺎﺣﺐ ﺩﮨﻠﻮﯼ ﺷﯿﺦ
ﻣﻤﺪﻭﺡ ﮐﻮﺷﯿﺦ ﺍﮐﺒﺮ
ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔‏( ﻣﻌﯿﺎﺭ ﺍﻟﺤﻖ ﺹ 128‏)
ﺧﺎﮐﺴﺎﺭ ﮐﯽ ﻧﺎﻗﺺ
ﺭﺍﺋﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺷﯿﺦ ﻣﻤﺪﻭﺡ ﻗﺎﺑﻞ
ﻋﺰﺕ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﮨﯿﮟ۔ ‏( ﻓﺘﺎﻭﯼ ﺛﻨﺎﺋﯿﮧ، 1/334 ‏)
ﯾﮩﺎﮞ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﻭﺣﺪۃ ﺍﻟﻮﺟﻮﺩ ﮐﮯ ﻣﺎﻧﻨﮯ
ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ
ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﮐﺎﻓﺮ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻏﯿﺮ
ﻣﻘﻠﺪﯾﻦ ﮐﮯ ﻣﺤﺪﺙ
ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺭﻭﭘﮍﯼ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ '' ﺗﻮﺣﯿﺪ
ﺍﻟٰﮩﯽ ﻭﺣﺪۃ
ﺍﻟﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﺍﺻﻄﻼﺣﺎﺕ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﺮ
ﻣﺘﺎﺧﺮﯾﻦ ﺻﻮﻓﯿﺎﺀ
ﺍﺑﻦ ﻋﺮﺑﯽ ﻭﻏﯿﺮﮦ ‏) ﮐﯽ ﮐﺘﺐ ﻣﯿﮟ
ﭘﺎﺋﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔
ﻣﺘﻘﺪﻣﯿﻦ ﮐﯽ ﮐﺘﺐ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﮨﺎﮞ
ﻣﺮﺍﺩ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺻﺤﯿﺢ
ﮨﮯ،۔۔ ﺍﺑﻦ ﻋﺮﺑﯽ ﺳﮯ ﺳﻮﺀ ﻇﻦ ﭨﮭﯿﮏ
ﻧﮩﯿﮟ ''( ﻓﺘﺎﻭﯼ
ﺍﮨﻠﺤﺪﯾﺚ، 1/151 ، 152 ‏)
ﻏﯿﺮ ﻣﻘﻠﺪ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﮩﺎﻭﻟﭙﻮﺭﯼ ﻟﮑﮭﺘﮯ
ﮨﯿﮟ ﮐﮧ '' ﺍﮨﻠﺤﺪﯾﺜﻮﮞ
ﮐﮯ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﺬﯾﺮ ﺣﺴﯿﻦ ﺩﮨﻠﻮﯼ
ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺷﺎﮔﺮﺩ
ﺳﺐ ﺗﺼﻮﻑ ﮐﮯ ﻗﺎﺋﻞ ﮨﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ
ﻭﺣﺪۃ ﺍﻟﺸﮩﻮﺩ ﺍﻭﺭﮐﻮﺋﯽ
ﻭﺣﺪۃ ﺍﻟﻮﺟﻮﺩ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﮨﮯ ''( ﺧﻄﺒﺎﺕ
ﺑﮩﺎﻭﻟﭙﻮﺭﯼ، 1/326 ‏)
ﻃﺎﻟﺐ ﺍﻟﺮﺣﻤﺎﻥ ﮐﮯ ﺷﯿﺦ ﺣﻤﻮﺩ ﺑﻦ
ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺍﻟﺘﻮﯾﺠﺮﯼ ﮐﮯ
ﻓﺘﻮﯼ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻋﻼﻣﮧ
ﺷﻮﮐﺎﻧﯽ ﻧﺬﯾﺮ ﺣﺴﯿﻦ
ﺩﮨﻠﻮﯼ،ﺛﻨﺎﺀ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻣﺮﺗﺴﺮﯼ، ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ
ﺭﻭﭘﮍﯼ، ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ
ﺑﮩﺎﻭﻟﭙﻮﺭﯼ , ﻧﻮﺍﺏ ﺻﺪﯾﻖ ﺣﺴﻦ ﺧﺎﻥ،
ﯾﮧ ﺳﺐ ﻋﻘﯿﺪﮦ
ﻭﺣﺪۃ ﺍﻟﻮﺟﻮﺩ ﮐﮯ ﻗﺎﺋﻞ ﮨﻮﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺑﻦ
ﻋﺮﺑﯽؒ ﮐﯽ ﺗﻌﺮﯾﻒ
ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﺑﻦ ﻋﺮﺑﯽ ﮐﮯ
ﻣﺘﺒﻊ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺯﻧﺪﯾﻖ
ﮨﯿﮟ۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ﺷﯿﺦ ﺍﻟﮑﻞ ﻧﺬﯾﺮ ﺣﺴﯿﻦ ﺩﮨﻠﻮﯼ
ﺻﺎﺣﺐ
ﺍﺑﻦ ﻋﺮﺑﯽ ﮐﮯ ﺍﺗﻨﮯ ﻣﻌﺘﻘﺪ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﮯ
ﮨﯽ ﻏﯿﺮ ﻣﻘﻠﺪ
ﻋﻠﻤﺎﺀ ﺳﮯ ﺍﺑﻦ ﻋﺮﺑﯽ ﮐﯽ ﺣﻘﺎﻧﯿﺖ ﭘﮧ
ﻣﻨﺎﻇﺮﮦ ﮐﺮﺗﮯ
ﺗﮭﮯ۔ ''( ﻣﻌﯿﺎﺭ ﺍﻟﺤﻖ، 377/ ﺍﻟﺤﯿﺎۃ ﺑﻌﺪ
ﺍﻟﻤﻤﺎۃ 123 ‏)
یہ حوالہ جھوٹ و فریب پر مبنی ہے؛
نذیر حسین دہلوی کا مؤقف ان کی کتاب معیار الحق میں ان کی مختصر سوانح میں ملحق یوں بیان کیا گیا ہے:

علماء متقدمین کا احترام
میاں صاحب مرحوم علمائے متقدمین کا بہت احترام کرتے شیخ محی الدین ابن عربی ؒ کا شیخ اکبر اور اکثر الولایۃ المحمدیہ کے خطاب سے پکارتے اور اس پر علامہ قاضی بشیر الدین قنوجی (استاد جناب السید نواب صدیق حسن خاں صاحب ﷫ والی بھوپال) کہ ابن عربی کے اشد مخالفین میں سے تھے اور ابن عربی ﷫ کی برتری اور بزرگی کے روادار نہ تھے میاں صاحب سے شیخ اکبر مناظرہ کے لئے دہلی تشریف لائے دو ہفتے متواتر گفتگو جاری رہی مگر میاں صاحب نے شیخ اکبر کا احترام ہاتھ سے نہ دیا اور آخر قاضی صاحب بھی متفق ہو گئے اسی طرح علامہ شمس الحق ڈیانوی نے بھی کئی روز شیخ اکبر پر آپ کے ساتھ مناظرہ کیا اور دوران گفتگو فصوص الحکم پیش کرتے رہے میاں صاحب نے پہلے تو اور طریقوں سے سمجھایا لیکن جب دیکھا کہ آپ کسی طرح نہیں مانتے تو فرمایا کہ
فتوحات مکیہ شیخ اکبر کی آخری تصنیف ہونے کی وجہ سے ان کی تمام کتابوں کی ناسخ ہے اس پر مولانا صاحب شمس الحق صاحب حقیقت کو پاکر خاموش ہوگئے۔
لیکن یہی شیخ اکبر یہی ہیں جن کے متعلق عبد اللہ صاحب غزنوی کے امیال وعاطف اپنے استاذ گرامی کے بالکل مخالف ہیں جیسا کہ ان ملفوظات میں پایا جاتا ہے اور ماجرا ان کے ساتھ میان صاحب کے زمانہ تلمذ ہی میں گززا فرماتے ہیں
باز در دہلی نزد مولوی محمد حسین صاحب بودم از شخص کتاب ''فتوحات'' کہ ہمراہ شرح بود گرفتم تا مطالعہ نمائم درہماں شب مے بینم کسے را فرموند گایو کتابہا دیگر از زمی مفقوداند کہ کتاب ابن عربی می بینی باز در شہر کابل در حبس ومحنت رسالہ این طائفہ را روزے چند سطور گزرایندم کہ حالتے آمد مرا پوشید تعبیرش بزمان نتوانم در خاطر رنحیتند کہ ایں کتابہا بناید دید (بسوانح عمر مولوی عبد اللہ الغزنوی المرحوم ص 112)
ملاحظہ فرمائیں:صفحہ 377 معیار الحق فی تنقید تنویر الحق - سید نذیر حسین محدث دہلوی - مکتبہ اسلامیہ، لاہور


مولانا قاضی بشیر الدین قنوجی علیہ الرحمۃ جو شیخ اکبر کے سخت مخالف تھے دہلی اسی غرض سے تشریف لائے کہ اُن کے بارہ میں میاں صاحب سے مناظرہ کریں۔ اور دو مہینے دہلی میں رہے اور روزانہ مجلس مناظرہ گرم رہی مگر میاں صاحب اپنی عقیدت سابقہ سے جو شیخ اکبر کی نسبت رکھتے تھے ایک تل کے برابر بھی پیچھے نہ ہٹے آخر مولانا ممدوح جن کو خود میاں صاحب سے کمال عقیدت تھی دع مہینے بعد واپس تشریف لے گئے۔ مولانا مغفور اکثر طلبہ کو کتب درسیہ پڑھا کر حدیث پڑھنے کے لئے دہلی بھیج دیتے چنانچہ بیشتر شاگرد مولانا مغفور کے میاں صاحب کے بھی شاگرد ہیں۔ مگر چوں کہ اُن میں بہت کم ایسے ہیں جو شیخ اکبر کے ساتھ حسن ظن رکھتے ہوں۔ مولانا ابو الطیب محمد شمس الحق (جو مولانا مغفور کے تلمیذ خاص اور میاں صاحب کے شاگرد رشید ہیں) نے بھی میاں صاحب سے کئی دن متواتر شیخ اکبر کی نسبت بحث کی اور فصوص الحکم شیخ اکبر پر اعتراضات جمائے۔
میاں صاحب نے پہلے تو سمجھای امگر جب دیکھا کہ ابھی لا نسلم ہی کے کوچہ میں یہ ہیں تو فرمایا کہ ''فتوحات مکیہ آخری تصنیف شیخ اکبر کی ہے اور اس لئے اپنی سب تصانیف ما سبق کی یہ ناسخ ہے'' اس جملہ پر یہ بھی سمجھ گئے۔
ملا حظہ فرمائیں: صفحہ 123 – 124 الحیاۃ بعدالمماۃ - فضل حسین بہاری - المکتبۃ الاثریہ، سانگلہ ہل

یعنی کہ نذیر حسین دہلوی ابن عربی کا بہت احترام کرتے تھے، اور اس احترام کرنے پر مناظرہ ہوا ہے، کہ علامہ قاضی بشیر الدین قنوجی ابن عربی سے اس احترام کے بھی قائل نہ تھے۔
اور علامہ شمس الحق ڈیانوی ابن عربی پر فصوص الحکم کی عبارات سے حکم لگاتے تھے، مگر نذیر حسین دہلوی ابن عربی پر وہ حکم نہ لگاتے تھے، لیکن نذیر حسین دہلوی فصوص الحکم کی عبارات و اس کے عقائد کے قائل نہ تھے، بلکہ نذیر حسین دہلوی نے فصوص الحکم کے عقائد سے ابن عربی کا رجوع کر لینے کا مؤقف اختیار کیا ہے، یہ نہیں کہ نذیر حسین دہلوی فصوص الحکم کے عقائد کو درست مانتے ہوں!

نذیر حسین دہلوی نے تو ابن عربی کا ان فتوحات سے پہلے تمام کتب میں مذکور عقائد سے رجوع خیال کیا ہے، یہاں کہاں اس کی حقانیت ثابت کی ہے؟
اور اگر نذیر حسین دہلوی فصوص الحکم کے عقائد کو درست مانتے ہوں تو پھر ان درست عقائد سے ابن عربی کا رجوع کرنا از خود کفر ہوگا!

لہٰذا یہاں نذیر حسین دہلوی کو ابن عربی کے وحدت الوجود کا قائل کہنا باطل ہے!
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ﻏﯿﺮ ﻣﻘﻠﺪ ﺷﯿﺦ ﺍﻻﺳﻼﻡ ﺛﻨﺎﺀ ﺍﻟﻠﮧ
ﺍﻣﺮﺗﺴﺮﯼ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ
'' ﻧﻮﺍﺏ ﺻﺎﺣﺐ ﻣﺮﺣﻮﻡ ﺷﯿﺦ ﻣﻤﺪﻭﺡ
ﮐﻮ ﻋﺰﺕ ﮐﯽ ﻧﮕﺎﮦ
ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻭﺭ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻧﺰﯾﺮ
ﺣﺴﯿﻦ ﺍﻟﻤﻌﺮﻭﻑ
ﺣﻀﺮﺕ ﻣﯿﺎﮞ ﺻﺎﺣﺐ ﺩﮨﻠﻮﯼ ﺷﯿﺦ
ﻣﻤﺪﻭﺡ ﮐﻮﺷﯿﺦ ﺍﮐﺒﺮ
ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔‏( ﻣﻌﯿﺎﺭ ﺍﻟﺤﻖ ﺹ 128‏)
ﺧﺎﮐﺴﺎﺭ ﮐﯽ ﻧﺎﻗﺺ
ﺭﺍﺋﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺷﯿﺦ ﻣﻤﺪﻭﺡ ﻗﺎﺑﻞ
ﻋﺰﺕ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﮨﯿﮟ۔ ‏( ﻓﺘﺎﻭﯼ ﺛﻨﺎﺋﯿﮧ، 1/334 ‏)
اس میں کہاں ہے کہ فلاں نے ابن عربی کے وحدت الوجود کی توثیق کی ہے:
(خیر اس عزت کرنے اور اچھے القاب سے یاد کرنے کے حوالہ سے اس الزامی جواب آخر میں عرض کروں گا! )
پہلے اس فتوی کا مطالعہ کرتے ہیں:
شیخ ابن العربی ؒ کی بابت سوال
(1) اکچر علماء اور خصوص گروہ صوفیائے کرام شیخ محی الدین ابن عربی شیخ اکبر (جن کی مشہور تصانیف فصوص الحکم اور فتوحات مکیہ وغیرہ ہیں) کو مقدس بزرگ مانتے ہیں۔ اور بعض علماء شیخ مذکور کو مسئلہ وحدۃ الوجود کے قائل ہونے کی وجہ سے جو ان کی تصانیف سے ظاہر ہے۔ کفر والحاد کی طرف منسوب کرکے دائرہ اسلام سے خارج فرماتے ہیں اور بُرے بُرے القاب سے یاد کرتے ہیں۔ خصوص آپ پر اور اہل علم پر ان کی تصانیف سے شیخ موصوف کے خیالات اور اُن کی تحقیقات پوشیدہ نہ ہوں گی اور فصوص شیخ مذکور کی نسبت آپ کا کیا خیال ہے اور مسلمانوں کو کیا ظن رکھا جائے۔ امید ہے کہ اشد ضرورضرورت کی وجہ سے بہت جلد جواب سے تشفی فرمائیں گے۔ ( محمد سلیمان سوداگر جڑچلہ علاقہ نظام)
جواب:۔ مسئلہ تکفیر شیخ ابن العربی بہت نازک ہے ۔ مولانا نواب صاحب بھوپال مرحوم ''تکثار'' میں علامہ شوکانی سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے چالیس سال تک شیخ اکبر کی تکفیر کی۔ آخر میرے رائے غلط معلوم ہوئی۔ تو میں نے رجوع کیا۔ نواب صاحب مرحوم شیخ ممدوح کو عزّت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اور مولانا مذیر حسین المعروف حضرت میاں صاحب دہلوی شیخ ممدوح کو ''شیخ اکبر'' لکھتے ہیں۔ (معیار الحق ص 128)
حضرت مجدد سرہندی بھی شیخ موصوف کو مقربان الہٰی سے لکھتے ہیں۔ بڑی وجہ آپ کی مخالفت کی مسئلہ وحدۃ الوجود ہے۔ سو دراصل اس کی تفسیر پر مدار ہے۔ جیسی اس کی تفسیر کی جائے ویسا ہی اس کا اثر ہوگا۔ خاکسار کے نزدیک اس کی صحیح تفسیر بھی ہو سکتی ہے۔ جس کا ذکر کبھی کبھی اہل حدیث ميں کیا گیا ہے۔ دوسری وجہ خفگی کی ایمان فرعون ہے مگر شیخ کا قول مندرجہ ''فتوحات'' اس خفگی کا ازالہ کرتا ہے۔ شیخ موصوف نے فتوحات میں فرعون کو مدعی الوہیت لکھ کر ابدی جہنمی لکھا ہے۔ اور کسی مقام پر اس کے خلاف ملتا ہے تو وہ متروک ہے یا مُاوّل۔ اس لئے خاکسار کی ناقص رائے میں بھی شیخ ممدوح قابل عزّت لوگوں میں ہیں۔ رحمہ اللہ۔
26 محرم 1340 ھجری
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 334 جلد 01 فتاویٰ ثنائیہ - ابو الوفا ثناء اللہ امرتسری - ادارہ ترجمان السنہ، لاہور

مذکورہ بالا فتوی میں یہ امور بیان ہوئے ہیں:

(1) علامہ شوکانی پہلے ابن عربی کی تکفیر معین کرتے تھے، لیکن بعد میں ابن عربی کی تکفیر معین سے رجوع کر لیا۔
مطلب کہ علامہ شوکانی ابن عربی کے وحدت الوجود کے قائل نہیں، اس پر وہ ابن عربی کی تکفیر معین کیا کرتے تھے، لیکن بعد میں علامہ شوکانی کو ابن عربی کی تکفیر معین کرنا غلط معلوم ہوا کہ اس کی تاویل ممکن سمجھی، اور ابن عربی کو متاوّل سمجھ کر تکفیر معین ترک کردی!
(2) نواب صدیق حسن خان ابن عربی کو عزّت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
(3) میاں صاحب یعنی سید نذیر حسین دہلوی ابن عربی کو شیخ اکبر لکھتے ہیں!

اس سے ان دونوں کا اب عربی کے وحدت الوجود کا قائل ہونا ثابت نہیں ہوتا، بلکہ پچھلے مراسلہ میں سید نذیر حسین دہلوی کے نزدیک بھی ابن عربی کے عقائد کا باطل ہونا ثابت ہے، لیکن وہ اس ظن کے قائل ہیں کہ ابن عربی نے اپنے ان باطل عقائد جیسا کہ وحدت الوجود سے رجوع کر لیا تھا۔
رہی بات صدیق حسن خان کی، تو اس عبارت سے تو صدیق حسن خان کا بھی وحدت الوجود کا قائل ہونا ثابت نہیں ہوتا، جیسا کہ سید نذیر حسین دہلوی کا نہیں ہوتا۔
ویسے بھی صدیق حسن خان نے اپنے ابتدائی عقائد و مسلک سے رجوع کیا ہے، انہوں نے اپنے ابتدائی دور میں کہیں کوئی بات کہی ہو تو الگ بات ہے، لیکن ان کا اپنے ابتدئی عقائد و مسلک سے رجوع ثابت ہے۔

(4) مولانا ثناء اللہ امرتسری کے نزدیک وحدت الوجود کی صحیح تفسیر یعنی تاویل ممکن ہے۔
مولا نا ثناء اللہ امرتسری بھی ابن عربی کے وحدت الوجود کی صحیح تفسیر یعنی صحیح تاویل کے ممکن ہونے کے قائل ہیں، نہ کہ ابن عربی کے وحدت الوجود کے عقیدہ کا اثبات کرتے ہوں!
وہ بھی ابن عربی کے تکفیر معین کے معاملہ میں ابن عربی کے وحدت الوجود کی تاول کو ممکن مانتے ہوئے ابن عربی کو متاّل قرار دیتے ہوئے اس کی تکفیر نہیں کرتے، نہ یہ کہ وہ ابن عربی کے وحدت الوجود کے قائل ہوں!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ﻣﺤﺪﺙ
ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺭﻭﭘﮍﯼ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ '' ﺗﻮﺣﯿﺪ
ﺍﻟٰﮩﯽ ﻭﺣﺪۃ
ﺍﻟﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﺍﺻﻄﻼﺣﺎﺕ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﺮ
ﻣﺘﺎﺧﺮﯾﻦ ﺻﻮﻓﯿﺎﺀ
ﺍﺑﻦ ﻋﺮﺑﯽ ﻭﻏﯿﺮﮦ ‏) ﮐﯽ ﮐﺘﺐ ﻣﯿﮟ
ﭘﺎﺋﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔
ﻣﺘﻘﺪﻣﯿﻦ ﮐﯽ ﮐﺘﺐ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﮨﺎﮞ
ﻣﺮﺍﺩ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺻﺤﯿﺢ
ﮨﮯ،۔۔ ﺍﺑﻦ ﻋﺮﺑﯽ ﺳﮯ ﺳﻮﺀ ﻇﻦ ﭨﮭﯿﮏ
ﻧﮩﯿﮟ ''( ﻓﺘﺎﻭﯼ
ﺍﮨﻠﺤﺪﯾﺚ، 1/151 ، 152 ‏)
حافظ عبد اللہ روپڑی کی مکمل عبارت ملاحظہ فرمائیں:
مسئلہ وحدة الوجود اور مسئلہ وحدة الشہود
سوال:۔ مسئلہ وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود کی صوفیا کے نزدیک کیا تعریف ہے؟ اور محققین علمائ اس کے کیا معنیٰ مراد لیتے ہیں؟ اور یہ توحید وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود کی زمانہ سلف میں تھی یا نہیں؟
جواب:۔ مولیٰنا جامی ؒ نے اپنی کتاب ''نفحات الانس من حضرات القدس فارسی'' کے صفحہ 17 الگایت صفحہ 20 میں بحوالہ ترجمہ العوارف باب اوّل توحید کے چار مراتب لکھے ہیں۔ اصل عبارت نقل کرکے اس کا ترجمہ کرنے سے تو بات بہت طویل ہوجائے گی۔ اس لئے کسی قدر توضیح کے ساتھ اُردو خلاصہ پر اکتفاء کی جاتی ہے جس کو زیادہ تفصیل کا شوق ہو وہ اصل کتاب ملاحظہ کرے۔
اوّل توحید ایمانی، دوم توحید علمی، سوم توحید حالی، چہارم توحید الٰہی
توحیدِ ایمانی:
عوام کی توحید ہے یعنی کتاب و سنت کے مطابق۔ خدا کو وحدہ لاشریک سمجھنا اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرنا۔ دل میں اس کا اعتقاد رکھنا اور زبان سے اقرار کرنا۔ اور یہ توحید مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر کے تصدیق کرنے کا نتیجہ ہے اور ظاہری علم سے حاصل ہے۔ اور صوفیا کرام اس توحید مین عام مومنوں کے ساتھ شریک ہیں اور باقی قسموں میں ممتاز ہیں۔
توحیدِ علمی:
باطنی علم سے حاصل ہوتی ہے جس کو علم الیقین کہتے ہیں۔ اور وہ اس طرح ہوتی ہے کہ انسان کا یقین اس حد تک پہنچ جائے کہ موجود ھقیقی اور مؤثر مطلق بجز خدا کسی کو نہ جانے۔ تمام ذوات صفات اور افعال کو خدا کی ذات اور افعال کے سامنے ہیچ سمجھے۔ ہر ذات کو اس کی ذات کا اثر خیال کرے اور ہر صفت کو اس کی صفت کا پرتو جانے۔ مثلاً جہاں علم ، قدرت، ارادہ، سُننا دیکھنا پائے ان سب کو خدا تعالیٰ کے علم، قدرت، ارادہ، سننے دیکھنے کے آثار سے سمجھے۔ اسی طرح باقی صفات وافعال کی خیال کرے گویا ظاہری اسبابکاپردہ درمیاننہ دیکھے۔ اور سب کچھ مؤثر حقیقی کی طرف سے سمجھے یہاں تک کہ ظاہری اسباب سے متاثر نہ ہو۔ مگر چونکہ اس مرتبہ میں حجاب باقی رہتا ہے اس لئے اکثر اوقات نظر ظاہری اسباب کی طرف چلی جاتی ہے جو شرک خفی کی قسم ہے۔
توحید ِ حالی:
یہ ہے کہ قریب قریب تمام حجابات درمیان سے اُٹھ جاتے ہیں۔ اور موحد مشاہدہ جمال وجود واحد کا کرتا ہے جیسے ستاروں کا نُور آفتاب کے نُور میں غائب ہوجاتا ہے اسی قریب قریب تمام وجودات موحد کی نظر سے غائب ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ توحید کی صفت کو بھی اسی وجود واحد کی صفت دیکھتا ہے اور اپنے مشاہدہ کو بھی اسی وجود واحد کی صفت دیکھتا ہے۔ غرض اس کی نظر میں وحدت ہوتی ہے۔ دوئی کا وہاں دخل نہیں رہتا۔ اس طریق سے موحد کی ہستی بحرِ توحید کا ایک قطرہ ہو کر اس میں مضمحل ہو جاتی ہے اور ایسی گُھل مل جاتی ہے کہ وہاں انتشار نہیں رہتا۔ اسی بنا پر جنید بغدادیؒ (سرتاج صوفیاء) نے کہا ہے:

التوحيد معنی يضمحل فيه الرسوم ويندرج فيه العلوم يكون الله كما لم ينزل
''یعنی توحید ایک معنیٰ ہے جس میں رسمی وجود یں گھل مل جاتے ہیں اور علوم اس میں مندرج ہو جاتے ہیں۔ گویا خدا ویسے کا ویسا ہے۔ کوئی چیز پیدا ہی نہیں کی۔''
یہ توحید مشاہدہ سے پیدا ہوتی ہے اور توھید علمی مراقبہ سے۔ مراقبہ سے ظاہر کی طرف توجہ ہٹا کر جمال محبوب کی انتظار ہے اور مشاہدہ محبوب کا دیدار ہے۔ توحید علمی میں اکثر لوازم بشریہ باقی رہتے ہیں اور توحید حالی میں تھوڑے باقی رہتے ہیں۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ انسان دنیا میں ترتیب افعال اور تہذیب اقوال کے ساتھ مکلّف ہے اور مکلف اسی صورت میں رہ سکتا ہے کہ اس کے ساتھ کچھ لوازم بشریہ رہیں جن کا اس کو مقابلہ کرنا پڑے اسی بناء پر ابو علی وقاق ؒ نے کہا ہے:

التوحيد غريم لا یقضی دینه وغريب لا يؤدي حقّه.
''یعنی توحید ایسا قرض خواہ ہے کہ اس کا قرض پارا نہیں ہو سکتا اور ایس امسافر ہے کہ اس (کی مہمانی) کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔''
دُنیا کی کبھی کبھی خالص حقیقت توحید جس میں یکبارگی آثار اور رسمی وجود گم ہو جاتے ہیں بجلی کی چمک کی طرح نمودار ہوتی ہے اور فی الفور بُجھ جاتی ہے اور رسمی وجودات کا اثر دوبارہ لَوٹ آتا ہے اور اس حالت مين شرک خفی کا نام نشان نہیں رہتا۔ انسان کے لئے توحید میں اس سے بڑھ کر اور کوئی مرتبہ ممکن نہیں۔
توحیدِ الٰہی:
یہ ہے کہ خدا تعالیٰ خود اپنی ذات میں بغیر اس کے کہ دوسرا اس کی ذات وحدت کی نسبت کرے ازل میں ہمیشہ وحدت سے موصوف رہا چنانچہ حدیث میں ہے
کان الله ولم يكن معه شئ یعنی ''خدا تعالیٰ تھا اور اس کے ساتھ کوئی دوسری شئے نہ تھی۔'' اور اب بھی اسی طرح ہے اور ابد الاباد اسی طرح رہے گا۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے كل شئ هالك الا وجهه یعنی ''ہر شئے ہلاکت والی ہے مگر خدا کی ذات''۔ اس آیت میں یہ نہیں کہا کہ ہر شئے ہلاک ہوجائے گی بلکہ ''ہالک'' کہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت بھی ہلاکت والی یعنی نیست اور فانی ہے اس کی مثال اس طرح ہے جیسے رَسِّیْ جلا دی جائے تو اس کے بَٹ بدستور نظر آتے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ رَسَّیْ قائم ہے حالانکہ حقیقت میں رَسِّیْ فنا ہو چکی ہوتی ہے اور اس حالت مشاہدہ کے لئے قیامت کا حوالہ دینا یہ محبوبوؐ کے لئے ہے ورنہ اربابِ بصیرت اور اصحاب مشاہدہ جو زمان ومکان کے تنگ کوچہ سے گذر کر خٌاصی پاگئے یہ عودہ ان کے حق میں قیامت تک اُدھار نہیں بلکہ نقد ہے یعنی محبوبوں کے لئے جو مشاہدہ قیامت کو ہوگا۔ ارباب بصیرت کے لئے اس وقت ہو رہا ہے۔
یہ توحید الٰہی نقص وعیب سے بَری ہے۔ برخلاف توحیدِ مخلوق کے وہ بوجہ وجود کے ناقص ہے۔

یہ چار قسمیں توحید کی صوفیاء کے ہاں مشہور ہیں۔ اخیر کی دوہی ہیں جن کے متعلق آپ نے سوال کیا ہے یعنی توحید حالی ''وحدة الشہود'' ہے اور توحید الٰہی ''توحید الوجود'' ہے۔ یہ اصطلاحات زیادہ تر متاخرین صوفیاء (ابن عربی وغیرہ) کی کتب میں پائی جاتی ہیں۔ متقدمین کی کتب میں نہیں ۔ ہاں مراد ان کی صحیح ہے۔ توحید ایمانی اور توحید علمی تو ظاہر ہے توحید حالی کا ذکر اس حدیث میں ہے: ان تعبد الله كانك تراه فان لم تكن تراه فانه يراك. یعنی ''خدا کی اس طرح عبادت کر گویا تو اُس کو دیکھ رہا ہے. پس اگر تُونہ دیکھے تو وہ تجھے دیکھ رہ اہے۔'' یہ حالت چونکہ اکثر طور پر ریاضت اور مجاہدہ سے تعلق رکھتی ہے۔ اس لئے یہ عقل سے سمجھنے کی شئے نہیں ہاں اس کی مثال عاشق ومعشوق سے دی جاتی ہے۔ عاشق جس پر معشوق کا تخیّل اتنا غالب ہوتا ہے کہ تمام اشیاء اس کی نظر میں کالعدم ہو جاتی ہیں۔ اگر دوسری شئے کا نقشہ اس کے سامنے آتا ہے تو محبوب کا خیال اس کے دیکھنے سے حجاب ہو جاتا ہے گویا ہر جگہ اس کو محبوب ہی محبوب نظر آتا ہے خاص کر خُدا کی ذات سے کسی کو عشق ہو جائے تو چونکہ تمام اشیاء اس کے آثار اور صفات کا مظہر ہیں اس لئے خدائی عاشق پر اس حالت کا زیادہ اثر ہوتا ہے یہاں تک کہ ہر شئے سے اس کو خدا نظر آتا ہے وہ شئ نظر نہیں آتی ہے جیسے شیشہ دیکھنے کے وقت چہرے پر نظر پڑتی ہے نہ کہ شیشہ پر۔
شیخ مخدوم علی ہجویریؒ معروف بہ ''داتا گنج بخش'' جن کا لاہورمیں مزار مشہور ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب ''کشف المحجوب'' باب مشاہدہ میں صوفیاء کے اقوال اس قسم کے بہت لکھے ہیں جن کا خلاصہ یہی ہے جو بیان ہوا ہے کہ غلبۂ محبّت اور کمال یقین کی وجہ سے ایسی حالت ہو جاتی ہے کہ غیر خدا پر نظر ہی نہیں پڑتی۔ اس طرح دوسرے بزرگوں نے اپنی تصانیف میں لکھا ہے۔ مگر یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ خواص کی دو حالتیں ہیں جلوت اور خلوت۔ جلوت لوگوں سے اختلاط اور میل جول کی حالت ہے اور خلوت علیٰحدگی اور تنہائی کی حالت ہے جس میں ظاہراً باطناً خدا کی طرف توجہ ہوتی ہے۔ جلوت میں تبلیغ کا کام ہوتا ہے اور خلوت میں نفس کی اصلاح اور دل کی صفائی ہوتی ہے۔
قرآن مجید میں سورۃ مزمل کے شروع میں ان دونوں حالتوں کا بیان ہے چنانچہ ارشاد ہے:

إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا إِنَّ لَكَ فِي النَّهَارِ سَبْحًا طَوِيلًا
یعنی ''رات کا قیام نفس کے لتاڑنے کے لئے سخت ہے اور زبان کی بہت درست رکھنے والا ہے۔ بے شک تجھے دین میں طویل شغل ہے۔''
ان دونوں آیتوں میں ان دونوں حالتوں کا ذکر ہے جن کی یہ دو حالتیں قائم ہیں ان کی تو رِیس ہی نہیں اوّل نمبر ان میں انبیاء علیم السلام کا ہے پھر درجہ بدرجہ ان کے جانشینوں کا ہے۔ جو لوگ ساری عمر خلوت میں گزارتے ہیں اگرچہ ان کی حالت مشاہدہ زیادہ ہوتی ہے مگر چونکہ یہ چیز صرف ان کی ذات سے تعلق رکھتی ہے اس میں متعدی فائدہ نہیں اس لئے وہ علما ربانیین کا مقابلہ نہیں کرسکتے اس لئے رسُول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے چودہویں رات کے چاند کی ستاروں پر۔'' اور دوسری حدیث ميں ہے '' جیسی میری تمہارے ادنیٰ پر ۔'' (مشکوٰة کتاب العلم فصل 2)
پس انسان کو چاہیئے کہ توحید حالی حاصل کرتے ہوئے افضل مرتبہ ہاتھ سے نہ دے، جو محض گوشہ نشینی کو بڑا کمال سمجھے ہوئے ہیں اور اپنی عمر اسی میں گزار دیتے ہیں وہ علمائے ربانی کی نسبت بڑے خسارہ میں ہیں۔ اگرچہ ذاتی طور پر ان کی طبیعت کو اطمنان وسکون زیادہ ہو۔ اور ذوقِ عبادت اور حلاوتِ ذکر میں خواہ کتنے بڑھے ہوئے ہوں مگر علمائے ربانی کا متعدی فائدہ اس سے بڑھ جاتا ہے۔ کیونکہ شیطان کا اصل مقابلہ کرنے والی یہی (علمائے ربّانی) کی جماعت ہے۔ عابد ریاضت اور مجاہدہ سے صرف اپنی خواہشات کو دباتا ہے اور یہ جماعت ہزاروں کی اصلاح کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
''ہزار عابد سے شیطان اتنا نہیں ڈرتا جتنا ایک عالِم سے (ڈرتا ہے) '' (مشکوٰۃ کتاب العلم فصل 2)
خدا ہمیں بھی ربانی علماء سے کرے اور انہی کے زمرہ مین اُٹھائے۔ آمین

اب رہی ''توحید الٰہی'' سو اس کے متعلق بہت دنیا بہکی ہوئی ہے۔ بعض تو اس کا مطلب '' ہمہ اوست'' سمجھتے ہیں یعنی ہر شئے عین خدا ہے، جیسے برف اور پانی بظاہر دو معلوم ہوتے ہیں مگر حقیقت ایک ہے اسی طرح خدا اور دیگر موجودات ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ تمام موجودات وحدت حقیقی کا عکس ہیں۔ جیسے ایک شخص کے ارد گرد کئی شیشے رکھ دیئے جائیں تو سب میں اس کا عکس پڑتا ہے ایسے ہی خدا اصل ہے اور باقی اشیاء اس کا عکس ہیں۔ اور بعض کہتے ہیں کہ کُلی جزئ کی مثال ہے جیسے انسان اور زید عمر بکر ہیں۔ حقیقت سب کی خدا ہے اور یہ تَعَیُّنَات حوادث ہیں۔ غرض دُنیا عجیب گھورکھدندے میں پڑی ہوئی ہے کوئی کچھ کہتا ہے کوئی کچھ۔
صحیح راستہ اس میں یہ ہے کہ اگر اس کا مطلب یہ سمجھا جائے کہ خدا کے کوئی شئے حقیقۃً موجود نہیں اور یہ جو کچھ نظر آرہا ہے یہ محض توہمات ہیں جیسے ''سوفسطائیہ'' فرقہ کہتا ہے کہ آگ کی گرمی اور پانی کی برودت وہمی اور خیالی چیز ہے تو یہ سراسر گمراہی ہے۔ اور اگر اس کا یہ مطلب ہے کہ یہ موجودات انسانی ایجادات کی طرح نہیں کہ انسان کے فنا ہونے کے بعد بھی باقی رہتی ہیں بلکہ یہ ان کا وجود خدا کے سہارے پر ہے اگر اُدھر سے قطع تعلق فرض کیا جائے تو ان کا کوئی وجود نہیں۔ تو یہ مطلب صحیح ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے بجلی کا کرنٹ (برقی رَو) قمقموں کے لئے ہے۔ گویا حقیقت میں اس وقت بھی ہر شئے فانی ہے مگر ایک علمی رنگ مین اس کو سمجھنا ہے اور ایک حقیقت کا سامنے آنا ہے۔ علمی رنگ مین تو سمجھنے والے بہت ہیں مگر حقیقت کا اس طرح سامنے آنا جیسے آنکھوں سے کوئی شے دیکھی جاتی ہے یہ خاص اربابِ بصیرت کا حِصّہ ہے گویا قیامت والی فنا اس وقت ان کے سامنے ہے۔ پس آیہ کریمہ
کل شئ هالك الا وجهه۔ ان کے حق مین نقد ہے نہ اُدھار۔
نوٹ:
ابن عربیؒ، رومیؒ اور جامیؒ وغیرہ کے کلمات اس توحید مین مشتبہ ہیں۔ اس لئے بعض لوگ ان کے حق مین اچھا اعتقاد رکھتے ہیں بعض بُرا۔ ابن تیمیہؒ وغیرہ ابن عربیؒ سے بہت بدظن ہیں۔ اسی طرح رومیؒ اور جامیؒ کو کئی علماء برا کہتے ہیں مگر میرا خیال ہے کہ جب ان کا کلام محتمل ہے جیسے جامیؒ کا کلام اُوپر نقل ہو چکا ہے اور وہ درحقیقت ابن عربیؒ کا ہے۔ کیونکہ ابن عربی کی کتاب ''عوارف المعارف'' سے ماخوذ ہے تو پھر ان کے حق مین سُوء ظنی ٹھیک نہیں۔ اسی طرح رومیؒ کو خیال کر لینا چاہیئے، گرض حتی الوسع فتویٰ میں احتیاط چاہیئے۔ جب تک پُوری تسلی نہ ہو فتویٰ نہ لگانا چاہیئے خاص کر جب وہ گزرچکے۔اور ان کا معاملہ خدا کے سپرد ہو چکا تو اَب کُرید کی کیا ضرورت؟ بلکہ صرف اس آیت پر کفایت کرنی چاہیئے۔

تلك امة قد خلت لها ماكسبت ولكم كسبتم ولا تسئلون عما كانو تعملون
نوٹ:
ابن عربیؒ وغیرہ کاکچھ ذکر ''تنظیم'' جلد 9 نمبر 22 مورخہ 29 مارچ 1940 ء مطابق 20 صفر المظفر 1359 ھ میں بھی ہو چکا ہے اور رسال ''تعریف اہلسنت'' کے صفحہ 365 ، 366 میں بھی ہم اس کے متعلق کافی لکھ چکے ہیں زیادہ تفصیل مطلوب ہو تو وہاں ملاحظہ ہو۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 150 – 155 جلد 01 فتاویٰ اہل حدیث – حافظ عبد اللہ محدث روپڑی – ادارہ احیاء السنۃ النبویۃ، سرگودھا

حافظ عبد اللہ روپڑی نے سائل کے سوال کے کے مطابق ، کہ سائل نے صوفیاء کے موقف کے حوالہ سے سوال کیا تھا، تو اس سوال کے اعتبار سے صوفیاء کی عقیدہ توحید کے مختلف مراتب بیان کیئے ہیں جیسا کہ صوفی بیان کرتے ہیں، اور یہ بتلایا ہے کہ ان مراتب میں جو صوفیاء نے ذکر کیئے ہیں اس میں توحید حالی وحدت الشہود ہے اور توحید الٰہی وحدت الوجود ہے، اور وحدت الوجود کی اس تعبیر کو صحیح قرار دیا ہے، لیکن اسی وحدت الوجود کی دوسری تعبیرات کا رد آخر میں بیان کیا ہے۔
مزید کہ ابن عربی اور دیگر کے کلام کو مشتبہ قرار دیا ہے، اور ان کے کلام کو صحیح تاویل کے موافق حسن ظن رکھتے ہوئے ان پر فتوی لگانے میں احتیاط کی نصیحت کی ہے!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﮩﺎﻭﻟﭙﻮﺭﯼ ﻟﮑﮭﺘﮯ
ﮨﯿﮟ ﮐﮧ '' ﺍﮨﻠﺤﺪﯾﺜﻮﮞ
ﮐﮯ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﺬﯾﺮ ﺣﺴﯿﻦ ﺩﮨﻠﻮﯼ
ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺷﺎﮔﺮﺩ
ﺳﺐ ﺗﺼﻮﻑ ﮐﮯ ﻗﺎﺋﻞ ﮨﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ
ﻭﺣﺪۃ ﺍﻟﺸﮩﻮﺩ ﺍﻭﺭﮐﻮﺋﯽ
ﻭﺣﺪۃ ﺍﻟﻮﺟﻮﺩ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﮨﮯ ''( ﺧﻄﺒﺎﺕ
ﺑﮩﺎﻭﻟﭙﻮﺭﯼ، 1/326 ‏)
اب یہ تصوف ہے شاید ہی ہندوستان میں کوئی عالم ایسا ہو کیا اہل حدیث، کیا دیوبندی اور کیا بریلوی جن عالموں کو مولویوں کو اس تصوف کی صوفی پن کی چاشنی نہ ہو۔ جتنے بھی ادھر سے پڑھ کر آتے ہیں ان پر تھوڑا سا رنگ اس کا ضرور چڑھا ہوتا ہے۔ حالانکہ تصوف اس قدر خطرناک چیز ہے جتنا نقصان اسلام کو ان صوفیوں نے پہنچایا ہے، اس تصوف کے چکر میں جتنے مسلمان تباہ ہوئے ہیں، جتنا اسلام pollutted ہوا ہے اسلام کے اندر پلیدی شامل ہوئی ہے اتنا کسی بھی اور چیز نے اسلام کو برباد نہیں کیا۔ اب آپ دیکھ لیں۔ ہمارا اہل حدیثوں کا سلسلہ میان نذیر حسین صاحب اور پھر دوسرے ان کے شاگردوں وغیرہ جو ہیں سب تصوف کے قائل، کوئی وحدت الوجود کا شکار ہے کوئی وحدت الشہود کا شکار ہے کوئی اور صوفیوں کے سلسلے کا کوئی نقشبندی کے چکروں میں کھویا ہوا ہے۔ کوئی چشتی چکر میں پھنسا ہوا ہے کوئی کسی چکر میں، کوئی کسی چکر میں۔ اب یہ شاہ ولی اللہ صاحب، شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے حدیث کی بڑی خدمت کی، انہوں نے قرآن کی بڑی خدمت کی۔ لیکن سارے وحدت الوجود کا شکار ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 326 جلد 01 خطبات بہاولپوری – حافظ محمد عبد اللہ بہاولپوری – مکتبہ اسلامیہ، فیصل آباد

حافظ عبد اللہ بہاولپوری نے یہاں بات کہی ہے کہ ہندوستان کے علماء میں، خواہ دیوبندی ہو، بریلوی ہو یا اہل حدیث تھوڑا بہت تصوف کا اثر ضرور ہے، اور وہ اس کاشکار ہوا! اور اہل حدیث علماء میں کسی میں وحدت الوجود کاکچھ اثر ہے، کسی میں وحدت الشہود کا کچھ اثر ہے اور کسی میں کسی اورلحاظ سے تصوف کا کچھ اثر ہے۔
حافظ عبد اللہ بہاولپوری نے یہ نہیں کہا کہ ابن عربی کا عقیدہ وحدت الوجود کی طرح یہ بھی اسی وحدت الوجود کے قائل ہیں، بلکہ وہ اس تاویل کرکے کسی حد تک اس کے اثر کا شکار ہیں!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ﻃﺎﻟﺐ ﺍﻟﺮﺣﻤﺎﻥ ﮐﮯ ﺷﯿﺦ ﺣﻤﻮﺩ ﺑﻦ
ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺍﻟﺘﻮﯾﺠﺮﯼ ﮐﮯ
ﻓﺘﻮﯼ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻋﻼﻣﮧ
ﺷﻮﮐﺎﻧﯽ ﻧﺬﯾﺮ ﺣﺴﯿﻦ
ﺩﮨﻠﻮﯼ،ﺛﻨﺎﺀ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻣﺮﺗﺴﺮﯼ، ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ
ﺭﻭﭘﮍﯼ، ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ
ﺑﮩﺎﻭﻟﭙﻮﺭﯼ , ﻧﻮﺍﺏ ﺻﺪﯾﻖ ﺣﺴﻦ ﺧﺎﻥ،
ﯾﮧ ﺳﺐ ﻋﻘﯿﺪﮦ
ﻭﺣﺪۃ ﺍﻟﻮﺟﻮﺩ ﮐﮯ ﻗﺎﺋﻞ ﮨﻮﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺑﻦ
ﻋﺮﺑﯽؒ ﮐﯽ ﺗﻌﺮﯾﻒ
ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﺑﻦ ﻋﺮﺑﯽ ﮐﮯ
ﻣﺘﺒﻊ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺯﻧﺪﯾﻖ
ﮨﯿﮟ۔
حمود بن عبد اللہ التویجری کی عبارت درج ذیل ہے:
وأما ما ذكر عن البنوري من الثناء العاطر علی ابن عربي؛ فهو من أوضح الأدلة علی زنديقته؛ لأن ابن عربي هو إمام القائلين بوحدة الوجود، وأهل هٰذا المذهب من أكفر أهل الأرض، وقد قال المحقِّقون من أكابر العلماء: إن ابن عربي زنديق كافر. وقال بعضهم: إنه أكفر من اليهود والنصاری. وكتبه مملوءة بالكفر، وقد قال الذهبي في كتابه ﴿سير أعلام النبلاء﴾: ''ومن أردأ تواليفه كتاب ﴿الفصوص﴾، فإن كان لا كفر فيه؛ فما في الدنيا كفر، نسأل الله العفو والنجاة، فوا غوثاه بالله﴾ انتهی.
وإذا عُلم هٰذا؛ فليُعْلَم أيضاً أنه لا يمدح ابن عربي ويثني عليه بالثناء العاطر إلا مَن هو متَّبع له علی القول بالاتحاد الذي هو من أخبث أنواع الكفر.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 133 القول البليغ في التحذير من جماعة التبليغ - حمود بن عبد الله التويجري – دار الصميعي للنشر والتوزيع، الریاض

حمود بن عبد اللہ التویجری کی اس عبارت کو سید طالب الرحمٰن نے خلیل احمد سہانپوری کی کتاب ''المہند علی المفند'' کے ترجمہ ''عقائد علماء اہلسنت دیوبند'' کی تعلیق میں نقل فرمایا ہے، کہ حمود بن عبد اللہ التویجری نے ابن عربی کے عقائد کس قدر براءت کا اظہار فرمایا ہے؛ عبارت کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:
علماء اہل السنۃ کا ابن عربی کے بارے میں مؤقف:
فضیلۃ الشیخ حمود بن عبد اللہ التویجری رحمہ اللہ، مولانا یوسف دیوبندی کا ابن عربی کی مدح سرائی کرنے پر یوں رد فرماتے ہیں: یوسف بنوری کا ابن عربی جیسے شخص کی تعریفیں کرنا خود اس کے زندیق ہونے کا واضح ثبوت ہے کیونکہ ابن عربی عقیدۂ وحدت الوجود کے قائلین کا امام ہے اور اس مذہب کے ماننے والے زمین پر بسنے والے کافروں میں سب سے بڑھ کر ہیں۔ محقق اکابر علماء نے ابن عربی کو زندیق وکافر کہا ہے اور بعض نے تو یہود و نصاریٰ سے بڑھ کر کافر قرار دیا ہے اور اس کی کتب کو کفر سے بھری ہوئی قرار دیا ہے۔ امام ذھبیؒ (748 ھ) نے سیر اعلام النبلاء میں فرمایا: '' ابن عربی کی سب سے بدترین کتاب ''فصوص الحکم'' ہے اگر اس میں کفر نہیں تو پھر دنیا میں کہیں بھی کفر نہیں'' ہم اللہ تعالیٰ سے عفو ودرگزر اور نجات کا سوال کرتے ہیں۔ (انتہی)

جب آپ نے یہ جان لیا کہ ابن عربی کا یہ حال ہے تو پھر اس کی تعریف کرنے والا اسی کا متبع اور اس قول کا ہی ہو سکتا ہے کہ ہر چیز ہی اللہ ہے اور یہ بدترین کفر ہے۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھیں (القول البليغ في التحذير من جماعة التبليغ: 133)
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 68 عقائد علماء اہلسنت دیوبند – خیل احمد سہارنپوری – تحقیق ؛ سید طالب الرحمٰن شاہ – دار الکتاب والسنۃ

حمود بن عبد اللہ التویجری کا یہ کہنا کہ ابن عربی کی تعریف کرنے والا بھی ابن عربی کے عقیدہ وحدت الوجود و اتحاد کا حامل ہی ہو سکتا ہے، یہ بات درست نہیں، جیسا کہ اس سے قبل مراسلوں میں اس کا بیان موجود ہے۔
یہ حمود بن عبد اللہ التویجری کا تساہل ہے، اور ثناء اللہ امرتسری ، حافظ عبد اللہ روپڑی وغیرہ نے اسی طرح کے تساہل کی طرف نشاندہی کی ہے۔
 
Last edited:
Top