سرفراز فیضی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 22، 2011
- پیغامات
- 1,091
- ری ایکشن اسکور
- 3,807
- پوائنٹ
- 376
اہل حدیث کا فقہی مرتبہ ائمہ امت کی نظروں میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روایت کے الفاظ یوں ہیں :"لا تزال طائفۃ من أمتی قائمۃ بأمر اللہ، لا یضرہم من خذلہم أو خالفہم حتی یأتی أمر اللہ وہم ظاہرون علی الناس".
اور ترمذی ( ٢١٩٣) میں معاویہ بن قرۃ عن ابیہ کے طریق سے ایک مرفوع روایت یوں آئی ہے"لا تزال طائفۃ من أمتی منصورین، لا یضرہم من خذلہم حتی تقوم الساعۃ"یعنی میری امت کے ایک گروہ کو ہمیشہ مدد ملتی رہیگی، ان کی رسوائی چاہنے والے ان کا کچھ بگاڑ نہ سکیں گے حتی کہ قیامت قائم ہو جائیگی ۔
ائمہ کرام نے سلسلہ وار بیان کیا ہے کہ ''طائفہ منصورہ'' کے مصداق اہل الحدیث ہیں چناچہ ابو الفتوح الطائی الھمدانی نے کتاب الاربعین (١٦٣ مکتبہ المعارف) میں علماء امت کی ایک بڑی تعداد اور سر بر آوردہ ائمہ کرا م سے نقل کیا ہے جن میں عبد اللہ بن مبارک، احمد بن حنبل ، یزید بن ہارون، ابراہیم بن الحسن دیزیل الھمدانی جیسے لوگ شامل ہیں کہ حدیث میں جس طائفہ کا ذکر ہوا ہے اس سے مراد وہ اصحاب الحدیث یا اہل الاثار ہیں جنہوں نے دین قویم کا منہج اختیار کیا اور سیدھی راہ پر گامزن رہے۔ ان لوگوں نے مضبوط ترین راستے اور صحیح ترین منہج کو پوری طرح سے اپنالیا ۔اب جبکہ اہل الحدیث ہی طائفہ منصورہ ہیں تو اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ وہی لوگ سب سے زیادہ فقیہ ہیں اور انہیں کے اصول تمام اصولوں میں صحیح ترین ہیں کیونکہ یہ چیز مدد یافتہ جماعت کے اجزاء ترکیبی کا حصہ اور لازمہ ہے ۔
اور جولوگ قلت فقہ و فہم کے عنوان سے اہل الحدیث کی عیب جوئی کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنہیں صحیح فقہ کی معرفت حاصل نہیں ہے یا پھر وہ اہل الحدیث سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں یا انہیں تبویبات بخاری، امام احمد بن حنبل کی مسائل ، امام شافعی کی الأم ، بغوی کی شرح السنہ، ابن تیمیہ کا مجموع الفتاوی وغیرہ کتب اہل الحدیث کو پڑھنے کی توفیق نصیب نہیں ہوئی ۔
ہم چاہتے ہیں کہ اس تحریر میں اہل الحدیث کی فقہ اور اصولوں پر ائمہ کے تعریفی کلمات کا ذکر ہو اور ساتھ ہی یہ بات روشنی میں آئے کہ اہل الحدیث کی فقہ کا منبع کیاہے مزید بر آن اسی طریق پر اصولی مسائل کو بھی پیش کردیا جائے۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمارا حشر اہل الحدیث کے ساتھ فرمائے اورہمیں اپنی مرضیات پر چلنے کی توفیق بخشے وہی ہر شئے پر قادر ہے ۔
زکریا بن غلام قادر پاکستانی
اہل الحدیث کی فقہ پر ائمہ کے تعریفی کلمات :
خطیب بغدادی نے کتاب شرف اصحاب الحدیث (٨) میں لکھا ہے کہ
'
بخاری(٦١) اور مسلم (١٥٢٤) میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے سے ایک روایت آئی ہے کہ میری امت کا ایک طبقہ ہر گھڑی اللہ کے حکم پر قائم رہے گا مخالفین اور ان کی رسوائی چاہنے والے انہیں کوئی گزند نہ پہنچا سکیں گے ،یہاںتک کہ اللہ کا حکم آپہنچے گا اور وہ لوگوں پر غالب ہی رہینگے ۔اہل الحدیث کی فقہ و اصول پر شیخ زکریا بن غلام قادر حفظہ اللہ کی منفرد کتاب '' من اصول الفقہ علی منھج اہل الحدیث '' ہماری نظروں سے گذری تو ہم نے مناسب سمجھا کہ اس موضوع کو اردو داں طبقہ میں متعارف کرایا جائے۔ کیونکہ ہمارے یہاں بھی متعصب مقلدین کا ایک طبقہ ایسا ہے جو عوامی سطح پر حدیث اور اہل حدیث کے خلاف نفرت پھیلانے کا کام انجام دے رہا اور زبان تشنیع کی درازی کا عالم یہ ہیکہ حدیث رسول کو فتنہ ، آگ ، جنگل اور سیدالفقہاء امام بخاری سمیت تمام محدیثین کو دوا فروش عطاروں کی طرح فقہ و فراست سے عاری قرار دینے سے بھی نہیں شرماتا۔ لہذا ہم نے اپنے فاضل دوست جناب شعبان بیدار صفوی سے اس کتاب کے ترجمہ کی درخواست کی جسے انہوں نے بلا تردد قبول فرمالیا ۔ زیر نظر مضمون اسی کتاب کا مقدمہ ہے ۔اگر اللہ کی توفیق ساتھ رہی تو یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہے گا۔سرفراز فیضی۔
روایت کے الفاظ یوں ہیں :"لا تزال طائفۃ من أمتی قائمۃ بأمر اللہ، لا یضرہم من خذلہم أو خالفہم حتی یأتی أمر اللہ وہم ظاہرون علی الناس".
اور ترمذی ( ٢١٩٣) میں معاویہ بن قرۃ عن ابیہ کے طریق سے ایک مرفوع روایت یوں آئی ہے"لا تزال طائفۃ من أمتی منصورین، لا یضرہم من خذلہم حتی تقوم الساعۃ"یعنی میری امت کے ایک گروہ کو ہمیشہ مدد ملتی رہیگی، ان کی رسوائی چاہنے والے ان کا کچھ بگاڑ نہ سکیں گے حتی کہ قیامت قائم ہو جائیگی ۔
ائمہ کرام نے سلسلہ وار بیان کیا ہے کہ ''طائفہ منصورہ'' کے مصداق اہل الحدیث ہیں چناچہ ابو الفتوح الطائی الھمدانی نے کتاب الاربعین (١٦٣ مکتبہ المعارف) میں علماء امت کی ایک بڑی تعداد اور سر بر آوردہ ائمہ کرا م سے نقل کیا ہے جن میں عبد اللہ بن مبارک، احمد بن حنبل ، یزید بن ہارون، ابراہیم بن الحسن دیزیل الھمدانی جیسے لوگ شامل ہیں کہ حدیث میں جس طائفہ کا ذکر ہوا ہے اس سے مراد وہ اصحاب الحدیث یا اہل الاثار ہیں جنہوں نے دین قویم کا منہج اختیار کیا اور سیدھی راہ پر گامزن رہے۔ ان لوگوں نے مضبوط ترین راستے اور صحیح ترین منہج کو پوری طرح سے اپنالیا ۔اب جبکہ اہل الحدیث ہی طائفہ منصورہ ہیں تو اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ وہی لوگ سب سے زیادہ فقیہ ہیں اور انہیں کے اصول تمام اصولوں میں صحیح ترین ہیں کیونکہ یہ چیز مدد یافتہ جماعت کے اجزاء ترکیبی کا حصہ اور لازمہ ہے ۔
اور جولوگ قلت فقہ و فہم کے عنوان سے اہل الحدیث کی عیب جوئی کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنہیں صحیح فقہ کی معرفت حاصل نہیں ہے یا پھر وہ اہل الحدیث سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں یا انہیں تبویبات بخاری، امام احمد بن حنبل کی مسائل ، امام شافعی کی الأم ، بغوی کی شرح السنہ، ابن تیمیہ کا مجموع الفتاوی وغیرہ کتب اہل الحدیث کو پڑھنے کی توفیق نصیب نہیں ہوئی ۔
ہم چاہتے ہیں کہ اس تحریر میں اہل الحدیث کی فقہ اور اصولوں پر ائمہ کے تعریفی کلمات کا ذکر ہو اور ساتھ ہی یہ بات روشنی میں آئے کہ اہل الحدیث کی فقہ کا منبع کیاہے مزید بر آن اسی طریق پر اصولی مسائل کو بھی پیش کردیا جائے۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمارا حشر اہل الحدیث کے ساتھ فرمائے اورہمیں اپنی مرضیات پر چلنے کی توفیق بخشے وہی ہر شئے پر قادر ہے ۔
زکریا بن غلام قادر پاکستانی
اہل الحدیث کی فقہ پر ائمہ کے تعریفی کلمات :
خطیب بغدادی نے کتاب شرف اصحاب الحدیث (٨) میں لکھا ہے کہ
'' اللہ نے اہل الحدیث کو شریعت کا رکن بنایا ان کے ذریعہ ہر گندی بدعت کو پست کردیا وہ مخلوق کے درمیان اس کے امین اور دیانت دار بندے ہیں اور نبی ؐ اور امت کے مابین واسطہ ،یہ وہ لوگ ہیں جو ملت رسول کی حفاظت میں سر گرداں رہتے ہیں ان کے یہاں سے نور ابلتا ہے ، فضیلتیں بکھری پڑ ی ہیں ، ان کی علامتیں روشن ، مسالک ظاہر اور دلیلیں غالب ہیں ان کے علاوہ ہر گروہ کے یہاں ایک خواہش پلی ہوئی ہے جس کی طرف وہ رجوع کرتے ہیں یا کوئی رائے پسند کر کے اس پر جمے رہتے ہیں لیکن اہل الحدیث کی کل متاع اللہ کی کتاب ہے ، سنت ان کی دلیل اور رسول ؐ ان کی جماعت ہیں ، ان کی نسبت بھی انہیں کی طرف ہے یہ نہ خواہشات کا رخ کرتے ہیں اور نہ خیالات کی جانب توجہ ، ان کی روایتیں قبول کی جاتی ہیں کیونکہ اس باب میں یہ بڑے امانت دار ہیں یہ دین کے محافظ اور نگراں ، علم کے برتن اورحامل ہیں ۔''
مزید فرمایا (ص۔١٠):''کسی حدیث میں اختلاف ہوجائے تو انہیں سے رجوع کیا جاتا ہے پھر جس چیز کا یہ فیصلہ کر دیں وہی تسلیم شدہ ہے اس جماعت کا ہر عالم فقیہ، بلند مرتبہ امام، قبیلے کا زاہد ، کسی نہ کسی فضیلت سے بہرہ ور ، عمدہ اور بہترین خطیب ہے، یہی لوگ ہیں جنہیں جمہور کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے اور انہیں کا راستہ سیدھا راستہ ہے یہی وجہ ہے کہ ہر بدعتی زبان سے انہیں کا عقیدہ ظاہر کرتا ہے ، ان کے مسلک و منہج کے خلاف پوری و ضاحت کے ساتھ کوئی رائے دینے کی جرات نہیں ہوتی، ان کے ساتھ مکر کرنے والوں کو اللہ نے تہس نہس کردیا عناد کرنے والے ذلیل ہوگئے ،ان کو رسوا کرنے والے کوئی نقصان پہنچانے میں ناکام رہے ،ان سے قطع تعلق کرنے والے فائز المرام نہ ہوسکے ، دینی احتیاط کا حامل ہر فرد ان کی رہنمائی کا محتاج ہے ، ان پر ترچھی نظر رکھنے والوں کی نگاہیں در ماندہ رہیں دراصل اللہ ان کی مدد پر قادر ہے ۔ ''
ابن قتیبہ نے تاویل مختلف الحدیث (٥١) میں فرمایا :''اللہ نے طائفہ منصورہ کو دین کا سپاہی بنایا ، آثار صحابہ و تابعین کی پیروی اور شریعت پر قائم رہنے کے سبب معاندین کا مکر و کید اُن سے ہٹادیا ، بے آب و گیاہ میدانوں ، وحشت ناک جنگلوں میں شرع محمدی کا چراغ لئے سر گرم سفر رہنا ،آثار وسنن یاد کرنا ان کی فطری شان ہے وہ کسی رائے اور خواہش کی سمت نظر بھی نہیں ڈالتے ، انہوں نے شرع الٰہی کو قول و عمل بہر طور قبول کیا، حفظ و کتابت کے حوالے سے سنت رسول کی پہرے داری کی یہاں تک کہ اس کی جڑ جمادی دراصل وہ اس کام کے اہل اور حقدار بھی تھے ۔''
'
اور ابن حبان نے صحیح ابن حبان کے مقدمہ میں (١۔٣٤) یو ں لکھا ہے :' اصحاب الحدیث کا معاملہ یہ ہے کہ انہوں نے حق کو طریقہ حق سے تلاشااور اس کے مراکز کو چھان مارا ، سنت رسول کی اتباع ، بحر وبر اور مشرق و مغرب میں آثارو پیمبر کی طلب نے انہیں اللہ سے قریب تر کردیا ان کا ایک ایک فرد ایک ایک خبر اور سنت کی خاطر پا پیادہ سفر کرتا ہے اور اس کے ناقل سے مباشرۃِ اخذ کرتا ہے وہ بہ تسلسل روایتوں کی چھان پھٹک اور تلاش و جستجومیں سر گرم عمل رہے یہاں تک صحیح وضعیف اور ناسخ و منسوخ کو الگ کر کے چھوڑا اور فقہائے اہل الرائے میں سے مخالفین سنت کو ان کے عمل پر متنبہ کیا چنانچہ بکھری ہوئی چیز یں مرتب ہو گئیں ۔بوسیدہ چیزیں تروتازہ اور متفرق چیزیں اکھٹا ہوگئیں ، نتیجہ یہ ہوا کہ سنت سے اعراض کرنے والا اس کا تابع ہو ااور غفلت برتنے والے محتاط ہوگئے ۔''
'' پھر اللہ تعالی نے اپنے نمائندہ بندوں میں سے ایک جماعت کو منتخب کرلیا اور انہیں اپنی اطاعت کی توفیق سے نوازا آثار و سنن کی پیروی اور صالحین کے راستے سے لگاؤ بخشا، ان کے دلوں کو ایمان سے آراستہ کیا، انہوں نے سنت رسول کو جمع کرنے خواہشات بدکو مسترد کرنے، رائے سے دور ہوکر تفقہ فی الحدیث حاصل کرنے کی خاطر اہل وعیال سے جدائی کو گوارا کیا ۔ ، اور سفر و سیاحت کی مشقتوں کوجھیلا جس کے نتیجے میں اللہ نے اپنے نبی کی سنت کے پیروکاروں اور اپنے دین کے قافلہ سالاروں کا پتہ ان کی زبانوں سے دلوایا۔''
اور سمعانی نے کہا جیسا کہ صون المنطق (١٦٥۔١٦٧) میں ہے:''یہ ایسی جماعت تھی جس نے سب کچھ چھوڑ کر طلب حدیث میں جانفشانی کی، اس کی خاطر اسفار کئے اسے لکھ کر محفوظ کیا اس کی دریافت کی ، اسے مضبوط کیا ،مذاکرے کئے، اسے پھیلایا اور اس کی فقہ میں کمال حاصل کیا اور اس کی بنیادوں کو پختہ کیا ، اس پر تفریعات میں مشغول ہوئے اور حمایت میں سر گرم رہے ، مرسل کو متصل سے، موقوف کو منفصل سے، ناسخ کو منسوخ سے ، محکم کو مفسوخ سے، اور مفسر کو مجمل سے الگ کیا مستعمل اور مہمل ، عام اور خاص ، دلیل اور منصوص ،مباح اور مزجور (ناجائز) میں فرق کیا غریب ،مشہور، عرض، ارشاد، حتم ابعاد سب کو چھان پھٹک کر نمایاں کردیا۔ عدول کو مجروحین اور ضعفاء کو متروکین کی صف سے الگ کھڑا کیا ،معمول کی کیفیت بتلائی اور مجہول کو واضح کردیا۔یہاں تک ان کے ذریعہ دین مسلمانوں کیلئے محفوظ ہوگیا اور سب و شتم کرنے والے عیب جو ناکام رہ گئے انہیں اللہ نے تنازعات میں ائمہ ھدیٰ کے مقام سے نوازا اور پرُ فتن حالات میں چراغ ظلمت کا رول بخشا وہی لوگ انبیاء کے حقیقی وارث ہیں،متقیوں کی جائے پناہ ، صوفیوں کے لئے مقام انسیت اور ولیوں کا مرجع ہیں ۔''
مزید فرمایا :'' اہل حدیث ہی حق پر ہیں اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اگر آپ ان کی تمام نئی پرانی تصنیف کردہ کتابوں کا مطالعہ کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ان کا طرز بود وباش اور شہر ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ملکی دوریاں ہیں، ہر ایک کسی دور کے ملک کا با شندہ ہے پھر بھی تمام لوگ عقیدہ کے بیان میں ایک ہی منہج اور ایک ہی طرز پر قائم ہیں اس باب میں انہوں نے ایک ہی راہ کا انتخاب کیا ہے نہ کہ کوئی کہیں بھٹکا اور نہ کسی سمت مائل ہوا بس ایک ہی بات ! ایک ہی عمل ۔۔۔۔۔''
اور عبد الحئی لکھنوی نے اپنی کتاب امام الکلام (٢٢٨) میں کہا جو کہ قراء ۃ خلف الامام سے متعلق ہے :'' اہل حدیث کے اتفاق کا سبب یہ ہے کہ انہوں دین کو کتاب و سنت سے اخذکیا اور منہج نقل کی پیروی کی اسی لئے انہیں اتفاق و محبت کی وراثت ہاتھ آئی اور اہل بدعت نے دین کو اخذ کرنے میںمعقولات ( عقل پرستی) اور آراء سے کام لیا اسی لئے وہ افتراق و اختلاف سے دو چار ہوئے ۔ ''
اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ نے کہا جیسا کہ مجموع الفتاوی (٣٤۔١١٣) میں موجود ہے کہ:''جو بھی بنظر انصاف دیکھے گا اور بے شعوری سے بچتے ہوئے فقہ اور اصول فقہ کا پوری باریک بینی سے جائزہ لے گا تو اسے پتہ چلے گا کہ اکثر فروعی اور بنیادی مختلف فیہ مسائل میں محدثین کا نقطہ نظر دوسروں کے بالمقابل زیادہ قوی ہے ۔ اور میرا تو جب جب اختلاف کی وادیوں سے گزرنا ہوا ہے مجھے محدثین کی بات قرین انصاف معلوم ہوئی ہے فللہ درھم ۔ اور ایسا کیوں نہ ہو جب حقیقی معنی میں وہی انبیاء کے وارث اور شریعت محمد ؐ کے سچے نائب ہیں ۔''
اور کتاب علم الحدیث (٤٤) میں فرمایا:'' امام احمد جتنی موافقت امام شافعی اور امام اسحاق کی کرتے ہیں اتنی کسی کی نہیں کرتے دوسروں کی بہ نسبت ان کے اصول بھی ان دونوں بزرگوں کے اصولوں سے زیادہ مشابہت رکھتے ہیں چنانچہ امام احمد ان دونوں کی تعریف و تعظیم کرتے ہیں اور ان کی طرح نہیں ہوتے ایسا اسلئے ہے کہ ان نقطئہ نظر کے مطابق فقھاء محدثین کے اصول دوسروں کے اصول سے زیادہ صحیح ہیں اور امام شافعی و اسحاق رحمہ اللہ ان کے دور میں جلیل القدر فقہاء محدثین میں سے بھی ۔''
اور شیخ الاسلام ہی نے کہا جیسا کہ مجموع الفتاوی (٩٧) میں ہے :'' بعض ائمہ کلام نے اہل الحدیث پر عیب زنی کی ہے اور انہیں قلت فہم کا طعنہ دیا ہے کہ وہ حدیث کے مطالب اور اس کے مفاہیم کی معرفت نہیں رکھتے ، نہ ہی وہ صحیح و ضعیف کی تمیز روا رکھتے ہیں یوںیہ ائمہ کلام اپنی مہارت اور فہم و فراست کی گہرائی کا زعم پالے اہل الحدیث کے مقابلے میں فخر کرتے ہیں ۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض حضرات میں یہ خامیاں پائی جاتی ہیں کہ وہ احادیث موضوعہ ، تخلیق کردہ آثار، و اہی تباہی حکایتوں سے بھی حجت پکڑ لیتے ہیں اور قرآن و حدیث کے حوالے سے وہ چیز یں بھی ذکر کرجاتے ہیں جن کے معانی ان کو معلوم نہیں رہتے مگر یاد رہے دوسروں کی بہ نسبت ان میں یہ بات کم پائی جاتی ہے بلکہ ان کی حالت بہتر ہے جیسا کہ مسلمان قوم دوسری قوموں کے مقابلے میں بہتر ہے چنانچہ جو بھی برائی مسلمانوں میں موجود ہے دوسروں کے اندر کہیں بڑھ چڑھ کر ہے اور جو بھلائی غیروں کے یہاں پائی جاتی ہے وہ مسلمانوں میں اور ہی زیادہ ہے ۔''
اور نقض المنطق میں کہا (٤٢):'' ہر وہ آدمی جو رسول کے کلام، داخلی اور خارجی حالات کا زیادہ عالم ہو اور اس میں اسے پختگی حاصل ہو وہی یہ حق رکھتا ہے کہ رسول کی جانب اس کی خصوصی نسبت ہو اور بلا شبہ اہل الحدیث امت میں سب سے زیادہ عالم ہیں۔ علم رسول سے خصوصی لگاؤ رکھنے والا ان سے بڑھ کر کوئی نہیں۔ مثلا خلفاء راشدین اور تمام عشرہ مبشرہ اسی طرح ابی بن کعب ، عبد اللہ بن مسعود ، معاذ بن جبل، عبد اللہ بن سلام ، سلمان فارسی، ابو درداء ، عبادہ بن صامت، ابو ذر غفاری، عمار بن یاسر، حذیفہ بن یمان ان کے علاوہ سعد بن معاذ ، سعد بن عبادہ، سالم مولی ابی حذیفہ وغیرہ جو رسول کے فیض یافتہ اور آپ کی زیادہ اتباع کرنے والے تھے اور ساتھ ہی آپ کے اندرونی معاملات کا زیادہ علم رکھنے والے تھے ۔''
اور یہ بھی آپ ہی کا قول ہے جیسا کہ مجموع الفتاوی (٣۔٣٤٦) میں ہے کہ :'' اہل کلام اکثر و بیشتر کبھی کچھ کہتے ہیں تو کبھی کچھ ، کبھی تو ایسا ہوگا کہ کسی بات پر پورا حزم و یقین ظاہر کرینگے لیکن لیکن دوسری جگہ اسی کے مخالفت میں رائے دیں گے بلکہ قائل کی تکفیر بھی کر ڈالینگے۔ یہ دراصل ان کے عدم یقین کی دلیل ہے ۔۔۔ رہے اہل سنت تو نہ تو ان کا کوئی عالم ایسا ملے گا اور نہ عام صالح آدمی جو اپنی بات اور اپنے عقیدے سے پچھڑا ہو۔ انہیں اس پر مختلف النوع آلام و مصائب اور قسم قسم کے امتحانات سے کیوں نہ گزرنا پڑے صبر و ضبط کا دامن پکڑنا کوئی ان سے سیکھئے۔ اور یہی معاملہ انبیاء کرام اور انکے سابق پیروکارکا ہے اسی طرح اس امت کے اسلاف عظام ، صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ و تابعین کرام رحمہم اللہ کا بھی یہی حال تھا۔ اور نفس پرستوں میں سے اگر کوئی اپنی بات پر جما ہوا ملے اور اس پر صبر و ضبط کا مظاہرہ کرتا دکھائی دے تو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ اس کے قول میں موجود حق کی خیر و برکت ہے ۔ اس موقع پر یہ اہم بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہر وہ بدعت جس پر لوگوں کی ایک بڑی جماعت عامل ہے رسول کے لائے ہوئے حق کا کچھ حصہ اس کے اندر پایا جانا ضروری ہے۔ اس موجودہ حق کی اہل سنت موافقت بھی کرتے ہیں اسی لئے ان کی بدعت قبول کرلی
جاتی ہے کیونکہ خالص باطل کبھی بھی قبول نہیں کیا جاتا ( خواہ حق کی ملمع کاری ہی کیوں نہ ہو بنام حق کچھ نہ کچھ موجود رہتا ہے ) خلاصہ یہ کہ اہل الحدیث یا اہل السنۃ کے یہاں ثبات و استقرار اہل کلام و فلسفہ کے بالمقابل ہزاروں گنا ہے ۔''
''فرقہ ناجیہ کہلانے کے سب سے زیادہ حقدار اہل السنۃ یا اہل الحدیث ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کا رسول کے سوا کوئی امام و پیشوا انہیں کہ اس کیلئے تعصب کریں ۔لوگوں میں رسول کے اقوال و احوال کا سب سے زیادہ علم انہیں کے پاس ہے ، صحت و ضعف کی تمیز میں کوئی ان سے آگے بڑھ کر کے دکھائے ! حدیثی فہم و فراست کے باب میں ان کا کوئی مقابل نہیں آتا ، حدیث رسول کے معانی ، مطالب تک جو رسائی انہیں ہے وہ کسی اور کو کیا مل سکتی ہے ۔ بات حدیث رسول کی تصدیق کی ہو یا اس پر عمل کی ، محبین سنت سے عقیدت کا معاملہ ہو یا مخالفین سے دشمنی کا ہر ایک میں ان کا الگ ہی مقام ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو تمام مجمل باتوں کو کتاب و سنت کی میزان پر رکھتے ہیں وہ ایسی کسی بات پر نہیں اڑتے جو رسول گرامی سے ثابت نہ ہو اور نہ تو اسے اصول دین اور اپنے مجموعہ کلام میں ہی شامل کرتے ہیں وہ صرف اسی چیز کو بنیاد بناتے ہیں ۔ جسے رسول نے کتاب و حکمت کی شکل میں امت کو دیا اسی پر ان کا عقیدہ ہے اور اسی پر ان کا اعتماد ۔ ''