• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل حدیث مولوی یا کوئی شیعہ ذاکر

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
71
امام أحمد بن يحيى، البَلَاذُري (المتوفى 279)اپنے استاذ امام مدائنی سے نقل کرتے ہیں:
الْمَدَائِنِيّ عَنْ عبد الرحمن بْن مُعَاوِيَة قَالَ، قَالَ عامر بْن مسعود الجمحي: إنا لبمكة إذ مر بنا بريد ينعى مُعَاوِيَة، فنهضنا إلى ابن عباس وهو بمكة وعنده جماعة وقد وضعت المائدة ولم يؤت بالطعام فقلنا له: يا أبا العباس، جاء البريد بموت معاوية فوجم طويلًا ثم قَالَ: اللَّهم أوسع لِمُعَاوِيَةَ، أما واللَّه ما كان مثل من قبله ولا يأتي بعده مثله وإن ابنه يزيد لمن صالحي أهله فالزموا مجالسكم وأعطوا طاعتكم وبيعتكم، هات طعامك يا غلام، قَالَ: فبينا نحن كذلك إذ جاء رسول خالد بْن العاص وهو على مَكَّة يدعوه للبيعة فَقَالَ: قل له اقض حاجتك فيما بينك وبين من حضرك فإذا أمسينا جئتك، فرجع الرسول فَقَالَ: لا بدّ من حضورك فمضى فبايع.[أنساب الأشراف للبلاذري: 5/ 290 واسنادہ حسن لذاتہ]۔
عامربن مسعودرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم مکہ میں تھے کہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبردیتے والا ہمارے پاس سے گذرا تو ہم عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس پہونچے وہ بھی مکہ ہی میں تھے ، وہ کچھ لوگوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اوردسترخوان لگایا جاچکاتھا لیکن ابھی کھانا نہیں آیاتھا ، تو ہم نے ان سے کہا: اے ابوالعباس ! ایک قاصد امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبرلایا ہے ، یہ سن کر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کچھ دیرتک خاموش رہے پھرفرمایا: اے اللہ! معاویہ رضی اللہ عنہ پراپنی رحمت وسیع فرما، یقینا آپ ان لوگوں کے مثل تو نہ تھے جو آپ سے پہلے گذرچکے لیکن آپ کے بعدبھی آپ جیساکوئی نہ دیکھنے کوملے گا اورآپ کے صاحبزادے یزیدبن معاویہ رحمہ اللہ آپ کے خاندان کے نیک وصالح ترین شخص ہیں،اس لئے اے لوگو! اپنی اپنی جگہوں پر رہو اوران کی مکمل اطاعت کرکے ان کی بیعت کرلو ، (اس کے بعد غلام سے کہا) اے غلام کھانا لیکرآؤ ، عامربن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم اسی حالت میں تھے کہ خالد بن العاص المخزومی رضی اللہ عنہ کا قاصد آیا وہ اس وقت مکہ کے عامل تھے ، اس نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو بیعت کے لئے بلایا ، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : اس سے کہہ دو کہ پہلے دوسرے لوگوں کے ساتھ اپنا کام ختم کرلے اورشام ہوگی توہم اس کے پاس آجائیں گے ، (یہ سن کرقاصد چلاگیا ) اور پھرواپس آیا اورکہا ، آپ کا حاضرہونا ضروی ہے ، پھر آپ گئے اور(یزیدکی) بیعت کرلی۔
امام ابن كثير رحمه الله (المتوفى774)نے امام مدائنى کی روایت مع سند نقل کرتے ہوئے کہا:
وقد رواه أبو الحسن على بن محمد بن عبد الله بن أبى سيف المدائنى عن صخر بن جويرية عن نافع ۔۔۔۔۔۔۔۔ ولما رجع أهل المدينة من عند يزيد مشى عبد الله بن مطيع وأصحابه إلى محمد بن الحنفية فأرادوه على خلع يزيد فأبى عليهم فقال ابن مطيع إن يزيد يشرب الخمر ويترك الصلاة ويتعدى حكم الكتاب فقال لهم ما رأيت منه ما تذكرون وقد حضرته وأقمت عنده فرأيته مواضبا على الصلاة متحريا للخير يسأل عن الفقه ملازما للسنة قالوا فان ذلك كان منه تصنعا لك فقال وما الذى خاف منى أو رجا حتى يظهر إلى الخشوع أفأطلعكم على ما تذكرون من شرب الخمر فلئن كان أطلعكم على ذلك إنكم لشركاؤه وإن لم يطلعكم فما يحل لكم أن تشهدوا بما لم تعلموا قالوا إنه عندنا لحق وإن لم يكن رأيناه فقال لهم أبى الله ذلك على أهل الشهادة فقال : ’’ إِلَّا مَنْ شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ‘‘ ولست من أمركم فى شىء قالوا فلعلك تكره أن يتولى الأمر غيرك فنحن نوليك أمرنا قال ما أستحل القتال على ما تريدوننى عليه تابعا ولا متبوعا قالوا فقد قاتلت مع أبيك قال جيئونى بمثل أبى أقاتل على مثل ما قاتل عليه فقالوا فمر ابنيك أبا القاسم والقاسم بالقتال معنا قال لو أمرتهما قاتلت قالوا فقم معنا مقاما تحض الناس فيه على القتال قال سبحان الله آمر الناس بما لا أفعله ولا أرضاه إذا ما نصحت لله فى عباده قالوا إذا نكرهك قال إذا آمر الناس بتقوى الله ولا يرضون المخلوق بسخط الخالق [البداية والنهاية: 8/ 233]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748) رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو مع سند نقل کرتے ہوئے کہا:
وَزَادَ فِيهِ الْمَدَائِنِيُّ، عَنْ صَخْرٍ، عَنْ نَافِعٍ: فَمَشَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُطِيعٍ وَأَصْحَابُهُ إِلَى مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِيَّةِ، فَأَرَادُوهُ عَلَى خَلْعِ يَزِيدَ، فَأَبَى، وَقَالَ ابْنُ مُطِيعٍ: إِنَّ يَزِيدَ يَشْرَبُ الْخَمْرَ، وَيَتْرُكُ الصَّلاةَ، وَيَتَعَدَّى حُكْمَ الْكِتَابِ، قَالَ:
مَا رَأَيْتُ مِنْهُ مَا تَذْكُرُونَ، وَقَدْ أَقَمْتُ عِنْدَهُ، فَرَأَيْتُهُ مُوَاظِبًا لِلصَّلاةِ، مُتَحَرِيًّا لِلْخَيْرِ، يَسْأَلُ عَنِ الْفِقْهِ۔۔۔۔۔[تاريخ الإسلام للذهبي ت تدمري 5/ 274]۔


جب اہل مدینہ کے یزید کے پاس سے واپس آئے تو عبداللہ بن مطیع اوران کے ساتھی محمدبن حنفیہ کے پاس آئے اوریہ خواہش ظاہر کی کہ وہ یزید کی بیعت توڑدیں لیکن محمدبن حنفیہ نے ان کی اس بات سے انکار کردیا ، تو عبداللہ بن مطیع نے کہا: یزیدشراب پیتاہے ، نماز چھوڑتاہے کتاب اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ تو محمدبن حنفیہ نے کہا کہ میں نے تو اس کے اندر ایسا کچھ نہیں دیکھا جیساتم کہہ رہے ہو ، جبکہ میں اس کے پاس جاچکاہوں اوراس کے ساتھ قیام کرچکاہوں ، اس دوران میں نے تو اسے نماز کا پابند، خیرکا متلاشی ، علم دین کاطالب ، اورسنت کا ہمیشہ پاسدار پایا ۔ تولوگوں نے کہاکہ یزید ایسا آپ کو دکھانے کے لئے کررہاتھا ، تو محمدبن حنفیہ نے کہا: اسے مجھ سے کیا خوف تھا یا مجھ سے کیا چاہتاتھا کہ اسے میرے سامنے نیکی ظاہرکرنے کی ضرورت پیش آتی؟؟ کیا تم لوگ شراب پینے کی جوبات کرتے ہو اس بات سے خود یزید نے تمہیں آگاہ کیا ؟ اگرایسا ہے تو تم سب بھی اس کے گناہ میں شریک ہو ، اوراگر خود یزید نے تمہیں یہ سب نہیں بتایا ہے تو تمہارے لئے جائز نہیں کی ایسی بات کی گواہی دو جس کا تمہیں علم ہی نہیں ۔ لوگوں نے کہا: یہ بات ہمارے نزدیک سچ ہے گرچہ ہم نے نہیں دیکھا ہے ، تو محمدبن حنفیہ نے کہا: اللہ تعالی نے اس طرح گواہی دینے کوتسلیم نہیں کرتا کیونکہ اللہ کا فرمان ہے: ’’جو حق بات کی گواہی دیں اورانہیں اس کا علم بھی ہو‘‘ ، لہذا میں تمہاری ان سرگرمیوں میں کوئی شرکت نہیں کرسکتا ، تو انہوں نے کہا کہ شاید آپ یہ ناپسندکرتے ہیں کہ آپ کے علاوہ کوئی اورامیر بن جائے توہم آپ ہی کو اپنا امیربناتے ہیں ، تو محمدبن حنفہ نے کہا: تم جس چیز پرقتال کررہے ہو میں تو اس کوسرے سے جائز نہیں سمجھتا: مجھے کسی کے پیچھے لگنے یا لوگوں کو اپنے پیچھے لگانے کی ضرورت ہی کیا ہے ، لوگوں نے کہا: آپ تو اپنے والد کے ساتھ لڑائی لڑچکے ہیں؟ تو محمدبن حنفیہ نے کہا کہ پھر میرے والد جیسا شخص اورانہوں نے جن کے ساتھ جنگ کی ہے ایسے لوگ لیکر تو آؤ ! وہ کہنے لگے آپ اپنے صاحبزادوں قاسم اور اورابوالقاسم ہی کو ہمارے ساتھ لڑائی کی اجازت دے دیں ، محمدبن حنفیہ نے کہا: میں اگران کا اس طرح کا حکم دوں تو خود نہ تمہارے ساتھ شریک ہوجاؤں ۔ لوگوں نے کہا : اچھا آپ صرف ہمارے ساتھ چل کرلوگوں کو لڑالی پر تیار کریں ، محمدبن حنفیہ نے کہا: سبحان اللہ ! جس کو میں خود ناپسندکرتاہوں اوراس سے مجتنب ہوں ، لوگوں کو اس کا حکم کیسے دوں ؟ اگر میں ایسا کروں تو میں اللہ کے معاملوں میں اس کے بندوں کا خیرخواہ نہیں بدخواہ ہوں ۔ وہ کہنے لگے پھر ہم آپ کو مجبورکریں گے ، محمدبن حنفیہ نے کہا میں اس وقت بھی لوگوں سے یہی کہوں گا کہ اللہ سے ڈرو اورمخلوق کی رضا کے لئے خالق کوناراض نہ کرو۔

اس روایت کو امام ابن کثیر اورامام ذہبی رحمہمااللہ نے امام مدائنی کی کتاب سے سند کے ساتھ نقل کردیا ہے اوریہ سند بالکل صحیح ہے ،
میرے بھائی
اپ سے کس نے کہہ دیا یہ روایت صحیح ہے اس میں عامر بن مسعود مجھول الحال ہیں ان کی توثیق ابن حبان کے سوا کسی سے منقول نہیں ہے
تحریر تقریب میں ان کو مجہول لکھا ہے

amir bn masood.png



دوئم یہ کہ عبد الرحمن بْن مُعَاوِيَة سے ان کی ملاقات ثابت نہیں ہے عبد الرحمن بْن مُعَاوِيَة مدنی ہیں اور عامر بن مسعود اپنے آخری وقت میں کوفہ میں تھے عبدللہ بن زید نے ان کو وہاں کا والی مقرر کیا تھا اور ان کا مدینہ میں آنا کسی خاص دلیل سے ثابت نہیں ہے

amar bn masood 1.png



یہ الاصابہ فی التمیز صحابہ ابن حجر کی عبارت ہے
ان دو علتوں کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے





 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
میرے بھائی
اپ سے کس نے کہہ دیا یہ روایت صحیح ہے اس میں عامر بن مسعود مجھول الحال ہیں ان کی توثیق ابن حبان کے سوا کسی سے منقول نہیں ہے
تحریر تقریب میں ان کو مجہول لکھا ہے

18747 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں


دوئم یہ کہ عبد الرحمن بْن مُعَاوِيَة سے ان کی ملاقات ثابت نہیں ہے عبد الرحمن بْن مُعَاوِيَة مدنی ہیں اور عامر بن مسعود اپنے آخری وقت میں کوفہ میں تھے عبدللہ بن زید نے ان کو وہاں کا والی مقرر کیا تھا اور ان کا مدینہ میں آنا کسی خاص دلیل سے ثابت نہیں ہے

18749 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں


یہ الاصابہ فی التمیز صحابہ ابن حجر کی عبارت ہے

ان دو علتوں کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے
کسی ایک روایت کے ضعیف ہونے سے نتیجہ اخذ کرنا دانشمنی نہیں -

صحیح بخاری کی روایت سے واضح ہے کہ ابن عمر رضی الله عنہ یزید بن معاویہ نہ صرف خلافت کا حقدار سمجھتے تھا بلکہ اس کے اخلاق و کردار کے بارے میں بھی کوئی منفی راے ہرگز نہیں رکھتے تھے-

نافع بیان کرتے ہیں کہ جب اہل مدینہ (کے بعض لوگوں نے) یزید بن معاویہ کے خلاف بغاوت کی تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے ساتھیوں اور اولاد کو جمع کر کے فرمایا:

“میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ ‘قیامت کے دن ہر معاہدہ توڑنے والے کے لیے ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا۔’ ہم لوگ اللہ اور رسول کے نام پر اس شخص (یزید) کی بیعت کر چکے ہیں اور میں اس میں کوئی ایسی بات نہیں پاتا (کہ جس کی بنا پر بیعت نہ کی جائے)۔ میں نہیں جانتا کہ اللہ اور رسول کے نام پر کی گئی بیعت کو توڑنے اور بغاوت کرنے سے بڑھ کر کوئی معاہدے کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔ ہر ایسا شخص جو اس بیعت سے الگ ہو جائے اور اس معاملے (بغاوت) کا تابع ہو جائے، تو اس کے اور میرے درمیان علیحدگی ہے۔ ( بخاری، کتاب الفتن، حدیث 6694) -
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اہل حدیث مولوی یا کوئی شیعہ ذاکر
میرے پاس یہ ویڈیو اوپن نہیں ہو رہی ، کوئی بتائے گا کہ یہ کون سے مولوی صاحب ہیں ؟
اور اختلاف کا بنیادی نکتہ کیا ہے ؟
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
میرے بھائی
اپ سے کس نے کہہ دیا یہ روایت صحیح ہے اس میں عامر بن مسعود مجھول الحال ہیں ان کی توثیق ابن حبان کے سوا کسی سے منقول نہیں ہے
تحریر تقریب میں ان کو مجہول لکھا ہے
عامر بن مسعود بن أمية بن خلف بن وهب الجمحى۔


آپ کے صحابی وتابعی ہونے میں اختلاف ہے ۔

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
وقَد أَدرك النَّبي صَلى الله عَليه وسَلم.[العلل للدارقطني 3/ 128]۔

امام ابن عساكر رحمه الله (المتوفى571)نے کہا:
عامر بن مسعود أبو سعد ويقال أبو سعيد الزرقي صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم ويقال لا صحبة له سكن دمشق وروى عن النبي صلى الله عليه وسلم وعن عائشة[تاريخ دمشق لابن عساكر: 26/ 108]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748):
عَامِرُ بْنُ مَسْعُودٍ أَبُو سَعْدٍ، وَقِيلَ: أَبُو سَعِيدٍ الزُّرَقِيُّ الْأَنْمَارِيُّ، مُختَلَفٌ فِي صُحْبَتِهِ [تاريخ الإسلام للذهبي: 5/ 143]

امام هيثمي رحمه الله (المتوفى807)نے کہا:
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْكَبِيرِ وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ، إِلَّا أَنَّ عَامِرَ بْنَ مَسْعُودٍ اخْتُلِفَ فِي صُحْبَتِهِ.[مجمع الزوائد ومنبع الفوائد 2/ 92]۔


بعض محدثین کے اصول کے مطابق جس راوی کے صحابی اورتابعی ہونے میں اختلاف ہو ایسا راوی کم ازکم حسن الحدیث ضرورہوتاہے۔

حافظ زبیرعلی حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
جس کے صحابی ہونے میں اختلاف ہو اورجرح مفسرثابت نہ ہو تو وہ حسن الحدیث راوی ہوتا ہے ، دیکھئے التلخیص الحبیر(ج1ص74ح 70) وغیرہ[فتاوی علمیہ:ج1ص484]۔
عرض ہے کہ عامربن مسعود پر جرح مفسر تو دور کی بات سرے سے کوئی جرح ہی ثابت نہیں ۔

بہرحال اگریہ صحابی ہیں تو ان کی توثیق پیش کرنے کی ضرورت نہیں اوراگرتابعی ہیں تو اختلاف صحبت کے سبب کم از کم حسن الحدیث ضرور ہیں ۔

تاہم اگرآپ اختلاف صحبت سے بھی قطع نظرکرلیا جائے تو بھی آپ ثقہ ہیں کیونکہ:

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے انہیں ثقات میں ذکر کیا:
عامر بن مسعود[الثقات لابن حبان: 5/ 190]۔

اوران سے کئی ثقات نے روایت لی ہے ، علامہ البانی رحمہ اللہ کا اصول ہے کہ جسے ابن حبان ثقہ کہہ دیں اورمتعددثٖقات اس سے روایت لے لیں (اوراس کی مرویات میں نکارت نہ ملے) تو وہ ثقہ ہوتا ہے۔

علاوہ ازیں:

امام ابن خزيمة رحمه الله (المتوفى311) نے آپ کی حدیث کو صحیح کہا ، ملاحظہ ہو [صحيح ابن خزيمة 3/ 309 رقم2145 ]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
الثقة: من وثَّقَه كثيرٌ ولم يُضعَّف. ودُونَه: من لم يُوثق ولا ضُعِّف. فإن حُرِّج حديثُ هذا في ((الصحيحين))، فهو مُوَثَّق بذلك، وإن صَحَّح له مثلُ الترمذيِّ وابنِ خزيمة فجيِّدُ أيضاً، وإن صَحَّحَ له كالدارقطنيِّ والحاكم، فأقلُّ أحوالهِ: حُسْنُ حديثه. [الموقظة في علم مصطلح الحديث للذهبي: ص: 17].

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
قلت صحح ابن خزيمة حديثه ومقتضاه أن يكون عنده من الثقات [تعجيل المنفعة ص: 248]۔

امام ضياء المقدسي رحمه الله (المتوفى643) نے بھی الأحاديث المختارة میں ان کی روایت لی ، دیکھئے :[ المستخرج من الأحاديث المختارة مما لم يخرجه البخاري ومسلم في صحيحيهما 8/ 208 رقم وقال المحقق اسنادہ حسن]۔
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
دوئم یہ کہ عبد الرحمن بْن مُعَاوِيَة سے ان کی ملاقات ثابت نہیں ہے عبد الرحمن بْن مُعَاوِيَة مدنی ہیں اور عامر بن مسعود اپنے آخری وقت میں کوفہ میں تھے عبدللہ بن زید نے ان کو وہاں کا والی مقرر کیا تھا اور ان کا مدینہ میں آنا کسی خاص دلیل سے ثابت نہیں ہے
محترم بھائی
عبدالرحمن بن معاویہ اور عامر بن مسعود کے درمیان کوئی لمبا فاصلہ ثابت نہیں ہے اور نہ کسی محدث سے ان کی معاصرت کا انکار ثابت ہے

امام حاکم رحمتہ اللہ نے کہا:
مَعْرِفَةُ الْأَحَادِيثِ الْمُعَنْعَنَةِ، وَلَيْسَ فِيهَا تَدْلِيسٌ، وَهِيَ مُتَّصِلَةٌ بِإِجْمَاعِ أَئِمَّةِ أَهْلِ النَّقْلِ عَلَى تَوَرُّعِ رُوَاتِهَا، عَنْ أَنْوَاعِ التَّدْلِيسِ


معنعن احادیث کی معرفت جن میں تدلیس ثابت نہ ہو یہ باجماع محدثین اتصال پر محمول ہوتی ہیں بشرطیکہ کہ اس کے رواہ تدلیس سے بری ہوں
معرفة علوم الحديث للحاكم
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
71
عامر بن مسعود بن أمية بن خلف بن وهب الجمحى۔


آپ کے صحابی وتابعی ہونے میں اختلاف ہے ۔

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
وقَد أَدرك النَّبي صَلى الله عَليه وسَلم.[العلل للدارقطني 3/ 128]۔

امام ابن عساكر رحمه الله (المتوفى571)نے کہا:
عامر بن مسعود أبو سعد ويقال أبو سعيد الزرقي صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم ويقال لا صحبة له سكن دمشق وروى عن النبي صلى الله عليه وسلم وعن عائشة[تاريخ دمشق لابن عساكر: 26/ 108]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748):
عَامِرُ بْنُ مَسْعُودٍ أَبُو سَعْدٍ، وَقِيلَ: أَبُو سَعِيدٍ الزُّرَقِيُّ الْأَنْمَارِيُّ، مُختَلَفٌ فِي صُحْبَتِهِ [تاريخ الإسلام للذهبي: 5/ 143]

امام هيثمي رحمه الله (المتوفى807)نے کہا:
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْكَبِيرِ وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ، إِلَّا أَنَّ عَامِرَ بْنَ مَسْعُودٍ اخْتُلِفَ فِي صُحْبَتِهِ.[مجمع الزوائد ومنبع الفوائد 2/ 92]۔


بعض محدثین کے اصول کے مطابق جس راوی کے صحابی اورتابعی ہونے میں اختلاف ہو ایسا راوی کم ازکم حسن الحدیث ضرورہوتاہے۔

حافظ زبیرعلی حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
جس کے صحابی ہونے میں اختلاف ہو اورجرح مفسرثابت نہ ہو تو وہ حسن الحدیث راوی ہوتا ہے ، دیکھئے التلخیص الحبیر(ج1ص74ح 70) وغیرہ[فتاوی علمیہ:ج1ص484]۔
عرض ہے کہ عامربن مسعود پر جرح مفسر تو دور کی بات سرے سے کوئی جرح ہی ثابت نہیں ۔

بہرحال اگریہ صحابی ہیں تو ان کی توثیق پیش کرنے کی ضرورت نہیں اوراگرتابعی ہیں تو اختلاف صحبت کے سبب کم از کم حسن الحدیث ضرور ہیں ۔

تاہم اگرآپ اختلاف صحبت سے بھی قطع نظرکرلیا جائے تو بھی آپ ثقہ ہیں کیونکہ:

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے انہیں ثقات میں ذکر کیا:
عامر بن مسعود[الثقات لابن حبان: 5/ 190]۔

اوران سے کئی ثقات نے روایت لی ہے ، علامہ البانی رحمہ اللہ کا اصول ہے کہ جسے ابن حبان ثقہ کہہ دیں اورمتعددثٖقات اس سے روایت لے لیں (اوراس کی مرویات میں نکارت نہ ملے) تو وہ ثقہ ہوتا ہے۔

علاوہ ازیں:

امام ابن خزيمة رحمه الله (المتوفى311) نے آپ کی حدیث کو صحیح کہا ، ملاحظہ ہو [صحيح ابن خزيمة 3/ 309 رقم2145 ]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
الثقة: من وثَّقَه كثيرٌ ولم يُضعَّف. ودُونَه: من لم يُوثق ولا ضُعِّف. فإن حُرِّج حديثُ هذا في ((الصحيحين))، فهو مُوَثَّق بذلك، وإن صَحَّح له مثلُ الترمذيِّ وابنِ خزيمة فجيِّدُ أيضاً، وإن صَحَّحَ له كالدارقطنيِّ والحاكم، فأقلُّ أحوالهِ: حُسْنُ حديثه. [الموقظة في علم مصطلح الحديث للذهبي: ص: 17].

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
قلت صحح ابن خزيمة حديثه ومقتضاه أن يكون عنده من الثقات [تعجيل المنفعة ص: 248]۔

امام ضياء المقدسي رحمه الله (المتوفى643) نے بھی الأحاديث المختارة میں ان کی روایت لی ، دیکھئے :[ المستخرج من الأحاديث المختارة مما لم يخرجه البخاري ومسلم في صحيحيهما 8/ 208 رقم وقال المحقق اسنادہ حسن]۔

عامر بن مسعود بن أمية بن خلف بن وهب الجمحى۔
دوست اپ نے غلط ٹرین پکڑی ہے عامر بن مسعود جو آپ فرما رہے ہیں الرزقی ہیں ابو سعید الزرقی کا نام سعد بن عمارہ یا عمارہ بن سعد ہے ان کو عامر بن مسعود کہا جاتا ہے جو خطا ہے اور یہ مذکورہ روایت میں ہیں ہی نہیں اس روایت میں جو عامر بن مسعود ہے وہ القرشی الجمحی ہیں ان دونوں میں محدثین نے فرق کیا ہے

aamir bn masood aljamhi.png


یہ اس روایت میں ہیں اور یہ الرازقی نہیں ہیں

abu zarqi.png


یہ الزرقی ابو سعید اور ابن حبان نے کہا کہ ان کو عامر بن مسعود سمجھنا خطا ہے جیسا میں نے اوپر بھی نقل کیا تھا


 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
71
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے انہیں ثقات میں ذکر کیا:
عامر بن مسعود[الثقات لابن حبان: 5/ 190]۔

اوران سے کئی ثقات نے روایت لی ہے ، علامہ البانی رحمہ اللہ کا اصول ہے کہ جسے ابن حبان ثقہ کہہ دیں اورمتعددثٖقات اس سے روایت لے لیں (اوراس کی مرویات میں نکارت نہ ملے) تو وہ ثقہ ہوتا ہے۔
اپ نے البانی صاحب کے حوالے سے جو اصول بیان کیا ہے اور صحیح ابن خزیمہ کی روایت نقل کی ہے وہ اس کو تو خود البانی صاحب نے ضعیف قرار دیا ہے پھر البانی صاحب کے اصول پر یہ راوی کیسے ثقہ ہے

abn khuzama ki riwayat.png


دوئم : کہ عامر بن معسود سے متعدد نے روایت نہیں کی ہے اس سے صرف دو نے روایت کیا ہے جیسا میں نے اسکین دیا ہے اور ان میں سے بھی ایک راوی نمیر بن عریب کو امام ذہبی نے مجہول الحال کہا ہے اور البانی صاحب نے اس کی تائید کی ہے (سلسلہ الصحیحہ تحت رقم ١٩٢٢)

تو البانی صاحب کے اصول پر تو یہ راوی ثقه نہیں ہے کیونکہ عامر بن معسود سے روایت کرنے والے صرف دو میں سے ایک مجھول الحال ہے اس لئے یہ راوی البانی صاحب کے اصول پر تو ثقه نہیں ہے

 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
71
بعض محدثین کے اصول کے مطابق جس راوی کے صحابی اورتابعی ہونے میں اختلاف ہو ایسا راوی کم ازکم حسن الحدیث ضرورہوتاہے۔

حافظ زبیرعلی حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
جس کے صحابی ہونے میں اختلاف ہو اورجرح مفسرثابت نہ ہو تو وہ حسن الحدیث راوی ہوتا ہے ، دیکھئے التلخیص الحبیر(ج1ص74ح 70) وغیرہ[فتاوی علمیہ:ج1ص484]۔


اپ نے لکھا جس کی صحبت میں اختلاف ہو وہ کم از کم حسن الحدیث ہوتا ہے یہ اصول مقدمین میں سے کسی کے یہاں نہیں ہے تلخیص سے جو عبارت ہے
وزاد بن القطان أن جدة رباح أيضا لا يعرف اسمها ولا حالها كذا قال فأما هي فقد عرف اسمها من رواية الحاكم ورواه البيهقي أيضا مصرحا باسمها وأما حالها فقد ذكرت في الصحابة وإن لم يثبت لها صحبة فمثلها لا يسأل عن حالها

اس میں یہ کہا لکھا ہے کہ جس کی صحبت میں اختلاف ہو وہ حسن ہے ابن حجر نے یہاں ابن القطان کا کے اس قول کا رد کیا ہے جس وہ کہتے ہیں کی ان کا حال بھی معلوم نہیں ہے اس پر ابن حجر نے کہا کے ان جیسوں کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے تو یہ اصول نہیں ہے شیخ زبیر علی زئی نے اس عبارت سے صرف یہ اخذ کیا ہے یہ ان کی اپنی رائے ہو سکتی ہے اگر مقدمین کایہ کوئی اصول ہوتا تو شیخ شعیب اس کو مجھول الحال نہ کہتے جبکہ اصول یہ ہے کہ جس راوی سے دو راوی روایت کریں اور اس کی توثیق کسی نے بھی نہ کی ہو وہ مجھول الحال ہوتا ہے
اور عامر بن مسعود کی توثیق ابن حبان کے سوا کس نے نہیں کی ہے اور وہ توثیق میں متساہل ہیں
دوسری بات امام بخاری نے عامر بن مسعود
سے روایت کرنے والے راویوں میں انقطا ع بتایا ہے عبدالعزیز بن رفیع کی وفات ١٣٠ میں ہوئی ہے اور عبدالرحمن بن معاویہ کی وفات بھی ١٣٠ میں بتائی جاتی ہے تو جب
عبدالعزیز بن رفیع کا عامر بن مسعود سے انقطاع جو ان سے روایت کرنے والوں میں شامل ہے تو جن کا نام ان سے روایت کرنے والوں میں شامل نہیں اور عامر بن مسعود کا کوفہ رہنا ثابت ہے تو پھر کس طرح ان میں ملاقات ہو سکتی ہے ان دونوں علتوں کی وجہ سے روایت ضعیف ہے .

munqata.png


 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
71
کسی ایک روایت کے ضعیف ہونے سے نتیجہ اخذ کرنا دانشمنی نہیں -

صحیح بخاری کی روایت سے واضح ہے کہ ابن عمر رضی الله عنہ یزید بن معاویہ نہ صرف خلافت کا حقدار سمجھتے تھا بلکہ اس کے اخلاق و کردار کے بارے میں بھی کوئی منفی راے ہرگز نہیں رکھتے تھے-

نافع بیان کرتے ہیں کہ جب اہل مدینہ (کے بعض لوگوں نے) یزید بن معاویہ کے خلاف بغاوت کی تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے ساتھیوں اور اولاد کو جمع کر کے فرمایا:

“میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ ‘قیامت کے دن ہر معاہدہ توڑنے والے کے لیے ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا۔’ ہم لوگ اللہ اور رسول کے نام پر اس شخص (یزید) کی بیعت کر چکے ہیں اور میں اس میں کوئی ایسی بات نہیں پاتا (کہ جس کی بنا پر بیعت نہ کی جائے)۔ میں نہیں جانتا کہ اللہ اور رسول کے نام پر کی گئی بیعت کو توڑنے اور بغاوت کرنے سے بڑھ کر کوئی معاہدے کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔ ہر ایسا شخص جو اس بیعت سے الگ ہو جائے اور اس معاملے (بغاوت) کا تابع ہو جائے، تو اس کے اور میرے درمیان علیحدگی ہے۔ ( بخاری، کتاب الفتن، حدیث 6694) -


دوست میرا مدعا یہ ہے ہی نہیں میں نے ایک روایت دیکھی جو اصول کے مطابق ضعیف ہے میں نے اس کو بیان کر دیا
دوسری بات میں ان مسائل میں نہیں پڑتا اس بارے میں میں نے گہرا مطالعہ کیا ہے اور اپنی اس علم کی بنیاد پر ہی کہتا ہوں کہ جو اس میں پڑا یا تو بنی امیہ کے ان چھوکروں کو بچانے کی خاطر ناصبی افکار کا حامل ہو گیا جیسا مجھے کچھ دنوں میں ہی اس فورم پر نظر آیا ہے یا وہ رافضی افکار کا ماننے والا ہو گیا دونوں صورتوں میں اہل سنت کے منھج سے دور ہو جاتا ہے اہل سنت کا منہج یہ ہے کہ یزید فاسق بالاجماع تھا اور خاص طور پر شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے بھی اس کو فاسق ہی کہا ہے اپ جو روایت پیش کر رہے ہیں جس کی رو سے یزید کو نیک اور پارسا ثابت کرنے میں لگے ہیں کیا یہ امت کے اکابرین نے نہیں پڑھی ہیں کسی ایک کی بھی نظر سے یہ روایات نہیں گزری پوری امت کے اہل علم سلف سے خلف تک سب اس سے لاعلم تھے اور اس کو فاسق بغیر تحقیق کیے لکھ گئے اور جہاں تک ابن عمر رضی الله عنہ کا اس کو نیک کہنا وہ کیا حالت تھے جس کی وجہ سے ابن عمر رضی الله عنہ نے بیعت کی تھی یہ تمام اہل علم کے نظر میں ہے اس لئے انھوں نے بخاری جیسے کتب کی روایت کو بھی یزید کی پارسائی میں پیش نہیں کیا ہے تو اپ اس کو ناصبیت کے افکار کے تحت نیک سمجھتے رہیں میں اس کو اہل سنت کے منھج پر فاسق فاجر اور مرجی (ایک گمراہ فرقہ ) کا حامل مانتا ہوں




 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
136
پوائنٹ
91
میرے پاس یہ ویڈیو اوپن نہیں ہو رہی ، کوئی بتائے گا کہ یہ کون سے مولوی صاحب ہیں ؟
اور اختلاف کا بنیادی نکتہ کیا ہے ؟
شیخ یہ حافظ عمر صدیق صاحب کی تقریر کی کلپ ہے جو اب اصل جگہ سے شاید ہٹا دی گئی ہے اس لئے شاید اوپن نہیں ہو رہی
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top