- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,748
- ری ایکشن اسکور
- 26,379
- پوائنٹ
- 995
اہل حدیث کی دعوت
علامہ احسان الہی ظہیر شہید رحمہ اللہ
خطبہ مسنونہ کے بعد:فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ السَّمِیْعِ الْعَلِیْمِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
حضرات!یٰٓایُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ یٰٓایُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْھَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَھْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ (الحجرات:۱‘۲)
حقیقی بات یہ ہے کہ میں خود بھی انتہائی تھکا ہوا اور میرا جسم اور گلا بھی تھکا ہوا ہے۔ آج ہی میں کراچی سے لاہور پہنچا ہوں۔ کل ساہیوال میں ہمارا جلسہ عام بھی ہے۔اس کے انتظامات کے لئے میں کراچی سے جلدی آگیا تھا۔ رات ہی کو ایک جلسے سے ساڑھے تین بجے کے قریب واپس ہوٹل پہنچا۔ پھر صبح آٹھ بجے کی فلائٹ تھی‘ اس لئے نماز کے بعد سونے کی بھی فرصت نہ ملی۔ ساہیوال کے جلسہ عام کے انتظامات کے لئے دفتر پہنچا کہ اتنی دیر میں خبر آئی کہ ہماری جماعت کے نامور عالم اور خطیب حضرت مولانا حافظ عبد الغفور صاحب کا انتقال ہو گیا ہے۔ وہ جمعیت اہل حدیث پاکستان کے صوبہ پنجاب کے امیر اور ہماری جماعت کے انتہائی نامور بزرگ اور سرکردہ علماء میں سے ایک تھے۔ میرا خیال یہ تھا کہ میں معذرت کر لیتا لیکن مجھے کچھ اس طرح کی آوازیں سنائی دیں کہ جناب ہم احسان الٰہی ظہیر کو اس علاقے میں نہیں آنے دیں گے۔(1) میرا خیال یہ ہے کہ ابھی تلک اہل حدیثوں نے رب کے سوا کسی کو قادر و مختار نہیں سمجھا ہے۔ لاہور میں یہ میرے لئے پہلی دفعہ ایسی بات سننے میں آئی ہے۔
سن لو! ہم نے روز اول سے ایک ہی بات جانی ‘ ایک ہی چیز سمجھی اور ایک ہی چیز پر ایمان رکھا ہے اور وہ یہ ہے کہہم نے اس لاہور میں اللہ کے فضل و کرم سے اٹھارہ سال بتائے ہیں۔ ان اٹھارہ سالوں میں پیپلز پارٹی کی جابرانہ حکومت کو بھی دیکھا ہے اور یحییٰ خان کے دور کو بھی دیکھا ہے۔ ایوب خان کا دور بھی دیکھا ہے اور اب ضیاء الحق کا دور بھی دیکھ رہے ہیں۔ کم از کم ہم فقیروں کے بارے میں کبھی کسی کو یہ کہنے کی جرات نہیں ہوئی ہے کہ وہ ہماری قسمت اور ہمارے مقدر کا مالک ہے۔
اس لحاظ سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے لئے غنڈہ گردی کی بات کبھی بھی شریفانہ بات نہیں ہوتی ہے۔ کسی کو کسی مسئلے پر اختلاف ہو ‘ مسئلے سے اختلاف رکھنے والے کا حق ہے کہ شریفانہ طور پر اختلاف کرے۔ بیان کرنے والا بھی شریفانہ طور پر کرے لیکن یہ کسی کو حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ یہ کہے کہ اس کی مرضی کے مطابق بات کی جائے وگرنہ بات نہ کی جائے۔لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ یُحْیٖی وَیُمِیْتُ۔ (الاعراف:۱۵۸)
کائنات میں کوئی ایسی ہستی نہیں ہے جو کسی کی موت و حیات کی مالک ہو۔ موت و حیات کا مالک اگر ہے تو صرف رب ذوالجلال ہے۔
سن لو!
میں صرف ایک بات کہنا چاہتا ہوں اور وہ بات یہ ہے کہ اہل حدیث کے نزدیک صرف وہ بات کرنی چاہئے جو رب کی رضا کے مطابق ہو‘ صرف وہ بات کرنی چاہئے جو محمدﷺ کے فرمان کے مطابق ہو۔ کوئی بات کہنے والا کتنا بڑا کیوں نہ ہو‘ اگر رب کے قرآن میں نہیں ہے‘ محمد ﷺ کے فرمان میں نہیں ہے کعبے کے رب کی قسم اسے مارشل لاء کی تائید حاصل ہو‘ ساری کائنات اسے مان لے اہل حدیث کا فرزند اسے ماننے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کتاب و سنت اور اس کی دعوت اللہ کے فضل و کرم سے ہماری دعوت ہے۔ کوئی شخص اگر ہم سے کتاب و سنت کے بارے میں مباحثہ کرنا چاہے ہم اس کے ساتھ مباحثے کے لئے تیار ہیں لیکن کسی بھی وقت آدمی کو شریفانہ طرز عمل نہیں چھوڑنا چاہئے۔
اسلام کے اندر دھمکی دینا جائز ہے نہ کسی کو دھمکانا جائز ہے۔ ہاں مسائل پہ اختلاف ہوتا ہے ۔ ہم بھی اختلاف کرتے ہیں‘ لوگوں کو بھی حق ہے کہ ہم سے اختلاف کریں۔ جس کے اندر اختلاف برداشت کرنے کا مادہ موجود نہ ہو اس کو پہلے اختلاف کی بات نہ کرنی چاہئے۔
میں یہ کہتا ہوں‘ سن لو !ہماری دعوت بالکل واضح اور صاف دعوت ہے اور ہم پوری کائنات کو ایک بات سنانا چاہتے ہیں۔ کئی میرے احباب میرے دوست ایسے ہوں گے جو مسلک اہل حدیث سے وابستہ نہ ہوں گے‘ مجھے ان سے بھی کوئی اختلاف نہیں۔ کئی ایسے لوگ ہوں گے جو مسلک اہل حدیث سے وابستہ ہیں میں ان سے بھی کوئی بات نہیں کہنا چاہتا۔ میری دعوت سب کے لئے عام ہے۔
ہم کائنات کے لوگوں کو کسی بڑے کی بڑائی کی طرف نہیں بلاتے‘ ہم کائنات کے باسیوں کو کسی عظیم کی عظمت نہیں منواتے۔ ہم کائنات کے لوگوں کو اگر بلاتے ہیں تو رب کبریا کی طرف بلاتے ہیں اگر جھکاتے ہیں‘ تو احکم الحاکمین کی بارگاہ میں جھکاتے ہیں‘ اگر پیار کی دعوت دیتے ہیں تو اکیلے محمد ﷺ کے پیار کی دعوت دیتے ہیں۔ ہماری دعوت کسی بستی کی دعوت نہیں‘ ہماری دعوت کسی گروہ کی دعوت نہیں‘ ہماری دعوت کسی بڑے کی دعوت نہیں۔ ہم نے اس کو بڑا مانا ہے کہ عرش والے نے جس کو کہا
وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ۔ (الانشراح:۴)
ہم نے تجھ کو بڑا بنایا ہے اور اس بڑے کے مقابلے میں کوئی ہو‘ ایرا ہو یا غیرا ہو‘ نتھو ہو یا خیرا ہو‘ اس کی بات کو ہم محمد ﷺ کی بات کے مقابلے میں ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اگر کسی کو اس سے اختلاف ہے تو ہوا کرے۔ ہمارے ساتھ دلیل کے ساتھ بات کرے‘ ہمارے ساتھ برہان کے ساتھ بات کرے۔
ہم یہ سمجھتے ہیں شریعت سرور کائنات پہ ختم ہو گئی ہے۔ جو یہ کہتا ہے کہ محمد کریمﷺ کے بعد کسی اور کی بات شریعت ہے وہ سرور کائنات کی ختم نبوت پہ ڈاکہ ڈالتا ہے۔ شریعت محمد رسول اللہ ﷺ پہ ختم ہوئی۔ اس لئے کہ احکم الحاکمین نے رحمتہ للعلمین کی زندگی میں کہا
لوگو! ایمان سے بتلائو جو پیالہ پانی سے بھرا ہوا ہو اور اس میں کچھ اور پانی بھی ڈالے جانے کی گنجائش ہو کبھی کوئی عقل مند یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ پیالہ مکمل بھرا ہوا ہے۔ مکمل بھرا ہوا پیالہ اس پیالے کو کہیں گے جس کے اندر پانی کا ایک قطرہ بھی نہ ڈالا جا سکے۔ اگر ایک قطرے کی بھی گنجائش باقی ہو تو پیالہ مکمل بھرا ہوا نہیں ہو گا۔اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا۔ (المائدہ:۴)
اے میرے نبیؐ! میں نے آج تم پہ اپنے دین کو مکمل کر دیا۔ شریعت مکمل ہو گئی اور مکمل اس پیالے کو کہتے ہیں جس کے اندر ایک قطرہ کے ڈالے جانے کی گنجائش باقی نہ ہو۔
ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم نے نہیں کہا‘ عرش والے نے کہا ہے
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا۔
میں نے آج دین مکمل کر دیا۔ جو یہ کہتا ہے کہ نبی کے زمانے کے بعد کی کہی ہوئی بات بھی دین ہے‘ اس نے محمد ﷺکے دین کو مکمل نہیں مانا ہے۔اور جائو ہم کو پھانسی پہ لٹکائو‘ ہمارے راستے روکو‘ ہم کو گالیاں دو‘ ہم کو برا بھلا کہو‘ ہمارے خلاف جھوٹے الزامات لگائو‘ جو جی چاہے کر لو۔ ہم امام کائنات کے سوا کسی کی بات کو دین ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ تمہارے یہ مولوی‘ یہ ملوانے‘ تمہارے یہ لیڈر‘ یہ سیانے‘ سارے ایک طرف‘ آمنہ کا لال ایک طرف۔ کعبے کے رب کی قسم ہے ساری کائنات کو چھوڑا جا سکتا ہے محمد کریم ﷺ کے دامن کو چھوڑا نہیں جا سکتا۔ جائو ہم سے زیادہ شریعت کا ماننے والا چشم فلک نے کبھی نہ دیکھا۔ شریعت کو ماننے والا وہ ہے جو شریعت میں کمی کرے‘ نہ شریعت میں زیادتی کرے۔ جو کمی کرے وہ بھی نہیں مانتا‘ جو زیادتی کرے اس نے بھی محمد ﷺ کو اپنا پیر و مرشد نہیں مانا۔
ہماری محبت؟
ہمارا پیار سن لو۔ ہماری محبت کیسی ہے ؟ ہمارا پیار کیسا ہے؟
آج بات ہو جائے۔ میں بات بتلا دینا چاہتا ہوں۔
ہماری محبت ہرجائی نہیں ہے‘ ہمارا پیار ہرجائی نہیں کہ یہاں بھی دل لگایا وہاں بھی دل لگایا۔ ہم نے تو مدینے والے کو دیکھا۔ اس کے بعد اب کسی کے دیکھنے کی حسرت ہی نہیں رہی۔
واحسن منک لم ترقط عینی
خلقت مبرء ا من کل عیب
و اجمل منک لم تلد النساء
کانک قد خلقت کما تشاء
اس لئے کہ اس کو دیکھنے کے بعد ہمیں کسی کے دیکھنے کی حسرت ہی نہیں رہی۔خلقت مبرء ا من کل عیب
و اجمل منک لم تلد النساء
کانک قد خلقت کما تشاء
سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ میرے اس دعا کے بعد
یا کوئی اس جیسا چہرے والا ہو تو دکھا دو‘ ماننے کے لئے تیار ہیں۔اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ میرے اس دعا کے بعد
تم کن کو منوائو گے؟
ہم نے مانا ہے تو مدینے والے کو‘
جی لگایا ہے تو مدینے والے سے‘
دل میں بسایا ہے تو مدینے والے کو۔ اس کو جس کے بارے میں حسان بن ثابت نے کہا تھا کہ
کوئی ایسا ہو تو دکھائو ؟واحسن منک لم تر قط عینیتجھ سے خوبصورت چہرہ کسی ماں نے جنا ہی نہیں اور تجھ سے حسین وجود کسی آنکھ نے دیکھا ہی نہیں۔ آقا تیرے حسن کی کیا تعریف کروں؟
واجمل منک لم تلد النساء
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پیدائش میں‘ روز ازل میں تو رب کی بارگاہ میں کھڑا ہو کے کہتا تھا کہ رب مجھ کو ایسا بناتا جا۔ تو کہتا چلا گیا رب بناتا چلا گیا۔
ہماری نگاہوں میں کوئی نہیں جچتا ۔ ہم نے مانا ہے تو اس کو‘ جانا ہے تو اس کو‘ دل میں بسایا ہے تو اس کو اور کسی کی سنت کو سینے سے لگایا ہے تو اس کی۔
تمہیں دیکھ کے مان لیں کہ تم نے بل پیش کیا؟
جائو شریعت اور چیز شریعت بل اور چیز۔
کوئی اہل حدیث اہل حدیث نہیں ہو سکتا جب تک کہ شریعت کو نہ مانے اور کوئی مسلمان اس وقت تک مسلمان نہیں کہلا سکتا جب تک محمد ﷺ کے بعد شریعت کو مکمل نہ مانے۔ جس بل کے اندر یہ کہا جائے کہ آج کی قومی اسمبلی کے ممبر جو فیصلہ کریں وہ بھی شریعت ہے۔ تم اس کو مان لو احسان الٰہی ظہیر اس کو ماننے کو تیار نہیں ہے۔ اور یہ قومی اسمبلی ؟ ساری کائنات کی اسمبلیاں اکٹھی ہو جائیں‘ محمد ﷺ کے رب کی قسم ہے ساری کائنات کے مسلمان اکٹھے ہو جائیں‘ سب کی بات مل کے بھی محمد ﷺ کے دین کا حصہ نہیں بن سکتی۔
تم کہتے ہو فقیہوں کی بات مان لو‘
ملائوں کی بات مان لو‘
قومی اسمبلی کے ممبروں کی بات مان لو۔
جائو ضیاء الحق کی مانتا ہوں نہ اس کے چمچوں کی مانتا ہوں۔ مجھ کو منوانا ہے تو رب کا قرآن لے کے آئو‘ محمد ﷺ کا فرمان لے کے آئو۔ مجھ کو منوانا ہے تو عرش والے کا قرآن لا‘ مدینے والے کا فرمان لا۔
اور ہم کو ڈراتے ہو ؟
جن کی ماؤں نے ان کو گڑھتی (گھٹی) دیتے ہوئے منت یہ مانی تھی اللہ تیرے نام پہ جنا‘ تیری راہ میں وقف ہے۔
ہم کو ڈراتے ہو جنہوں نے سبق ہی یہ پڑھا ہے
اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ (الانعام:۱۶۲)
غیر اللہ کے سامنے جھکنے والا سر نہیں ہے۔
جفا کی تیغ سے گردن وفا شعاروں کی
کٹی ہے برسر میداں مگر جھکی تو نہیں
اور اس کی زندہ مثال خدا کے فضل و کرم سے ہم ہیں‘ یہ ہمارے ساتھی ہیں اور ان شاء اللہ جب تک ہم زندہ ہیں محمد ﷺ کے دین کے اندر کوئی خلل اندازی نہیں کر سکتا۔ کوئی رخنہ اندازی نہیں کر سکتا‘ کوئی اضافہ نہیں کر سکتا‘ کوئی ترمیم نہیں کر سکتا۔کٹی ہے برسر میداں مگر جھکی تو نہیں
واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین
------------------------------------------------------------------------------
1- ان دنوں جماعت اسلامی کی جمعیت اہل حدیث سے چپقلش عروج پر تھی۔ جماعت اسلامی جنرل ضیاء الحق کے ایماء پر شریعت بل کی حمایت میں اپنی تمام تر توانیاں صرف کر رہی تھی۔ جب کہ علامہ شہیدؒ شریعت بل کے نمایاں ترین ناقدین میں سے تھے۔ آپ نے تحریر و تقریر کے ذریعے شریعت محاذ کے دلائل کا تارو پود بکھیر کے رکھ دیا۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں بڑے بڑے جلسہ ہائے عام میں آپ نے شریعت بل کی مخالفت کی اور ثابت کیا کہ شریعت محمدیﷺ اور شریعت بل دو علیحدہ چیزوں کا نام ہے۔ احباب جماعت اسلامی کا یہ عمومی رویہ ہوتا ہے کہ شریعت کی جو تعبیر مولنا مودودی یا دیگر اکابرِ جماعت کریں‘ وہی عین اسلام ہے باقی سب کفر۔ کسی بھی سیاسی یادینی تحریک کے لئے وہ قیادت کے امیدوار ہوتے ہیں۔ علامہ شہیدؒ کی شریعت بل کی مخالفت کی وجہ سے جماعت اسلامی کی قیادت کے لئے بڑی دشواریاں پیدا ہوئیں۔ جماعت اسلامی کی طرف سے مارشل لاء کی غیرمشروط حمایت کی وجہ سے رائے عامہ بھی ان کے خلاف تھی۔ جب کہ علامہ شہیدؒ مارشل لاء کے بھی سخت ترین ناقد تھے۔ اس لئے انہیں ’’حریت فکر کا مجاہد‘‘ سمجھا جاتا تھا۔ شریعت محاذ اور جماعت اسلامی نے خاصی کوشش کی کہ اہل حدیث علماء میں بھی شریعت بل کے حوالے سے اختلاف و انتشار پیدا کیا جائے۔ اس سلسلے میں انہیں جنرل ضیاء الحق کی حکومت کی مکمل سرپرستی بھی حاصل رہی۔ لیکن انہیں اس میں کوئی خاص کامیابی نہ مل سکی۔ ان مختلف عوامل کی وجہ سے جماعت اسلامی کی قیادت کا لہجہ علامہ شہیدؒ کے خلاف سخت سے سخت تر ہوتا چلا گیا۔ حتی کہ جماعت اسلامی کے موجودہ امیر قاضی حسین احمد (جو کہ ان دنوں جماعت کے سیکرٹری تھے) نے اخبارات میں یہ بیان جاری کیا کہ ہم مخالفین شریعت بل کے خون سے سڑکیں سرخ کر دیں گے۔ قدرتی بات ہے کہ جب مرکزی قیادت کے جذبات کا یہ عالم ہو گا تو مقامی جماعتوں کے جذبات کا کیا حال ہو گا۔ وہ بھی لامحالہ اپنی مرکزی قیادت کی طرح بے حال ہو جائیں گی۔ کچھ ایسی ہی صورت حال اس علاقے میں تھی۔ یہاں کی مقامی جماعت اسلامی اوراسلامی جمعیت کی طرف سے یہ اعلان تھا کہ اگر علامہ ظہیر نے اس جلسے میں شرکت کی تو ہم ان کو یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے۔ شہید اسلام اپنے چند مخلص خادموں (جن میں یہ گناہ گار بھی شامل تھا) کی معیت میں اس جلسے میں گئے۔ آپ کی یہ ذرہ نوازی تھی کہ آپ نے ہمیں بطور خاص فون کر کے بلایا تھا۔ میرے ساتھ میرے بھائی ابوبکر قدوسی اور میرے ماموں زاد بھائی رانا محمد جاوید رفیق بھی تھے۔ بحمداللہ آپ کے رعب اور دبدبے کے سامنے شریعت بل کے کسی حامی کو جرأت نہ ہوئی کہ وہ کوئی حرکت کر سکے۔
ماخوذ از خطباتِ احسان
مرتبہ عمر فارق قدوسی