کفایت اللہ صاحب لکھتے ہیں:
"جبکہ بعض روایات یہ بتاتی ہیں کہ یزید کے باقاعدہ خلیفہ بننے کے بعد یزید کے اصحاب جب مدینہ میں حسین رضی اللہ عنہ کے پاس بیعت کی رسم پوری کرنے کے لیے پہنچے تو انہوں نے بالکل انکار نہیں کیا بلکہ مجمع عام میں یہ رسم پوری کرنے کا وعدہ کیا تاکہ سب کو معلوم ہو جائے کہ حُسین رضی اللہ عنہ بھی یزید کے مخالف نہیں ہیں"۔۔۔
اس کی صحیح سند کہاں ہے؟؟
حد ہوتی ہے ایک طرف تو مولانا صاحب خود کہہ رہے ہیں کہ تاریخی روایات خلط ملط ہو گئی ہیں اور طبری کا حوالہ بھی دیا ہے دوسری طرف مولانا صاحب خود طبری کا حوالہ دے رہے ہیں بغیر کسی سند کی تحقیق کے۔۔۔۔ اس روایت کی کوئی صحیح سند موجود ہے جو کہ اس کو صحیح مانا جائے؟؟؟؟
ہمارے پیارے بھائی سعید عمران کو اس پہ اعتراض ہے کہ شاید ایک طرف شیخ کفایت حفظہ اللہ طبری کی تاریخی روایات کی سند پہ بات کرتے ہیں اور دوسری طرف جب اپنا موقف بیان کرتے ہیں تو پھر طبری کی تاریخی روایات کے حوالے دیتے ہیں
تو بھائی جان ایک بات تو یہ ہے کہ جو تاریخی روایات خود انہوں نے تاریخ طبری وغیرہ سے بیان کی ہیں اسکی انہوں نے مکمل تحقیق کی ہو یہ تو وہ خود ہی یا کوئی اور ہمارا بھائی
@خضر حیات بھائی
@ابن داود بھائی
@عدیل سلفی @میاں بھائی وغیرہ بتا سکتے ہیں میرا علم اس سلسلے میں کمزور ہے
دوسری بات یہ ہے کہ تاریخ کے سلسلے میں جو میں نے دوسری جگہ اصول بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ تاریخ کو سند کی تحقیق کے بغیر آپ بطور اثبات شریعت استعمال نہیں کر سکتے لیکن تاریخ کو تائید شریعت میں استعمال کرنے کی ممانعت نہیں
تاریخ کے بطور دلیلِ شریعت انکار
اور
تاریخ کے بطور تائیدِ دلیلِ شریعت کے اقرار
میں فرق
بھائی جان اسکو ایک مثال سے سمجھاتا ہوں
صحیح بخاری خالی حدیث کی کتاب ہی نہیں بلکہ فقہ کی بھی کتاب ہے امام بخاری رحمہ اللہ نے باب باندھ کر فقہی مسائل بیان کیے اور ہر باب کے تحت مندرجہ ذیل دو طرح کی احادیث لے کر آئے ہیں
۱۔صحیح متصل سند کے ساتھ احادیث (انکو وہ دلیلِ شریعت کے طور پہ لا کر آئے ہیں
۲۔معلق، منقطع، بے سند اقوال و روایات وغیرہ ( یہ تب لائے ہوتے ہیں جب اوپر والی متصل صحیح سند والی حدیث (جو اس فقہی مسئلہ میں اصل دلیل شریعت ہوتی ہے) بیان کر دیں اور انکو لانے کا مقصد صرف دلیل شریعت کی تائید ہی ہوتی ہے
پس میرے علم کے مطابق آج تک کسی سلیم الفطرت صاحب علم شخص نے یہ اعتراض نہیں کیا کہ جب ایک طرف امام بخاری رحمہ اللہ کی احادیث کی اسناد کا اتنا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے تو پھر یہ دو رخی وہ کیوں کرتے ہیں
اس لئے ہر سلیم الفطرت صاحب علم دلیل شریعت اور تائید دلیل شریعت میں فرق کو خوب سمجھتا ہے
پس میرے بھائی یزید کے معاملے میں صحیح احادیث اور صحابہ کے تعامل کو مجموعی طور پہ ملا کر دیکھتے ہوئے شیخ کفایت حفظہ اللہ نے جو نتیجہ نکالا اسکے مطابق تاریخی روایات کو بغیر سند کے بھی درست مان لیا ہو مگر وہ پھر تائید میں ہوں گی دین کے ثبوت میں نہیں ہوں گی یعنی ان تاریخی روایات کو انہوں نے ممکنہ احتمالات کے نکالنے یا کشید کرنے کے لئے استعمال کیا ہو اور درست احتمال کے متعین کرنے کے لئے استعمال نہ کیا ہو واللہ اعلم
نوٹ: ممکنہ احتمالات کو نکالنا یا کشید کرنا اور درست احتمال کو متعین کرنے میں فرق پہ میں نے دوسری جگہ پہ کچھ لکھا ہوا ہے تھوڑا یہاں بتا دیتا ہوں کہ کوئی انسان جب کوئی کام کرتا ہے تو اسکے احتمالات مختلف ہو سکتے ہیں مثلا کوئی کسی ولی کی قبر پہ ہاتھ اٹھا کر دل ہی دل میں کچھ مانگ رہا ہو تو اسکا ایک احتمال یہ ہو سکتا ہے کہ وہ اس قبر والے کے لئے مغفرت کی دعا مانگ رہا ہو جو عین سنت ہے دوسرا یہ کہ وہ اس قبر والے کا واسطہ دے کر اللہ سے دعا مانگ رہا ہو جو بدعت ہے یا پھر وہ قبر والے سے ہی مانگ رہا ہو جو شرک ہے یہ تو ممکنہ احتمالات نکالنے کا معاملہ ہو گیا اب درست احتمال کو متعین کرنے کے لئے ہمیں اس شخص کی باقی زندگی کو دیکھنا ہو گا اگر دوسری زندگی میں ہمیں وہ شرک کے خلاف باتیں کرتا ہوا ملتا ہے تو سمجھو کہ تیسرا احتمال غیر متعین ہو گیا یعنی وہ قبر والے سے نہیں مانگ رہا ہو گا اسی طرح وہ اپنے آپ کو اہل حدیث کہلواتا ہو تو زیادہ چانس ہے کہ دوسرا احتمال بھی غیر متعین ہو گیا اسی طرح ہم درست احتمال کو متعین کریں گے
بالکل اسی طرح جنگ جمل و صفین و کربلا وغیرہ کے معاملے میں تاریخ واقعات کو ہم مختلف ممکنہ احتمالات کو نکالنے کے لئے ہم استعمال کر سکتے ہیں اس حد تک تاریخ کو پڑھنا تو درست ہے
لیکن آگے پھر درست احتمال کو متعین کرنے کے لئے ہمیں پھر عقل اور قرآن و حدیث کے عمومی اصولوں اورصحابہ کے اس جنگ پہ تعامل اور ان پہ ردعمل کا سہارا لینا پڑے گا واللہ اعلم