• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل حدیث مولوی یا کوئی شیعہ ذاکر

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
کفایت اللہ صاحب نے لکھا ہے۔۔۔
"۔۔۔تمام صحابہ بشمول حُسین رضی اللہ عنہ اور تابعین یزید کی بیعت پر متفق تھے۔۔۔۔۔۔"
براہ مہربانی ذرا کسی صحی سند سے ثابت کریں کہ حُسین رضی اللہ عنہ نے اس مُلوک یزید کی بیعت کی تھی؟؟؟
یہ ہے ایک کھُلا جھوٹ۔۔۔ اگر کسی کے پاس اس کی صحیح سند ہے تو براہ مہربانی بتا دے۔۔
پیارے بھائی جان اللہ آپ کو دین کی تبلیغ کے حرص پہ اجر عظیم دے مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آئی کہ اوپر شیخ کفایت کے الفاظ سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ وہ کہ رہے ہوں کہ حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت کی تھی جسکو آپ کھلا جھوٹ کہ رہے ہیں
اصل مفہوم اور تفصیل تو شیخ کفایت ہی بتا سکتے ہیں مگر اس میں (بیعت پہ متفق تھے ) والے الفاظ میں بہت سے احتمالات ہو سکتے ہیں مثلا
۱۔یزید کی بیعت (بخوشی کرنے) پر متفق تھے
۲۔یزید کی بیعت (بکراہت کرنے) پر متفق تھے
۳۔ یزید کی بیعت (کے بکراہت درست ہونے) پر متفق تھے
۴۔یزید کی بیعت (کے بخوشی درست ہونے ) پر متفق تھے
۵۔یزید کی بیعت (بکراہت کرنے والوں کے درست ہونے) پر متفق تھے
۶۔یزید کی بیعت (بخوشی کرنے والوں کے درست ہونے) پر متفق تھے

اس میں دوسرے تیسرے اور پانچویں پہ شاید انکو تاریخی روایات مل گئی ہوں اور ثبوت قرآن حدیث کے عمومی دلائل اور تعامل صحابہ سے مل چکے ہوں واللہ اعلم
 

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
178
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
پیارے بھائی جان اللہ آپ کو دین کی تبلیغ کے حرص پہ اجر عظیم دے مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آئی کہ اوپر شیخ کفایت کے الفاظ سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ وہ کہ رہے ہوں کہ حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت کی تھی جسکو آپ کھلا جھوٹ کہ رہے ہیں
اصل مفہوم اور تفصیل تو شیخ کفایت ہی بتا سکتے ہیں مگر اس میں (بیعت پہ متفق تھے ) والے الفاظ میں بہت سے احتمالات ہو سکتے ہیں مثلا
۱۔یزید کی بیعت (بخوشی کرنے) پر متفق تھے
۲۔یزید کی بیعت (بکراہت کرنے) پر متفق تھے
۳۔ یزید کی بیعت (کے بکراہت درست ہونے) پر متفق تھے
۴۔یزید کی بیعت (کے بخوشی درست ہونے ) پر متفق تھے
۵۔یزید کی بیعت (بکراہت کرنے والوں کے درست ہونے) پر متفق تھے
۶۔یزید کی بیعت (بخوشی کرنے والوں کے درست ہونے) پر متفق تھے

اس میں دوسرے تیسرے اور پانچویں پہ شاید انکو تاریخی روایات مل گئی ہوں اور ثبوت قرآن حدیث کے عمومی دلائل اور تعامل صحابہ سے مل چکے ہوں واللہ اعلم
بھائی کہیں انہوں ںے حوالہ نہیں دیا۔۔۔صحیح سند کے ساتھ۔۔۔۔اگر انہوں ںے نہیں دیا تو کوئی اور ہی ڈھونڈ کر دے دے۔۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
السلام علیکم! بھائی علماء سے اختلافِ رائے کرنا ہر کسی کا حق ہے۔۔مگر وہ اختلافِ رائے ٹھوس دلیل کی بنیاد پر ہونا چاہئیے۔۔۔بات کہاں سے شروع ہوئی تھی کہ یزید کا جنتی ہونا کہاں سے ثابت ہو گیا؟؟؟ اور میں نے اس حوالے سے صحیح سند مانگی تھی۔۔۔۔ اب کوئی ٹھوس دلیل میں صحیح سند دے دے تو سر آنکھوں پر ۔۔۔
اس دُنیا میں اگر کوئی شخصیت ایسی ہے جس سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا تو وہ صرف اور صرف ہمارے نبی ﷺ کی ہے۔۔۔اس کے علاوہ ٹھوس دلیل کی بنیاد پر کسی سے بھی اختلاف کیا جاسکتا ہے۔
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اختلاف کرنے سے کسی نے منع نہیں کیا ، لیکن کسی موضوع پر کسی کی تحقیقی کتاب کو یک مشت ’ افسانہ ‘ کہہ دینا ، میں نے اس اسلوب پر آپ کو تنبیہ کرنا چاہی تھی ، آپ جوابا پھر بات کو گھما کر دوسری طرف لے جانے کی کوشش کی ہے ۔
اب میں آپ سے گزارش کروں گا کہ آپ کھل کر تحقیق کرلیں ، اور اگر اسی قسم کی طنزو تشنیع کو آپ علم و تحقیق سمجھتے ہیں تو یہ بھی کرکے دیکھ لیں ، آپ کو بہت جلد احساس ہوجائے گا کہ علما علم و تحقیق میں ہی کسی عامی سے افضل نہیں ، بلکہ ان میں سے بعض طنز و تشنیع کا منہ توڑ جواب دینے میں بھی یکتا ہوتے ہیں ۔
میں حدیث کا طالبعلم ہونے کے ناتے آپ جیسے محنتی لوگوں کی قدر کرتا ہوں ، اسی لیے الجھنے کی بجائے ، کوشش ہوتی ہے کہ حوصلہ افزائی ہی کروں ، ایک اور ہمارے بہت پیارے دوست ہیں ، انہوں نے دو چار ترجمے والی کتابیں پڑھ کر ، اپنی ذہانت کی بنیاد پر وقت کے سب سے بڑے محدثین کا تعاقب شروع کردیا ، علما کرام نے انہیں سمجھایا ، ان کے جواب بعینہ وہی تھے ، جو آپ نے کہے ، حالیہ دنوں کی بات ہے ، ان کی ’ نئی تحقیق ‘ کسی علما کے مجموعہ میں شیئر ہوئی ، وہی علما کرام جنہوں نے ابتدا میں اس کا ذوق و شوق دیکھ کر اس کی حوصلہ افزائی کی تھی ، اس کے ’ تعالم و تحقق ‘ والی روش پر اسے جاہل و بیوقوف قرار دیا ۔ اب میرے اس بھائی کے لیے صرف دو ہی رستے بچے ہیں ، یا تو سب علماء کرام ( جن میں وہ بھی ہیں جن کی کتابیں پڑھ کر اس نے اس علم کا معرفت حاصل کی ) کو غلط کر خود کو ’ محقق زماں ‘ ڈکلیئر کردے ، یا پھر اپنی اس روش سے توبہ کرکے ، سیدھے راستے پر آجائے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
میں دوبارہ وہی گزارش کروں گا ، کہ اس یزید والے معاملے میں یہی چھوڑ دیا جائے ، اگر سعید صاحب کو کفایت اللہ صاحب کی تحقیق پر اعتراض ہے تو وہ اپنے ملاحظات لکھ کر انہیں بھیج دیں ، یا الگ سے کتاب شائع کردیں ، لوگ جس کی بات کو چاہیں گے، دلائل سے قبول کرلیں گے ۔
نوٹ : اس تھریڈ کو میں صرف اس لیے کھلا چھوڑ رہا ہوں ، تاکہ سعید صاحب یہ نہ کہیں کہ نصیحت کا شوق پورا کرکے مجھے کچھ کہنے کا موقعہ نہیں دیا ، سعید صاحب ! اپنا یہ حق استعمال کریں ، تاکہ میں تھریڈ کو مقفل کروں ۔
اس کے علاوہ اس تھریڈ کو کھلا رکھنے کی کوئی گنجائش نہیں۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اگر بھائی کو یزید کے معاملہ میں شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ کی تحقیق پر اعتماد نہیں ، تو شیخ حافظ زبیر علی زئی رحمۃ اللہ علیہ
کی تحقیق اس موضوع پر پڑھنی چاہیئے ، اور حافظ صلاح الدین یوسف صاحب کی کتب اس سلسلہ میں ضرور دیکھنی چائیں
یہ دونوں جلیل القدر عالم سنجیدہ اور تحقیقی موقف اپناتے ہیں ،
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یزید کا جنگِ قسطنطنیہ میں شرکت کرنا کسی صحیح سند سے ثابت نہیں ہے۔
کہا تو آپ نے اپنے آپ کو طالب علم ہے، اور سوال کے جوابات کا خواہاں کہا ہے، لیکن یہ سوال نہیں بلکہ دعوی ہے!
اور آپ کا یہ دعوی باطل ہے، یزید ؒ بن معاویہ ﷛ کا جنگ قسطنطنیہ میں شرکت کرنا بالکل باسند صحیح ومقبول ثابت ہے، اور نہ صرف شرکت کرنا ثابت ہے، بلکہ لشکر قسطنطنیہ کا سپہ سالار ہونا ثابت ہے۔
ملاحظہ فرمائیں:

حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ يَزِيدَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، أَنَّ عُمَيْرَ بْنَ الأَسْوَدِ العَنْسِيَّ، حَدَّثَهُ - أَنَّهُ أَتَى عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ وَهُوَ نَازِلٌ فِي سَاحَةِ حِمْصَ وَهُوَ فِي بِنَاءٍ لَهُ، وَمَعَهُ أُمُّ حَرَامٍ - قَالَ: عُمَيْرٌ، فَحَدَّثَتْنَا أُمُّ حَرَامٍ: أَنَّهَا سَمِعَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ البَحْرَ قَدْ أَوْجَبُوا»، قَالَتْ أُمُّ حَرَامٍ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا فِيهِمْ؟ قَالَ: «أَنْتِ فِيهِمْ»، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ»، فَقُلْتُ: أَنَا فِيهِمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «لاَ»
ہم سے اسحاق بن یزید دمشقی نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ بن حمزہ نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے ثوربن یزید نے بیان کیا ، ان سے خالد بن معدان نے اور ان سے عمیر بن اسود عنسی نے بیان کیا کہ وہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ آپ کا قیام ساحل حمص پر اپنے ہی ایک مکان میں تھا اور آپ کے ساتھ ( آپ کی بیوی) ام حرام رضی اللہ عنہا بھی تھیں ۔ عمیر نے بیان کیا کہ ہم سے ام حرام رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میری امت کا سب سے پہلا لشکر جو دریائی سفر کر کے جہاد کے لیے جائے گا ، اس نے ( اپنے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت ) واجب کر لی ۔ ام حرام رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے کہا تھا یا رسول اللہ ! کیا میں بھی ان کے ساتھ ہوں گی ؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں ، تم بھی ان کے ساتھ ہو گی ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے پہلا لشکر میری امت کا جو قیصر (رومیوں کے بادشاہ ) کے شہر ( قسطنطنیہ ) پر چڑھائی کرے گا ان کی مغفرت ہو گی ۔ میں نے کہا میں بھی ان کے ساتھ ہوں گی یا رسول اللہ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں ۔
صحيح البخاري: كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ (بَابُ مَا قِيلَ فِي قِتَالِ الرُّومِ)
صحیح بخاری: کتاب: جہاد کا بیان (باب : نصاریٰ سے لڑنے کی فضیلت کا بیان)

یہ ہے با سند صحیح حدیث جس کی رو سے مدینہ قیصر (جو بوقت لشکر کشی قسطنطنیہ تھا) پرحملہ کرنے والا اول لشکر والا مغفور ہوگا، یعنی کہ ان کے لئے جنت کی بشارت ہے۔
اب دیکھتے ہیں قسطنطنیہ پر کو سا لشکر حملہ آوار ہوا!


حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ وَابْنِ لَهِيعَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَسْلَمَ أَبِي عِمْرَانَ، قَالَ: غَزَوْنَا مِنَ الْمَدِينَةِ نُرِيدُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ، وَعَلَى الْجَمَاعَةِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ، وَالرُّومُ مُلْصِقُو ظُهُورِهِمْ بِحَائِطِ الْمَدِينَةِ، فَحَمَلَ رَجُلٌ عَلَى الْعَدُوِّ، فَقَالَ النَّاسُ: مَهْ مَهْ! لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، يُلْقِي بِيَدَيْهِ إِلَى التَّهْلُكَةِ! فَقَالَ أَبُو أَيُّوبَ: إِنَّمَا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فِينَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، لَمَّا نَصَرَ اللَّهُ نَبِيَّهُ، وَأَظْهَرَ الْإِسْلَامَ، قُلْنَا: هَلُمَّ نُقِيمُ فِي أَمْوَالِنَا وَنُصْلِحُهَا! فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: {وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ} [البقرة: 195]، فَالْإِلْقَاءُ بِالْأَيْدِي إِلَى التَّهْلُكَةِ أَنْ نُقِيمَ فِي أَمْوَالِنَا، وَنُصْلِحَهَا، وَنَدَعَ الْجِهَادَ. قَالَ أَبُو عِمْرَانَ: فَلَمْ يَزَلْ أَبُو أَيُّوبَ يُجَاهِدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، حَتَّى دُفِنَ بِالْقُسْطَنْطِينِيَّةِ.

جناب اسلم‘ابو عمران بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ مدینہ منورہ سے جہاد کے لیے روانہ ہوئے ، ہم قسطنطنیہ (استنبول) جانا چاہتے تھے اور جناب عبدالرحمٰن بن خالد بن ولید ہمارے امیر جماعت تھے ۔ رومی لوگ اپنی پشت فصیل شہر کی طرف کیے ہمارے مدمقابل تھے ۔ مسلمانوں میں سے ایک شخص نے دشمن پر ہلہ بول دیا تو لوگوں نے کہا : رکو ، ٹھہرو ! «لا إله إلا الله» یہ شخص اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالتا ہے تو سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ آیت ہم انصاریوں ہی کے بارے میں نازل ہوئی تھی ۔ جب اللہ ذوالجلال نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت فرمائی اور اسلام کو غالب کر دیا تو ہم نے کہا : چلو اب ذرا اپنے اموال و جائیداد میں رک جائیں اور ان کو درست کر لیں ، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ” اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ “ ہلاکت میں ڈالنا یہ تھا کہ ہم اپنے مالوں میں رک جائیں ، ان کی اصلاح میں مشغول ہو جائیں اور جہاد چھوڑ دیں ۔ ابو عمران نے کہا : چنانچہ ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے رہے ، حتیٰ کہ قسطنطنیہ (استنبول ) ہی میں دفن ہوئے ۔
سنن أبي داؤد: كِتَابُ الْجِهَادِ (بَابٌ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: {وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ}[البقرة: 195])
سنن ابو داؤد: کتاب: جہاد کے مسائل (باب: آیت کریمہ «ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة» ” اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو “ کی تفسیر)

اس سے باسند قسطنطنیہ پر حملہ ثابت ہوتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ قسطنطنیہ پر حملہ آور لشکر میں شامل تھے، اور وہیں ان کی وفات ہوئی!
اب دیکھتے ہیں کہ سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ والے اس لشکر کے بارے میں دیکھتے ہیں:

حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَحْمُودُ بْنُ الرَّبِيعِ الأَنْصَارِيُّ: أَنَّهُ عَقَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَقَلَ مَجَّةً مَجَّهَا فِي وَجْهِهِ مِنْ بِئْرٍ كَانَتْ فِي دَارِهِمْ،
ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہمارے باپ ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ا بن شہاب نے کہا کہ مجھے محمود بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یاد ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ کلی بھی یاد ہے جو آپ نے ان کے گھر کے کنویں سے پانی لے کر ان کے منہ میں کی تھی۔
‌صحيح البخاري: كِتَابُ التَّهَجُّدِ (بَابُ صَلاَةِ النَّوَافِلِ جَمَاعَةً)
صحیح بخاری: کتاب: تہجد کا بیان (باب: نفل نمازیں جماعت سے پڑھنا)
(اسی سند سے مزیدروایت ہے)
فَزَعَمَ مَحْمُودٌ، أَنَّهُ سَمِعَ عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ الأَنْصارِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - وَكَانَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يَقُولُ: كُنْتُ أُصَلِّي لِقَوْمِي بِبَنِي سَالِمٍ وَكَانَ يَحُولُ بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ وَادٍ إِذَا جَاءَتِ الأَمْطَارُ، فَيَشُقُّ عَلَيَّ اجْتِيَازُهُ قِبَلَ مَسْجِدِهِمْ، فَجِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ لَهُ: إِنِّي أَنْكَرْتُ بَصَرِي، وَإِنَّ الوَادِيَ الَّذِي بَيْنِي وَبَيْنَ قَوْمِي يَسِيلُ إِذَا جَاءَتِ الأَمْطَارُ، فَيَشُقُّ عَلَيَّ اجْتِيَازُهُ، فَوَدِدْتُ أَنَّكَ تَأْتِي فَتُصَلِّي مِنْ بَيْتِي مَكَانًا، أَتَّخِذُهُ مُصَلًّى، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «سَأَفْعَلُ» فَغَدَا عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بَعْدَ مَا اشْتَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَذِنْتُ لَهُ فَلَمْ يَجْلِسْ حَتَّى قَالَ: «أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ مِنْ بَيْتِكَ؟» فَأَشَرْتُ لَهُ إِلَى المَكَانِ الَّذِي أُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ فِيهِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَبَّرَ، وَصَفَفْنَا [ص:60] وَرَاءَهُ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ وَسَلَّمْنَا حِينَ سَلَّمَ، فَحَبَسْتُهُ عَلَى خَزِيرٍ يُصْنَعُ لَهُ، فَسَمِعَ أَهْلُ الدَّارِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي، فَثَابَ رِجَالٌ مِنْهُمْ حَتَّى كَثُرَ الرِّجَالُ فِي البَيْتِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ: مَا فَعَلَ مَالِكٌ؟ لاَ أَرَاهُ. فَقَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ: ذَاكَ مُنَافِقٌ لاَ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لاَ تَقُلْ ذَاكَ أَلاَ تَرَاهُ قَالَ: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ "، فَقَالَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، أَمَّا نَحْنُ، فَوَ اللَّهِ لاَ نَرَى وُدَّهُ وَلاَ حَدِيثَهُ إِلَّا إِلَى المُنَافِقِينَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَى النَّارِ مَنْ قَالَ: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ " قَالَ مَحْمُودُ بْنُ الرَّبِيعِ: فَحَدَّثْتُهَا قَوْمًا فِيهِمْ أَبُو أَيُّوبَ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَتِهِ الَّتِي تُوُفِّيَ فِيهَا، وَيَزِيدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ عَلَيْهِمْ بِأَرْضِ الرُّومِ، فَأَنْكَرَهَا عَلَيَّ أَبُو أَيُّوبَ، قَالَ: وَاللَّهِ مَا أَظُنُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَا قُلْتَ قَطُّ، فَكَبُرَ ذَلِكَ عَلَيَّ، فَجَعَلْتُ لِلَّهِ عَلَيَّ إِنْ سَلَّمَنِي حَتَّى أَقْفُلَ مِنْ غَزْوَتِي أَنْ أَسْأَلَ عَنْهَا عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، إِنْ وَجَدْتُهُ حَيًّا فِي مَسْجِدِ قَوْمِهِ، فَقَفَلْتُ، فَأَهْلَلْتُ بِحَجَّةٍ أَوْ بِعُمْرَةٍ، ثُمَّ سِرْتُ حَتَّى قَدِمْتُ المَدِينَةَ، فَأَتَيْتُ بَنِي سَالِمٍ، فَإِذَا عِتْبَانُ شَيْخٌ أَعْمَى يُصَلِّي لِقَوْمِهِ، فَلَمَّا سَلَّمَ مِنَ الصَّلاَةِ سَلَّمْتُ عَلَيْهِ وَأَخْبَرْتُهُ مَنْ أَنَا، ثُمَّ سَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ الحَدِيثِ، فَحَدَّثَنِيهِ كَمَا حَدَّثَنِيهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ.
محمود نے کہا کہ میں نے عتبان بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ سے سنا جو بدر کی لڑائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے، وہ کہتے تھے کہ میں اپنی قوم بن ی سالم کو نماز پڑھایا کرتا تھامیرے ( گھر ) اور قوم کی مسجدکے بیچ میں ایک نالہ تھا، اور جب بارش ہوتی تو اسے پار کر کے مسجد تک پہنچنا میرے لیے مشکل ہو جاتا تھا۔ چنانچہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے میں نے کہا کہ میری آنکھیں خراب ہوگئی ہیں اور ایک نالہ ہے جو میرے اور میری قوم کے درمیان پڑتا ہے، وہ بارش کے دنوں میں بہنے لگ جاتا ہے اور میرے لیے اس کا پار کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ میری یہ خواہش ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاکر میرے گھر کسی جگہ نماز پڑھ دیں تاکہ میں اسے اپنے لیے نماز پڑھنے کی جگہ مقرر کرلوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہاری یہ خواہش جلد ہی پوری کر وں گا۔ پھر دوسرے ہی دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر صبح تشریف لے آئے اور آپ نے اجازت چاہی اور میں نے اجازت دے دی۔ آپ تشریف لا کر بیٹھے بھی نہیں بلکہ پوچھا کہ تم اپنے گھر میں کس جگہ میرے لیے نماز پڑھنا پسند کروگے۔ میں جس جگہ کو نماز پڑھنے کے لیے پسند کر چکا تھا اس کی طرف میں نے اشارہ کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کھڑے ہو کر تکبیر تحریمہ کہی اور ہم سب نے آپ کے پیچھے صف باندھ لی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی پھر سلام پھیر ا۔ ہم نے بھی آپ کے ساتھ سلام پھیرا۔ میں نے حلیم کھانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روک لیا جو تیار ہو رہاتھا۔ محلہ والوں نے جو سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف فرما ہیں تو لوگ جلدی جلدی جمع ہونے شروع ہو گئے اور گھر میں ایک خاصا مجمع ہو گیا۔ ان میں سے ایک شخص بولا۔ مالک کو کیا ہو گیا ہے! یہاں دکھائی نہیں دیتا۔ اس پر دوسرا بولاوہ تو منافق ہے۔ اسے خدا اور رسول سے محبت نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا۔ ایسا مت کہو، دیکھتے نہیں کہ وہ لاالہ الا اللہ پڑھتا ہے اور اس سے اس کا مقصد اللہ تعالی کی خوشنودی ہے۔ تب وہ کہنے لگا کہ ( اصل حال ) تو اللہ اور رسول کو معلوم ہے۔ لیکن واللہ! ہم تو ان کی بات چیت اور میل جول ظاہر میں منافقوں ہی سے دیکھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن اللہ تعالی نے ہر اس آدمی پر دوزخ حرام کر دی ہے جس نے لا الہ الا اللہ خدا کی رضا اور خوشنودی کے لیے کہہ لیا۔ محمود بن ربیع نے بیان کیا کہ میں نے یہ حدیث ایک ایسی جگہ میں بیان کی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور صحابی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ یہ روم کے اس جہاد کا ذکر ہے جس میں آپ کی موت واقع ہوئی تھی۔ فوج کے سردار یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ تھے۔ ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے اس حدیث سے انکار کیا اور فرمایا کہ خدا کی قسم! میںنہیں سمجھتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی بات کبھی بھی کہی ہو۔ آپ کی یہ گفتگو مجھ کو بہت ناگوار گزری اور میں نے اللہ تعالی کی منت مانی کہ اگر میں اس جہاد سے سلامتی کے ساتھ لوٹا تو واپسی پر اس حدیث کے بارے میں عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ سے ضرور پوچھوں گا۔ اگر میں نے انہیں ان کی قوم کی مسجد میں زندہ پایا۔ آخر میں جہاد سے واپس ہوا۔ پہلے تومیں نے حج اور عمرہ کا احرام باندھا پھر جب مدینہ واپسی ہوئی تو میں قبیلہ بن و سالم میں آیا۔ حضرت عتبان رضی اللہ عنہ جو بوڑھے اور نابینا ہوگئے تھے، اپنی قوم کونماز پڑھاتے ہوئے ملے۔ سلام پھیرنے کے بعد میں نے حاضر ہوکر آپ کو سلام کیا اور بتلایا کہ میں فلاں ہوں۔ پھر میں نے اس حدیث کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے مجھ سے اس مرتبہ بھی اس طرح یہ حدیث بیان کی جس طرح پہلے بیان کی تھی۔
‌صحيح البخاري: كِتَابُ التَّهَجُّدِ (بَابُ صَلاَةِ النَّوَافِلِ جَمَاعَةً)
صحیح بخاری: کتاب: تہجد کا بیان (باب: نفل نمازیں جماعت سے پڑھنا)

یہاں سے باسند ثابت ہوتا ہے کہ قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والے اس لشکر کے سپہ سالار یزید ؒ بن معاویہ ﷛ تھے۔
تو جناب یزید ؒ بن معاویہ ﷛ کا قسطنطنیہ پر حملہ آور ہونے والے لشکر میں شامل ہونا ہی نہی،بلکہ اس کا سپہ سالار ہونا ثابت ہو گیا۔


اب اگر آپ کا اگلا مدعا یہ ہو کہ یہ پہلا لشکر نہیں تھا، تو آپ وہ لشکر ثابت کیجئے، جو اس سے قبل قسطنطنیہ پر حملہ آور ہو اہو!
یاد رہے کہ قسطنطنیہ پر حملہ آور ہوا ہو، صرف قسطنطنیہ کی طرف روانا ہونا کفایت نہیں کرے گا!​
 
Last edited:

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
178
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

کہا تو آپ نے اپنے آپ کو طالب علم ہے، اور سوال کے جوابات کا خواہاں کہا ہے، لیکن یہ سوال نہیں بلکہ دعوی ہے!
اور آپ کا یہ دعوی باطل ہے، یزید ؒ بن معاویہ ﷛ کا جنگ قسطنطنیہ میں شرکت کرنا بالکل باسند صحیح ومقبول ثابت ہے، اور نہ صرف شرکت کرنا ثابت ہے، بلکہ لشکر قسطنطنیہ کا سپہ سالار ہونا ثابت ہے۔
ملاحظہ فرمائیں:

حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ يَزِيدَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، أَنَّ عُمَيْرَ بْنَ الأَسْوَدِ العَنْسِيَّ، حَدَّثَهُ - أَنَّهُ أَتَى عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ وَهُوَ نَازِلٌ فِي سَاحَةِ حِمْصَ وَهُوَ فِي بِنَاءٍ لَهُ، وَمَعَهُ أُمُّ حَرَامٍ - قَالَ: عُمَيْرٌ، فَحَدَّثَتْنَا أُمُّ حَرَامٍ: أَنَّهَا سَمِعَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ البَحْرَ قَدْ أَوْجَبُوا»، قَالَتْ أُمُّ حَرَامٍ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا فِيهِمْ؟ قَالَ: «أَنْتِ فِيهِمْ»، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ»، فَقُلْتُ: أَنَا فِيهِمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «لاَ»
ہم سے اسحاق بن یزید دمشقی نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ بن حمزہ نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے ثوربن یزید نے بیان کیا ، ان سے خالد بن معدان نے اور ان سے عمیر بن اسود عنسی نے بیان کیا کہ وہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ آپ کا قیام ساحل حمص پر اپنے ہی ایک مکان میں تھا اور آپ کے ساتھ ( آپ کی بیوی) ام حرام رضی اللہ عنہا بھی تھیں ۔ عمیر نے بیان کیا کہ ہم سے ام حرام رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میری امت کا سب سے پہلا لشکر جو دریائی سفر کر کے جہاد کے لیے جائے گا ، اس نے ( اپنے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت ) واجب کر لی ۔ ام حرام رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے کہا تھا یا رسول اللہ ! کیا میں بھی ان کے ساتھ ہوں گی ؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں ، تم بھی ان کے ساتھ ہو گی ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے پہلا لشکر میری امت کا جو قیصر (رومیوں کے بادشاہ ) کے شہر ( قسطنطنیہ ) پر چڑھائی کرے گا ان کی مغفرت ہو گی ۔ میں نے کہا میں بھی ان کے ساتھ ہوں گی یا رسول اللہ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں ۔
صحيح البخاري: كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ (بَابُ مَا قِيلَ فِي قِتَالِ الرُّومِ)
صحیح بخاری: کتاب: جہاد کا بیان (باب : نصاریٰ سے لڑنے کی فضیلت کا بیان)

یہ ہے با سند صحیح حدیث جس کی رو سے مدینہ قیصر (جو بوقت لشکر کشی قسطنطنیہ تھا) پرحملہ کرنے والا اول لشکر والا مغفور ہوگا، یعنی کہ ان کے لئے جنت کی بشارت ہے۔
اب دیکھتے ہیں قسطنطنیہ پر کو سا لشکر حملہ آوار ہوا!


حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ وَابْنِ لَهِيعَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَسْلَمَ أَبِي عِمْرَانَ، قَالَ: غَزَوْنَا مِنَ الْمَدِينَةِ نُرِيدُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ، وَعَلَى الْجَمَاعَةِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ، وَالرُّومُ مُلْصِقُو ظُهُورِهِمْ بِحَائِطِ الْمَدِينَةِ، فَحَمَلَ رَجُلٌ عَلَى الْعَدُوِّ، فَقَالَ النَّاسُ: مَهْ مَهْ! لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، يُلْقِي بِيَدَيْهِ إِلَى التَّهْلُكَةِ! فَقَالَ أَبُو أَيُّوبَ: إِنَّمَا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فِينَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، لَمَّا نَصَرَ اللَّهُ نَبِيَّهُ، وَأَظْهَرَ الْإِسْلَامَ، قُلْنَا: هَلُمَّ نُقِيمُ فِي أَمْوَالِنَا وَنُصْلِحُهَا! فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: {وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ} [البقرة: 195]، فَالْإِلْقَاءُ بِالْأَيْدِي إِلَى التَّهْلُكَةِ أَنْ نُقِيمَ فِي أَمْوَالِنَا، وَنُصْلِحَهَا، وَنَدَعَ الْجِهَادَ. قَالَ أَبُو عِمْرَانَ: فَلَمْ يَزَلْ أَبُو أَيُّوبَ يُجَاهِدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، حَتَّى دُفِنَ بِالْقُسْطَنْطِينِيَّةِ.

جناب اسلم‘ابو عمران بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ مدینہ منورہ سے جہاد کے لیے روانہ ہوئے ، ہم قسطنطنیہ (استنبول) جانا چاہتے تھے اور جناب عبدالرحمٰن بن خالد بن ولید ہمارے امیر جماعت تھے ۔ رومی لوگ اپنی پشت فصیل شہر کی طرف کیے ہمارے مدمقابل تھے ۔ مسلمانوں میں سے ایک شخص نے دشمن پر ہلہ بول دیا تو لوگوں نے کہا : رکو ، ٹھہرو ! «لا إله إلا الله» یہ شخص اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالتا ہے تو سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ آیت ہم انصاریوں ہی کے بارے میں نازل ہوئی تھی ۔ جب اللہ ذوالجلال نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت فرمائی اور اسلام کو غالب کر دیا تو ہم نے کہا : چلو اب ذرا اپنے اموال و جائیداد میں رک جائیں اور ان کو درست کر لیں ، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ” اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ “ ہلاکت میں ڈالنا یہ تھا کہ ہم اپنے مالوں میں رک جائیں ، ان کی اصلاح میں مشغول ہو جائیں اور جہاد چھوڑ دیں ۔ ابو عمران نے کہا : چنانچہ ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے رہے ، حتیٰ کہ قسطنطنیہ (استنبول ) ہی میں دفن ہوئے ۔
سنن أبي داؤد: كِتَابُ الْجِهَادِ (بَابٌ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: {وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ}[البقرة: 195])
سنن ابو داؤد: کتاب: جہاد کے مسائل (باب: آیت کریمہ «ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة» ” اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو “ کی تفسیر)

اس سے باسند قسطنطنیہ پر حملہ ثابت ہوتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ قسطنطنیہ پر حملہ آور لشکر میں شامل تھے، اور وہیں ان کی وفات ہوئی!
اب دیکھتے ہیں کہ سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ والے اس لشکر کے بارے میں دیکھتے ہیں:

حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَحْمُودُ بْنُ الرَّبِيعِ الأَنْصَارِيُّ: أَنَّهُ عَقَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَقَلَ مَجَّةً مَجَّهَا فِي وَجْهِهِ مِنْ بِئْرٍ كَانَتْ فِي دَارِهِمْ،
ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہمارے باپ ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ا بن شہاب نے کہا کہ مجھے محمود بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یاد ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ کلی بھی یاد ہے جو آپ نے ان کے گھر کے کنویں سے پانی لے کر ان کے منہ میں کی تھی۔
‌صحيح البخاري: كِتَابُ التَّهَجُّدِ (بَابُ صَلاَةِ النَّوَافِلِ جَمَاعَةً)
صحیح بخاری: کتاب: تہجد کا بیان (باب: نفل نمازیں جماعت سے پڑھنا)
(اسی سند سے مزیدروایت ہے)
فَزَعَمَ مَحْمُودٌ، أَنَّهُ سَمِعَ عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ الأَنْصارِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - وَكَانَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يَقُولُ: كُنْتُ أُصَلِّي لِقَوْمِي بِبَنِي سَالِمٍ وَكَانَ يَحُولُ بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ وَادٍ إِذَا جَاءَتِ الأَمْطَارُ، فَيَشُقُّ عَلَيَّ اجْتِيَازُهُ قِبَلَ مَسْجِدِهِمْ، فَجِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ لَهُ: إِنِّي أَنْكَرْتُ بَصَرِي، وَإِنَّ الوَادِيَ الَّذِي بَيْنِي وَبَيْنَ قَوْمِي يَسِيلُ إِذَا جَاءَتِ الأَمْطَارُ، فَيَشُقُّ عَلَيَّ اجْتِيَازُهُ، فَوَدِدْتُ أَنَّكَ تَأْتِي فَتُصَلِّي مِنْ بَيْتِي مَكَانًا، أَتَّخِذُهُ مُصَلًّى، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «سَأَفْعَلُ» فَغَدَا عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بَعْدَ مَا اشْتَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَذِنْتُ لَهُ فَلَمْ يَجْلِسْ حَتَّى قَالَ: «أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ مِنْ بَيْتِكَ؟» فَأَشَرْتُ لَهُ إِلَى المَكَانِ الَّذِي أُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ فِيهِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَبَّرَ، وَصَفَفْنَا [ص:60] وَرَاءَهُ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ وَسَلَّمْنَا حِينَ سَلَّمَ، فَحَبَسْتُهُ عَلَى خَزِيرٍ يُصْنَعُ لَهُ، فَسَمِعَ أَهْلُ الدَّارِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي، فَثَابَ رِجَالٌ مِنْهُمْ حَتَّى كَثُرَ الرِّجَالُ فِي البَيْتِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ: مَا فَعَلَ مَالِكٌ؟ لاَ أَرَاهُ. فَقَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ: ذَاكَ مُنَافِقٌ لاَ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لاَ تَقُلْ ذَاكَ أَلاَ تَرَاهُ قَالَ: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ "، فَقَالَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، أَمَّا نَحْنُ، فَوَ اللَّهِ لاَ نَرَى وُدَّهُ وَلاَ حَدِيثَهُ إِلَّا إِلَى المُنَافِقِينَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَى النَّارِ مَنْ قَالَ: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ " قَالَ مَحْمُودُ بْنُ الرَّبِيعِ: فَحَدَّثْتُهَا قَوْمًا فِيهِمْ أَبُو أَيُّوبَ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَتِهِ الَّتِي تُوُفِّيَ فِيهَا، وَيَزِيدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ عَلَيْهِمْ بِأَرْضِ الرُّومِ، فَأَنْكَرَهَا عَلَيَّ أَبُو أَيُّوبَ، قَالَ: وَاللَّهِ مَا أَظُنُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَا قُلْتَ قَطُّ، فَكَبُرَ ذَلِكَ عَلَيَّ، فَجَعَلْتُ لِلَّهِ عَلَيَّ إِنْ سَلَّمَنِي حَتَّى أَقْفُلَ مِنْ غَزْوَتِي أَنْ أَسْأَلَ عَنْهَا عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، إِنْ وَجَدْتُهُ حَيًّا فِي مَسْجِدِ قَوْمِهِ، فَقَفَلْتُ، فَأَهْلَلْتُ بِحَجَّةٍ أَوْ بِعُمْرَةٍ، ثُمَّ سِرْتُ حَتَّى قَدِمْتُ المَدِينَةَ، فَأَتَيْتُ بَنِي سَالِمٍ، فَإِذَا عِتْبَانُ شَيْخٌ أَعْمَى يُصَلِّي لِقَوْمِهِ، فَلَمَّا سَلَّمَ مِنَ الصَّلاَةِ سَلَّمْتُ عَلَيْهِ وَأَخْبَرْتُهُ مَنْ أَنَا، ثُمَّ سَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ الحَدِيثِ، فَحَدَّثَنِيهِ كَمَا حَدَّثَنِيهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ.
محمود نے کہا کہ میں نے عتبان بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ سے سنا جو بدر کی لڑائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے، وہ کہتے تھے کہ میں اپنی قوم بن ی سالم کو نماز پڑھایا کرتا تھامیرے ( گھر ) اور قوم کی مسجدکے بیچ میں ایک نالہ تھا، اور جب بارش ہوتی تو اسے پار کر کے مسجد تک پہنچنا میرے لیے مشکل ہو جاتا تھا۔ چنانچہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے میں نے کہا کہ میری آنکھیں خراب ہوگئی ہیں اور ایک نالہ ہے جو میرے اور میری قوم کے درمیان پڑتا ہے، وہ بارش کے دنوں میں بہنے لگ جاتا ہے اور میرے لیے اس کا پار کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ میری یہ خواہش ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاکر میرے گھر کسی جگہ نماز پڑھ دیں تاکہ میں اسے اپنے لیے نماز پڑھنے کی جگہ مقرر کرلوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہاری یہ خواہش جلد ہی پوری کر وں گا۔ پھر دوسرے ہی دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر صبح تشریف لے آئے اور آپ نے اجازت چاہی اور میں نے اجازت دے دی۔ آپ تشریف لا کر بیٹھے بھی نہیں بلکہ پوچھا کہ تم اپنے گھر میں کس جگہ میرے لیے نماز پڑھنا پسند کروگے۔ میں جس جگہ کو نماز پڑھنے کے لیے پسند کر چکا تھا اس کی طرف میں نے اشارہ کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کھڑے ہو کر تکبیر تحریمہ کہی اور ہم سب نے آپ کے پیچھے صف باندھ لی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی پھر سلام پھیر ا۔ ہم نے بھی آپ کے ساتھ سلام پھیرا۔ میں نے حلیم کھانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روک لیا جو تیار ہو رہاتھا۔ محلہ والوں نے جو سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف فرما ہیں تو لوگ جلدی جلدی جمع ہونے شروع ہو گئے اور گھر میں ایک خاصا مجمع ہو گیا۔ ان میں سے ایک شخص بولا۔ مالک کو کیا ہو گیا ہے! یہاں دکھائی نہیں دیتا۔ اس پر دوسرا بولاوہ تو منافق ہے۔ اسے خدا اور رسول سے محبت نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا۔ ایسا مت کہو، دیکھتے نہیں کہ وہ لاالہ الا اللہ پڑھتا ہے اور اس سے اس کا مقصد اللہ تعالی کی خوشنودی ہے۔ تب وہ کہنے لگا کہ ( اصل حال ) تو اللہ اور رسول کو معلوم ہے۔ لیکن واللہ! ہم تو ان کی بات چیت اور میل جول ظاہر میں منافقوں ہی سے دیکھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن اللہ تعالی نے ہر اس آدمی پر دوزخ حرام کر دی ہے جس نے لا الہ الا اللہ خدا کی رضا اور خوشنودی کے لیے کہہ لیا۔ محمود بن ربیع نے بیان کیا کہ میں نے یہ حدیث ایک ایسی جگہ میں بیان کی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور صحابی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ یہ روم کے اس جہاد کا ذکر ہے جس میں آپ کی موت واقع ہوئی تھی۔ فوج کے سردار یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ تھے۔ ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے اس حدیث سے انکار کیا اور فرمایا کہ خدا کی قسم! میںنہیں سمجھتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی بات کبھی بھی کہی ہو۔ آپ کی یہ گفتگو مجھ کو بہت ناگوار گزری اور میں نے اللہ تعالی کی منت مانی کہ اگر میں اس جہاد سے سلامتی کے ساتھ لوٹا تو واپسی پر اس حدیث کے بارے میں عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ سے ضرور پوچھوں گا۔ اگر میں نے انہیں ان کی قوم کی مسجد میں زندہ پایا۔ آخر میں جہاد سے واپس ہوا۔ پہلے تومیں نے حج اور عمرہ کا احرام باندھا پھر جب مدینہ واپسی ہوئی تو میں قبیلہ بن و سالم میں آیا۔ حضرت عتبان رضی اللہ عنہ جو بوڑھے اور نابینا ہوگئے تھے، اپنی قوم کونماز پڑھاتے ہوئے ملے۔ سلام پھیرنے کے بعد میں نے حاضر ہوکر آپ کو سلام کیا اور بتلایا کہ میں فلاں ہوں۔ پھر میں نے اس حدیث کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے مجھ سے اس مرتبہ بھی اس طرح یہ حدیث بیان کی جس طرح پہلے بیان کی تھی۔
‌صحيح البخاري: كِتَابُ التَّهَجُّدِ (بَابُ صَلاَةِ النَّوَافِلِ جَمَاعَةً)
صحیح بخاری: کتاب: تہجد کا بیان (باب: نفل نمازیں جماعت سے پڑھنا)

یہاں سے باسند ثابت ہوتا ہے کہ قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والے اس لشکر کے سپہ سالار یزید ؒ بن معاویہ ﷛ تھے۔
تو جناب یزید ؒ بن معاویہ ﷛ کا قسطنطنیہ پر حملہ آور ہونے والے لشکر میں شامل ہونا ہی نہی،بلکہ اس کا سپہ سالار ہونا ثابت ہو گیا۔


اب اگر آپ کا اگلا مدعا یہ ہو کہ یہ پہلا لشکر نہیں تھا، تو آپ وہ لشکر ثابت کیجئے، جو اس سے قبل قسطنطنیہ پر حملہ آور ہو اہو!
یاد رہے کہ قسطنطنیہ پر حملہ آور ہوا ہو، صرف قسطنطنیہ کی طرف روانا ہونا کفایت نہیں کرے گا!​
السلام علیکم!
اقتباس"
یہ روم کے اس جہاد کا ذکر ہے جس میں آپ کی موت واقع ہوئی تھی۔ فوج کے سردار یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ تھے"۔۔
یہاں پر قسطنطنیہ کا ذکر نہیں ہے روم کا ذکر ہے۔براہِ مہربانی صراحتََا قسطنطنیہ کے نام والی روایت لے کر آئیں کوئی۔۔ باقی بات بعد میں ہوگی کہ پہلا لشکر نہیں تھا دوسرا تھا یا تیسرا تھا وغیرہ وغیرہ۔۔۔
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
یہاں پر قسطنطنیہ کا ذکر نہیں ہے روم کا ذکر ہے۔براہِ مہربانی صراحتََا قسطنطنیہ کے نام والی روایت لے کر آئیں کوئی
بھائی پڑھی بھی ہے اور جائزہ بھی لیا ہے ۔ جب یہ پاکستان میں مہیا بھی نہیں تھی تب ہی پڑھ لی تھی۔
پھر بھی یہ حال ہے :)
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہ روم کے اس جہاد کا ذکر ہے جس میں آپ کی موت واقع ہوئی تھی۔ فوج کے سردار یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ تھے"۔۔
یہاں پر قسطنطنیہ کا ذکر نہیں ہے روم کا ذکر ہے۔براہِ مہربانی صراحتََا قسطنطنیہ کے نام والی روایت لے کر آئیں کوئی۔۔
آپ آنکھیں کھول کر پڑھیں! آپ کو باسند پیش کیا گیا ہے، جس میں قسطنطنیہ کا نام بھی ذکر ہے، کہ سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ کی وفات قسطنطنیہ میں ہوئی!
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ وَابْنِ لَهِيعَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَسْلَمَ أَبِي عِمْرَانَ، قَالَ: غَزَوْنَا مِنَ الْمَدِينَةِ نُرِيدُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ، وَعَلَى الْجَمَاعَةِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ، وَالرُّومُ مُلْصِقُو ظُهُورِهِمْ بِحَائِطِ الْمَدِينَةِ، فَحَمَلَ رَجُلٌ عَلَى الْعَدُوِّ، فَقَالَ النَّاسُ: مَهْ مَهْ! لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، يُلْقِي بِيَدَيْهِ إِلَى التَّهْلُكَةِ! فَقَالَ أَبُو أَيُّوبَ: إِنَّمَا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فِينَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، لَمَّا نَصَرَ اللَّهُ نَبِيَّهُ، وَأَظْهَرَ الْإِسْلَامَ، قُلْنَا: هَلُمَّ نُقِيمُ فِي أَمْوَالِنَا وَنُصْلِحُهَا! فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: {وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ} [البقرة: 195]، فَالْإِلْقَاءُ بِالْأَيْدِي إِلَى التَّهْلُكَةِ أَنْ نُقِيمَ فِي أَمْوَالِنَا، وَنُصْلِحَهَا، وَنَدَعَ الْجِهَادَ. قَالَ أَبُو عِمْرَانَ: فَلَمْ يَزَلْ أَبُو أَيُّوبَ يُجَاهِدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، حَتَّى دُفِنَ بِالْقُسْطَنْطِينِيَّةِ.
جناب اسلم‘ابو عمران بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ مدینہ منورہ سے جہاد کے لیے روانہ ہوئے ، ہم قسطنطنیہ (استنبول) جانا چاہتے تھے اور جناب عبدالرحمٰن بن خالد بن ولید ہمارے امیر جماعت تھے ۔ رومی لوگ اپنی پشت فصیل شہر کی طرف کیے ہمارے مدمقابل تھے ۔ مسلمانوں میں سے ایک شخص نے دشمن پر ہلہ بول دیا تو لوگوں نے کہا : رکو ، ٹھہرو ! «لا إله إلا الله» یہ شخص اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالتا ہے تو سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ آیت ہم انصاریوں ہی کے بارے میں نازل ہوئی تھی ۔ جب اللہ ذوالجلال نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت فرمائی اور اسلام کو غالب کر دیا تو ہم نے کہا : چلو اب ذرا اپنے اموال و جائیداد میں رک جائیں اور ان کو درست کر لیں ، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ” اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ “ ہلاکت میں ڈالنا یہ تھا کہ ہم اپنے مالوں میں رک جائیں ، ان کی اصلاح میں مشغول ہو جائیں اور جہاد چھوڑ دیں ۔ ابو عمران نے کہا : چنانچہ ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے رہے ، حتیٰ کہ قسطنطنیہ (استنبول ) ہی میں دفن ہوئے ۔
سنن أبي داؤد: كِتَابُ الْجِهَادِ (بَابٌ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: {وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ}[البقرة: 195])
سنن ابو داؤد: کتاب: جہاد کے مسائل (باب: آیت کریمہ «ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة» ” اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو “ کی تفسیر)
دوم کہ ویسے بھی نام ہونا لازم نہیں ہوتا، بلکہ وصف ہونا چاہیئے کہ جس سے تعین ہو سکے!
سوم کہ صراحت ایک اعتباری شئی ہے۔
ایسانہ ہو کہ کل کو آپ مطالبہ کردیں کہ Whisky کا نام بتاؤ کہ قرآن و حدیث میں کہ حرام ہے!

باقی بات بعد میں ہوگی کہ پہلا لشکر نہیں تھا دوسرا تھا یا تیسرا تھا وغیرہ وغیرہ۔۔۔
مجھے اندیشہ ہے کہ باقی ہی رہیں گی!
 
Last edited:

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
178
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

آپ آنکھیں کھول کر پڑھیں! آپ کو باسند پیش کیا گیا ہے، جس میں قسطنطنیہ کا نام بھی ذکر ہے، کہ سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ کی وفات قسطنطنیہ میں ہوئی!


دوم کہ ویسے بھی نام ہونا لازم نہیں ہوتا، بلکہ وصف ہونا چاہیئے کہ جس سے تعین ہو سکے!
سوم کہ صراحت ایک اعتباری شئی ہے۔
ایسانہ ہو کہ کل کو آپ مطالبہ کردیں کہ Whisky کا نام بتاؤ کہ قرآن و حدیث میں کہ حرام ہے!


مجھے اندیشہ ہے کہ باقی ہی رہیں گی!
السلام علیکم!
جناب بھائی اس کا جواب میں اب دے دیتا ہوں
نمبر ایک: اس حدیث سے اس بات کی دلیل پکڑی جاتی ہے کہ عبدالرحمٰن بن خالد مدینہ والوں کے امیر تھے تو یہ نہایت عجیب بات ہے، کیا اس بات کی کوئی دلیل ہے کہ عبدالرحمٰن بن خالد مدین میں سکونت پذیر تھے؟ آپ کی بیشتر زندگی اپنے والد کے انتقال کے بعد شام میں گزری اور یہ تو عرب کا دستور تھا کہ ایک جماعت پر امیر وہی بنتا تھا جو اسی علاقے کا رہائشی ہوتا تھا، تو یہ دلیل بالکل کمزور ہے کیونکہ یہاں صراحتََا تو ناصبیوں کے بزرگ کا ذکر ہے ہی نہیں،
نمبر دو۔ اس حدیث میں ذکر ہے کہ قسطنطنیہ پر حملہ کیا گیا، تو میرے بھائی قسطنطنیہ پر حملہ تو سب سے پہلے سلطان محمد فاتح نے کیا تھا ، سب سے پہلے وہ اپنے لشکر کے ساتھ قسطنطنیہ میں داخل ہوا تھا، حدیث میں الفاظ ہیں "چنانچہ ابو ایوب انصاری اللہ کی راہ میں جہاد کرتے رہے ، حتیٰ کہ قسطنطنیہ ہی میں دفن ہوئے۔ تو میرے بھائی ، جب قسطنطنیہ فتح ہی نہیں ہوا تھا تو اس میں کیسے دفن ہو سکتے تھے۔
کسی شہر کی فصیل پر حملہ کرنا اس شہر پر حملہ کرنا کیسے ہوسکتا ہے، اس حدیث میں یا ایسی دوسری احادیث میں کہا ذکر ہے کہ قسطنطنیہ کے اندر داخل ہوئے اور شہر پر حملہ کیا ؟؟؟
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top